حضرت مصلح موعود ؓ

وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ سے بچنے کا طریقہ (قسط اوّل)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۴؍اکتوبر ۱۹۱۸ء)

۱۹۱۸ء میں حضورؓنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اس میں آپؓ نے سورۃالناس کی تلاوت فرمائی اور اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کیونکر انسان انسانیت سے گرتا ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

بعض لوگ بھیڑ کی طرح تقلید کرتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ یہ کام کیوں کرتے ہو تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ اگر کوئی عقل کی بات بتاؤ اور کہو کہ ایسا کرو تو کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کیونکہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کونسی بات مفید اور عقل کے مطابق ہے

حضورؓ نے تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ سورت پڑھی: قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔ اِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ۔ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ۔ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَالنَّاسِ (سورۃالناس)

اور فرمایا: ’’انسان کے لئے جہاں ترقی اور کامیابی کی راہیں کھلی ہیں وہاں بہت سے سامان اس کی ہلاکت کے بھی ہیں۔ اِس میں کچھ بھی شک نہیں کہ انسان ترقی کرتے کرتے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِس کا محب اور دوست ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کے حضور ایسے مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس پروار کرنے والا اس پروار کرنے کی بجائے خدا پروار کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کے اندر ہوتا ہے، باہر ہوتا ہے، آگے ہوتا ہے، پیچھے ہوتا ہے، اُوپر ہوتا ہے۔ غرض ہر طرف سے وہ خدا کی پناہ میں ہوتا ہے۔ اِس لئے جب وار کرنے والا اس پروار کرتا ہے تو اس کا وار اس پر پڑنے کی بجائے خدا کی کسی نہ کسی صفت پر پڑتا ہے۔ پس

وہ ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ خدا کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے اور بعض لوگ دھوکا میں پڑ کر اُسے خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

مگر باوجود اس کے اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب انسان گرتا ہے تو انسانوں سے ہی نہیں بلکہ کسی وقت کتّوں، سؤروں، گدھوں، ریچھوں اور بندروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور کسی وقت نجاست کے کپڑوں سے بھی پلید تر ہو جاتا ہے۔ ترقی کرتا ہے تو اس مقام پر پہنچتا ہے جس پر فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے اور اگر گرتا ہے تو ایسا گرتا ہے کہ ذلیل سے ذلیل مخلوق سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔

ایک بزرگ کا واقعہ حضرت صاحبؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک صوفی تھے وہ پہاڑ پر رہتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق ایسا انتظام کیا تھا کہ ان کو دونوں وقت کھانا وہیں پہنچ جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کو یہ ابتلاء پیش آیا کہ تین دن متواتر کھانا نہ مِلا۔ جب بھُوک سے حالت خراب ہونے لگی تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب کے گاؤں میں گئے اور ایک مکان پر پہنچ کر کھانے کو مانگا۔ گھر والوں نے ان کو تین روٹیاں دیں وہ روٹیاں لے کر واپس ہوئے تو گھر والوں کے دروازے پر ایک کُتّا بیٹھا تھا وہ ان کے ساتھ ہو لیا۔ اُنہوں نے اس کو آدھی روٹی ڈال دی مگر وہ کھا کر پھر ساتھ چلنے لگا۔ آدھی اُنہوں نے اور ڈال دی۔ وہ اس آدھی کو بھی کھا کر پیچھے چلا آتا رہا۔ اُنہوں نے ایک اور روٹی ڈال دی اور کہا کہ واقعی بیچارا ایک روٹی سے کیا سیر ہو گا لیکن جب دو روٹیاں بھی کھا چکا تو پھر بھی ان کے پیچھے سے نہ ہٹا۔ اُنہوں نے غصّہ میں آکر تیسری روٹی بھی ڈال دی اور کہا کہ تُو بڑا بے حیا ہے جو پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ انسان کی عادت ہے کہ جب وہ غصّہ میں آتا ہے تو دیواروں اور درختوں کو بھی مخاطب کر لیا کرتا ہے تو اُنہوں نے غصّہ کی حالت میں کتے کو بے حیا کہا۔ اس پر کشفی طور پر اس کُتّے نے ان سے گفتگو کی اور کہا کہ بے حیا مَیں ہوں کہ تُو۔

خدا تجھ کو ہمیشہ رزق پہنچاتا تھا مگر صرف تین دن نہ پہنچا تو اُٹھ کر لوگوں کے دروازوں پر مانگنے چلا آیا۔

مگر مَیں ہوں کہ ہمیشہ اپنے آقا کے دروازے پر پڑا رہتا ہوں خواہ ہفتوں فاقہ میں گزر جائیں۔ کتے کی اِس گفتگو سے جو کشفی طور پر ہوئی تھی ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہو گیا۔ اس سے توبہ کی اور اپنے اس مقام پر جابیٹھے اور خدا تعالیٰ نے پھر ان کو اسی طرح کھانا پہنچانا شروع کر دیا۔ تو واقعی کتے میں وفاداری کی صفت ایسی ہے کہ وہ اپنے آقا کی خاطر جان بھی دے دیتا ہے اور ذرا پرواہ نہیں کرتا مگر

انسان ایسے ہوتے ہیں جو دوست وغیرہ کو مصیبت کے وقت چھوڑ دیتے ہیں۔

تو بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جن میں کتے جتنی بھی وفا نہیں ہوتی۔ اسی طرح گدھے کو احمق کہا جاتا ہے اور حماقت کے لئے گدھا مشہور ہے، لیکن بعض انسان اپنی حماقت میں گدھے سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ گدھے میں اتنی تمیز ہوتی ہے کہ وہ کبھی شیر پر حملہ نہیں کرتا بلکہ اس کی حِسّ ایسی تیز ہوتی ہے کہ وہ شیر کی دُور سے ہی بُو سونگھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن انسان جب حماقت پر آتا ہے تو نہ صرف خدا کے پہلوانوں پر حملہ کرتا ہے بلکہ خدا کو بھی مقابلہ کا چیلنج دے دیتا ہے۔ گدھا احمق ہے۔مگر اتنا نہیں کہ خطرہ کی جگہ میں ٹھہرا رہے اور شیر کی بُو پاتے ہی اس کو چھوڑ نہ دے لیکن

انسان ایسا احمق ہوتا ہے کہ خدا کے سپہ سالاروں کے مقابلہ میں چلا جاتا ہے۔

پھر انسان گرتے گرتے بندر سے بھی زیادہ نقال اور خنزیر سے بھی زیادہ بےحیا ہو جاتا ہے۔ اگر کسی جانور میں ایک ایک نقص ہے تو انسان میں تمام کے تمام نقائص جمع ہو جاتے ہیں بےحیا یہ ہوتا ہے، بےوفا یہ ہوتا ہے، اندھا تقلید کرنے والا یہ ہوتا ہے، احمق یہ ہوتا ہے۔

کبھی بھیڑ کی طرح مقلد ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو نمازیں پڑھتا دیکھتا ہے تو خود بھی نماز پڑھنے لگتا ہے لیکن کچھ نہیں سمجھتا کہ نماز کیوں پڑھتا ہوں

اور پھر لمبی نماز پڑھتا ہے کہ لوگ تعریف کریں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نمازیں تو لمبی لمبی پڑھیں گے مگر ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ یہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق آپ نے فرمایا۔ پھر انسان نقلیں اُتارتا ہے تو ایسی بھونڈی کہ دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ مثلاً یورپ کے لوگوں کی نقل میں ٹوپی، کوٹ پتلون پہنتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کو یہ لباس پہنتے صدیاں گزر گئیں اس لئے ان کو بُرا نہیں معلوم ہوتا۔ مگر یہ لوگ جو ان کے نقال ہوتے ہیں اور ویسا ہی بننا چاہتے ہیں یہ گو ویسا ہی لباس پہن بھی لیں پورپین وضع کی ٹوپی سر پر رکھیں ۔مگر گوری رنگت کہاں سے لائیں گے۔ پھر یورپین جس طرح چلتے پھرتے ہیں اس کے لئے ان کی تو چال ہی اس قسم کی ہوتی ہے۔ نہ تو اُنہیں تکلّف کرنا پڑتا ہے اور نہ وہ بُرے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کو ایسی چال چلنے کے لئے تصنع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ پچھلے سال شملہ میں دیکھنے کا اتفاق ہؤا بعض لوگ جسم کو اکڑائے اور سر کو اُٹھائے چلتے ہوئے نہایت بھونڈے معلوم ہوتے تھے۔

ان لوگوں نے نقل کی نقل تو کی مگر بھونڈی اور فضول نقل کی جو ان کے لئے بجائے فائدہ مند ہونے کے اور ذلیل کن ہے۔

کیونکہ انسان معزز کوٹ، پتلون و ہیٹ سے نہیں بن جاتا اور نہ ہی یورپ کے لوگ اپنے لباس کی وجہ سے معزز ہیں بلکہ کسی اَور وجہ سے ہیں۔ ان لوگوں کو اگر اُن کی نقل کرنی تھی تو ان صفات کی کرتے جن سے وہ دُنیا میں معزز ہیں۔ مثلاً دُنیا ہی کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے لئے کوئی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتے لیکن اگر اِن لوگوں کو کسی دُور سفر پر جانے کے لئے کہا جائے تو اوّل تو موجودہ زمانہ میں جہاز کے سفر کے خطرے کو رستے میں روک بنائیں گے اور اگر جہاز کا سفر نہ ہو کسی ایسی جگہ کا سفر ہو جہاں ریل نہ جاتی ہو تو ریل کے نہ ہونے کا عُذر کیا جائے گا۔ پھر اگر یورپ کے لوگوں کو مذہبی طور پر بھی دیکھا جائے تو ان کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھُون کر کھالیا مگر ایک کے بعد دوسری فوراً چلی جاتی اور عیسائیت کی اشاعت میں لگ جاتی اور اگر ایک کی ہلاکت کی خبر پہنچتی ہے تو کئی درخواستیں آتی ہیں کہ ہم کو وہاں بھیجا جائے۔ چین میں اس وقت تک سات ہزار عیسائی مشنری قتل کیا گیا ہے لیکن ایک مارا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا چلا جاتا ہے۔ ان کی نقل کرنے والے محض لباس اور چال میں نقل اُتارنے سے چاہتے ہیں کہ ان کی طرح عزت حاصل ہو جائے مگر اس سے یہ ممکن نہیں۔ عزت ان کی عمدہ صفات حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے۔ بنگال اور مدراس کے لوگ تعلیم میں بہت ترقی کرگئے ہیں مگر اپنا لباس وہی رکھتے ہیں۔ بنگالی سرننگے اور دھوتی باندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ مفتی صاحب جب مدراس گئے تو اُنہوں نے بتایا کہ چیف کورٹ کے جج بھی ننگے پیر بازاروں میں پھرتے تھے اور اس سے ان کی عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا کیونکہ اُنہوں نے اہل یورپ کی سیکھنے کی باتیں سیکھی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی کوٹ پتلون نہیں پہنتے تھے مگر خدا نے آپ کو کتنی عزت دی۔

تو معلوم ہؤا کہ لباس میں تقلید کرنے سے عزت حاصل نہیں ہوتی۔ پھر بعض لوگ بھیڑ کی طرح تقلید کرتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ یہ کام کیوں کرتے ہو تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ اگر کوئی عقل کی بات بتاؤ اور کہو کہ ایسا کرو تو کہیں گے ہم نہیں مان سکتے۔ کیونکہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کونسی بات مفید اور عقل کے مطابق ہے۔

(باقی آئندہ جمعرات کو ان شاء اللہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button