الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

اظہار عقیدت

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں ذاتی مشاہدات کے حوالے سے خلفائے کرام اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی سیرت اختصار سے بیان فرمائی ہے۔

آپ بیان کرتی ہیں کہ حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو محسوس کیا کہ یہ نرگس کا پھول ہے جو اپنے اندرایک خاص خو شبو رچائے ہوئے اپنی موجودگی منوا لیتا ہے۔ ایک بارمیرے بچوں نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ آپؓ کی طبیعت ان دنوں کافی ناساز تھی اس لیے مجھے پوچھنے میں جھجک محسوس ہورہی تھی مگرجب میں نے اس خواہش کااظہار کیا تو آپؓ نے باکمال مہربانی مجھے اجازت دے دی۔ جب میںبچوں کے ساتھ ملاقات کے لیے گئی توفوراً اندر بلا لیا۔ بچوں سے ہاتھ ملایا ان کے نام پوچھے اورکوائف دریافت کیے۔ میری بیٹی کوکہنے لگیں’’یہ تم پر گئی ہے انشاء اللہ ڈاکٹر بنے گی۔‘‘بیٹے سے پوچھا کہ تم بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ فوج میں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ فوج والے تو ہماری قدر نہیں کرتے، ہمیں برا جانتے ہیں وہاں کیا جانا!میرے بیٹے نے کہا کہ ہو سکتا ہے جب مَیں بڑا ہوں تب تک حالات تبدیل ہو جائیں۔ فرمایا:’’خدا کرے۔‘‘ سب بچوں کو ٹافیاں دیںاور دعا دے کر رخصت کیا۔ بچے آج تک ا ن کے شفیق ہاتھوں کے مصافحہ کا لمس محسوس کر کے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج تک ہم نے ایسے ہاتھ کبھی نہیں چھوئے۔

حیا اور پاکیزگی کا بہت خیال تھا۔ بیماری میںجب بھی مَیں انہیں دیکھنے گئی اشد مجبوری کی حالت کے علاوہ کبھی معائنہ کے لیے راضی نہ ہوتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ نرس کے طور پر صرف حلیم کو لایا کرو، نرس بدل کر ساتھ نہ لانا ۔ اسی شرم اور حجاب کی وجہ سے آخری دم تک لیڈی ڈاکٹر بھی بدلنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔

دوسروں کی تکلیف کابہت احساس تھا۔ مجھے فرمایا کرتی تھیں کہ ’’ایسے وقت مجھے دیکھنے آئو جب دوسرے مریضوں کا حرج نہ ہواور کسی زچگی کی مریضہ کو چھوڑ کر نہ آنا۔‘‘ جب بھی مَیں جاتی تو دریافت فرماتیں کہ ’’زیادہ مریض تو نہیں تھے؟ مریضوں کو میری وجہ سے تکلیف نہ ہو، فرصت کے وقت دیکھنے آنا۔‘‘کبھی مجھے جلدی ہوتی تو بھانپ جاتیںاور کہتیں کہ لگتا ہے کافی مریض چھوڑ کر آئی ہو؟ اگرمَیں بتاتی کہ کوئی زیادہ بیمار ہے تو اگلی بار اس کاحال ضرور دریافت فرماتیں۔

قبولیتِ دعا کے کئی نشان آپؓ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ میرے بھائی عزیزم حشمت کو مقعد کا کینسر تھا۔ مَیں نے آپؓ سے دعا کی درخواست کی تو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:’’فکر نہ کرو بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘مجھے معالج ہونے کی حیثیت سے زیادہ ڈرتھا۔ مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ آپؓ کی بات سچ نکلی۔ اس کا ایک ایسا آپریشن کیا گیا تھا جس میں اجابت کی جگہ بند کر کے پیٹ پر مصنوعی اجابت کی جگہ بنا دی گئی تھی اور ڈاکٹروں نے کہاتھا کہ یہ مستقل یہاں پیٹ پرہی رہے گی۔ لیکن پھر خدا تعالیٰ کے خاص فضل، آپؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دعاؤں کا یہ معجزانہ اثر ہواکہ دس سال بعد آپریشن کرکے اصل اجابت کی جگہ کھول دی گئی۔ سبحان اللہ، الحمدللہ

میرا بھائی عزیزم نعمت بےروزگاری کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ ہم نے آپؓ سے دعا کے لیے درخواست کی تو آپؓ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا:’’اسے بہت اچھی نوکری مل جائے گی انشاءاللہ۔ لیکن اسے کہنا کہ دل لگا کر نوکری کرے۔ چھوڑے نہ۔‘‘

۱۵؍جولائی ۱۹۶۵ء کو فضل عمر ہسپتال میںمیرا ڈیوٹی کا پہلا دن تھا۔ شام کو مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ حضورؓکے ایک طرف چھوٹی آپا مریم صدیقہ تھیں اور دوسری طرف مہر آپا۔ حضورؓبے چین ہوکر کراہ رہے تھے۔ چھوٹی آپانے فرمایا کہ حضور!یخنی کا ایک آدھ گھونٹ پی لیں۔ مگر آپؓ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ مَیں نے بھی عرض کیا کہ حضور ایک دو چمچ لے لیں۔ آپؓ نے آنکھیں کھول کر استفہامیہ دیکھا توچھوٹی آپا نے بتلایا کہ یہ فضلِ عمر ہسپتال میں ڈاکٹر فہمیدہ آئی ہیں۔ فرمایا: ’’لیڈی ڈاکٹر صاحبہ آگئی ہیں۔ الحمدللہ الحمدللہ۔‘‘ پھر حضورؓ نے عاجزہ کی درخواست منظور فرمائی اوریخنی پینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ دونوں خواتینِ مبارکہ نے ایک ایک چمچ آپؓ کے منہ میں ڈالا۔پھرآپؓ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور باقی یخنی نہیں پی۔

حضرت چھوٹی آپا صاحبہ ہمارا آئیڈیل تھیں۔ایک سائبان کی طرح ہمیں اپنے عمل سے بتاتیں کہ کس طرح سکون اور محنت سے ہمیںبھی اُن کی طرح ہمیشہ تازہ دم رہنا ہے۔ جب خاندانِ مسیح موعودؑمیں کوئی زچگی ہوتی توآپ زچہ کے ساتھ حاضر رہتیں، اُس کا خیال رکھتیںاور مجھے بھی بتلاتیں کہ زچہ کے ساتھ کیا سہولتیں برتنی چاہئیں۔

حضرت چھوٹی آپا بہت صابر تھیں۔ ایک دفعہ آپ کافی علیل تھیں۔ مَیں بھی ہسپتال سے چھٹی پر تھی ۔ آپ خود میرے پاس تشریف لائیں، ساتھ ایک لڑکی تھی۔ فرمایا:’’ایک مریضہ لائی ہوںاس کا علاج کرنا ہے۔‘‘ پھر اُس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو بتائو کیابیماری ہے۔ وہ خاموش رہی اورکہنا نہ مانا۔ چھوٹی آپانے ہر چند پیار سے کہا۔ پر وہ لڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ میرا صبر ختم ہو رہا تھا غصہ بھی آ رہا تھا۔ میں جزبز ہوتی رہی۔ بولیں:ہمارا فرض تھا کہ ہم کوشش کرکے اس کی تکلیف دُور کر دیں،ہمیں زبردستی کرنا جائز نہیں۔

جب مَیںربوہ گئی تھی تب میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز مَیں آپا منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے پاس گئی توحضورؒ بھی تشریف فرما تھے۔ حضورؒ نے فرمایا: ’’لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کی شادی کروائیں۔‘‘ آپا منصورہ بیگم صاحبہ نے مجھ سے ساری تفصیل پوچھی اور فرمایاکہ ’’میں دعا کروں گی۔‘‘ پھر اس حوالے سے رابطہ میں رہیںیہاں تک کہ میری شادی میرے ماموں زاد مکرم منیراحمد ملک صاحب سے ہو گئی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے بچوں کے ہاں سب بچوں کی پیدائش میرے ہاتھوں ہوئی اور بےشمار دعائیں سمیٹنے کا موقع ملا۔ ایک بار حضورؒ بی بی حلمی کے بچے کو دیکھنے تشریف لائے۔مَیں نے مبارکباد عرض کی تو ’’خیر مبارک‘‘ کہہ کر فرمایا: ’’منصورہ بیگم! لیڈی ڈاکٹر صاحبہ سخت تھکی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔‘‘ اور پھر جیب میں سے چاکلیٹس نکال کے سیدہ بیگم صاحبہ کو تھماتے ہوئے فرمایا:’’یہ ان کوکھلائو۔‘‘

حضرت منصورہ بیگم صاحبہ کو مَیں نے ہروقت شاداب اور مسکراتا دیکھا۔ آپ کو کبھی بہت زیادہ تیار ہوتے اور سجتے ہوئے نہیںدیکھا۔ آپ کی شخصیت بہت پُروقار، سنجیدہ اور بردبارتھی۔ جب بھی میںقصرِ خلافت جاتی توموسم کے مطابق شربت یا چائے سے تواضع کرتیں۔ اگر صبح جلدی چلی جاتی تو ناشتہ تیار ملتا۔ پردے کی انتہائی پابند تھیں، باہر جانے کے لیے چشمہ، دستانے، جرابیںہر وقت پہنتیں۔ ملازمین کے ساتھ مل کر صفائی کا تما م کام خود کرواتیں۔ حضورؒ کے تمام کام خود کرتیں نیز ہر جگہ ان کی معاونت بھی کرتیں۔

………٭………٭………٭………

حضرت صاحبزادی سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ عابدہ خان صاحبہ نے اپنے مضمون میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ آپ کی یاد آتے ہی دل میں ایک خوبصورت نفیس سے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ بچپن کا دَور تھا پھر بھی ایک کشش تھی جو مجھے آپ کی طرف لے جاتی تھی۔ چونکہ ہم محلہ دارالنصر میں رہتے تھے اور ہمارے گھر سے آپ کے گھر کا کافی فاصلہ ہوا کرتا تھااس لیے جب بھی اُدھر جانا ہوتا میری امی جان کی شدید خواہش ہوتی کہ آپ سے مِل لیا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم جب بھی جاتے دوتین خواتین پہلے سے ہی ملاقات کے لیے بیٹھی ہوتیں۔ آپ سب کو بہت محبت سے ملتی تھیں اور ہمیشہ موسم کے مطابق مہمانوں کی تواضع کرتیں۔اکثرخواتین اپنے مسئلے مسائل بھی بتایا کرتیں،آپ سب کی باتیں سنتیں اور ساتھ ہی اُن کا حل بھی بتاتیں۔ ہماری امی جان بھی دعا کی درخواست کرتیں۔ اگر گھر کی کوئی پریشانی یا خاندان میں کوئی مسئلہ ہوتا تو ہمیشہ آپ کو دعا کے لیے کہا کرتی تھیں۔ آپ امی کو تسلی دیتیں اور ایسا لگتا جیسے اسی وقت دعا کرنے لگ گئی ہوں۔ جب میرے امتحان قریب ہوتے تو امی مجھے بھی کہتیں کہ آپا جان کودعا کے لیے کہو۔ ملاقات کے وقت مَیں خاموشی سے آپ کو دیکھے جاتی۔ فرشتوں جیسا نُور آپ کے چہرہ پر ہوتا۔ آپ بہت خوش لباس بھی تھیں۔ آج جبکہ مَیں خود ایک گھریلو خاتون ہوں سوچتی ہوں کہ اگر کوئی اچانک آجائے تو کبھی کبھی ہم اپنی مصروفیات کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ مہمان اطلاع دے کر آئے مگر آپ کا وجود ایسا پیارا تھا کہ چاہے کوئی ضروری کام کر رہی ہوتیں یا آرام کر رہی ہوتیں جب بھی کوئی آتا تو نہایت خوش دِلی سے ملتیں۔

آپ لمبے عرصے تک ربوہ کی صدر رہیں۔ اس دوران جس محنت اوربے پناہ لگن سے کام کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ اکثر حلقوں میں دورہ کیا کرتیں تو تمام لجنہ و ناصرات آپ کو دیکھنے اور مصافحہ کرنے کے لیے بے چین ہو جاتیں۔ آپ مُسکراتی جاتیں اور سب آپ سے مصافحہ کرتے۔ ہم چونکہ چھوٹی ناصرات تھیں اس لیے ہم بار بار آپ سے مصافحہ کرلیتے۔ گویا ایک پیاس تھی جو بجھتی نہ تھی۔ پھر آپ تشریف فرما ہوتیں اور بہت پُر اثر انداز میں تقریر فرماتیں۔ تقریر زبانی کیا کرتیںاور اپنی تقریروں میں ہمیشہ لجنہ و ناصرات کی تربیت پر زور دیتیں اور دعا کی تحریک کرتیں۔

جب خاکسار حلقہ کی لجنہ کی جنرل سیکرٹری تھی تو آپ کے گھر پر ہونے والی میٹنگز میں بارہا شامل ہوئی۔ ربوہ کی شدید گرمی میں آپ کا گھر کسی جنت سے کم نہیں تھا۔ وسیع و عریض ہال میں سب جمع ہوتے، ٹھنڈے مشروب سے مہمانوں کی خاطر کی جاتی، رپورٹیں جمع کی جاتیں۔ مسائل پیش ہوتے۔ بعض لوگ لمبی بات کرتے لیکن آپ ہر ایک کی بات بہت غور سے سنتیں اور مسئلہ کاحل نکالتیں۔ ہر وقت خواتین کی تربیت اور بہتری کی فکر میں رہتیں۔ اُن دنوں نصرت سکول میں سالانہ مشاعرہ اور گیمز وغیرہ میںبھی آپ کو بطورمہمان خصوصی مدعو کیا جاتا۔ آپ خوش دلی سے دعوت قبول کرتیں اور تشریف لاکر بہت عمدہ نصائح فرماتیں۔ ایک دفعہ فرمایا:تم سب کودعاکی عادت ہونی چاہیے اور جو بھی مانگنا ہو ہمیشہ اللہ سے مانگو۔

………٭………٭………٭………

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کا درج ذیل منظوم کلام شامل اشاعت ہے:

میری سادگی دیکھ کیا چاہتی ہوں
تجھی سے تجھے مانگنا چاہتی ہوں
چھپاؤں مَیں کیوں راز الفت کا اپنی
مَیں بابِ محبت کھلا چاہتی ہوں
میرے سازِ دل کو نہ چھیڑو ، نہ چھیڑو
مَیں اِک نغمۂ نو بھرا چاہتی ہوں
محبت بھی ، رحمت بھی ،بخشش بھی تیری
مَیں ہر آن تیری رضا چاہتی ہوں
اطاعت میں اس کی سبھی کچھ ہی کھو کر
مَیں مالک کا بس آسرا چاہتی ہوں
میرے خانۂ دل میں بس تُو ہی تُو ہو
مَیں رحمت کی تیری رِدا چاہتی ہوں

مزید پڑھیں: غالب کون ہوگا۔ اشتراکیت یا اسلام؟(قسط ۵۷)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button