محترم ماسٹر منیر احمد صاحب آف جھنگ صدر وفات پا گئے انا للہ وانا إلیہ راجعون
جھنگ صدر کی نابغہ روزگار اور منفرد شخصیت کے مالک، چالیس سال تک سرکاری سکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے، مخلص، باوفا اور دیرینہ خادم، سابق قائد ضلع اور ناظم مجلس انصاراللہ ضلع جھنگ اور واقف زندگی
محتر م ماسٹر منیر احمد صاحب آف جھنگ صدر وفات پا گئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
احباب جماعت کو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلا ع دی جاتی ہے کہ سلسلہ کے بہت مخلص اور دیرینہ خادم، منفرد شخصیت کے مالک، سابق ناظم اعلیٰ مجلس انصاراللہ ضلع جھنگ محترم ماسٹر منیر احمد صاحب آف جھنگ صدر مورخہ ۱۴ستمبر ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ بعمر ۸۰ سال طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
آپ کچھ عرصہ سے بیمار تھے اورطاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں داخل تھے۔ وفات سے پہلے بیہوشی میں تھے۔
آپ کی نماز جنازہ اسی دن بعد نماز عصر مسجد مبارک میں ادا کی گئی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل میں ہوئی۔ قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا کرائی گئی۔
آپ محترم میاں غلام محمد صاحب کے ہاں جھنگ صدر میں ۱۳مارچ ۱۹۴۴ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب نے ۱۹۲۸ء میں احمدیت قبول کی اور ۱۹۴۷ء میں آپ کے والد میاں غلام محمد صاحب حفاظت مرکز کے لیے قادیان گئے تھے، دو ماہ خدمت کی توفیق پائی، بعد ازاں قافلے کے ساتھ واپس آگئے۔ آپ کے والد صاحب تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔
محترم ماسٹر منیر صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایف اے۔ سی ٹی پاس کیا اور۱۹۶۵ء میں پرائمری ٹیچر بھرتی ہوگئے۔ آپ نے تدریس کے شعبہ میں چالیس سال کا عرصہ گزارا اور۲۰۰۴ء میں ریٹائرہوئے۔ اس لحاظ سے آپ کے ہزاروں شاگرد ضلع جھنگ اور پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی وقف کردی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا وقف قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ: جھنگ میں رہتے ہوئے خدمت دین کریں۔ اس غرض کے لیے ایک نئی موٹر سائیکل بھی ازراہ شفققت لے کر دی۔
آپ کو مختلف جماعتی خدمات کے علاوہ بطورقائدضلع مجلس خدام الاحمدیہ اور پھر ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۶ء تک ناظم مجلس انصاراللہ ضلع جھنگ خدمت ایک عرص تک بجا لانے کی توفیق ملتی رہی۔ جب چنیوٹ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو وہاں بھی جماعت اور مجلس انصاراللہ کے کام اورخدمات انجام دیتے رہے۔ جماعت کی طرف سے جو موٹر سائیکل ملا تھا اس پر مجالس کے بہت دورے کرتے رہے، گویا اس کے استعمال کا حق ادا کردیا۔
آپ بہت ملنسار اور بذلہ سنج شخصیت کے مالک تھے ہر چھوٹی بڑی محفل میں اپنے مخصوص انداز اور جٹکی پنجابی زبان میں جب لطیفے سناتے تو محفل لوٹ لیتے اور ماحول کشت زعفران بنا دیتے۔ اپنے اسی خدا داد فن کو استعمال کرتے ہوئے تبلیغ کا فر ض بھی خوب نبھاتے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے پروگرام رنگ ِ بہاراں میں بھی خوب لطائف سنائے اور ہر طرف پُر بہار ماحول بنا دیا۔
کیونکہ آپ ایک منفردشخصیت کے مالک تھے، اس لیے سادگی، بے ساختگی، بے تکلفی۔ بے نفسی اور اعتماد کا مرکب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا، وہ اپنے ہوں یا غیر ہر قسم کا کام کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جاتا تھا۔ آپ لوگوں کے کا م آنے میں کسی قسم کی عار بھی محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ آپ عین سعادت کا موجب خیال کرتے تھے۔
گھر میں مہمان نوازی سے لے کر سرکاری دفاتر اور جیل خانہ جات میں غیروں اور احباب جماعت کے مختلف نوعیت کے کام کروا دیتے تھے۔ آپ اس فن میں مہارت رکھتے تھے کہ مشکل اور پیچیدہ سے پیچیدہ کام بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنوں کے کام گھنٹوں اور گھنٹوں کے کام منٹوں میں نمٹا دیتے تھے۔ کیونکہ ایک لمبا عرصہ سے ربوہ شہر انتظامی لحاظ سے ضلع جھنگ میں شامل رہا اس لیے ربوہ کے شہریوں کے اکثر سرکاری اور انتظامی کام جھنگ میں ہی ہوا کرتے تھے اور وہ کشاں کشاں ماسٹر منیر صاحب کے پاس جایا کرتے اور بعض اوقات بظاہرناممکن اور مشکل کام ان کے ذریعے حل کروا کے خوشی خوشی ربوہ واپس جاتے۔
محتر م ماسٹر صاحب موصوف نے چالیس سال کا طویل عرصہ جھنگ کے مختلف سکولوں میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ آپ سے تعلیم کی روشنی حاصل کرنے والے شاگردوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ بعض ان میں سے اچھے سرکاری عہدوں پر بھی فائز تھے اسی لیے وہ ماسٹر صاحب کی عزت کرتے اور ان کی بات خندہ پیشانی سے سنتے اور ان کے کام آنا اپنے لیے باعث صد افتخار خیال کرتے۔ آپ کے ایسے افسروں سے صر ف تعلقات ہی اچھے نہ تھے بلکہ آپ کی سادہ، پُر وقار اور پُر اعتماد شخصیت کے سحر کی وجہ سے بڑے سے بڑا افسر کھڑا ہوکر ملتا اور منٹوں میں ان کے کام خوشی سے مکمل کردیتا۔ کسی بھی سرکاری دفتر یا جیل میں جانے کے لیے آپ نے کبھی بھی افسر سے رُک کر یا بیٹھ کر ان سے اجازت نہ لی تھی بلکہ چلتے چلتے سلام کرنے کے بعد اپنا مدعا بیان کرتے تو ان کے ساتھ دیگر افراد کا اند ر جانے کا اجازت نامہ ان کے ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا، اور مختلف کاموں کے علاوہ اسیران سے ملاقات اور ان کی ضروریات کی تکمیل آسان ہوجاتی۔ قیدیوں سے ملاقات کے دن عام لوگوں کو آہنی سلاخوں اور جالی کے پیچھے قیدی سے ملنے کی اجازت ہوتی تھی۔ لیکن ماسٹر منیر صاحب کی شخصیت کا ایسا رعب اور اثر تھاکہ افسران جیل الگ کمر ہ میں بٹھانے کا انتظام کراتے اور اسیران سے ملاقا ت کرتے۔ اسیران راہ مولیٰ کے جملہ مسائل اور تکالیف کو دُور کرنا اور ان کے کھانے کا بندوبست اور ضروریات کی جملہ اشیاء مہیا کرناآپ نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔
اس سلسلہ میں آپ کی نمایاں اور تاریخی خدمت اس وقت سامنے آئی جب حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) جب ناظر اعلیٰ تھےتو آپ کو ایک جھوٹے مقدمہ میں، تین دیگر احمدی احباب کے ساتھ مورخہ ۳۰۔ اپریل ۱۹۹۹ء کو چنیوٹ عدالت کے جج نے مقدمہ کی سماعت کے بعد مخالفین کے دباؤ کی وجہ سے ضمانت منسوخ کرکے گرفتار کرنے کا حکم دیا تو تقریباً دس دن حضور سمیت چار افرادکو جھنگ جیل میں اسیر رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس موقع پر ماسڑ منیر صاحب نے ڈی سی جھنگ، سپرنٹنڈنٹ جیل اور ان کی انتظامیہ کے ذریعہ جیل کی بیرکس کے اندر نا مساعد ماحول میں ان اسیران کے آرام کا خیال رکھا اور حضور انور اور دیگر افراد کی ایامِ اسیری میں باقاعدگی سے کھانا صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ جھنگ اور ماسٹر منیر صاحب کے گھر سے پک کر آتا تھا۔ کھاناپکانے کی سعادت ماسٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ کے حصہ میں آئی۔ اور یہی نہیں بلکہ احباب جماعت اور جماعتی دفاتر کی طرف سے آنے والی کھانے پینے کی دیگر اشیاء اور ضروریات زندگی کا سامان جیل کے اندر ان اسیران تک من و عن پہنچانے کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ بعض اشیا ء حضور انور کے ارشاد پر قیدیوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں۔ ماسٹر صاحب کے لیےسعادت کے وہ تاریخی دن گویا ایک روبوٹ کی طرح مصروف رہنے اور تیزی سے کام کرنے کے تھے جس کو آپ نے ایک سعادت سمجھ کر بے لوث اور بے ریا جذبے سے انجام دیا۔ یہ سچ ہے کہ اس طرح کی نابغہ روزگار شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔
آپ کی اہلیہ صاحبہ محترمہ نصرت جہاں صاحبہ بنت محترم محمد عبد اللہ مقرب بھی گورنمنٹ ٹیچر تھیں۔ان سے آپ کو بہت محبت اور لگاؤ تھا، انہوں نے بھی ماسٹر صاحب کے شانہ بشانہ خدمت دین اور خدمت خلق کے کام اور مہمان نوازی کے خوب کام کیے۔ آپ کا گھرواقع محلہ چنداں والا، مکان نمبر ۵۷۲۔ بھکر روڈ جھنگ صدر میں منی دارالضیافت کہلاتا تھا۔ امتحان دینے والے طلباء و طالبات اور دیگر مہمان آتے جاتے رہتے۔ ہمہ وقت کھانے کا انتظام اور مہمانوں کے لیے تیاری آپ کی اہلیہ صاحبہ کےروز مرہ کے کام ہی تھے۔ چند سال پہلے ان کی وفات کے بعد آپ اکیلے رہ گئے تھے لیکن جماعت کے کام اسی طرح جاری و ساری تھے۔ اپنی اہلیہ کی تدفین آپ نے ربوہ کی بجائے جھنگ کے احمدیہ قبرستان میں ہی کرائی۔ تاکہ محبت کا یہ تعلق بار بار قبر پر دعا کے ذریعے قائم رہے۔ آپ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔
اللہ تعالیٰ اس مخلص اور خادم سلسلہ کو جنت الفردو س میں اعلیٰ مقا م عطا فرمائے اور ان جیسے مخلصین جماعت کو عطا فرماتا چلا جائےآمین