یادِ رفتگاں

محتر م سکواڈرن لیڈر (ر) چودھری منیر احمد صاحب کو سپرد خاک کر دیا گیا

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

سابق وائس پرنسپل نصرت جہاں بوائز کالج، ممبر قضاء بورڈ، قاضی سلسلہ اور واقف زندگی مکرم و محتر م سکوارڈن لیڈر (ر) چودھری منیر احمد صاحب وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

احباب جماعت کو بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ سابق وائس پرنسپل نصرت جہاں بوائز کالج ربوہ، ممبر قضاء بورڈ، قاضی سلسلہ، واقف زندگی اور پاکستان ایئرفورس کے تربیت یافتہ ماہر تعلیم مکرم و محترم سکواڈرن لیڈر (ر)چودھری منیر احمد صاحب ۳۰؍ستمبر۲۰۲۴ء بروز سوموار ساڑھے نو بجے رات بعمر۹۴؍سال CMH راولپنڈی میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ ۲۰۲۰ء میں اپنی اقامت گاہ واقع دارالنصر غربی منعم ربوہ سے چھوٹی بیٹی کے پاس بحریہ ٹاؤن راولپنڈی شفٹ ہوگئے تھے۔ عمومی صحت ٹھیک تھی تاہم مورخہ ۲۲؍ستمبر کی شام کو برین ہیمرج کی وجہ سے ہسپتال داخل کرانا پڑا جہاں آٹھ دن زیرعلاج رہنے کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔

اگلے دن مورخہ یکم اکتوبر کو صبح ساڑھے سات بجے نماز جنازہ گھر پر ہی وہاں کے مقامی مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے، اس لیے اسی دن جنازہ ربوہ لایا گیا اور مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین عمل میں آئی جس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی۔

محترم چودھری منیر احمد صاحب ۴؍فروری۱۹۳۰ء کو ضلع گجرات کے خوبصور ت گاؤں ککرالی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مکرم چودھری غلام احمد صاحب تھا، جو اپنے علاقے میں بااثر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت چودھری محمد دین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ذریعہ آئی۔ حضرت محمد دینؓ ولد گوہر ککرالی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے سفر جہلم کے دوران بیعت کی توفیق پائی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اپنے ایک نشان کی صداقت میں آپؓ کی گواہی بھی درج فرمائی ہے۔ انہوں نے ۲؍جنوری ۱۹۲۷ءکو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔

چودھری منیر احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ لاہور سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے معاً بعد ابھی تعلیم الاسلام کالج لاہور میں ہی تھا کہ آپ نے اس عرصے میں انٹر پاس کرلیا۔ جب آپ ٹی آئی کالج میں داخلہ کے لیے آئے تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) اس وقت پرنسپل تھے۔ انہوں نے آپ سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ طلب فرمایاتو آپ نے جواب دیا کہ وہ تو نہیں ہے۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا تو اپنے والد صاحب سے لکھواکر لے آؤ۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی طالبعلم کے کیریکٹر کی تصدیق اس کے والد سے زیادہ اچھی کون کرسکتا ہے؟ آپ نے بی ایس سی اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کی اور ایئر فورس میں ٹریننگ کے لیے داخل ہوگئے۔ جہاں آپ نے بہت کامیابی کے ساتھ ہر مرحلہ کے کورسز پاس کیے اور کمیشن حاصل کیا۔ آپ کی ڈیوٹی ایئرفورس کی ایجوکیشن برانچ میں لگائی گئی۔ آپ نے پاکستان ایئر فورس کے تحت بطور استاد مختلف شہروں میں خدمات سرانجام دیں اور انتھک محنت اور لگن کے ساتھ تدریس کے فرائض ادا کیے۔ ان شہروں میں کوہاٹ، راولپنڈی، میانوالی، پشاور، کراچی اور لوئرٹوپہ مری وغیر ہ شامل ہیں۔ دوران سروس آپ نے ایم اے انگلش لٹریچر بھی پاس کرلیا۔

جب آپ ۱۹۸۷ء میں ایئرفورس سے ریٹائر ہوئے تو پی اے ایف سکول لوئرٹوپہ مری میں بطور پرنسپل خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ پاکستان کی جملہ پی اے ایف بیسز میں دیانتداری، محنت اور دلجمعی کے ساتھ خدمات ادا کرنے کے حوالے سے آپ کا نام بہت معروف تھا۔ ایک مخلص احمدی ہونے کے ناطے آپ نے پاکستان کے ادارے ایئرفورس میں ایسا شاندار کام کیا کہ نہ صرف احمدی ہونے کا حق ادا کردیا بلکہ جماعت احمدیہ کا نام بھی روشن کیا۔ آپ کا نام بھی جماعت احمدیہ کے ان نامور سپوتوں میں شامل ہے جنہوں نے رات دن کی انتھک محنت اور وطن کی محبت میں سرشار ہوکر اپنے پیارے وطن کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ آپ کےشعبہ پی اے ایف ایجوکیشن میں اعلیٰ خدمات کو سراہتے ہوئے ایئرفورس کی مرکزی لائبریری کے لیے خریداری کتب کے شعبہ کا آپ کو نگران بھی مقرر کیا گیا۔ لائبریری کے لیے ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر خریدی جانے والی تمام کتب کا انتخا ب آپ ہی کرتے تھے۔ آپ کی دیانتداری کی وجہ سے لائبریری کے علاوہ ایئرفورس ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے دیگر شعبہ جات کے لاکھوں کےبجٹ بھی آپ ڈیل کیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے فرض میں کبھی کوتاہی نہیں ہونے دی اور اپنے افسروں کے اعلیٰ معیار پر ہمیشہ پورا اترے۔

آپ کے ذاتی مشاغل میں سپورٹس سے بہت زیادہ دلچسپی شامل تھی۔ آپ ایک تیز رفتار ایتھلیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ باسکٹ بال، سکواش، ٹینس اور ہاکی کے ماہر کھلاڑی تھے۔ جب آپ کوہاٹ Base میں تھے تو آپ اپنی بیس کی باسکٹ بال ایئرفورس ٹیم کے کیپٹن تھے۔ آپ نے اپنی ٹیم کو بہت محنت سے تیاری کرائی اورکراچی میں ہونے والی باسکٹ بال انٹر چیمپئن شپ جیت کر آئے۔ واپسی پر کوہاٹ بیس میں آپ کا اور آپ کی ٹیم کا بھرپور اور شاندار استقبال کیا گیا۔ گیمز میں دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ آپ کو اپنی جسمانی صحت کا بہت خیال تھا، ایکسرسائز اور پیدل واک آپ نے آخری عمر تک جاری رکھی۔

آپ نے ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد یکم فروری ۱۹۸۸ء کو نصرت جہاں اکیڈمی بوائز سکول اردو میڈیم میں بطور انگلش ٹیچر خدمات کا آغاز کیا۔ جب نصر ت جہاں اکیڈمی بوائز سکول میں انگلش میڈیم کا اجرا ہوا تو انہیں بطور انچارج انگلش میڈیم ذمہ داری دی گئی۔ ۱۹۹۹ء میں آپ کو نصرت جہاں انٹر کالج ربوہ کا وائس پرنسپل بنایا گیا۔ اس سے قبل آپ نے اپنی زندگی وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ان کا وقف ۸؍ مارچ ۱۹۹۵ء کو منظور ہوگیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) اُس وقت ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ تھے۔ آپ نے چودھری منیر احمد صاحب کے نام چٹھی میں رقم فرمایا:

حضور ایدہ اللہ [حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ] نے آپ کا وقف منظور فرماتے ہوئے آپ کا تقرر نصرت جہاں اکیڈمی میں بطور ٹیچر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ اعزاز آپ کے ليے ہر لحاظ سے مبارک فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر آپ کو سکول اور جماعت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

۲۰۲۰ء میں ان کی عمر۹۰؍ سال تھی۔ بڑھتی ہوئی عمر اور کمزوریٔ صحت کے باعث ستمبر ۲۰۲۰ء میں آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ چونکہ اب ان کے لیے پڑھانا مشکل ہے، لہٰذا انہیں کوئی اور ذمہ داری دے دی جائے۔ اس پر آپ کو اکتوبر ۲۰۲۰ء میں تدریس کی جگہ نظارت تعلیم کی طرف سے Teacher‘s Advisory Board کے ممبر کی ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ نصرت جہاں اکیڈمی کو پروان چڑھانے میں آپ نے بہت کام کیا۔ مکرم خالد گورایہ صاحب پرنسپل اکیڈمی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نصرت جہاں اکیڈمی کو باعزت مقام دلوایا۔ کیونکہ آپ پاکستان ایئر فورس کے تربیت یافتہ ماہر تعلیم تھے اس لیے خوب محنت اورجانفشانی سے اپنے پی اے ایف ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے ادارہ کی ترقی کے لیے دن رات ایک کردیا۔ آپ تدریس کے شعبہ میں منجھے ہوئے انسان تھے۔ اکیڈمی کے ابتدائی مسائل کے حل کے لیے آپ کے مشورے اور عملی کاوشیں بھلا ئی نہیں جاسکتیں۔

آپ کو ۱۹۸۹ء میں قاضی سلسلہ کی ذمہ داری دی گئی یہ خدمت آپ نے ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۹ء تک ۳۰؍ سال خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کی۔ اسی طرح آپ کو ۱۹۹۶ء میں ممبر قضاء بورڈ بنایا گیا، اس عہدہ جلیلہ پر آپ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۹ءتک ( ۲۳؍ سال) احسن طریق پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ جیسا کہ آغاز میں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ۲۰۲۰ء میں اپنی بیٹی کے پاس راولپنڈی شفٹ ہوگئے تھے اور زندگی کا باقی عرصہ وہاں ہی گزارا۔

آپ بہت سی خوبیوں اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ آپ ایئرفورس کی ٹریننگ کی وجہ سے بااصول، Straightforward، وقت کے پابند، صاف گو، سخت محنتی اور غیر ضروری باتوں کو نا پسند کرتے تھے۔ دوستوں کے دوست، ہر دلعزیز، سچے، کھرے، ملنسار اورکالج کے مددگار کارکن، خاکروب اور چھوٹے سے چھوٹے طبقہ کے ساتھ بھی پیار و محبت کا سلوک کرنے والے تھے، ان کا حال پوچھتے اور اگر ضرورت ہوتی تو کچھ مدد بھی کردیتے۔ بہت نفیس، شفیق اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک ٹیچر تھے۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ تدریس کے حوالے سے مضبوط تعلق تھا، باتو ں باتوں میں کئی سبق پڑھا دیتے۔ اگر کوئی طالبعلم کلاس سے غیر حاضر ہوتا تو اس کو بڑے پیار سے کہتے کہ کل کلاس میں تو رونق ہی نہیں تھی آ پ نہیں آئے تو پڑھائی کا بالکل مزا نہیں آیا، یا پھرحکمت کے ساتھ اس طرح کہتے کہ آپ نہیں آئے تو مجھے بہت فکر تھی کہ آپ خیریت سے ہوں۔ غرض اپنے شاگردوں کے ساتھ دوستی کا منفرد انداز تھا جس میں کو ئی نہ کوئی سبق اور تربیت کی بات ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی کو اصول سے ہٹ کر یا غیر ضروری بات بھی کرنے نہ دیتے تھے۔ کالج کے طلبہ آپ کے گرویدہ تھے۔ دنیا بھر میں سینکڑوں ہزاروں آپ کے شاگرد پھیلے ہوئے ہیں جہاں آپ کو دیکھتے وہاں ہی کھڑے ہوکر ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ۲۰۱۷ء میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کو جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے بلایا تو جلسہ کے موقع پر آپ کے شاگرد آپ کے گرد جمع ہوتے۔ کسی جگہ آپ چہل قدمی کرتے نظر آتے تو وہ اپنی گاڑیاں روک کر ضرور ملتے۔ یہ آپ کی محبت اور محنت سے تعلیم دینے کا نتیجہ تھا۔ آپ نماز تہجد اور پنجوقتہ نمازوں کے پابند، خلافت کے مطیع اور فرمانبردار، وقف زندگی کا حق ادا کرنے والےتھے۔ اپنے محلہ کی مسجد منعم کے امام الصلوٰۃ بھی رہے۔ آپ کی تلاوت میں خوش الحانی، درد اور سوز تھا۔ سننے والا دلچسپی اور ذوق کے ساتھ آپ کی تلاوت سنتا۔ نماز کے بعد درس دینا اورمسجد میں موجود احباب کو حکمت کے ساتھ نصائح کرنا آپ کا معمول تھا۔ بعض اوقات آپ کو یہ احساس بہت ستاتا تھا کہ آپ نے آخری سالوں میں اپنی زندگی وقف کی ہے، اگر پہلے وقف کیا ہوتا تو خدمت دین کے مواقع زیادہ ملنے تھے۔

آپ کے لواحقین میں آپ کی اہلیہ محترمہ نجمہ منیر صاحبہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن کے نام یہ ہیں۔ مکرم طاہر منور احمد صاحب، پیس ولیج کینیڈا۔ مکرمہ ڈاکٹر آمنہ طارق صاحبہ اہلیہ مکرم مبشر طارق صاحب امریکہ۔ مکرم گروپ کیپٹن (ر) تنویر احمد صاحب راولپنڈی اور مکرمہ لبنیٰ وقاص صاحبہ اہلیہ مکرم عزیز الرحمٰن وقاص صاحب ایڈووکیٹ راولپنڈی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ نیز جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے، آمین۔

(ابو سدید)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button