خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم نومبر 2024ء

’’سعدؓ  کافیصلہ گو اپنی ذات میں سخت سمجھا جائے مگر وہ ہرگز عدل وانصاف کے خلاف نہیں تھا اور یقیناًیہود کے جرم کی نوعیت اور مسلمانوں کی حفاظت کا سوال دونوں اسی کے مقتضی تھے کہ یہی فیصلہ ہوتا اور پھر یہ فیصلہ بھی یہودی شریعت کے عین مطابق تھا بلکہ اس ابتدائی معاہدہ کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ اس کی روسے مسلمان اس بات کے پابند تھے کہ یہود کے متعلق انہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں مگر جو کچھ بھی تھا یہ فیصلہ سعدؓ بن معاذ کا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا اور سعدؓ پر ہی اس کی پہلی اور آخری ذمہ داری عائد ہوتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بحیثیت صدر حکومت کے اس سے صرف اس قدر تھا کہ آپ اس فیصلہ کواپنی حکومت کے انتظام کے ماتحت جاری فرماویں۔ ‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ)

’’بنوقریظہ کسی ایک جرم کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ وہ بے وفائی اور احسان فراموشی کے مرتکب ہوئے۔ بد عہدی اور غداری کے مرتکب ہوئے۔ بغاوت اور اقدام قتل کے مرتکب ہوئے اور ان جرموں کا ارتکاب انہوں نے ایسے حالات میں کیا جو ایک جرم کو بھیانک سے بھیانک صورت دے سکتے ہیں اور دنیا کی کوئی غیر متعصب عدالت ان کے مقدمہ میں موجبات رعایت کا عنصر نہیں پا سکتی۔‘‘

’’رہا اصل فیصلہ کا سوال۔ سو اس کے متعلق بھی ہم بلاتا مل کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہرگز کسی قسم کے ظلم وتعدی کا دخل نہیں تھا بلکہ وہ عین عدل وانصاف پر مبنی تھا‘‘

’’اگر باغی کو بھی انتہائی سزا نہ دی جاوے تو نظام حکومت بالکل ٹوٹ جاتا ہے اور شریر اور مفسدہ پرداز لوگوں کو ایسی جرأت حاصل ہو جاتی ہے جو امن عامہ اور رفاہ عام کے لیے سخت مہلک ثابت ہوتی ہے اور یقینا ًایسے حالات میں باغی پر رحم کرنا دراصل ملک پر اور ملک کے امن پسند لوگوں پرظلم کے ہم معنی ہوتا ہے‘‘

’’ایک اور بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ جو معاہدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان ابتدا میں ہوا تھا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی امر قابل تصفیہ پیدا ہو گا تو اس کا فیصلہ خود انہیں کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا‘‘

غزوۂ بنو قریظہ کے اختتام پر بنو قریظہ کی سزا کا ’’سیرت خاتم النبیؐن‘‘ کے حوالے سے جامع اورتنقیدی جائزہ اور محاکمہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم نومبر 2024ء بمطابق یکم نبوت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

غزوۂ بنو قریظہ کی تفصیل

بیان ہو رہی تھی، اس کی مزید تفصیل یوں ہے۔ اس میں

شہداء

کے، جو مسلمان شہید ہوئے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ اس غزوہ میں دو مسلمان شہید ہوئے۔ خَلَّاد بن سُوَیدؓ اور حضرت مُنْذِر بن محمدؓ اور بنو قریظہ کے یہود کی تعداد جو قتل ہوئی اس کے بارے میں لکھا ہے کہ

غزوۂ بنو قریظہ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد چھ سو تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد سات سو تھی۔ سُہَیلی کہتے ہیں ان کی تعداد آٹھ سو سے نو سو تھی۔ امام ترمذی اور امام نسائی نے چار سو جنگجو لکھا ہے۔ ابن سعد نے بھی چھ سو سے سات سو کےدرمیان بیان کیا ہے۔

(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 16 ، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)

(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 20،الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ 58)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو اپنی مختلف تاریخوں سے تحقیق کی ہے اس کے مطابق وہ لکھتے ہیں کہ’’کم وبیش چار سو آدمی اس دن سعدؓ کے فیصلہ کے مطابق قتل کیے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دے کران مقتولین کو اپنے انتظام میں دفن کروادیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 603)

مخالفینِ اسلام مبالغہ کی حد تک تعداد بیان کر کے پھر اسلام کو ظالم مذہب ہونا قرار دیتے ہیں، یہ کوشش کرتے ہیں جبکہ حقائق اور شواہد کو دیکھا جائے تو مستند تاریخوں کے مطابق چار سو کے قریب تعداد بنتی ہے، وہ بھی وہ جو جنگجو تھے۔ اور تبھی تو وہ ایک گھر میں خندق کھود کر اس میں دفن بھی کر دیے گئے۔

اس زمانے کے ایک احمدی سکالر سید برکات صاحب نے بھی اس پر بڑی تحقیق کی ہے اور بڑا اچھا لکھا ہے انہوں نے۔ وہ اپنی کتاب ’’رسول اکرمؐ اور یہودِ حجاز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بنو قریظہ کے مقتولین کی تعداد کی بحث کو اگر دیکھا جائے تو، انہوں نے بعض سوال اٹھائے ہیں جن میں سے بعض کسی قدر معقولیت کا پہلو رکھتے ہیں۔ ایک تو وہی بنیادی اصول انہوں نے لیا ہے جو کہ بہت اہم اصول ہے کہ حدیث ہو یا تاریخ ان کی روایات ضعف و وضعی ہونے کی جرح سے خالی نہیں ہیں۔ اس لیے آنکھیں بند کر کے سب روایات کو مانتے چلے جانا کوئی دانشمندی نہیں۔ پھر چھ سو سے نو سو قتل ہونے والے مرد مع ان کی عورتوں اور بچوں کے جن کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق پانچ چھ ہزار سے کم نہیں ہو گی ان کے بارے میں یہ کہنا کہ مدینہ میں ان کو رسیوں سے باندھ کر لایا گیا اور دو گھروں میں رکھا گیا اور ان کے کھانے پینے کی سہولیات جبکہ مسلمان خود بھوکے پیاسے رہ رہے تھے، قضائے حاجت کے لیے اتنی بڑی تعداد کو لے جانا۔ اَور بھی ضروریات ہوتی ہیں اور کسی کا بھی فرار ہونے کی کوشش نہ کرنا نہ کوئی شورشرابہ کرنا اور راتوں رات مدینے کے ایک بازار میں ان چھ سو افراد کے قتل کے لیے گڑھے کھدوا دینا جبکہ ابھی نئی کھدی ہوئی خندق بھی موجود تھی پھر دو یا تین افراد یعنی حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کا ہی ان سب کو قتل کرنا اور ان دونوں اصحاب کا کبھی بھی اس واقعہ کا ذکر نہ کرنا اور بخاری اور مسلم میں مقتولین کی تعداد کا ذکر نہ کرنا اس طرح کی کچھ دیگر باتیں راہنمائی کرتی ہیں کہ

ان روایات پر ازسر نو غور کیا جانا چاہیے اور یہ دیکھا جائے کہ کہیں ان روایات میں زیادہ ہی مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیا گیا ہو۔

لکھتے ہیں کہ درپردہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی یہود دشمنی کو ہوا دینے کے لیے ان واقعات میں بعد کے لوگوں نے رنگ بھر دیے ہیں کیونکہ بخاری میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سعدؓ نے فیصلہ میں فرمایا تھا کہ تُقْتَلُ الْمُقَاتِلَہ۔ کہ ان کے مُقَاتِلَۃ یعنی جنگ کرنے والے قتل کر دیے جائیں۔ اب عام مؤرخین اور شارحین و سیرت نگاروں نے اس کا ترجمہ یہ کیا کہ ہر وہ مرد جو جنگ کرنے کے قابل تھا وہ قتل کیا جائے بلکہ انہوں نے اس لفظ کو اتنا وسیع کر لیا کہ جنگ کے قابل سے مراد ہر بالغ مرد لے لیا گیا اور بلوغت کا معیار بھی خود ایسا وضع کیا کہ کچھ لوگوں کو کھڑا کر دیا جو ہر مرد کے بالغ ہونے کی علامت کو باقاعدہ چیک کیا کرتے تھے اور اعلان کرتے کہ یہ بالغ ہے اور یوں یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔ اس حد تک مبالغہ ہے اس میں لیکن جن کا رجحان تھوڑی تعداد کی طرف گیا ہے انہوں نے مقاتلہ کے لفظ کا ترجمہ محدود رکھا ہے اور مراد صرف اس جنگ میں شامل ہونے والے مرد لیے جو کہ ان کی تحقیق کے مطابق بیس سے زیادہ نہیں۔ یہ انہوں نے اَور زیادہ کم کر دیے اور یہ کسی حد تک معقولیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔

(ماخوذ از رسول اکرمؐ اور یہودِ حجاز صفحہ 132 تا 148، اردو ترجمہ محمد اینڈ دا جیوز ازسید برکات احمد، مترجم مشیر الحق، مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ)

یہ بہرحال ان کی اپنی تحقیق ہے لیکن بعض باتیں ان کی بہرحال معقول ہیں اور تحقیق میں ان کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غزوۂ بنو قریظہ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداد پر ہونے والے غیر مسلم مؤرخین کے اعتراضات کے جواب میں بیان فرمایا ہے کہ ’’بنوقریظہ کے واقعہ کے متعلق بعض غیر مسلم مؤرخین نے نہایت ناگوار طریقے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملے کیے ہیں اور ان کم وبیش چار سو یہودیوں کی سزائے قتل کی وجہ سے آپ کو ایک نعوذ باللہ ظالم وسفاک فرمانروا کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اس اعتراض کی بناء محض مذہبی تعصب پر واقع ہے جس سے جہاں تک کم از کم اسلام اور بانی اسلام کا تعلق ہے بہت سے مغربی روشنی میں تربیت یافتہ مؤرخ بھی آزاد نہیں ہوسکے۔‘‘یعنی بعض مسلمان بھی ان کے زیر اثر آ گئے ہیں۔

’’اس اعتراض کے جواب میں ‘‘لکھتے ہیں کہ ’’اول تویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بنوقریظہ کے متعلق جس فیصلہ کو ظالمانہ کہا جاتا ہے وہ سعدؓ بن معاذ کا فیصلہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاہرگز نہیں تھا۔ اور جب وہ آپ کا فیصلہ ہی نہیں تھا تو اس کی وجہ سے آپ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ دوم یہ فیصلہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت ہرگز غلط اورظالمانہ نہیں تھا…‘‘جو حالات جن کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے کوئی ظالمانہ نہیں تھا۔’’سوم یہ کہ اس عہد کی وجہ سے جو سعدؓ نے فیصلہ کے اعلان سے قبل آپ سے لیا تھا آپ اس بات کے پابند تھے کہ بہرحال اس کے مطابق عمل کرتے۔ چہارم یہ کہ جب خود مجرموں نے اس فیصلہ کوقبول کیا اور اس پر اعتراض نہیں اٹھایا اور اسے اپنے لیےایک خدائی تقدیر سمجھا جیسا کہ حیی بن اخطب کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے جو اس نے قتل کیے جانے کے وقت کہے تو اس صورت میں آپ کا یہ کام نہیں تھا کہ خواہ نخواہ اس میں دخل دینے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔

سعد کے فیصلہ کے بعد اس معاملہ کے ساتھ آپ کا تعلق صرف اس قدر تھا کہ آپ اپنی حکومت کے نظام کے ماتحت اس فیصلہ کو بصورت احسن جاری فرماویں اور یہ بتایا جاچکا ہے کہ آپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایاکہ جو رحمت و شفقت کا بہترین نمونہ سمجھا جاسکتا ہے۔

یعنی جب تک تو یہ لوگ فیصلہ کے اجرا سے قبل قید میں رہے آپ نے ان کی رہائش اور خوراک کا بہتر سے بہتر انتظام فرمایا اور جب ان پر سعدؓ کا فیصلہ جاری کیا جانے لگا تو آپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری کیا جو مجرموں کے لیے کم سے کم موجبِ تکلیف تھا۔ یعنی اول تو ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے آپ نے یہ حکم دیا کہ ایک مجرم کے قتل کے وقت کوئی دوسرا مجرم سامنے نہ ہو۔ بلکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن لوگوں کو مقتل میں لایا جاتا تھا ان کو اس وقت تک علم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں جب تک وہ عین مقتل میں نہ پہنچ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جس شخص کے متعلق بھی آپ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپ نے اسے فوراً قبول کر لیا اور نہ صرف ایسے لوگوں کی جان بخشی کی بلکہ ان کے بیوی بچوں اور اموال وغیرہ کے متعلق بھی حکم دے دیا کہ انہیں واپس دیے جائیں۔ اس سے بڑھ کر ایک مجرم کے ساتھ رحمت وشفقت کاسلوک کیا ہوسکتا ہے؟ پس نہ صرف یہ کہ بنوقریظہ کے واقعہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قطعاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ کے اخلاقِ فاضلہ اورحسنِ انتظام اورآپ کے فطری رحم وکرم کاایک نہایت بین ثبوت ہے۔

اب رہا اصل فیصلہ کا سوال۔ سو اس کے متعلق بھی ہم بلاتا مل کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ہرگز کسی قسم کے ظلم وتعدی کا دخل نہیں تھا بلکہ وہ عین عدل وانصاف پر مبنی تھا۔

اس کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ بنوقریظہ کاجرم کیا تھا اور وہ جرم کن حالات میں کیا گیا۔ سو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے یعنی بنو قینقاع، قبیلہ بنونضیر اور قبیلہ بنوقریظہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جو پہلا سیاسی کام کیا وہ یہ تھا کہ ان تینوں قبیلوں کے رؤساء کو بلا کر ان کے ساتھ امن وامان کا ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدہ کی شرائط یہ تھیں کہ مسلمان اور یہودی امن وامان کے ساتھ مدینہ میں رہیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور ایک دوسرے کے دشمنوں کوکسی قسم کی مدد نہیں دیں گے اور نہ ایک دوسرے کے دشمنوں کے ساتھ کوئی تعلق رکھیں گے اور اگر کسی بیرونی قبیلہ یاقبائل کی طرف سے مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا توسب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے اور اگر معاہدہ کرنے والوں میں سے کوئی شخص یا کوئی گروہ اس معاہدہ کو توڑے گا یا فتنہ وفساد کا باعث بنے گا تو دوسروں کو اس کے خلاف ہاتھ اٹھانے کا حق ہو گا۔ اور تمام اختلافات اور تنازعات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں گے اور آپ کا فیصلہ سب کے لیے واجب التعمیل ہو گا۔ مگر یہ ضروری ہوگا کہ ہرشخص یاقوم کے متعلق اسی کے مذہب اور اسی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کیا جاوے۔‘‘یہ اہم بات ہے کہ جو فیصلہ ہو ان کے مذہب اور ان کی شریعت کے مطابق ہو گا باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی حکومت قائم کر دی گئی تھی۔

’’اس معاہدہ پر یہودنے کس طرح عمل کیا؟…‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ’’سب سے پہلے قبیلہ بنوقینقاع نے بدعہدی کی اور دوستانہ تعلقات کو قطع کر کے مسلمانوں سے جنگ کی طرح ڈالی اور مسلمان عورتوں کی بےحرمتی کا کمینہ طریق اختیار کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صدارتی پوزیشن کو جو بین الاقوام معاہدہ کی روسے آپ کو حاصل تھی نہایت متمردانہ انداز میں ٹھکرا دیا۔‘‘ تکبر کے رنگ میں ٹھکرا دیا۔’’ مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے مغلوب ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرمادیا اورصرف اس قدر احتیاطی تدبیر پر اکتفا کی کہ بنوقینقاع مدینہ سے نکل کرکسی دوسری جگہ جاکر آباد ہو جائیں تاکہ شہر کاامن برباد نہ ہو اور مسلمان ایک مارِآستین کے شر سے محفوظ ہو جائیں۔‘‘ چھپے ہوئے دشمن سے محفوظ ہو جائیں۔ ’’چنانچہ قبیلہ بنوقینقاع کے لوگ بڑے امن وامان کے ساتھ اپنے اموال اور بیوی بچوں کواپنے ہمراہ لے کر مدینہ سے نکل کر دوسری جگہ آباد ہو گئے۔ مگراس واقعہ سے یہود کے باقی دو قبائل نے سبق حاصل نہ کیا بلکہ آپ کے رحم نے ان کو اور بھی ناواجب جرأت دلا دی اور ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہود کے دوسرے قبیلہ بنونضیر نے بھی سر اٹھایا اور سب سے پہلے ان کے ایک رئیس کعب بن اشرف نے معاہدہ کو توڑ کر قریش اور دوسرے قبائل عرب کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ساز باز شروع کی اور عرب کے ان وحشی درندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے خلاف خطرناک طور پر ابھارا اور مسلمانوں کے خلاف ایسے ایسے اشتعال انگیز شعر کہے کہ جس سے ملک میں مسلمانوں کے لیے ایک نہایت خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی اور پھر اس بدبخت نے معزز مسلمان عورتوں کا نام لے لے کر اپنے اشعار میں ان پر پھبتیاں اڑائیں اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور جب آنحضرت صلعم کے حکم سے یہ شخص اپنے کیفرکردار کو پہنچا تواس کا قبیلہ یک جان ہو کر مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس دن سے بنونضیر نے معاہدہ کوبالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے خلاف سازباز شروع کر دی اور بالآخر سارے قبیلہ نے مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ باندھا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو آپ کو زندہ نہ چھوڑا جاوے۔‘‘حالانکہ پہلے معاہدے میں یہ سب شامل تھے کہ اگر کوئی غلط کام کرے گا تو اس کو سزا دیں گے اور بخوشی دیں گے۔ بہرحال ’’اور جب ان کے ان خونی ارادوں کاعلم ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تنبیہہ اور سزا کا طریق اختیار کیا تو وہ نہایت مغرورانہ انداز میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہو گئے اور اس جنگ میں بنوقریظہ نے ان کی اعانت کی مگر جب بنونضیر مغلوب ہوئے۔‘‘اب یہاں بنو نضیر کی بنو قریظہ نے اعانت بھی کی، انہوں نے بھی معاہدہ توڑا۔ لیکن ’’جب بنو نضیر مغلوب ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کوتو بالکل ہی معاف فرما دیا۔‘‘باوجود اس کے کہ وہ بنو نضیر کے ساتھ شامل ہو گئے تھے آپؐ نے بنوقریظہ کو معاف کر دیا ’’اور بنونضیر کو بھی مدینہ سے امن وامان کے ساتھ چلے جانے کی اجازت دے دی۔ البتہ اس قدر کیا کہ انہیں ان کےاسلحہ ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دی مگر اس احسان کا بدلہ بنونضیر نے یہ دیا کہ مدینہ سے باہر جاکر ان کے رؤوساء نے تمام عرب کا چکر لگایا اور مختلف قبائل عرب کو خطرناک طور پر اشتعال دے کر ایک ٹڈی دل لشکر مدینہ پرچڑھا لائے۔‘‘ بہت بڑا لشکر لے کر آ گئے ’’ اور سب سے یہ پختہ عہد لیا کہ اب جب تک اسلام کو نیست ونابود نہ کر لیں گے واپس نہیں جائیں گے۔

ایسے خطرناک وقت میں جس کا ایک مختصر خاکہ اوپر گزر چکا ہے یہود کے تیسرے قبیلہ بنوقریظہ نے کیا کیا؟ اور یہ قبیلہ وہ تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بنونضیر کے موقع پر ان کی غداری کومعاف کرکے خاص احسان کیا تھا۔‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بنو قریظہ سے احسان کا سلوک کیا تھا ’’اور پھر دوسرا احسان ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ باوجود اس کے کہ وہ آنحضرت صلعم کی ہجرت سے قبل بنونضیر سے مرتبہ اور حقوق میں ادنیٰ سمجھے جاتے تھے۔‘‘اب یہ دونوں بنو نضیر اور بنو قریظہ قبائل جو تھے ان دونوں میں آپس میں بھی درجات میں فرق تھا۔ بنو قریظہ بنو نضیر سے ادنی سمجھے جاتے تھے۔’’ یعنی اگر بنونضیر کاکوئی آدمی بنوقریظہ کے ہاتھ سے قتل ہو جاتا تھا تو قاتل کو قصاص میں قتل کیا جاتا تھا۔‘‘یہ قاعدہ تھا ان کا۔’’ لیکن اگر بنوقریظہ کا کوئی آدمی بنونضیر کے ہاتھ سے قتل ہو جاتا تھا تو محض دیت کی ادائیگی کافی سمجھی جاتی تھی۔‘‘اس سے کچھ رقم لے کر ان کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ دیت لے کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔’’ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کو دوسرے شہریوں کے ساتھ برابری کے حقوق عطا کیے۔ مگر باوجود ان عظیم الشان احسانوں کے بنو قریظہ نے پھر بھی غداری کی اور غداری بھی ایسے نازک وقت میں کی جس سے زیادہ نازک وقت مسلمانوں پر کبھی نہیں آیا۔ بنوقینقاع کی مثال ان کے سامنے تھی، انہوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ بنونضیر کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا انہوں نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا اور کیا تو کیا کیا؟ یہ کیا کہ اپنے معاہدہ کو بالائے طاق رکھ کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کو فراموش کر کے عین اس وقت جبکہ تین ہزار مسلمان نہایت بےسروسامانی اور بےبسی کی حالت میں کفار کے دس پندرہ ہزار جرار اور خونخوار لشکر سے گھرے ہوئے بیٹھے تھے اور اپنی بیچارگی کو دیکھ کر ان کے کلیجے منہ کو آ رہے تھے۔اور‘‘ جنگِ احزاب کے وقت۔’’ موت انہیں اپنے سامنے دکھائی دیتی تھی۔ وہ اپنے قلعوں میں سے نکلے ‘‘بنو قریظہ’’اور مسلمان مستورات اوربچوں پرعقب سے حملہ آور ہو گئے اور مسلمانوں کے اتحاد سے منحرف ہو کر اس خونی اتحاد کی شمولیت اختیار کی جس کا اصل الاصول اسلام اور بانی اسلام کونیست ونابود کرنا تھا۔ ہاں اس بانیٔ اسلام کوجس کا مدینہ میں آنے کے بعد پہلا کام یہ تھا کہ اس نے ان یہود کواپنا دوست اور معاہد بنایا۔‘‘یہ غور کرنے والی بات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آکے یہود کو اپنا دوست اور معاہد بنایا۔’’ اور یہود کا پہلا کام یہ تھا کہ انہوں نے اسے اپنا دوست اورمعاہد مان کر‘‘انہوں نے مان بھی لیا اور’’ اسے اپنی جمہوریت کاصدر تسلیم کیا۔ اندریں حالات

بنوقریظہ کایہ فعل صرف ایک بدعہدی اور غداری ہی نہیں تھا بلکہ ایک خطرناک بغاوت کا بھی رنگ رکھتا تھا اور بغاوت بھی ایسی کہ اگر ان کی تدبیر کامیاب ہو جاتی تو مسلمانوں کی جانوں اور ان کی عزت وآبرو اور ان کے دین ومذہب کایقیناً خاتمہ تھا۔

پس بنوقریظہ کسی ایک جرم کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ وہ بے وفائی اور احسان فراموشی کے مرتکب ہوئے۔ بد عہدی اور غداری کے مرتکب ہوئے۔ بغاوت اور اقدام قتل کے مرتکب ہوئے اور ان جرموں کا ارتکاب انہوں نے ایسے حالات میں کیا جو ایک جرم کو بھیانک سے بھیانک صورت دے سکتے ہیں اور دنیا کی کوئی غیرمتعصب عدالت ان کے مقدمہ میں موجبات رعایت کا عنصر نہیں پا سکتی۔‘‘

کسی عدالت میں ایسے حالات میں کوئی رعایت ملنے کا امکان نہیں ۔

’’ایسے حالات میں ان کی سزاسوائے اس کے کیا ہوسکتی تھی جو دی گئی۔ ظاہر ہے کہ امکانی طور پر صرف تین سزائیں ہی دی جا سکتی تھیں۔ اول مدینہ میں ہی قید یانظر بندی۔ دوسرے جلاوطنی جیسا کہ بنوقینقاع اور بنونضیر کے معاملہ میں ہوا تھا۔ تیسرے جنگجو آدمیوں کا قتل اور باقیوں کی قید یانظر بندی۔ اب انصاف کے ساتھ غور کرو کہ اس زمانہ کے حالات کے ماتحت مسلمانوں کے لیے کون سا طریق کھلا تھا۔ ایک دشمن قوم کا اپنے شہر میں قید رکھنا اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل بیرون از سوال تھا کیونکہ اول تو قید کے ساتھ ہی قیدیوں کی رہائش اور خوراک کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی تھی جس کے برداشت کرنے کی ان میں ہرگز طاقت نہیں تھی۔ دوسرے اس زمانہ میں کوئی جیل خانے وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور قیدیوں کے متعلق یہی دستور تھا کہ وہ فاتح قوم کے آدمیوں میں تقسیم کر دئے جاتے تھے جہاں وہ عملاً بالکل آزاد رہتے تھے۔ ایسے حالات میں ایک پرلے درجہ کے معاند اور سازشی گروہ کا مدینہ میں رہنا اپنے اندر نہایت خطرناک احتمالات رکھتا تھا اور اگر بنوقریظہ پر یہ فیصلہ جاری کیا جاتا تو یقیناً اس کے معنے یہ ہوتے کہ فتنہ انگیزی اور مفسدہ پردازی اور شرارت اور خفیہ ساز باز کے لیے تو ان کو وہی آزادی حاصل رہتی جو پہلے تھی البتہ ان کے اخراجات کی ذمہ داری مسلمانوں پر آجاتی۔ یعنی پہلے اگر وہ اپنا کھاتے تھے اور مسلمانوں کاگلا کاٹتے تھے ‘‘ تو آئندہ اگر ان کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ یہاں شہر میں رہیں’’ تو آئندہ وہ کھاتے بھی مسلمانوں کا ‘‘اگر قیدی بنا لیا جاتا تو مسلمانوں کا کھاتے اور’’(جن کے پاس اس وقت اپنے کھانے کے لیے بھی نہیں تھا) اور گلا بھی مسلمانوں کا کاٹتے۔‘‘ سازشیں تو انہوں نے کرنی ہی تھیں۔ ’’اور مسلمانوں کے گھروں میں اور ان کے ساتھ مخلوط ہوکر رہنے سہنے کی وجہ سے جو دوسرے خطرات ہو سکتے تھے وہ مزید برآں تھے۔‘‘

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اندریں حالات میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند شخص یہ رائے رکھ سکتا ہے کہ بنوقریظہ کویہ سزا دی جاسکتی تھی‘‘ کہ ان کو وہاں رکھا جائے۔

’’اب رہی دوسری سزا یعنی جلا وطنی۔ سو یہ سزا بے شک اس زمانہ کے لحاظ سے دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے ایک عمدہ طریق سمجھی جاتی تھی مگر بنونضیر کی جلاوطنی کا تجربہ بتاتا تھا کہ کم از کم جہاں تک یہود کاتعلق تھا یہ طریق کسی صورت میں پہلے طریق سے کم خطرناک نہیں تھا۔ یعنی یہود کو مدینہ سے باہر نکل جانے کی اجازت دے دینا سوائے اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا کہ نہ صرف یہ کہ عملی اور جنگجو معاندینِ اسلام کی تعداد میں اضافہ ہو جائے بلکہ دشمنان اسلام کی صف میں ایسے لوگ جا ملیں جو اپنی خطرناک اشتعال انگیز ی اور معاندانہ پراپیگنڈا اور خفیہ اور سازشی کارروائیوں کی وجہ سے ہر مخالف اسلام تحریک کے لیڈر بننے کے لیے بے چین تھے۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ یہود کے سارے قبائل میں سے بنوقریظہ اپنی عداوت میں بڑھے ہوئے تھے۔ پس یقینا ًبنوقریظہ کی جلاوطنی اس سے بہت زیادہ خطرات کا موجب ہو سکتی تھی جو بنونضیر نے غزوہ احزاب کو برپا کر کے مسلمانوں کے لیے پیدا کیے اور اگر مسلمان ایسا کرتے تو اس زمانہ کے حالات کے ماتحت ان کا یہ فعل ہرگز خود کشی سے کم نہ ہوتا۔ مگر کیا دنیا کے پردے پر کوئی ایسی قوم ہے جو دشمن کوزندہ رکھنے کے لیے آپ خود کشی پر آمادہ ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں تو یقیناً مسلمان بھی اس وجہ سے زیر الزام نہیں سمجھے جا سکتے کہ انہوں نے بنوقریظہ کو زندہ رکھنے کے لیے خود کشی کیوں نہیں کی۔

پس یہ ہر دوسزائیں ناممکن تھیں اور ان میں سے کسی کو اختیار کرنا اپنے آپ کو یقینی تباہی میں ڈالنا تھا۔ اور ان دو سزاؤں کو چھوڑ کر صرف وہی رستہ کھلا تھا جواختیار کیا گیا۔

بے شک اپنی ذات میں سعدؓ کا فیصلہ ایک سخت فیصلہ تھا اور فطرت انسانی بظاہر اس سے ایک صدمہ محسوس کرتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر کوئی اور راستہ کھلا تھا جسے اختیار کیا جاتا۔

جب ایک سرجن اپنے کسی بیمار کاجس کے لیے وہ اس قسم کا آپریشن ضروری خیال کرے ہاتھ کاٹ دیتا ہے یاٹانگ جدا کردیتا ہے یا کسی اور عضو کو جسم سے علیحدہ کردینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ہر شریف انسان کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا یعنی اگرحالات کی مجبوری اسے ضروری قرار نہ دیتی تواچھا تھا مگر حالات کی مجبوری کے سامنے جھکنا پڑتا ہے بلکہ ایسے حالات میں سرجن کایہ فعل قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے کہ اس نے تھوڑے یاکم قیمتی حصہ کی قربانی سے زیادہ قیمتی چیز کو بچا لیا۔ اسی طرح بنوقریظہ کے متعلق سعدؓ کا فیصلہ گو اپنی ذات میں سخت تھا مگر وہ حالات کی مجبوری کا ایک لازمی نتیجہ تھا جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مارگولیس جیسا مؤرخ بھی جو ہرگز اسلام کے دوستوں میں سے نہیں ہے اس موقعہ پر اس اعتراف پر مجبور ہوا ہے کہ سعدؓ کافیصلہ حالات کی مجبوری پر مبنی تھا جس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ مسٹر مارگولیس صاحب لکھتے ہیں کہ:۔

’’غزوہ احزاب کاحملہ جس کے متعلق محمدؐ صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ محض خدائی تصرفات کے ماتحت پسپا ہوا وہ بنونضیر ہی کی اشتعال انگیز کوششوں کا نتیجہ تھا یا کم از کم یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور بنونضیر وہ تھے جنہیں محمدؐ صاحب نے صرف جلاوطن کر دینے پر اکتفا کی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا محمد ؐ صاحب بنوقریظہ کو بھی جلاوطن کر کے اپنے خلاف اشتعال انگیز کوششیں کرنے والوں کی تعداد اورطاقت میں اضافہ کر دیں ؟ دوسری طرف وہ قوم مدینہ میں بھی نہیں رہنے دی جاسکتی تھی جس نے اس طرح برملا طور پر حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا جلاوطن کرنا غیر محفوظ تھا مگر ان کا مدینہ میں رہنا بھی کم خطرناک نہ تھا۔ پس اس فیصلہ کے بغیرچارہ نہ تھا کہ ان کے قتل کا حکم دیا جاتا۔ ‘‘یہ مارگولیس صاحب کہتے ہیں۔

’’پھر یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ مدنظر رکھنی چاہیے کہ بنوقریظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف حلیف اور معاہدہی نہیں تھے بلکہ وہ اپنے ابتدائی معاہدہ کی رو سے مدینہ میں آپ کی حکومت کوتسلیم کرچکے تھے یاکم از کم آپ کی سوؤرینیٹی [Sovereignty]کو انہوں نے قبول کیا تھا۔ پس ان کی حیثیت صرف ایک غدار حلیف یا معمولی دشمن کی نہیں تھی بلکہ وہ یقیناً باغی بھی تھے اور باغی بھی نہایت خطرناک قسم کے باغی۔ اور باغی کی سزا خصوصاً جنگ کے ایام میں سوائے قتل کے کوئی اور نہیں سمجھی گئی۔

اگر باغی کو بھی انتہائی سزا نہ دی جاوے تو نظام حکومت بالکل ٹوٹ جاتا ہے اور شریر اور مفسدہ پرداز لوگوں کو ایسی جرأت حاصل ہو جاتی ہے جو امنِ عامہ اور رفاہ ِعام کے لیے سخت مہلک ثابت ہوتی ہے اور یقینا ًایسے حالات میں باغی پر رحم کرنا دراصل ملک پر اور ملک کے امن پسند لوگوں پرظلم کے ہم معنی ہوتا ہے۔

چنانچہ تمام متمدن حکومتیں اس وقت تک ایسے باغیوں کو خواہ وہ مرد ہوں یا عورت،قتل کی سزا دیتی چلی آئی ہیں اور کسی عقلمند انسان نے کبھی ان پر اعتراض نہیں کیا۔ پس

سعدؓ کا فیصلہ بالکل منصفانہ اور عدل وانصاف کے قواعد کے بالکل مطابق تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ اپنے عہد کے اس فیصلہ کے متعلق رحم کے پہلو کو کام میں نہیں لاسکتے تھے سوائے افراد کے اوراس کے لیے آپ نے ہر ممکن کوشش کی۔‘‘

یعنی اِکَّا دُکَّا جو افراد تھے اگر وہ معافی مانگتے تو کر سکتے تھے لیکن قوم کو معاف نہیں کر سکتے تھے کیونکہ حضرت سعدؓ سے انہوں نے پہلے وعدہ لے لیا تھا ’’مگر معلوم ہوتاہے کہ یہود نے اس شرم سے کہ انہوں نے آپ کوجج ماننے سے انکار کردیا تھا آپ کی طرف رحم کی اپیل کی صورت میں زیادہ رجوع نہیں کیا۔ اور ظاہر ہے کہ بغیر اپیل ہونے کے آپ رحم نہیں کرسکتے تھے کیونکہ جو باغی اپنے جرم پر ندامت کا اظہار بھی نہیں کرتا اسے خود بخود چھوڑ دینا سیاسی طور پر نہایت خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

ایک اور بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ جو معاہدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان ابتدا میں ہوا تھا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر یہود کے متعلق کوئی امر قابلِ تصفیہ پیدا ہو گا تو اس کا فیصلہ خود انہیں کی شریعت کے ماتحت کیا جائے گا۔

چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس معاہدہ کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہود کے متعلق شریعت موسوی کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے۔ اب ہم تورات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں اس قسم کے جرم کی سزا جس کے مرتکب بنوقریظہ ہوئے بعینہ وہی لکھی ہوئی پاتے ہیں جو سعد بن معاذ نے بنوقریظہ پر جاری کی۔

چنانچہ بائیبل میں یہ خدائی حکم درج ہے کہ:۔

’’اور جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لیے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لیے کھول دے تو ساری خلق جو اس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تواس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دیوے تو وہاں کے ہرایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہواس کا سارا لوٹ اپنے لیے لے۔‘‘

(استثناء باب 20 آیت 10تا15)

یہودی شریعت کا یہ حکم محض ایک کاغذی حکم نہیں تھا جس پر کبھی عمل نہ کیا گیا ہو بلکہ بنواسرائیل کا ہمیشہ اسی پر عمل رہا ہے اوریہودی قضیے ہمیشہ اسی اصل کے ماتحت تصفیہ پاتے رہے ہیں۔ چنانچہ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:۔

’’اور انہوں نے( یعنی بنواسرائیل نے) مدیانیوں سے لڑائی کی جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا اور سارے مردوں کو قتل کیا۔ اور انہوں نے ان مقتولوں کے سوا عِوِّیؔ اور رَقَمؔ اور صُورؔ اور حُورؔ اور رِبَعؔ کو جو مدیان کے پانچ بادشاہ تھے جان سے مارا اور بِعُور کے بیٹے بَلْعَام کو بھی تلوار سے قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مواشی اور بھیڑ بکری اور مال واسباب سب لوٹ لیا … اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر انسان اور حیوان لیے اور وے قیدی اور غنیمت اور لوٹ موسیٰ اور اَلْیَعْزَر کاہن اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت کے پاس خیمہ گاہ میں مواب کے میدانوں میں یَرْدَنْ کے کنارے جو یَرِیْحُو کے مقابل ہے، لائے۔‘‘

(گنتی باب 31 آیت 7 تا 12۔ پاکستان بائبل سوسائٹی اردو بازار لاہور)

حضرت مسیح ناصری کو( جو وہ بھی بنو اسرائیل میں سے ہی تھے) گو اپنی زندگی میں حکومت نصیب نہیں ہوئی اور نہ جنگ وجدال کے موقعے پیش آئے جن میں ان کا طریقِ عمل ظاہر ہوسکتا مگر ان کے بعض فقروں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شریر اور بدباطن دشمنوں کےمتعلق ان کے کیا خیالات تھے۔‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ’’چنانچہ اپنے دشمنوں کومخاطب کرکے حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:۔

’’اے سانپو! سانپوں کے بچو! تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے؟‘‘

(متی باب 23 آیت33)

یعنی اے لوگو !تم زہریلے سانپوں کی طرح بن کر ہلاک کیے جانے کے قابل ہوگئے ہو لیکن مجھے یہ طاقت حاصل نہیں ہے کہ تمہیں سزادوں مگرتم خدا سے ڈرو اور جہنم کی سزا کا ہی خیال کرکے اپنی بدکرداریوں اور شرارتوں سے باز آجاؤ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیحؑ کے متبعین کودنیا میں طاقت حاصل ہوئی تو انہوں نے حضرت مسیح کی اس تعلیم کے ماتحت کہ شریر اور بدکردار دشمن سانپوں اور بچھوؤں کی طرح ہلاک کیے جانے کے قابل ہیں جسے بھی بدکردار اور شریر سمجھا اور اپنے ارادوں میں رخنہ انداز پایا اسے ہلاک کرنے میں دریغ نہیں کیا۔‘‘ یہ نظر آ رہا ہے ہمیں۔ ’’ چنانچہ مسیحی اقوام کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ

سعدؓ کافیصلہ گو اپنی ذات میں سخت سمجھا جائے مگر وہ ہرگز عدل وانصاف کے خلاف نہیں تھا اور یقینا ًیہود کے جرم کی نوعیت اور مسلمانوں کی حفاظت کا سوال دونوں اسی کے مقتضی تھے کہ یہی فیصلہ ہوتا اور پھر یہ فیصلہ بھی یہودی شریعت کے عین مطابق تھا بلکہ اس ابتدائی معاہدہ کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ اس کی روسے مسلمان اس بات کے پابند تھے کہ یہود کے متعلق انہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں مگر جو کچھ بھی تھا یہ فیصلہ سعدؓ بن معاذ کا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا اور سعدؓ پر ہی اس کی پہلی اور آخری ذمہ داری عائد ہوتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بحیثیت صدر حکومت کے اس سے صرف اس قدر تھا کہ آپ اس فیصلہ کواپنی حکومت کے انتظام کے ماتحت جاری فرماویں۔ اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ نے اسے ایسے رنگ میں جاری فرمایا جو موجودہ زمانہ کی مہذب سے مہذب اور رحم دل سے رحم دل حکومت کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 605 تا 613)

پس یہ ہے جواب آجکل کے ان معترضین کا، ان لوگوں کا جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض ہمارے اپنے لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں میں بھی سوال اٹھتے ہیں کہ کیوں بنو قریظہ کو قتل کیا گیا، اس کا جواز بنا کر اب بعض سوال اٹھانے والے یہ بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ جو فلسطینیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے وہ بھی اس لحاظ سے جائز ہے حالانکہ اس کی اس وقت جو حالت ہے اس کی تو اُن حالات سے اور آجکل کے حالات سے نسبت ہی کوئی نہیں اور جو بدلے لیے جا رہے ہیں اور پھر عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کیا جا رہا ہے۔ بہرحال یہ سب قصور بھی مسلمانوں کا ہی ہے جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے اسلام کی ساکھ ختم کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ نومبر ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button