بطورواقفِ زندگی ہماری ذمہ داریاں
تقریر بر موقع جلسہ سالانہ برکینا فاسو۲۰۲۴ء شبینہ اجلاس (اردو)
’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے‘‘(حضرت اقدس مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ لَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَبِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَاَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔(الانعام:۱۶۳-۱۶۴)تُو کہہ دے کہ میری ساری عبادتیں، اور ساری قربانیاں میری زندگی اورمیری موت تمام جہانوں کے ربّ کی خاطر وقف ہے۔ وہی رب جو ہر قسم کے شراکت داروں سے پاک ہے۔ ہاں مجھے تو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں ہی اول درجے کا فرمانبردار، مطیع اور اطاعت گزار ہوں۔
ہمارے آج کے شبینہ اجلاس کے لیے’’ بطو رواقف زندگی ہماری ذمہ داریاں ‘‘ کےموضوع کا انتخاب ایک ایسا مضمون ہے جو بہت وسیع ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جائیں گی۔اس موضوع کا مقصد ہم سب واقفین زندگی کے لیے ایک یاددہانی ہے۔ مجھے تو لگا کہ میری ہی تربیت کے لیے یہ ذمہ داری مجھ ناتواں پر ڈالی گئی ہے اس لیے جو چند باتیں اس مضمون میں بیان ہوں گی ان کا اوّل مخاطب عاجز اپنے آپ کو اور اپنی فیملی کو سمجھتا ہے۔
واقفین زندگی کی فہرست دیکھیں تو اس گروہ عاشقان کے سرخیل، رہبر عالم، وجہ تخلیق کائنات، سید ولد آدم،محبوب خدا، سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰﷺ تھے۔ فداہ ابی و امی۔ بلکہ ذرا پیچھے نظر دوڑائیں تو آپ کے آباء و اجداد بھی اسی راہ کے سالکین نظر آتے ہیں:اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔(البقرہ:۱۳۲)کہ جب ابراہیم سے اس کے ربّ نے کہا کہ جھک جا اور اطاعت کر۔ تو اس نے عاجزی اور انکساری سے عرض کیا اے میرے پیارے میں تو پہلے ہی جہانوں کے رب کے لیے سرتسلیمِ خم ہوں۔
یہ بیان کوئی عام دعویٰ نہیں بلکہ ایک چنیدہ اور برگزیدہ بندے کی زبان سے اداہونے والا ایک ایسا اقرار صحیح تھا جس کے ساتھ دل و دماغ اور روح کی پاتال تک ہر ذرہ ہستی خم تھا۔
یہ کوئی معمولی وقف اور عام اطاعت کی بات نہیں تھی۔ اعلیٰ پائے کی اطاعت، غیر معمولی اور لا متناہی قربانی اور اس کے ساتھ جڑا ہوا بے انتہا اجر وابستہ تھا۔تاہم اجر اور خطابات تو قربانیوں کے بغیر نہیں مل جایا کرتے اس لیے اس خاندان کےلیے بھی آزمائشوں کا ایک طویل دور شروع ہونے والا تھا۔
نوّے سالہ بوڑھے کو اپنی بڑھاپے کی اولاد کی گردن پر چھری پھیرنے کامرحلہ درپیش تھاجوباپ بیٹے نے اس قدر دلی اطاعت سے طے کرنے کی ٹھان لی کہ ایسا کرنے سے قبل ہی قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا (الصٰفٰت:۱۰۶)کی صدا آگئی۔ لیکن عشق کے امتحان تو ابھی باقی تھے۔ اگلےمرحلہ میں حکم خدا وندی کےتحت اپنے لخت جگر کو اپنے سے علیحدہ تو کر دیا لیکن اس موقع پر کی جانے والی دعا میں بیٹے کی جدائی کاکرب بحیثیت باپ واضح محسوس کیا جاسکتا ہے:رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ۔(ابراہیم:۳۸)
ایسا کرتے ہوئے آپؑ نے اپنے خاندان کو وادی بےآب و گیاہ میں یعنی جہاں نہ کھانے کا سامان نہ زندہ رہنے کا امکان موجود ہو، چھوڑکر ایک اور ذبح عظیم کی تیاری کی بنیادیں رکھ دیں۔کوئی دنیوی سہارا موجود نہیں۔مگر ہاں توکل اپنے اعلیٰ ترین مقام پر فائز اور اطاعت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔یقین کی دیواریں اس قدر بلند تھیں کہ کوئی شیطانی وسوسہ انہیں عبور کر کے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتا تھا۔
عہدِ وقف نبھانے کی داستانوں میں ذکر تو اسی کا قائم رہے گا اور رکھے جانے کے قابل سمجھا جائے گا جو اخیر تک وفا کرے گا جو اپنی جان مال عزت اور عزیز ترین چیز یعنی اولاد کی گردن پر چھری پھیرنے کے لیے نہ صرف زبانی بلکہ دل کی گہرائیوں تک عملاً تیار ہو گا۔پھر اسی کاحق ہے کہ وفا داری کا تمغہ ہمیشہ کے لیے اس کے نام کر دیا جائے۔ وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی۔(النجم:۳۸) جی ہاں اسی ابراہیم کا ذکر ہے جو وفاداری کی معراج پر قائم تھا۔
یہی وہ ارفع مقام تھا جہاں سے اگلی منزل کا پتا ملتا ہے اور عرش الٰہی کے پائے چھونے تک بات پہنچتی ہے۔ پھر ان واقفین زندگی کو ایک اور عظیم الشان خطاب اور سند امتیاز ان قربانیوں کے بدلےمیں عطا ہو تی ہے۔وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا۔ (النساء:۱۲۶)
ابراہیم کی وفاداریوں اور جان و مال و اولاد کی قربانیاں اس قدر عظیم الشان اور خالص تھیں کہ ان کا انعام خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خالص دوست کہہ کر پکارتے ہوئے دیا۔کیونکہ ان قربانیوں میں ریا کی ملونی شامل تھی نہ چاپلوسی کی چاشنی۔ کسی دنیوی فائدے کاحصول مد نظر تھا نہ کسی کو نیچا دکھانا مقصود۔محض خالصۃًَ للہ کی گئی قربانی تھی۔جذبہ و صدق و وفا کے ساتھ حسن نیت سے کی گئی قربانی۔
ایسی ہی قربانی کے جذبہ سے سرشارہوں توسنگلاخ زمینوں پر رگڑی ہوئی ایڑیوں کے دامن سے بھی زم زم کے وہ چشمے پھوٹتے ہیں جو ابدالآباد تک خشک نہیں ہوتے۔ ایسے ہی سالکین کا ہر آنے والا دن وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی۔ (الضحیٰ:۵) کی گواہی دینے والا بن جاتا ہے۔ اور کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍکے نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ پھرخدا کے یہ محبوب بندےدلی اطمینان کے ساتھ ہر مشکل برداشت کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں:
ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار
وقف کی ایک بڑی قسم قرآن مجید میں یوں بیان ہوئی ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَاللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ۔ (البقرہ:۲۰۸)
لوگوں میں سے وہ افراد کتنے خوش نصیب ہیں جو اللہ کی رضا کی خاطراپنی جانیں بیچ دیتے ہیں۔اللہ ایسے وجودوں کے ساتھ بہت ہی رأفت اورنرمی کا سلوک روا رکھتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں ایسے تمام افراد جو اس خوشخبری کے تحت آتے ہیں۔
مگریہ خوش نصیبی مکمل اطاعت کےساتھ ہی تو مشروط ہے اور بغیر کسی طمع،لالچ،ریاکاری اور دنیوی فائدے کے خوش دلی سے کی جانے والی مکمل اطاعت ایک کار گراں ہے۔ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنا شاید آسان ہو لیکن اطاعت کرنا مشکل ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جہاں ہوائے نفس کے موٹاپے کے ساتھ گزرا نہیں جا سکتا۔ ایک فربہ آدمی اس دروازے میں داخل نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو۔ اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے۔ مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے مؤحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے…یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے۔ اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں۔ مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں…اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتاہے۔ اس میں یہی تو سرّ ہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۳۱۸ – ۳۱۹ زیر آیت سورۃ النساء :۶۰)
اپنی ذات میں کامل اطاعت کے نمونے قائم کرنے کے بعد ایک اور قدم اپنے زیر نگیں افراد کی تعلیم و تربیت اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدﷺ نے یہ فرما کر کل کم راع و کل کم مسٔول عن رئیتہ (بخاری حدیث نمبر۸۹۳ )کہ تم میں سے ہر فرداپنے اپنے معاملات کا نگران ہے اور اس سےاس کے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائےگی۔آپﷺ نے یہ فرماکر کس خوبصورتی سے ہر ایک کا دائرہ کار مقرر فرما دیا ہے۔ خاتون خانہ سے لے کر زندگی کے ہر شعبہ میں کسی بھی جگہ کام کرنے والے کو اپنے دائرے میں مصروف عمل رہنے اور اپنی حدود سے باہر نکل کر دوسروں کے دائرہ کار، اختیارات اور فرائض میں دخل اندازی نہ کرنے کی انمول نصیحت فرمادی۔
یہاں یہ بات غورطلب ہے کہ ہر نگران کو اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے متعلق پوچھا جائےگا۔ ہر کوئی اس امر اور اس ذمہ داری کا نگران ہےجس کا وہ کفیل بنایا گیا۔ تاہم جب ایک فرد اپنے دائرہ کار سے نکل کر اپنے ماتحت افراد کے معاملات کو سلجھانے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بجائے اپنے نگرانوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائے گا تو نظام میں خرابی بھی پیداہوگی اور انفرادی اور اجتماعی ترقی میں رکاوٹیں بھی آئیں گی۔ جن واقفین نے اس سادہ مگر اہم اصول کو سمجھ لیا وہ خود بھی سہولت میں رہے جماعتی ترقی کا باعث بھی بنے۔لیکن اس کےمخالف سمت چلنے والے ذاتی، انفرادی اور اجتماعی سکون کی بربادی کا باعث ضرور بنتے ہیں۔
انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے شکایت پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ایسی صورت بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں محسوس ہو کہ ہمارے حقوق کی حفاظت نہیں ہو رہی۔ان حالات میں رسول کریمﷺ کا ارشاد نہ صرف ہم سب کے لیے سہارا اور مشعل راہ ہے بلکہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے لا تعداد سوالات اور وساوس کا کافی و شافی جواب بھی ہے۔
فرمایا:’’عنقریب ایسے حالات ہوں گے جب تم دیکھو گے کہ تمہارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی اور تمہارے حقوق نہیں دیے جائیں گے اور تم ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم ناپسند کرو گے۔‘‘
صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ایسے وقت میں آپ ہمیں کیا طریق اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جو تمہارا حق ہے، وہ ادا کرو۔اور اپنا حق جو تمہارے حکمرانوں سےتمہیں نہیں ملتا، میں اللہ سے مانگو۔ ’’إِنَّھَا سَتَکُوْنَ بَعْدِي أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا يَا رَسُولَ اللّٰه ِکَیْفَ تَأْمُرُنَا مَنْ أدْرَکَ مِنَّا ذَلِکَ؟ قَالَ تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ، وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ‘‘ (صحیح مسلم: ۱۸۴۳)
پھر فرمایایاد رکھو ’’جس نے اپنے امیر اورحاکم میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اسے چاہیے کہ صبر کرے، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہوا اور مر گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘(صحیح بخاری: ۷۰۵۴، صحیح مسلم: ۱۸۴۹)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی جاہلیت کی روحانی اور جسمانی موت سے بچائے رکھے اور کسی بھی حالت میں کسی ایک واقف زندگی پر کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ وہ ایک انچ بھی اطاعت کے اعلیٰ مقام سے ادھر ادھر ہٹنے والا ہو۔ کیونکہ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ۔ (الحجرات:۱۲)
جان و مال و عزت کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ فروخت کردینے کے بعد اس راہ میں آنے والی مشکلات کی حیثیت ایک خشک تنکے کی بھی نہیں ہے۔ ہاںمگر اپنے رب کے حضور یہ التجا تو رہنی چاہیے۔ رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ (آل عمران:۹)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص کسی کی شکایت لے کر آ گیا۔ آ پؑ نے فرمایا:’’کیا تم نے اس کے لیے چالیس دن تک دعا کی ہے؟‘‘
کتنا خوب صور ت جواب اور اصلاح نفس کی طرف توجہ کرنے والی راہنمائی ہے۔ اگر اس زمانے کے نبی کی اس ایک بات پر ہی دل و جان سے عمل ہو جائے تو معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔
ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہمارے سامنے ایسے بزرگان کے نمونے موجود ہیں جنہوں نے محض للہ عشق اور اطاعت و وفا کی ایسی عظیم الشان داستانیں رقم کی ہیں جو رہتی دنیا تک گروہ عاشقاں کے لیے مشعل راہ بنی رہیں گی۔
حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو عشق اور محبت کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھا اسے ہر وہ احمدی جس نے آپؓ کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھا ہو یا سنا ہو جانتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محض للہ عقدِاخوت اور محبت کی کوئی مثال اگر دی جا سکتی ہے تو وہ حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے۔ اقرارِ اطاعت کرنے کے بعد اگر اس کے انتہائی معیاری نمونے دکھا کر اس پر قائم رہنے کی مثال کوئی دی جا سکتی ہے تو وہ حضرت مولانا نورالدینؓ کی ہے۔ تمام دنیوی رشتوں سے بڑھ کر بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رشتہ جوڑا تو اس کی اعلیٰ ترین مثال حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ہے۔ خادمانہ حالت کا بیمثال نمونہ اگر کسی نے قائم کیا تو وہ حضرت حکیم الامّت مولانا نورالدینؓ نے قائم کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے عجز و انکسار میں اگر ہمیں کوئی انتہائی اعلیٰ مقام پر نظر آتا ہے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کا بھی اعلیٰ معیار حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے قائم کیا اور پھر امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وہ اعزاز پایا جو کسی اور کو نہ مل سکا۔ آپ علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارے میں فرمایا کہ ’’چہ خوش بُودے اگر ہر یک زِ اُمّت نورِ دیں بودے‘‘۔ (نشانِ آسمانی روحانی خزائن جلد ۴صفحہ۴۱۱)(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۳؍نومبر۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍دسمبر ۲۰۲۴ء)
کیا ہی خوش قسمتی کی بات ہوگی اگر اس امت کا ہر فرد نورالدین بن جائے۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں جب تک ہر ایک دل یقین کے نور سے بھر نہ جائے۔
واقفین زندگی کی صفات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واقفین زندگی کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ یعنی وہ
۱۔ ’’نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں‘‘۔
۲۔ ’’ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو‘‘۔
۳۔ ’’قناعت شعار ہونا بھی ایک مبلغ اور مربی کے لیے ضروری ہے‘‘۔
۴۔ ’’اگر ہماری منشاء کے مطابق قناعت شعار نہ ہوں، تب تک پورے اختیار بھی نہیں دے سکتے‘‘۔فرمایا کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزارہ کر لیتے تھے‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۵۸)
واقفین زندگی بطور مشیر
واقفین زندگی کی اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امام وقت کے دست راست، مشیر اور سلطان نصیر ہیں۔ اس صف میں واقفین زندگی صف اول میں شمار ہوتے ہیں:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’زندہ جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اس کے کام کو سنبھالنے والے پیدا ہوں۔ اور کثرت سے ہوں۔افراد مر جاتے ہیں لیکن وہ جماعتیں جن کی یہ حالت ہو کہ ان میں تربیت یافتہ افراد پیدا ہوتے رہیں نہیں مرا کرتیں۔ یہی روح ہے جو کسی جماعت میں مسلسل چلنی چاہیے۔اس کے دو ذرائع ہیں۔ایک وہ ہوں جو علم میں کامل ہوں وہ علمی مشورہ دیں۔ ہر دقیق مسئلہ اور مشکل معاملہ پر غور کریں اور استنباط کرکے بہتر رائے دیں۔ ایک وہ ہوں جو عمل کریں اور کام کو خوبصورتی سے انجام دیں۔یاد رکھو کہ مشورہ کی یہی غرض نہیں ہوتی کہ جو مشورہ لیتا ہے وہ مشورہ کا محتاج ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتیں وہ دوسروں سے پوچھتا ہے۔ لیکن اکثر یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ جن سے مشورہ لیا جاتا ہے ان کو سکھانا منظور ہوتا ہے کہ ان میں قابلیت پیدا ہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۱۱؍فروری ۱۹۲۱ءالفضل انٹرنیشنل ۱۱ جنوری ۲۰۲۴ء)
واقفین زندگی صف اول کے مجاہدین ہیں
مسجد مبارک ربوہ کے سنگ بنیاد کے موقع پر حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کےصحابہ اور ان کے بعد واقفین زندگی کو جگہ دی۔ ایسا کرتےہوئے آپ نے اپنے عمل سے جماعت کو یہ واضح کر دیا کہ واقفین زندگی کا مقام اور ان کی اہمیت کیا ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہم میں موجو دنہیں رہے۔ا ب صف اول کے مجاہدین واقفین زندگی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو جو درجہ عطا فرمایا ہے وہ غیر معمولی ہے۔
فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَفَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔(النساء:۹۶)
یقیناً اللہ تعالیٰ نےمجاہدین کو قاعدین پر یعنی پیچھے رہ جانے والے اور بیٹھے رہنے والوں پر بہت زیادہ فضیلت عطا فرمائی ہے۔اور مجاہدین کو اجر عظیم عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
آج ہم سب واقفین زندگی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سےنہ کسی ذاتی خوبی اور مہارت کی وجہ سے میدان عمل میں ہونے کے سبب مجاہدین کی صف اول میں کھڑے ہیں۔
یاد رہےکہ خطابات اور مراتب مفت میں یونہی نہیں مل جایا کرتے۔ صحابہ کرام کو رضی اللہ عنہم کا خطاب کسی قربانی کے بغیر تو نہیں مل گیا تھا۔ جان،مال،جذبات، وطن،تعلق داریاں، رشتہ داریاں، اولاد یں قربان کرنے کے بعد اور اخلاص و وفا اور اطاعت کے پتلےبننے کے بعد ہی یہ خطاب عطا ہوئے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’کیا صحابہ کرامؓ مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی، ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے، کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جاسکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اُس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر۴۷۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
سب سے بہتر نظام
آج ہم واقفین زندگی جماعتی نظام میں ایک بہت اہم حصہ ہیں۔ آج ہر شعبہ کے واقفین موجود ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہر شعبہ میں رائے سازی، خدمات، اور ترقی تنزلی کے بالواسطہ یا بلا واسطہ ہم ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔
دنیوی امور میں بھی سب سے بہترین نظام وہ ہوتا ہے جو خاموشی سے کام کرتا ہے۔ خاموشی اس بات کا مظہر ہے کہ ہر ایک کل پرزہ اپنے دائرے میں مصروف عمل ہے۔ اور مجموعی طو رپر اجتماعی زندگی کو آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ جس جگہ جتنا زیادہ شور شرابہ ہو گا اسی قدر وہاں کا م میں بگاڑ،بے ترتیبی، ناچاقی، بےسکونی اور بےاطمینانی ہوگی۔ سائیکل، گاڑی یا کسی بھی گھریلو مشین کا ایک پرزہ جب دوسرے سے رگڑ کھانے لگتا ہے تو شور پیدا ہوتا ہے۔ اس شور کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ اور مرمت کروانا پڑتی ہے۔واقفین کی زندگی بھی کچھ اسی طرح سے عبارت ہے کہ جہاں ہر کوئی اپنا مفوضہ کام حسن نیت اور خوش اسلوبی سے کرتا جاتا ہے تو وہ اجتماعی زندگی کوبہتر کرنے اور جماعتی ترقیات کا باعث ہوتا ہے۔ شور شرابہ کرنے اور دوسرے سے رگڑ کھانے والے پرزے ہمیشہ مرمت چاہتے ہیں۔ جہاں ہمیں خود کسی دوسرے کے دائرہ عمل میں گھس کر معاملات کو خراب ہونے سے بچانا ہے وہاں من شر حاسد اذا حسد کی دعا کرتے ہوئے دوسروں کی دخل اندازی سے بچنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔
واقفین زندگی کی بیویاں
ایک اور اہم بات واقفین زندگی کی ازواج کے متعلق ہے۔واقف زندگی کی بیوی درحقیقت دین کی خدمت کا خاموش سپاہی ہوتی ہے۔ وہ اپنے صبر، قربانی اور اخلاص سے نہ صرف اپنے گھر کو جنت بناتی ہے بلکہ اپنے شوہر کے مشن کو مضبوطی عطا کرتی ہے۔ اس کا ہر عمل یہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے دنیا کی راحتوں پر دین کی خدمت کو فوقیت دی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’پس جس عظیم کام کے لیے اور جس عظیم مجاہدے کے لیے واقفینِ زندگی خاص طور پر مبلغین اور مربیان نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، ان کی بیویوں کا بھی کام ہے کہ اس کام میں، اس مجاہدے میں ان کی معاون بنیں۔ ایک مبلغ اور مربی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ مدرسہ احمدیہ کے اجراء کے وقت آپ نے فرمایاکہ ’’یہ مدرسہ اشاعتِ اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمتِ دین کو اختیار کریں، جو عربی اور دینیات میں توغل رکھتے ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۶۱۸) (خطبہ جمعہ ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
افریقہ میں خدمت کا اعزاز
ہم خوش قسمت ہیں کہ آج یہاں افریقہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔پاکستان میں ہر قسم کی پابندیوں کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے یہاں ہر قسم کی آزادی سے نوازاہے۔وہاں دشمن مساجد کو گرانے اور سیل کرنے میں کوشاں ہے تو یہاں اللہ تعالیٰ ہر روز نئی مساجد عطا فرمارہا ہے۔وہاں جلسوں پر پابندی لگا کر دشمن بظاہر خوش ہے تو یہاں خدا تعالیٰ نے ہر ملک میں ہزاروں سعید روحوں کے لیے جلسو ں میں شامل ہو کر اپنی عملی اور روحانی پیاس بجھانے کے سامان کر دیے ہیں۔پاکستان کے مقابل اللہ تعالیٰ نےآج جماعت کے لیے افریقہ میں راہیں کھول دی ہیں اور ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ارض بلال پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ہم اس سرزمین اور اہل افریقہ کے قرض دار ہیں۔ یہی وہ سر زمین ہے جس نے سب سے پہلے ہمار ے آقا و مولیٰﷺ کے صحابہ کو پناہ دی۔ اور شاہ حبشہ نے عرب تاجروں سے مرعوب ہوئے بغیر، مظلوموں کا ساتھ دیا۔ انصاف پسندی، صلح جوئی اور شرافت کی مثال قائم کرتے ہوئے حکم دیا کہ یہ مہاجر مسلمان جب تک چاہیں یہاں امن سے رہ سکتے اور اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:’’خدا نے ان افریقن ممالک کو احمدیت کےلیے محفوظ رکھا ہوا ہے اور اسلام کی ترقی کے ساتھ ان کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ہمارا مستقبل افریقہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ افریقن ممالک میں دس پندرہ کروڑ کی آبادی ہے۔ جو انہی حالات سے گزر رہی ہے جن میں رسول کریمﷺ کی بعثت کے وقت عرب گزر رہا تھا۔ وہ خشک لکڑیاں ہیں یا سوکھے ہوئے پتوں کے ڈھیر ہیں۔ جو میلوں میل مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر ضرورت ان ہاتھوں کی ہے جو دیا سلائی لیں اور ان خشک لکڑیوں اور پتوں کے ڈھیر کو جلا کر راکھ کر دیں۔ ایسی راکھ جو دنیا کی نظر میں تو راکھ ہوگی لیکن خد اتعالیٰ کی نظر میں تریاق۔ جو ایسے کیمیاوی مادے اپنےاندررکھتا ہو گا کہ نہ صرف ان لوگوں کی زندگی کا باعث ہوگا بلکہ ساری دنیا کو زندہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گا‘‘۔(زریں ہدایات برائے مبلغین جلد ۲ صفحہ ۲۶۹)
برکینا فاسو میں خدمت کا اعزاز
افریقہ میں برکینا فاسو کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقام عطا فرمایا ہے۔ بے شمار باتوں میں برکینا فاسو کو ایسے اعزازات حاصل ہیں جو کسی اور ملک کے حصے میں نہیں آئے۔
خلفاء احمدیت کی نظر میں یہ سرزمین ایک خاص مقام رکھتی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے جماعتی ریڈیو اسٹیشن لگانے کی خواہش کا اظہار بڑی شدت سے فرمایا۔ ا س کے لیے آپؒ نے مختلف ممالک میں ریڈیو لگانے کی ممکنا ت کا جائزہ لیا اور خطبہ جمعہ میں بتایا کہ ریڈیو لگانے کے لیے مناسب علاقہ مغربی افریقہ ہے۔ ا ُس وقت برکینا فاسو میں جماعت کا نام و نشان نہ تھا۔ پھر خدا کے اس چنیدہ بندے کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ نے حقیقت کا روپ دھارا او رعالم احمدیت کاپہلا ریڈیو اسٹیشن مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں لگا۔
بستان مہدی کے متعلق حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا ارشاد
جب بستان مہدی کی زمین کی خریداری کے لیے منظوری کی درخواست کی گئی تو فرمایا’’ منظور ہے۔ اللہ مبارک کرے۔ خرید لیں۔ غانا جانے والی سٹرک پر واقع ہے۔ یہ تو بہت اچھا ہے۔ اس کا میری ایک رؤیا سے تعلق معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (خط از ایڈیشنل وکالت تبشیر لندن۹۔فروری ۲۰۰۰ء)
بستان مہدی کی اس زمین کے لیے جس میں آج ہم بیٹھ کر ہر لمحہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بے شمار نظارے دیکھ رہے ہیں۔ جس میں مہدی دوراں کے مشن کی تکمیل کے لیے ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ جہاں جسمانی بینائی کے ساتھ ساتھ روحانی بصیرت تیز کرنے کے بھی سامان جمع ہو چکے ہیں۔یہ وہی زمین ہے ہم اور آج یہاں ہزاروں افراد جمع ہو کر صداقت حضرت مسیح موعودؑ کی گواہی دے رہے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ برکینا فاسو ۲۰۰۴ءسے واپسی پر امیر جماعت احمدیہ برکینافاسو کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:برکینا (فاسو) کے لوگ حقیقتاً بڑے عظیم لوگ ہیں۔
جامعۃ المبشرین برکینا فاسو کی پہلی تقریب تقسیم اسناد کے موقع پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اپنا پیغام عنایت فرمایا۔اس پیغام کا ایک ایک فقرہ مبلغین کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس میں ایک فقرہ یہ بھی رقم فرمایا:’’ آپ لوگوں کو یہ خاص اعزاز بھی حاصل ہےکہ آپ اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں جو خصوصاً فرنچ بولنے والی اقوام کے لیے بنا ہے۔ یہ نہ صرف فرنچ زبان بولنے والے ممالک کے افراد جماعت کے لیے بلکہ عالم احمدیت کے ہر فرد کے لیےباعث فخر ہوگا۔‘‘
برکینا فاسو میں عالم احمدیت کا پہلا ریڈیو اسٹیشن، پہلا ماڈل ولیج پراجیکٹ، پہلا ایم ٹی اے اسٹیشن۔جہاں سے نشریات آن ایئر ہوتی رہی ہیں۔ کسی بھی ذیلی تنظیم کی طرف سے پہلا میڈیکل پراجیکٹ مسرور آئی انسٹی ٹیوٹ برکینا فاسو میں، پہلا فرنچ جامعۃ المبشرین برکینا فاسو میں۔ اور سب سے بڑھ کر مہدی آباد کے وہ جوانمرد شہداء جنہوں نے اسقامت کے پہاڑ ہونا ثابت کر دیا۔ اور مقام شہادت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ آج احمدیت کے ان چمکتے ستاروں کے ایمان کی مثال خلیفہ وقت دے رہے ہیں اور تمام دنیا کے احمدیوں کو اپنے ایمان کو اس بلندی پر پہنچانے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ہم سب واقعی خوش نصیب ہیں کہ یہاں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔
خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وقف بھی اسی طرح قبول فرما لے جس طرح حضرت مریمؑ کو بشارت عطا کی تھی۔ فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّاَنۡۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا۔ (آل عمران:۳۸) کہ اس کے خدا نے اس کے وقف کو احسن طور پر قبول فرما لیا۔ اور اس میں سے نیکیوں اور اعمال حسنہ کے سر سبز و شاداب پھل دارروحانی پودے اگادیے۔
(چودھری نعیم احمد باجوہ۔ پرنسپل جامعۃ المبشرین برکینافاسو)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: غلبۂ اسلام کی ایک عظیم پیشگوئی