ویلنٹائن ڈے کا پس منظر اور اس کی حقیقت
ویلنٹائن ڈے جس کا مرکزی خیال محبت کا اظہار ہے۔ یہ تہوار جسے ہرسال بالخصوص یورپ اور امریکہ میں ۱۴؍فروری کو منایا جاتا ہے، اس کی ابتدا ایک رومی تہوار لوپرکالیا سے ہوئی جسے تیسری صدی میں ۱۵؍فروری کو روم میں قدیم رومی باشندے لوپرکالیا منایا کرتے تھے۔ کچھ لوگ اس تہوار کوزر خیزی کا جشن قرار دیتے تھے تو کچھ اس دن کوشادی کی دیوی(یونودیوی) کی وجہ سے مقدس جانتےتھے۔ اُس زمانے میں رومیوں میں بت پرستی عام تھی۔ روم کا بادشاہ کلاڈیئس گوتھ دوم (Claudis Goth II) بھی بت پرست تھا۔ ویلنٹائن کی موت کے بعد سے رومن کیتھولک چرچ نےاس دن کو سینٹ ویلنٹائن کے دن سے منانا شروع کردیا ہے۔ اس دن کےحوالے سے بیان کی جانے والی متعدد داستانوں میں سے دو کو اس مضمون میں شامل کیا جاتا ہے۔
”اس کی تاریخ مسیحی راہب ویلنٹائن سے یوں جُڑی ہے کہ جب رومی بادشاہ کلاڈیئس دومکوجنگ کےلیے لشکر تیار کرنے میں مشکل پیش آئی تو بادشاہ نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا، بادشاہ کو جب علم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل و عیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی ۔لیکن اس مسیحی پادری ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ طورپر شادی کرلی بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور۱۴ ؍ فروری کو اسےاس جرم کی پاداش میں پھانسی دے دی۔“
https://www.bbc.co.uk/religion/religions/christianity/saints/valentine.shtml
دوسری کہانی یہ ہے کہ ویلنٹائن، شہنشاہ کے شادی پرپابندی لگانے والے قدم کو غیرمنصفانہ سمجھتا تھا۔ اس نے بادشاہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ شادی کی۔ جب کلاڈئیس کواس بات کاعلم ہوا تو اس نے اسے جیل میں ڈال دیا اور اسے موت کی سزاسنائی۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ ویلنٹائن کوعیسائیوں کی مدد کرنےکی کوشش پر قتل کیا گیا تھا جن کےساتھ شہنشاہ کلاڈیئس دوم کے دَورِحکومت میں رومی جیلوں سے فرار ہونے پر برا سلوک کیا جارہا تھا… سینٹ کی ان فلاحی سرگرمیوں کاعلم جب بادشاہ کو ہوا تواس نےاسے شاہی عدالت میں پیش ہونےکوکہا اور اس سے پوچھاکہ وہ شہنشاہ کےدشمنوں کادوست کیوں ہے؟ سینٹ ویلنٹائن نے جواب دیا میرے آقا! اگرآپ کوخدا کاتحفہ معلوم ہوتا، توآپ اپنی سلطنت کےساتھ خوش ہوتے اور بتوں کی پرستش کورد کرتے اور سچے خدا اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کی عبادت کرتے…آخر کاربادشاہ نے ویلنٹائن کو ۱۴؍فروری ۲۶۹ء عیسوی میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
محبت کے دن کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے کیا نسبت تھی ؟اس حوالے سے مؤرخین لکھتے ہیں کہ ویلنٹائن نے اپنی قید کے دنوں میں جیلر کی اندھی بیٹی کی آنکھوں کو شفا بخشی تھی اور پھانسی سے پہلے اس نے اپنے الوداعی خط میں لڑکی کے لیے جو عبارت لکھی اس میں لکھا تھا ”تمہارا ویلنٹائن“ جو اس کی خاموش محبت کی ایک علامت تھی ۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ طریقہ محبت بعدمیں رواج پاگیا، یہی وجہ ہے کہ ویلنٹائن کی موت کے بعد ۱۴؍فروری کے دن کومحبت کے اظہار کے طور پر منایا جانے لگا۔ ایک مسیحی طبقہ ویلنٹائن کی شادی کی مخالفت کرتا ہوا بھی نظرآتاہے، اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پادری اور ننزمسیح علیہ السلام کی جگہ پر خدمت کرتے ہیں ان کےمشن کو چلا رہے ہیں، مسیحؑ نےشادی نہیں کی تھی اس لیے ان کی مذہبی تعلیمات کی بنا پر پادری اور ننز شادی نہیں کرسکتے۔ https://www.catholic.com
اٹھارھویں صدی سےلوگوں نےایک دوسرےکی تقلیدمیں اس دن کومنانےکی طرف زیادہ توجہ کی ہے۔ مثلاً دل کی طرز پرتہنیتی کارڈز ڈیزائن کیے جاتے ہیں، تحائف بھی اسی طرز کے گفٹ بیگ میں دیے جاتے ہیں، پارٹیاں منعقدکی جاتی ہیں، شادی شدہ جوڑے اور نوجوان نسل اس دن کا انتظارشدت سےکرتی ہے۔تحائف میں مقبول ترین تحفہ سرخ رنگ کا گلاب ہےجو یورپ میں محبت کی علامت سمجھاجاتاہے۔ ۱۴؍فروری کوسُرخ رنگ کےگلاب کی مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے، امریکہ ،کینیڈا اور یورپین ممالک میں خاص طورپربرطانیہ میں ہزاروں ٹن گلاب کےسرخ پھول کینیا اوردوسرے گرم ممالک سےدرآمدکیےجاتےہیں ۔روم سے شروع ہونےوالی یہ رسم یاتہوار اب تو تقریباًدنیا بھر کےممالک میں سرکاری یاغیر سرکاری طورپرمنایا جاتا ہے۔مسلمان ملکوں میں بھی مغربی تہذیب کی دلدادہ نوجوان نسل اس دن سے متاثرہوتی ہوئی نظرآتی ہے۔
ویلنٹائن ڈے اور تعلیمی اداروں میں ڈانس پارٹیوں کا انعقاد، والدین کے لیے لمحۂ فکریہ
مرورِ زمانہ کےساتھ ویلنٹائن ڈے منانے کا انداز اورطریق بھی بدل رہاہے۔مغربی ممالک میں فروری کےمہینہ کےآغاز سےہی اسا تذہ چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں کے ذہنوں میں ویلنٹائن کے دن کی محبت ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ پرائمری کلاسز سے لیکر بارھویں کلاس تک کی عمرکےطلبا کو، اس تہوارکی مناسبت سے فلمیں دکھائی جاتی اور لیکچرز دیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اسکولوں کےجم میں ناچ گانےکی محافل سجائی جاتی ہیں جن میں طلبا اپنی مخالف صنف کےساتھ ناچتے اور گاتے ہیں۔ ایسی تقریبات کی تشہیر اسکولوں کے داخلی دروازوں، ہالز اور لائبریریوں میں پوسٹرز لگاکر کی جاتی ہے۔ والدین کوایسی تقریبات کااکثرعلم نہیں ہوتا۔ یہ ڈانس پارٹیاں دن بدن خاصی پذیرائی حاصل کررہی ہیں۔دراصل ویلنٹائن کادن ہو یاہیلووین جیسی رسم ،یہ سب اب نظام تعلیم کاحصہ بن چکےہیں۔ ان سےاجتناب اب ممکن نہیں۔احمدی مسلمان بچوں کوخوداس بدنظری اوران لغویات سے بچنا ہوگا۔ والدین کافرض ہےکہ وہ اپنےبچوں کو گاہے بگاہے ایسی تقریبات کے مضر اثرات سے مطلع کرتے رہیں۔ ایسی بے سود محافل سے بچنے کا بہترین حل یہ ہے کہ والدین اس خاص وقت میں بچوں کو گھر لے آئیں یا بچے اپنے استاد کو بتائیں کہ ہم نےاس ڈانس میں شامل نہیں ہونا اس کی بجائےہم لائبریری میں کتب بینی میں وقت گذاریں گے۔ خاکسارشعبہ ٔدرس وتدریس سےمنسلک ہونےکی وجہ سے ایسی پارٹیوں ،جشنوں اوران کےمہلک اثرات کی عینی شاہدہے۔ ہم نےجن امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کی ہےاللہ تعالیٰ نےان کو زمانے کا حکم اور عدل بناکر بھیجا ہے۔
آپؑ ہمیں ہرطرح کےفسق وفجورسےبچانے کےلیےآئےہیں ۔آپ علیہ السلام دوسری شرط بیعت میں فرماتے ہیں: یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیساہی جذبہ پیش آوے۔(اشتہارات تکمیل تبلیغ ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء)
شادی کرنا کوئی جرم نہیں بلکہ یہ تو ایک مقدس فریضہ ہے جس کاحکم اللہ تعالیٰ نے ہرمذہب کےماننےوالوں کو دیاہے ۔ شادی کیے بغیراکٹھےرہنا ،ناجائزاورخداکی ناراضگی کاموجب ہے۔ یہ ہرگزمحبت نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے،ایساگناہ جس سےمعاشرےمیں فساد پیداہوتا ہےاورطرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں۔یہ بات بھی یاد رہے کہ اگر مقصد نیک ہو تو ایسی صورت میں تحفہ تحائف دینے سے اسلام نےمنع نہیں کیا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مگر ویلنٹائن کے دن نوجوان نسل کا صرف دوسروں کی تقلید میں تحائف کے تبادلہ پر بے تحاشا پیسہ کا ضیاع سمجھ سے باہر ہے، صرف امریکہ ہی میں سال رواںمیں ۵.۲۷ بلین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ جو گذشتہ سال کی نسبت ۲ملین زیادہ ہیں۔ (https://nrf.com)
اوپربیان کی گئی داستانوں کواگردرست مان لیاجائے تو ان کےمطابق سینٹ ویلنٹائن کا جرم صرف یہ تھاکہ اس نےظالم بادشاہ کو خداکی توحید کا پیغام دیا اور اللہ تعالیٰ کےحکم کےمطابق شادی کی اور دوسروں کو بھی شادی کی تحریک کی۔ اس لحاظ سے تویہ بڑا احسن قدم تھا اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے کہ ویلنٹائن کے تمام پیروکار اور تمام دیوانے اور فرزانے اپنے پادری صاحب کی اطاعت ومحبت میں اُن کےنقش قدم پر چلتے ہوئے ہر سال ۱۴؍فروری کے دن بڑے اہتمام سے شادیاں کریں۔ شادی کی تقریب میں اپنی ہونے والی بیگمات کو سرخ گلابوں کے گلدستے مع کارڈز اور چاکلیٹس پیش کریں۔ اس صورت میں تویہ سب جائزہے۔ ورنہ سرخ گلاب کے پھول یہ نوجوان نسل اپنی مخالف صنف کو۱۴؍فروری کو دے یا ڈیٹنگ اور پرائم نائٹ پر یہ عمل صرف بے حیائیوں اور برائیوں کو فروغ دینے والا ہوگا۔
ہم اورہمارےاحمدی بچوں کویہ بات ہمیشہ یادرکھنی چاہیے کہ نہ ہم ویلنٹائن ڈےمناتے ہیں اورنہ ہی ہمارےمذہب میں فحاشی اوررسم ورواج کی اجازت ہے۔ہمارےنبی عظیم رسول کریمﷺنےفرمایاہے:مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ( سنن ابی داؤد۔حدیث4031) جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔
اسلام ہمیں ہرروز،ہرہرلمحہ پیارومحبت کادرس دیتاہے۔محبت توایک بڑاہی پاکیزہ لفظ ہے۔اللہ تعالیٰ سے محبت، اس کے محبوب رسول ؐسےمحبت، اللہ کی مخلوق سے محبت، مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفائے کرام سے محبت، والدین کی اپنے بچوں سے اور بچوں کی والدین سے محبت اور پھرمیاں بیوی کی ایک دوسرے کے لیے محبت، یہ ہے جائز اور پاکیزہ محبت۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بچوں کو ان محبتوں کی قدر کرنے والا بنائے۔ آمین۔؎
ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اےعزیز
عشق کی عزت ہے واجب عشق سےکھیلانہ کر
(کلام محمود)