متفرق مضامین

ہر آفت سے نجات دینے والی مسیح موعودؑ کی الہامی دعا

(عبدالسمیع خان)

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ (یعنی اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے۔ اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔)اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہوگی(حضرت مسیح موعود ؑ)

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۲۳؍اگست ۲۰۲۴ء میں مندرجہ بالا الہامی دعا روزانہ ۱۰۰ دفعہ پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے اس دعا کے حوالے سے چند اہم معلومات پیش خدمت ہیں۔

الہامی دعا

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو نماز ظہر کے لیے مسجد میں تشریف لائے توفرمایا:’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آتے ہیں۔ ایک ان میں سے میری طرف آیا۔ تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔ پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا۔ پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے۔ خداتعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ میں نے اس وقت غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا۔ اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی۔

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ (یعنی اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے۔ اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔)اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہوگی۔

ایک آریہ میرے پاس دوا لینے آیا کرتا ہے۔ میں نے اسے یہ خواب سنائی تو اس نے کہا کہ مجھے بھی لکھ دو اور اس نے یاد کرلیا۔…

نمازمغرب کے بعد حضور ؑنے پھر اسی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:آج جو خواب میں الہام سے کلمات بتلائے گئے ہیں۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ان کو نماز میں دعا کے طور پر پڑھا جائے اور میں نے خود تو پڑھنے شروع کر دیئے ہیں۔(ملفوظات جلد۲صفحہ۵۶۷۔۵۶۸۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)

نسیان اور طاعون کا علاج

حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھا کرو۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا۔(سیرة المہدی حصہ سوم صفحہ۱۹ روایت نمبر ۴۹۰)

حضرت چراغ دین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ طاعون پڑی تو مجھے اور میری والدہ کو حضورؑ نے یہی دعا سکھائی اور فرمایا اپنے گاؤں والوں کو بھی سکھادو۔ (رجسٹر روایات جلد۶ صفحہ۳۵)

صیغہ جمع میں دعا

۱۰؍دسمبر۱۹۰۲ء کو مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں بیٹھے ہوئے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے حضورؑ سے دریافت کیا کہ یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ والی جو الہام ہوئی ہے اگر اس میں بجائے واحد متکلم کے جمع متکلم کا صیغہ پڑھ کر دوسروں کو بھی ساتھ ملالیا جائے تو حرج تو نہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے۔ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۷۲ )

۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو حضرت مسیح موعودؑ مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے تو حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے ایک شخص کا خط پیش کیا جس میں سوال تھا کہ اس دعا کو صیغہ جمع میں پڑھ لیا جائے یا نہیں حضورؑ نے فرمایا:اصل میں الفاظ تو الہام کے یہی ہیں (یعنی واحد متکلم) اب خواہ کوئی کسی طرح پڑھ لے قرآن مجید میں دونوں طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ (نوح: ۲۹ )اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ: ۲۰۲ ) اور اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے جیسے اس ہماری الہامی دعا میں فَاحْفَظْنِی سے یہی مراد نہیں ہے کہ میرے نفس کی حفاظت کر بلکہ نفس کے متعلقات اور جو کچھ لوازمات ہیں سب ہی آجاتے ہیں۔ جیسے گھر بار، خویش و اقارب اعضاء و قویٰ وغیرہ۔ (ڈائری حضرت مسیح موعودؑ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء )

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی تحریک اور دعا کے مطالب

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ۱۵؍مارچ ۱۹۶۸ء کو درود شریف اور تسبیح و تحمید یعنی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ۲۰۰ بار روزانہ پڑھنے کی تاکید کی (الفضل ۲۳؍مارچ ۱۹۶۸ء)اور پھر ۴؍اکتوبر ۱۹۶۸ء کے خطبہ جمعہ میں اس دعا رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کے پڑھنے کی تحریک فرمائی اور اس کے مطالب اور مفاہیم پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔ فرمایا:اس دعا میں اللہ تعالیٰ نے سچی توحید اور ربوبیت تامہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ دعا کیا کرو کہ اے وہ کہ جو ربوبیت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کے سامان بھی پیدا کرتا ہے اور وہی ہے کہ اس کے ارادوں میں کوئی غیر روک نہیں بن سکتا اور ہر چیز کو اس نے مسخر کیا ہوا ہے وہ اس کام پر لگی ہوئی ہے جس کام پر اللہ رب کریم نے اسے لگایا ہے۔ دنیا میں جس چیز پر چاہو نگاہ ڈالو۔ سورج، چاند اور آسمان کے ستارے۔ درخت جھاڑیاں اور پھولوں کے پودے۔ لعل و جواہر، زمرد۔ یاقوت۔ کوئلے کا پتھر یا چونے کا پتھر یا زمین کے سارے ذرے اور ان ذروں میں چھپی ہوئی ایٹمی توانائی۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ نے مسخر کی ہوئی ہے۔

اور وہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کے نتیجہ میں وہی کام کرتی ہے جس کا اس کا پیدا کرنے والا رب ارادہ کرے اور جس کا وہ فیصلہ کرے اور یہ خادم رب یہ کسی انسان کو کوئی مضرت اور کوئی دکھ اور کوئی ایذا نہیں پہنچا سکتے۔ جب تک کہ اس کا ارادہ دکھ پہنچانے یا ایذاء دینے یا مشقتوں میں ڈالنے کا نہ ہو…

غرض اس دعا میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا سبق ہمیں دیا اور ربوبیت تامہ کی طرف ہمیں متوجہ کیا اور ہمیں بتایا کہ تمام اشیاء (مخلوقہ) مضرت اسی وقت پہنچاتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا اذن مضرت پہنچانے کا ہو اور تمام نفع مند چیزوں سے انسان صرف اس وقت نفع حاصل کرسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا بھی منشاء ہو کہ وہ ان سے نفع حاصل کرے۔ اس لیے خدا سے یہ دعا کرو کہ اے ہمارے رب مضرتوں سے ہماری حفاظت کر نفع ہمیں پہنچا ہماری نصرت اور مدد کو آ اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نواز۔ یہ دعا حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً سکھائی گئی ہے اور آپؑ نے فرمایا ہے کہ یہ اسمِ  اعظم ہے کیونکہ اس میں ربوبیت تامہ اور سچی توحید کو بیان کرنے اور اس کا اقرار کرنے کے بعد انسان دعا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور تین بنیادی چیزیں اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے۔

۱۔ایک اس کی حفاظت ،۲۔ایک اس کی نصرت،۳۔اور ایک اس کی رحمت۔

اور جو شخص اپنے رب کی ربوبیت کا عرفان رکھتا ہو اور اپنے خادم اور عاشق ہونے کا احساس رکھتا ہو اس کے دل میں ایک تڑپ اور ایک آگ ہو جو ایک عاشق صادق کے دل میں ہوتی ہے اور وہ یہ جانتا ہو کہ اپنے رب سے تعلق قائم کئے بغیر میری زندگی بے معنی اور لایعنی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ میری زندگی کا مقصد صرف اس وقت حاصل ہوسکتاہے کہ جب اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تین حسن سلوک کرے مجھ پر تین احسان کرے ایک تو وہ میری حفاظت کی ذمہ داری لے لے دوسرے وہ ہر وقت میری نصرت اور مدد کے لیے تیار رہے نیز (۳) ہر وقت اپنی رحمتوں سے مجھے نوازتا رہے۔

پس یہ ایک بڑی کامل دعا ہے۔یہ ہمیں سچی توحید سکھاتی ہے۔ … اور آپؑ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس دعا کو پڑھتا رہے گا وہ ہر ایک آفت سے محفوظ رہے گا۔ اس لیے میں آج اس دعا کا مختصر مفہوم بیان کرنے کے بعد اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کثرت کے ساتھ اس دعا کو پڑھیں تا وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آجائیں تاخدا ہر وقت ان کے ساتھ ان کی مدد اور نصرت کے لیے کھڑا رہے اور اس کی رحمت ان کو اس طرح گھیر لے جس طرح نور اس چیز کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔ (الفضل۱۳؍مارچ۱۹۷۱ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی الہامی تحریک

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ ۳۰؍مئی ۱۹۸۶ء میں فرمایا:رمضان کے شروع ہونے سے ایک دو روز پہلے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک رات مجھے بار بار مسلسل اس دعا کی طرف متوجہ فرمایا :رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا اور یہ نظارہ بار بار میں دیکھتا رہا کہ ابھی کچھ آفات جماعت کے سامنے باقی ہیں ان آفات کو ٹالنے کے لیے میں مختلف دعائیں کرتا ہوں اور کچھ اثر پڑتا ہے اور پھر بھی وہ باقی رہتی ہیں۔ پھر میری توجہ اس طرف مبذول ہوتی ہے کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ کی دعا کرنی چاہئے اور جب میں یہ دعا کرتا ہوں تو جس طرح تیزاب سے زنگ گھل جاتا ہے یا صبح صادق سے اندھیرے دُھل جاتے ہیں اسی طرح وہ آفات بالکل زائل ہو جاتی ہیں ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بات صرف اپنے تک محدود رکھنے کے لیے نہیں بلکہ ساری جماعت کو بتانے کی خاطر مجھ پر ظاہر فرمائی ہے۔ اس لیے رمضان کے آخری عشرہ میں خصوصیت کے ساتھ اس دعا کا بھی ورد کریں۔( خطبات طاہر جلد ۵صفحہ ۳۹۸)

دعا کی تاثیرات۔ چند واقعات

۱۔ ۔مکرم خوا جہ گل محمد صاحب لکھتے ہیں:میرے سمدھی میاں عبدالقیوم صاحب ایم اے ۱۷؍جنوری ۱۹۷۸ء کو لاہور سے ہوائی جہازکے ذریعہ کوئٹہ کے لئے روانہ ہوئے۔ اس ہوائی سفر کی روداد اہلیہ میاں عبدالقیوم صاحب نے بیان کی ہے وہ کہتی ہیں ہوائی جہاز نے ٹھیک وقت پر پرواز کی۔ جب۴۵  ،۴۰ میل لاہور سے دور پہنچا تو جہازتھرانے لگا اور سخت جھٹکے دینے لگا۔ اوپر شیلف (Shelf) میں رکھا ہوا سامان نیچے گرپڑا اور ٹرالیوں پر رکھی ہوئی چائے دانیاں اور کھانے کی اشیاء بھی فرش پر مع ٹرالیوں کے لڑھک گئیں۔ سب مسافروں نے بیلٹ باندھ لیں۔ مگر جہاز نے زور دار جھٹکے دینا شروع کردیئے۔ ایئر ہوسٹس اور دیگر عملہ بھی غائب ہو گیا۔ جہاز کی دم اوپر اٹھ گئی اور ناک کے بل زمین کی طرف گرنا شروع کر دیا۔ تمام مسافروں نے بدحواس ہوکر چیخنا چلانا شروع کردیا۔ بعض کی حالت تو نیم پاگلوں جیسی ہوگئی چھوٹی بچی بے ہوش ہو گئی اور میرا اپنا گلہ بھی چیختے چیختے بیٹھ گیا۔ اگر کوئی شخص اپنے ہوش و حواس میں تھا تو وہ میاں عبدالقیوم تھے۔ انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر آنکھوں پر رکھے ہی تھے کہ جہاز سیدھا ہوگیا اورآسمان کی طرف پرواز کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد پائلٹ نےلاؤڈ سپیکر پر اعلان کیاکہ جہاز ایئرپاکٹ میں پھنس گیا تھا۔ اب ایئرپاکٹ سے باہر نکل آیا ہے۔ جہاز میں کوئی خرابی نہیں۔ آپ لوگ مطمئن رہیں۔ اس کے بعد ہوسٹسز اور دیگر عملہ بھی ڈیوٹی پر آگیا اور کھانےپینے کی چیزیں مسافروں کے سامنے رکھ دیں۔ مگر کسی نے کچھ نہیں کھایا۔خواجہ گل محمد کہتے ہیں کہ میں نے اس خاص دعا کے متعلق میاں عبد القیوم صاحب سےپوچھا تو انہوں نے لکھا کہ میں رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا پڑھ رہا تھا۔(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۵ء)

۲۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے حلیف جاپان نے برما کے دارالخلافہ شہر رنگون پر مورخہ ۲۳؍دسمبر ۱۹۴۲ء کو پہلا ہوائی حملہ کیا۔ راقم الحروف اس زمانہ میں مع فیملی رنگون میں کاروباری سلسلہ میں مقیم تھا۔ ہوائی حملہ میں جاپانی طیاروں نے نیچی پرواز میں شہر کے مختلف حصوں پر نہتی مخلوق خدا پر مشین گننگ کی اور تباہی خیز بمباری بھی کی۔ اس حملہ کے نتیجہ میں قریباً سات ہزار افراد لقمہ اجل بنے سب سے زیادہ تباہی ایک پارک میں ہزارہا کی تعداد میں جمع افراد پر آئی۔ اس پارک کا نام بوٹاٹانگ پارک ہے۔جب ہوائی حملہ ختم ہوا اور آل کلیئر کا سائرن بجا تو میں اپنے احمدی احباب کی خیریت معلوم کرنے باہر نکلا۔ اسی دوران ایک احمدی بھائی مسمی دین محمد یا محمد دین متوطن ہوشیارپور سے ملاقات ہوئی۔ وہ بوٹاٹانگ پارک میں حملہ کے دوران موجود تھے اور وہاں سے ہی آرہے تھے۔ وہ کچھ ہراساں اور کچھ مسرور نظر آرہے تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ ایک بم ان کے بہت قریب آکر گرا اور جب اس کے پھٹنے کا دھماکہ ہوا تو اندھیرا چھا گیا۔ فضا میں مٹی اور گرد نے اندھیرا کر دیا۔ جب مٹی اور گرد بیٹھ گئی تو اپنے اردگرد دیکھا کہ چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی ہیں اور خون ہی خون ہے۔ میرے کپڑوں پر بھی خون کے دھبے ہیں۔ میں سمجھا کہ میں بھی زخمی ہوگیا ہوں۔ میں نے اپنے بدن کا جائزہ لیا میں ٹھیک ٹھاک تھا۔بھائی صاحب میں رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھتا رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے اپنی حفاظت میں رکھا۔(روزنامہ الفضل ۹؍ اپریل ۱۹۷۸ء)

۳۔مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ لکھتے ہیں:مورخہ۳؍مارچ ۲۰۱۵ء کو ہماری لاہور سے نیویارک کی فلائٹ بذریعہ PIA تھی۔ جہاز پہلے مانچسٹر (UK) گیا۔ وہاں پرسب مسافروں کونیچے اتار کر سیکیورٹی چیک ہوا اور ہم لوگ دوبارہ جہاز میں جا بیٹھے۔ اس کارروائی پر دو گھنٹے لگے۔ مانچسٹرسے جہاز اڑا اور تھوڑی دیر بعد سمندر کے اوپر پرواز کرنے لگا۔ سفرکازیادہ ترحصہ بحراوقیانوس کے اوپر سے گزرناتھا۔ابھی پرواز کوکچھ وقت ہی گزراتھاکہ پرواز ناہموار ہو گئی اور جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ باہر ۲۲۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چل رہی ہے۔ اس لیے پرواز ناہموار ہے اور ہمارے پاس اس مشکل کا کوئی حل نہیں۔ انگریزی میں اس نے کہا

"We have no solution to this problem”

لوگ سہم گئے۔ خاموشی چھا گئی۔ مجھے کپتان کے اس اعلان پر افسوس ہوا کہ بیچارے کو پتہ ہی نہیں کہ ہر مسئلے کا حل دعا ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے ہم ہر مشکل سے بچ سکتے ہیں۔ میں نے ساتھ بیٹھی اپنی اہلیہ سے کہاکہ ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ہمارا ایک قادر اور توانا خدا ہے جو خوف کو امن میں بدل دیتاہے اور ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔اہلیہ سے میں نے کہا آپ ربِّ کُلُّ شَیْئٍ والی دعا پڑھیں، میں درود شریف پڑھتا ہوں۔ مشکل دُور ہو جائے گی۔

حضور نے فرمایا ہے: یہ دعا ایک حرز اور تعویذ ہے۔ … میں اس دعا کو اب التزاماً ہر نماز میں پڑھا کروں گا۔ آپ بھی پڑھاکریں۔ اس میں بڑی بات جو سچی توحید سکھاتی ہے یعنی اللہ جلشانہ کو ہی ضار اور نافع یقین دلاتی ہے۔ یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے یعنی کوئی موذی اور مضر شے تیرے ارادے اور اذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتی۔

چنانچہ ہم دونوں میاں بیوی نے اس دعا اور درود شریف کامسلسل ورد کیا۔ اللہ نے فضل فرمایا، ہماری التجا اور دعا سن لی اور تھوڑی دیر بعد پرواز نارمل ہوگئی۔ مسافروں نے سکھ کاسانس لیا اورزندگی کا شور بحال ہوا۔ ورنہ اتناعرصہ توسب ڈراور خوف کے مارے سہم کربیٹھے تھے اورانجانے خوف میں مبتلاتھے۔

اللہ کاشکرہے کہ خیریت سے نیویارک کےJKFہوائی اڈاپرجہازاترا،جہاں ہماری بیٹی اوردامادہمیں اپنے شہر GLENMONT سے لینے آئے تھے۔

۴۔مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ رفیع احمد صاحب آف پشاور نے جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۰۳ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ کا خطاب سن کر مجلس نصرت جہاں کے تحت اپنی خدمات وقف کیں۔ حضور نے ان کا تقرر احمدیہ کلینک تنزانیہ کے لیے منظور فرمایا اور مکرم ڈاکٹر صاحب ۶؍مئی ۲۰۰۵ء کو کراچی سے دارالسلام کے لیے روانہ ہوئے۔دوران سفر انہیں جو واقعہ پیش آیا اور نصرت الٰہی کا جو ایمان افروز نظارہ انہوں نے قبولیت دعا کے نتیجہ میں دیکھا وہ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔

میرا سفر پاکستان سے ۶؍مئی۲۰۰۵ء کو بذریعہ جہاز پہلے دبئی، نیروبی اور پھر تنزانیہ تک تھا۔ نیروبی تک خداتعالیٰ کے فضل سے بخیروعافیت پہنچ گیا تھا۔ لیکن تنزانیہ دارالسلام کے لیے Kenyan Airways پر چڑھنے لگے تو پہلے تو سامان گم ہوگیا تھا جوکہ ڈھونڈنے کے بعد بھی نہیں ملا تو مجھے کہا گیا کہ آپ اس جہاز پر جائیں سامان اگلے جہاز سے بھجوادیں گے۔ خیر خداتعالیٰ کا نام لے کر جہاز پر سوار ہوگیا۔ حسب عادت سفر شروع کرنے سے پہلے دعا پڑھ لی تھی۔ دارالسلام تک سفر بہت آرام سے گزرا اور پائلٹ نے کہا کہ ہم کچھ ہی دیر میں دارالسلام کے ہوائی اڈہ پر اتریں گے اور آپ اپنے اپنے حفاظتی بیلٹ باندھ لیں لیکن جہاز نیچے جانے کی بجائے اور اوپر چلا گیا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔ تھوڑی دیر بعد جب جہاز نے ایئرپورٹ کے اردگرد تین چار چکر لگائے اور Flight Crew کبھی جہاز میں ایک طرف بھاگ رہے ہیں اور کبھی دوسری طرف تو لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور پوچھنا شروع کردیا۔ اتنی دیر میں پائلٹ نے کہا کہ جہاز کے پہیے نہیں کھل رہے ہیں اور ہم اور انجینئرز کوشش کررہے ہیں کہ کھل جائیں۔ تھوڑی سی گھبراہٹ ہوئی لیکن دل میں آیا کہ میں تو حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان ہوں۔ مجھے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ دل کو تسلی تھی لیکن جب جہاز کو فضا میں ایک گھنٹہ اور ۲۰ منٹ ہوگئے تو پھر گھبراہٹ زیادہ ہوگئی وہ بھی اس وجہ سے کہ جہاز میں سب نے رونا شروع کردیا۔ ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے۔ مائیں اپنے بچوں کو گلے لگا کر پیار کررہی تھیں کہ شاید یہ ہمارا آخری سفر ہو۔ مجھے گھبراہٹ ہوئی کیونکہ میرے پاس تو کوئی تھا بھی نہیں جس کے ساتھ اپنی پریشانی Share کرسکوں۔ ایسی حالت میں سورة فاتحہ، آیة الکرسی، درود شریف، حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیں، رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْدًا پڑھنے کے بعد دعا کی کہ اے میرے پیارے خدا میں تو تیرے مسیح کے راستے میں وقف کرکے نکلا ہوں اور خلیفہ وقت کی تحریک پر لبیک کہہ کر جارہاہوں اگر تیری یہی مرضی ہے کہ جماعت احمدیہ کا لاکھوں کا سامان جو میں نے ہسپتال کے لیے لیا تھا اس طرح ضائع جائے تو میں تیار ہوں اور ساتھ میں نے دعا کی کہ خداتعالیٰ کل میرے خلیفہ وقت بھی تنزانیہ تشریف لارہے ہیں اگر آتے ساتھ ہی ان کو پتہ چلا کہ ہمارا احمدی ڈاکٹر اور لوگوں کے ساتھPlane Crash میں ہلاک ہو گیا ہے تو ان کو بہت تکلیف ہوگی۔ میرے خدا احمدیت کی خدمت کی خاطر اور خلیفہ وقت کی خاطر مجھے اور مسافروں سمیت بخیریت Land کرادے۔ جیسے ہی میری دعا ختم ہوئی۔ پائلٹ نے کہا کہ پہیے کھل گئے ہیں اور اب ہم Landing کے لیے تیار ہیں۔ خیر جہاز ہمارا بخیریت Land کرگیا اور Land کرتے ہی جہاز کے اندر سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔

جب ہم جہاز سے باہر نکلے تو کیا دیکھا کہ کئی Fire Fighter ٹرک کھڑے تھے۔ پولیس کی بھی کافی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تھیں۔ اور ایئرپورٹ کا جتنا بھی عملہ تھا وہ تمام کا تمام مبارک باد دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ نئی زندگی مبارک ہو جبکہ ہم تو جہاز کے Belly Land کے منتظر تھے۔(روزنامہ الفضل ربوہ۔ ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء )

پس درود شریف اور استغفا ر کے ساتھ یہ الہامی دعا بھی بہت با برکت ہے اور ہماری کمزوریوں اور کو تاہیوں پر پردہ ڈال کر خدا کی نصرت جذب کرنے کی قابلیت رکھتی ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button