ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ پنجم)
’’ہمارے گلہ بان، ہمارے رہبر‘‘
دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران، میری ملاقات گھانا کے ایک احمدی مسلمان، ابو بکر بن سعید (بعمر۴۸ سال) سے ہوئی جو میلواکی(Milwaukee) میں رہتے تھے اور جماعت امریکہ کی نیشنل مجلس عاملہ کے رکن تھے۔جب دیگر احباب کھانے کے ہال میں دوپہر کا کھانا کھانے میں مصروف تھے، ہم چند منٹ کے لیے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ گئے۔ حضور کے گھانا میں قیام کے دوران ابو بکر بن سعید صاحب اُس وقت کم عمر لڑکے تھے اور انہوں نے حضور کے ساتھ گزرے ہوئے کئی یادگار لمحات و واقعات میرے ساتھ شیئر کیے۔
گھانا میں حضور کے ساتھ گزرے بچپن کی یادیں بیان کرتے ہوئے ابو بکر بن سعید صاحب نے کہاکہ حضور کی عاجزی بے مثال تھی۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے فرد تھے، لیکن کبھی بھی برتری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس، وہ ہمیشہ عاجزی اختیار کرتے اور افریقی عوام کے ساتھ بڑی عزت اور احترام سے پیش آتے۔ جب بھی عبد الوہاب بن آدم صاحب مرحوم (سابق امیر جماعت احمدیہ گھانا) تشریف لاتے حضور انہیں اپنے کمرے میں ٹھہراتے۔ وہ مرحوم کے آنے سے پہلے خود کمرہ صاف کرتے اور ہر چیز کو تیار کرتے تھے۔
ابو بکر بن سعید صاحب نے خوداپنے ساتھ حضور انور کی شفقت اور خیال رکھنے کے ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ بچپن میں مَیں اسکول سے گھر واپس آ رہا تھا جب حضور نے مجھے دیکھا اور نوٹ کیا کہ میں اپنے گھر کی سمت نہیں جا رہا۔ انہوں نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں؟ تو میں نے بتایا کہ میں اپنے دوست کا حال معلوم کرنے جا رہا ہوں جو اس دن سکول نہیں آیا تھا۔ حضور اس بات سے بہت خوش ہوئے کہ میں (دوست کا حال دریافت کرنے کی خاطر) یہ کوشش کر رہا ہوں۔ حضور نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور میرے دوست کے گھر لے گئے اور پھر بڑے تحمل سے باہر انتظار کرتے رہے پھر مجھے اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلایا۔ اس کے بعدحضور مجھے عصر کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد لے گئے۔ یہ تھا حضور کا افریقی عوام کے لیے محبت کا طریقہ اور جس طرح انہوں نے ہمیں جماعت کے قریب کیا۔
ابو بکر بن سعید صاحب نے مزید بتایا کہ جب حضور کو خلیفۃ المسیح منتخب کیا گیا تو وہ اپنی والدہ کے پاس گئے ۔انہیں بھی گھانا میں حضور کے قیام کا وقت یاد تھا۔جب ان کی والدہ کو حضورِ انور کے خلیفۃالمسیح منتخب ہونے کا بتایا گیا تو وہ حیران ہو گئیں کیونکہ گھانا میں قیام کے دوران انہیں حضور کی شرمیلی اور خاموش طبیعت یاد تھی۔ وہ افریقہ کے دنوں سے حضور کو ’مسرور‘کے نام سے جانتی تھیں، انہوں نے مجھے کہا کہ مسرور تو بہت خاموش اور کم گو ہیں۔ لیکن اب برسوں بعد دنیا بھر میں حضور کے خطابات دیکھنے کے بعد وہ حیرت سے کہتی ہیں کہ کیا یہ وہی شخص ہیں؟اور اسے خلافت کی سچائی کی ایک نشانی سمجھتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خلیفۃ المسیح منتخب ہونے کے بعد بھی حضور نے گھانا کے دنوں کے تعلقات کو نہیں بھلایا۔انہوں نے بتایا کہ اپنے مصروف شیڈیول اور بھاری ذمہ داریوں کے باوجودحضور نے ہمیں کبھی نہیں بھلایا۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۸ء میں جب حضور امریکہ تشریف لائےتو میں نے ملاقات کے لیے درخواست نہیں دی کیونکہ میں دوسروں کو ملاقات کا موقع دینا چاہتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد حضور نے خود مجھے ملاقات کے لیے بلایا اور پوچھا کہ میں کیوں ان سے ملنے نہیں آیا۔ پھرپچھلے سال جب میں لندن میں حضور سے ملا تو انہوں نے مجھ سے میری صحت کے بارے میں دریافت فرمایا کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ میرا وزن کچھ کم ہو گیا ہے۔ ہمارے خلیفہ کتنے خاص اور کتنے خیال رکھنے والے ہیں۔
خلافت کی محبت اور شفقت کے ان ذاتی تجربات کو یاد کرتے ہوئے ابو بکر بن سعید صاحب جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہر خطبے میں حضور ہمیں نماز کی اہمیت بتاتے ہیں کہ یہ ہماری سب سے بنیادی ذمہ داری ہے۔ پھر بھی جب میں اپنی مقامی مسجد میں فجر کی نماز کے لیے جاتا ہوں تو زیادہ تر دنوں میں فجر کی نماز میں صرف دو یا تین افراد ہی ہوتے ہیں۔ ہم احمدیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چُنا ہے اور خلیفہ وقت کو ہمارے راہنما اور گلہ بان (shepherd) کے طور پر چُنا ہے۔ حضور انور اللہ تعالیٰ کے شیر ہیں۔ وہ ہمارے کپتان ہیں اور اگر ہم ان کے ساتھ نہ چلیں تو ہم نقصان اٹھائیں گے اور ہماری جگہ دوسرے لوگ آگے آ جائیں گے۔ چنانچہ جب بھی مجھے حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا ہے تومیں اللہ کے حضور روتے ہو ئے دعا مانگتا ہوں کہ وہ مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب ابو بکر بن سعید صاحب کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا اور بالآخر ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئےیہ چند لمحے انتہائی جذباتی اور متاثر کن تھے۔(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: معدنی وسائل کی کثرت کے بارے میں قرآن مجید کی پیشگوئی