اللہ تعاليٰ کا ذکر ايسي شئے ہے جو قلوب کو اطمينان عطا کرتا ہے
قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعاليٰ کا ذکر ايسي شئے ہے جو قلوب کو اطمينان عطا کرتا ہے جیسا کہ فرمايا۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (الرعد:۲۹)۔پس جہاں تک ممکن ہو ذکر الٰہي کرتا رہے اسي سے اطمينان حاصل ہو گا۔ ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے۔ اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر يہ اطمينان نصيب نہيں ہوسکتا…مومن جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرکے استقامت اور صبر کا نمونہ دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس پر مہر بانی کرتا ہے اور اسے وہ ذوق شوق اور معرفت عطا کرتا ہے جس کا وہ طالب ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۷صفحہ ۳۱۲-۳۱۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی ہستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں۔ دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے، کھڑے اور پہلو پر پڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکر اور تدبّر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خداوند تو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بیہودہ طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہریک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے کہ جو تیری ذات بابرکات پر دلالت کرتی ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۳۰۶،۳۰۵ حاشیہ نمبر ۱۱)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نثار
اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟
اُسے دے چکے مال و جاں بار بار
ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار
لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے
وہی پاک جاتے ہیں اِس خاک سے
(در ثمین صفحہ ۱۶)