ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۸۵)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

مصلح کی صفات

’’خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنی سے سنے یا بد ظنی سے،مگر میں کہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے۔ اُسے چاہیے کہ پہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے۔دیکھو یہ سورج جو روشن ہے پہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے۔میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلم نے یہی تعلیم دی ہے۔لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہےلیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہوگیا ہے۔پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی اصلاح کرے اور خیر خواہی کرے۔وہ اس کو اپنی اصلاح سے شروع کرے۔قدیم زمانہ کے رشی اور اوتار جنگلوں اور بنوں میں جا کر اپنی اصلاح کیوں کرتے تھے۔وہ آج کل کے لیکچراروں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جب تک خود عمل نہ کر لیتے تھے۔یہی خد اتعالیٰ کے قُرب اور محبت کی راہ ہے۔جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پرنالہ کے پانی کی طرح ہے۔جو جھگڑے پیدا کرتا ہے اور جو نورِ معرفت اور عمل سے بھر کر بولتاہے وہ بارش کی طرح ہے جو رحمت سمجھی جاتی ہے۔اس وقت میری نصیحت یاد رکھیں۔آج کے بعد آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں گے اور میں نہیں جانتاکہ پھر موقعہ ہو یا نہ ہو،لیکن ان تفرقوں کو مٹانے کی کوشش کرو۔میری نسبت خواہ آپ کا کچھ ہی خیال ہو لیکن یہ سمجھ کر کہ ؎

مرد باید کہ گیرد اندر گوش
در نوشت است پند بر دیوار

میری نصیحت پر عمل کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد ۲۱۰-۲۱۱،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعر شیخ سعدی کاہے جو کہ گلستان سعدی کے دوسرے باب کے اندر ایک حکایت میں اس طرح آیا ہے۔

مکمل شعر اور حکایت :ایک فقیہہ نے اپنے والد سے کہا واعظوں کی ان رنگین باتوں کا میرے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں ان کا عمل قول کےمطابق نہیں دیکھتاہوں۔دنیا کو ترکِ دنیا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ خود چاندی اور غلہ جمع کرتے ہیں۔ جس عالم کا صرف کہنا ہی کہنا ہو وہ جو کچھ کہے گا اس کا اثر کسی پر نہ ہوگا۔عالم تو وہ ہے جو برے کام نہ کرے۔نہ یہ کہ مخلوق کو کہتا رہےاور خود عمل نہ کرے۔اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ۔کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنی ذاتوں کو بھولتے ہو۔وہ عالم جو عیش وتن پروری کرے۔ وہ تو خود ہی گمراہ ہے کسی کی کیا راہنمائی کرے گا۔

باپ نے کہا اے بیٹے! محض اس باطل خیا ل کی وجہ سے نصیحت کرنے والوں کی تربیت سے روگردانی نہ کرنی چاہیے۔اور علماء کو گمراہی کی طرف منسوب کرنا اور معصوم عالم کی تلاش میں علم کے فوائد سے محروم رہنا اس اندھے کی طرح ہے کہ جو ایک رات کیچڑ میں پھنس گیا تھا۔اور کہہ رہا تھا اے مسلمانوں!میرے راستہ میں ایک چراغ رکھ دو۔ایک خوش مزاح عورت نےسنا اور کہا۔جب تجھے چراغ ہی نظر نہیں آتا تو چراغ سے کیا دیکھے گا ؟اسی طرح وعظ کی مجلس بزّاز کی دکان کی طرح ہے۔وہاں جب تک نقد نہ دوگے سامان نہیں لے سکتے ہو۔اور اس مجلسِ وعظ میں جب تک عقیدت سے نہ آؤگے کوئی نیک بختی نہ حاصل کرسکو گے۔عالم کی بات دل سے سنو اگرچہ اس کا عمل قول کی مانند نہ ہو۔

مَرْد بَایَدْ کِہْ گِیْرَدْ اَنْدَرْ گُوْش
گَرْ نَوِشْت اَسْت پَنْد بَرْ دِیْوَار

ترجمہ:انسان کو چاہیے کہ کان میں ڈال لے اگرچہ نصیحت دیوار پر لکھی ہو۔

ایک صاحبِ دل درویشوں کی صحبت کے عہد کو توڑ کر خانقاہ سے مدرسہ میں آگیا۔میں نے دریافت کیا عالم اور عابد میں کیا فرق ہے کہ تم نے اس فریق کو چھوڑ کر اس فریق کو پسند کیا۔اس نے کہا وہ اپنی گدڑی موج سے بچا کر لے جاتاہے اور یہ کوشش کرتاہے کہ ڈوبنے والے کی دستگیری کرے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: سالِ رواں میں ہمارا نصب العین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button