دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو
قرآن شریف میں یہ آیت ہے قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ (النور : ۳۱) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم اور محل شہوت کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں اس قدر بند رکھیں کہ پوری صفائی سے چہرہ نظر نہ آسکے اور نہ چہرہ پرکشادہ اور بے روک نظر پڑسکے۔ اور اِس بات کے پابند رہیں کہ ہرگز آنکھ کو پورے طور پر کھول کر نہ دیکھیں نہ شہوت کی نظر سے اور نہ بغیر شہوت سے کیونکہ ایساکرنا آخر ٹھوکر کاباعث ہے یعنی بے قیدی کی نظر سے نہایت پاک حالت محفوظ نہیں رہ سکتی اور آخر ابتلا پیش آتا ہے اور دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو اور وہ مقام ازکیٰ جس پر طالب حق کے لئے قدم مارنا مناسب ہے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور اِس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کو محفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہوسکتی ہے۔ سوراخ کے لفظ میں جو آیت ممدوح میں مذکور ہے آلات شہوت اور کان اور ناک اور منہ سب داخل ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پایہ کی ہے جو کسی پہلو پر نامعقول طور پر افراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس آیت کا پڑھنے والا فی الفور معلوم کرلے گا کہ اِس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو یہ مطلب ہے کہ تا لوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اور دونوں طرف مرد اورعورت میں سے کوئی فریق ٹھوکر نہ کھاوے لیکن انجیل میں جو بے قیدی اور کھلی آزادی دی گئی اور صرف انسان کی مخفی نیت پر مدار رکھا گیا ہے اِس تعلیم کا نقص اور خامی ایسا امر نہیں ہے کہ اس کی تصریح کی کچھ ضرورت ہو۔
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۶۵،۱۶۴)
قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ نہ تو شہوت سے اور نہ بغیر شہوت کے بیگانہ عورت کے منہ پر ہرگز نظر نہ ڈال اور ان کی باتیں مت سُن اور ان کی آواز مت سُن اور ان کے حسن کے قصے مت سُن کہ ان اُمور سے پرہیز کرنا تجھے ٹھوکر کھانے سے بچائے گا جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ (النور : ۳۱) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم کو دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں اور اپنے کانوں اور ستر گاہوں کی حفاظت کریں یعنی کان کو بھی ان کی نرم باتوں اور ان کی خوبصورتی کے قصوں سے بچاویں کہ یہ سب طریق ٹھوکر کھانے کے ہیں۔
(نور القرآن نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۱۶)