خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍نومبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: نومبر کے پہلے خطبہ میں جیسا کہ احباب جانتے ہیں تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے تو تحریکِ جدید کے حوالے سے ہی میں بعض واقعات پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کےضمن میں کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’مال کے ساتھ محبت نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو‘‘ فرمایا ’’بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نیکی کے دروازے میں ’’کیونکہ نصِّ صریح ہےلَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران:۹۳) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہوسکتے ہو‘‘ فرمایا ’’کیا صحابہ کرامؓ مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوسکتی ملتا ہے‘‘ خطاب ایسا ملتا ہے کہ ضروری نہیں اس سے دلی سکینت بھی حاصل ہو لیکن اس کے لیے انسان محنت کرتا ہے ’’پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضامندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟‘‘ صحابہؓ کو ’’بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جا سکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔‘‘
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں اورکم وسعت والےافرادکی قربانیوں کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: صدر لجنہ ضلع لاہور نے مجھے لکھا کہ ایک مجلس میں مجھے تحریکِ جدید کے چندے کی طرف توجہ دلانے کے لیے کہا گیا۔ ایک درمیانی کمائی کرنے والے اوسط درجہ کے لوگوں کی یہ مجلس ہے۔ کہتی ہیں کہ مجھے شرم بھی تھی اور ہچکچاہٹ بھی تھی کہ میں کیا ان کو تحریک کروں کیونکہ یہ پہلے ہی بہت زیادہ قربانیاں کر رہے ہیں لیکن بہرحال مجھے کہا گیا تھا اس لیے توجہ دلانی پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ کس طرح بڑھ بڑھ کر عورتوں نے اپنی قربانیاں پیش کی ہیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے شرم اَب اس بات پر آئی کہ کم آمدنی والے لوگ اس طرح قربانی کر رہے ہیں جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور بہت سارے امیر بھی سوچ نہیں سکتے۔ نقد اور زیور کی صورت میں کئی لاکھ روپے دے دیے۔ اسی طرح وکیل المال اوّل کی رپورٹ میں ان خواتین کی کئی صفحوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اپنے زیور پیش کیے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے جب تحریکِ جدید کا اعلان فرمایا تھا اور اس وقت جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک عورتوں کی قربانی کے تعلق میں یہ بھی تھا کہ زیور نہ بنائیں یا کم بنائیں اور قربانی کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ زیور کی قربانی دینا جو بنا بنایا زیور ہے اس سے بڑی قربانی ہے کہ زیور نہ بنایا جائے۔ جو سامنے چیز ہے اس کو دینا بہت مشکل کام ہے۔پس احمدی عورتوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر اس وقت بھی یہ قربانی دی اور آج بھی دے رہی ہیں۔ صرف ایک ملک میں نہیں بلکہ ان مغربی ممالک میں بھی ایسی عورتیں ہیں جو اپنے زیور دیتی ہیں بلکہ تمام زیور چندے میں دے دیتی ہیں۔ پھر نیا بناتی ہیں تو پھر چین نہیں آتا پھر وہ زیور چندے میں دے دیتی ہیں کیونکہ جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ابدی اور دائمی خوشی حاصل کرنا چاہتی ہیں جو قربانی کے بغیر نہیں ملتی۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گنی بساؤکےمحمودصاحب کی مالی قربانی کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: گنی بساؤ افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے محمود صاحب ہیں جو موٹر سائیکل مکینک ہیں۔ ان کو مشنری صاحب نے چندہ تحریکِ جدید کی تحریک کی تو انہوں نے اپنی جیب میں جتنی بھی رقم تھی سب نکالی جو کہ دس ہزار فرانک سیفا تھی۔ گھر میں بیٹھے تھے کہ اسی وقت ان کی بہو بھی آئی۔ انہوں نے گھر میں کھانا پکانے کے لیے پیسے مانگے۔ محمود صاحب وہ ساری رقم تحریکِ جدید چندہ میں ادا کرنے کی نیت کر چکے تھے اور ساری رقم چندے میں ادا کر دی اور بہو کو کہا کہ آپ صبر کریں۔ اس وقت بہو واپس چلی گئی۔ محمود جرگہ صاحب کہتے ہیں کہ ابھی وہ اس پریشانی میں تھے کہ بہو کو کس طرح خرچ دیں کہ گورنمنٹ کے ایک دفتر سے فون آیا کہ آپ دفتر آ جائیں۔ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے گذشتہ سال ہماری موٹر سائیکلوں کی مرمت کی تھی جس کی رقم ہم نے آپ کو ادا نہیں کی تھی اور ایک لاکھ نوے ہزار فرانک سیفا کا چیک ان کو دیا۔چیک وصول کرنے کے بعد محمود صاحب فوراً اپنے گھر آئے۔ اپنی بہو اور باقی گھر والوں کو بلا کر کہا کہ دیکھو! اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی برکتیں۔ جس رقم کی مجھے امید بھی نہیں تھی وہ میرے ربّ نے مجھے دلوا دی۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ملاوی سےتعلق رکھنے والی ایک بزرگ خاتون کی مالی قربانی کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ملاوی ایک ملک ہے وہاں کی ماگوچی (Mangochi) ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والی ایک بزرگ خاتون ہیں۔ کھیتی باڑی کرتی ہیں۔ اسی پہ ان کا گزارہ ہے۔ انہوں نے تحریکِ جدید کا وعدہ لکھوایا لیکن ادا نہیں کر سکیں۔ سال کے اختتام پر جب یاددہانی کروائی گئی کہ اگر کسی کا وعدہ نامکمل ہے تو ادائیگی کر دیں تو کہتی ہیں انہوں نے کام کی بہت کوشش کی اور دعا بھی کی کہ کام مل جائے تاکہ وہ اپنی آمد سے وعدہ مکمل کر سکیں۔ کوشش کے باوجود انہیں کام نہیں مل سکا۔ ایک دن وہ مسجد میں نماز عصر ادا کر کے واپس گھر پہنچیں تو انہیں خبر ملی کہ ان کے پوتے نے انہیں پینتالیس ہزار کواچے جو وہاں کی کرنسی ہے تحفةً بھجوائی ہے۔ چنانچہ ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فوراً معلم کے پاس جا کے اپنے وعدہ کی ادائیگی کی اور بار بار وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں کہ انہیں اپنا وعدہ مکمل کرنے کی توفیق ملی۔ اب غریب لوگ بھی ایک فکر کے ساتھ چندے کی ادائیگی کرتے ہیں۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آسٹریلیاکےایک خادم کی مالی قربانی کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آسٹریلیا سے مربی کامران صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ایک خادم نے قریباً دس سال سے چندہ نہیں دیا تھا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا اور اس کو مالی قربانی کی برکات کے متعلق بتایا۔ اس کے بعد اس نے اپنا چندہ دینا شروع کردیا اور ساتھ ہی تحریکِ جدید اور وقف جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کچھ دن گزرے تھے کہ اس کا فون آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے کام میں پروموشن ہوگئی ہے جس کی مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی اور کہنے لگا کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی وجہ سے ہے اور جو دس سال سے سست تھا کہنے لگا کہ اب میں کبھی چندوں میں سستی نہیں کروں گا۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ملائیشیاکے بھکراصاحب کی مالی قربانی کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ملائیشیا سے ایک دوست بھکرا (Bhakra) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میرا ذاتی تجربہ ہے ۲۰۱۶ء – ۱۷کے درمیان میں نے تحریکِ جدید میں ایک ہزار رنگٹ کا وعدہ کیا۔ اس دوران میں اپنے مالی حالات کی وجہ سے ادائیگی کرنے سے قاصر تھا جو اس وقت واقعی مشکل تھا اور میرا کاروبار متاثر ہورہا تھا۔ میں پریشانی کی حالت میں تھا اور امید رکھتا تھا کہ وعدہ کی مکمل ادائیگی ہوجائے گی لیکن میں پیسے بھی جمع نہیں کر سکتا تھا۔ میں صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ اگر میری نیت سچی ہے اور جماعت واقعی حق پر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرے گا۔ وعدہ جات کی ادائیگی کرنے کے آخری دن سے ایک دن پہلے اتفاقاً کاروبار سے آمدنی آئی اور رقم بالکل ایک ہزار رنگٹ تھی۔ میں بغیر سوچے سمجھے سیکرٹری مال کے گھر گیا اور انہیں ایک ہزار رنگٹ ادا کیے۔ اس واقعہ کے بعد سے مجھے اس جماعت پر مکمل یقین ہے کہ اگر ہمارے مقاصد جماعت اور اسلام کی ترقی کے لیے مخلص ہوں تو اللہ تعالیٰ ضرور غیر معمولی طور پر آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پس یہ ایک طرح کی سوچ ہے جو دنیا کے ہر ملک میں رہنے والے احمدی کی ہے۔ حالانکہ بیچ میں ہزاروں میل کا فاصلہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس طرح ایمان مضبوط کرتا ہے اورجماعت کی سچائی بھی ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔ ایمان کو بھی مضبوط کر دیتا ہے۔
سوال نمبر۸:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سینیگال سےسعیدی صاحب کی مالی قربانی کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: سینیگال سے معلم صاحب لکھتے ہیں۔ تامبا کونڈا ایک جماعت ہے جہاں پر سعیدی صاحب کے پاس گائے اور بھیڑوں کا اپنا ریوڑ ہے۔ انہوں نے کال کر کے انہیں پوچھا کہ تحریکِ جدید کیا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے سن لیا تھا کہ احمدیوں کو تحریکِ جدید کا چندہ دینا چاہیے۔ معلم صاحب نے ان کو تحریکِ جدید کے متعلق تفصیل سے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ ان دنوں عشرہ تحریکِ جدید بھی چل رہا ہے۔ موصوف نے بتایا کہ ان کے والد بڑے مالدار آدمی تھے مگر وہ زکوٰة اور انفاق فی سبیل اللہ میں کمزور تھے مگر مولویوں کی خاطر مدارات کرتے رہتے تھے۔ ان کے والد کی وفات کے بعد کافی جانور ان کے حصہ میں آئے ہیں مگر ان کو بھی انفاق فی سبیل اللہ کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوئی۔ جب معلم صاحب نے ان کو زکوٰة اور دیگر چندہ جات کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے ایک گائے اور دو بھیڑیں چندہ میں دیں اور کہا کہ ایک بھیڑ خاص تحریکِ جدید کے لیے ہے۔ اس کے سات دن بعد ان کو خواب آئی کہ جانوروں میں ایک خاص قسم کی وبا پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے جسم سے پانی بہتا ہے اور جانور مرتے جا رہے ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی ایک بڑے ریوڑ کے مالک ہیں تو انہوں نے خواب میں ہی پریشانی میں یہ خیال کیا کہ ان کے جانور بھی تو ہیں۔ تو انہوں نے خواب میں ہی دعا کی کہ اے خدا! میرے جانوروں کی حفاظت فرما۔ اس پر ان کو خواب میں بڑے زور سے آواز آئی کہ تحریکِ جدید کی وجہ سے تمہارے جانور محفوظ رہیں گے۔ اس دوران انہوں نے ایک کاغذ دیکھا جس پر پہلی لائن میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھا ہوا تھا اور ان کا نام بھی درج تھا۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ معلم صاحب کو کال کی۔ خواب بتائی۔ معلم نے بتایا کہ جو رسید آپ کو دی ہوئی ہے اس کی سب سے اوپر والی لائن پڑھیں۔ وہاں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہی لکھا ہوا ہے اور اس کے نیچے آپ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ اور پھر نیچے تحریکِ جدید کا چندہ لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ پڑھ نہیں سکتے تھے تو بہرحال یہ کہتے ہیں جب میں نے رسید کو بھی دیکھا اور خواب بھی تو یہ واقعہ میرے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوا۔ عجیب عجیب طریقے سے اللہ تعالیٰ بھی راہنمائی کرتا ہے۔
٭…٭…٭