خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ خیبر کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۴؍فروری ۲۰۲۵ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…غزوۂ خیبر میں حاصل ہونے والی فتوحات کا تذکرہ

٭…دو یہودیوں کنانہ اور ربیع کے قتل کے حوالے سے روایات کا بصیرت افروز محاکمہ

٭… آپؐ کی زندگی تو کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آپؐ تو جنگ سے پہلے یہ ہدایت دیتے کہ کسی بچے کسی عورت کو قتل نہ کرنا حتیٰ کہ کسی درخت کو بھی بےسبب نہ کاٹا جائے۔ جو جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے وہ انسانوں پر کیسے ظلم کر سکتے ہیں؟

٭…آپؐ جو عدل و انصاف کے پیکر اور علَم بردار تھے آپؐ سے اس طرح کا فعل منسوب کرنا کسی طرح قرینِ انصاف نہیں

٭… آپؐ نے ایک مٹھی کنکریوں کی لی اور اُن (یہود)پر پھینک دی۔ جس سے اُن کا قلعہ لرزنے لگا یہاں تک کہ مسلمانوں نے یہود کو پکڑ لیا

٭…مکرم ماسٹر منصور احمد صاحب کاہلوں آف آسٹریلیا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍فروری ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۴؍ تبلیغ ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۴؍فروری۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم دانیال تصوّرصاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

خیبر کی جنگ کا ذکر ہورہا تھا۔

اب خیبر کے دوسرے قلعے کی فتح کا ذکر کروں گا۔

یہ دوسرا قلعہ صعب بن معاذ کہلاتا ہے۔ اس قلعے میں خیبر کے باقی تمام قلعوں کی نسبت زیادہ کھانا ، جانور اور سازوسامان تھا،اس میں پانچ سَو جنگجو رہتے تھے۔ مسلمانوں نے اس قلعے کا محاصرہ کیے رکھا، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ صحابہؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شدّتِ بھوک کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جس سے مَیں آپ لوگوں کو تقویت بخشوں۔ پھر آپؐ نے یہ دعا کی کہ

اے اللہ! ان کے لیے فتح کردے جو کھانے اور چربی سے بھرا پڑا ہے۔

اس کے بعد کچھ صحابہؓ اور یہود کے درمیان مبارزت ہوئی جس میں ایک صحابی نے یہودی کے سر پر کاری ضرب لگائی اور قومی تفاخر کا نعرہ لگایا۔ اس پر صحابہؓ نے کہا کہ اس کا جہاد باطل ہوگیا یعنی قومی نعرہ لگا کر اس نے جو فخرکیا ہے اپنی بڑائی بیان کی ہے یہ درست نہیں۔ جب یہ بات رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپؐ نے فرمایا کوئی بات نہیں! اس کو اجر ملے گا اور اس کی تعریف بھی کی جائے گی۔ یعنی ایسے موقعے پر اگر کوئی ایسی بات کردی جائے تو کوئی بری بات نہیں۔

حضرت محمد بن مسلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپؐ تیر اندازی کر رہے تھے اور آپؐ کا ایک بھی نشانہ خطا نہیں گیا، اور آپؐ میری جانب دیکھ کر مسکرائے۔

حضرت حباب بن منذرؓ نے اپنے جوانوں کے ساتھ قلعے کے اندر داخل ہوکر سخت جنگ کی اور بالآخر اُسے فتح کرلیا، اور غلّے پر قبضہ کرلیا۔رسول اللہﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی کھلاؤ مگر اٹھا کر کچھ نہ لے جانا۔

اس کے بعد

تیسرے قلعے قلعہ زبیر کی فتح کا ذکر ہے۔

جب یہود قلعہ صعب اور ناعم سے نکل کر زبیر کے قلعے کی طرف بھاگے تو رسول اللہﷺ نے ان کا محاصرہ کیا۔ یہ قلعہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ آپؐ نے تین دن اس قلعے کا محاصرہ کیے رکھا اور کامیابی نہ ہوئی۔ ایک یہودی نے حاضر ہوکر امان دیے جانے کی شرط پر عرض کی کہ اگر آپ اس طرح ایک مہینہ بھی ان کا محاصرہ کیے رکھیں تو انہیں فرق نہیں پڑتا۔ ان کی زمین کے نیچے سُرنگیں ہیں، یہ رات کو نکلتے ہیں پانی لاتے ہیں اور اپنے اپنے قلعوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اگر آپ ان کے پانی کا رستہ کاٹ دیں تو یہ ہتھیار ڈال دیں گے۔ رسول اللہﷺ نے اُن کی پانی کی جگہ کاٹ دی۔جب پانی کا رستہ منقطع ہوگیا تو وہ باہر نکل آئے اور شدید قتال شروع ہوگیا۔ اس روز مسلمانوں میں سے کچھ صحابہ ؓشہید ہوگئے اور یہود میں سے دس آدمی قتل ہوئے اور آپؐ نے فتح حاصل کی۔

اس کے بعد رسول اللہﷺ شقّ کے قلعوں کی طرف تشریف لے گئے۔

یہاں یہودی سردار سلام بن مشکم کے مارے جانے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ یہ بیمار تھا اور اسی سبب سے جنگ میں حصّہ نہیں لے رہا تھا، اس کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ کہیں اور چلا جائے مگر اس نے یہ مشورہ نہ مانا اور بالآخر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اگر اس کی بیماری کا واقعہ درست بھی ہو اور یہ عملاً جنگ کرنے والا نہیں بھی تھا تو بھی اس کا قتل اس لحاظ سے قابلِ اعتراض نہیں کہ اپنے لشکر کو جنگ میں بھیجنے کے لیے اُس نے تیار کیا تھا اور ان کی عمومی نگرانی بھی کر رہا ہوگا ، تو اس دوران جنگ کے ماحول میں کسی صحابی نے اُسے بھی قتل کردیا۔ لشکر کے سردار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور سردار کے مرنے سے لشکر ہمت چھوڑ بیٹھتا ہے۔پس اس لحاظ سے اس کا قتل کوئی جائے اعتراض نہیں۔

شقّ دو قلعوں کا مجموعہ تھا۔ سب سے پہلے آپؐ قلعہ اُبی کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک پہاڑی پر کھڑے ہوکر آپؐ نے قلعے والوں سے قتال کیا۔ ابتدا میں مبارزت ہوئی۔ حضرت حباب بن منذرؓ ، اہلِ جحش میں سے ایک شخص اور ابو دجانہؓ نے مسلمانوں کی طرف سے مبارزت کی ، مبارزت میں مسلمانوں کی کامیابی پر یہود مبارزت سے عاجز آگئے۔ اس پر مسلمان آگے بڑھے اور قلعے پرحملہ آور ہوگئے۔ یہود نے مسلمانوں پر سخت تیر اندازی کی، مسلمانوں نے جواباً تیر اندازی کی مگر چونکہ یہود اوپر بُرجوں سے مسلمانوں پر تیر برساتے تھے، اس لیےمسلمانوں کا اس حملے سے نقصان ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہود بالخصوص اُس حصّے کو حملے کا نشانہ بنانا چاہتے تھے جہاں حضورﷺ پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺصحابہؓ کے ساتھ موجود تھے کہ ایک تیر آپؐ کے کپڑوں کو آلگا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ اس تیر کے لگنے سے زخمی ہوئے، اور اس پر

آپؐ نے ایک مٹھی کنکریوں کی لی اور اُن پر پھینک دی۔ جس سے اُن کا قلعہ لرزنے لگا یہاں تک کہ مسلمانوں نے یہود کو پکڑ لیا ۔

اس کے بعد تین مزید قلعوں کا مسلمانوں نے محاصرہ کیا اور انہیں فتح کیا۔ ان قلعوں میں قلعہ قموص خاص طور پر مضبوط قلعہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے چودہ روز تک ان کا محاصرہ کیا اور پھر آپؐ نے فیصلہ فرمایا کہ یہود پر منجنیق نصب کی جائے یعنی توپ کے ذریعے سے پتھر پھینکا جائے۔ یہود کو جب اس طرح اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا تو انہوں نے رسول اللہﷺ سے صلح کا مطالبہ کیا۔ یہودکے اس مطالبے پر مسلمانوں کےساتھ یہود کےہتھیار ڈالنے کا ایک معاہدہ ہوگیا۔ اس معاہدے میں نبی کریم ﷺ نے یہود کے ساتھ بڑی نرمی کا سلوک کیا۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق نبی کریمﷺ نے خیبر یہود کو دیا کہ وہ اس پر کام کریں، وہاں کھیتی باڑی کریں اور اُن کے لیے نصف ہے جو وہاں پیدا ہو۔ خیبر میں ۱۷؍صحابہ ؓشہید ہوئے۔

تاریخ و سیرت کی کُتب میں مذکور ہے کہ خیبر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں اور یہود میں معاہدہ ہوگیا تو لوگ کنانہ اور اس کے بھائی ربیع کو رسول اللہﷺ کے پاس لے کر آئے۔ کنانہ پورے خیبر کا رئیس تھا اور حضرت صفیہؓ  کا خاوند تھا اور ربیع اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ کنانہ کے پاس یہودی قبیلہ بنو نظیر کے سردار حیّ بن اخطب کا خزانہ تھا جس میں سونے چاندی کے زیورات وغیرہ تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان دونوں سے اُس خزانے کے متعلق استفسار فرمایا، ان دونوں نے انکار کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تم دونوں نے مجھ سے کچھ چھپایا اور وہ بعد میں ظاہر ہوگیا تو تم پر اللہ اور اس کے رسول کا کوئی ذمہ نہ ہوگا۔ تاریخ و سیرت کی کتب کے مطابق رسول اللہﷺ نے اس کے بعد ایک صحابی کو کچھ نشانیاں بتا کر بھیجا اور وہ صحابی یہ خزانہ لے آئے، جس کی قیمت دس ہزار دینار لگائی گئی اور ان دونوں کنانہ اور ربیع کو قتل کردیا گیا۔ بعض روایات میں کنانہ کو چقماق کے پتھروں سے آگ دیے جانے کا بھی ذکر ہے۔

حضورِانور نے اس واقعے کی مختلف روایات کو بیان کرنے کے بعد ان پر مجموعی تبصرہ کرتے ہوئے

اس واقعے کو خلافِ حقیقت اور رسول اللہﷺ کی رحمت سے بعید قرار دیا۔

فرمایا یہاں بھی اعتراض کرنے والوں نے اسلام اور آنحضرت ؐکی ذاتِ مبارک پر اعتراض کیے ہیں گویا آپؐ کو مال و دولت کی حرص تھی۔ پھر یہ بھی ظاہر کرنا چاہا ہے کہ آپؐ نعوذ باللہ کس کس طرح کے ظلم روا رکھنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔

آپؐ کی زندگی تو کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آپؐ تو جنگ سے پہلے یہ ہدایت دیتے کہ کسی بچے کسی عورت کو قتل نہ کرنا حتیٰ کہ کسی درخت کو بھی بےسبب نہ کاٹا جائے۔ جو جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے وہ انسانوں پر کیسے ظلم کر سکتے ہیں؟

اسی طرح مالِ غنیمت کے لیے جنگ کرنا بھی آپؐ پر ایک بے سر وپا اعتراض ہے۔

خیبر تو وہ جنگ تھی جس پر روانہ ہونے سے پہلے ہی آپؐ نے یہ اعلان فرمادیا تھا کہ جو مال و دولت کی طمع کی وجہ سے جنگ پر جانا چاہے وہ ہمارے ساتھ نہ آئے۔

جس نبی ؐکا اسوہ یہ ہو اُ س کے متعلق اگر ایسی کوئی روایت سامنے آئے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بغور دیکھا جائے، اس کی تطبیق اور توجیہ کی کوشش کی جائے۔ آپؐ جو عدل و انصاف کے پیکر اور علم بردار تھے آپؐ سے اس طرح کا فعل منسوب کرنا کسی طرح قرینِ انصاف نہیں۔

حضورِانور نے مستشرقین کے اعتراضات پر روایات کی اندرونی شہادت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے تبصرہ فرمایا اور ان خلافِ حقیقت روایات کا غلط ہونا ثابت فرمایا۔

علامہ شبلی نعمانی نے اس روایت کو سخت غلط روایت قرار دیا ہے۔ اسی طرح کنانہ کے قتل کیے جانے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس نے محمود بن مسلمہ کو قتل کیا تھا اور رسول اللہﷺ کے ارشاد پر محمد بن مسلمہ نے اپنے بھائی محمود کے قصاص کے طور پر کنانہ کو قتل کیا۔

موجودہ زمانے کے ایک احمدی مصنف سید برکات احمد صاحب اپنی کتاب ’رسول اکرمﷺ اور یہودِ حجاز‘ میں لکھتے ہیں کہ ابنِ اسحٰق نے بغیر کسی سند کے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اول تو تعذیب اور وہ بھی آگ کی تعذیب اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے، دوسرا یہ کہ پورے خیبر کے اموال کی تقسیم میں اس خزانے کی تقسیم کا کہیں کسی روایت میں ذکر نہیں ملتا۔ نہ ہی اس خزانے کے بیت المال میں داخل ہونے کی کوئی روایت موجود ہے۔

اگلے واقعات کی تفصیل آئندہ بیان کیے جانے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمکرم ماسٹر منصور احمد صاحب کاہلوں آف آسٹریلیا ابن مکرم شریف احمد صاحب کاہلوں کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

مرحوم کو ۳۴؍سال تدریس کے شعبےسے وابستہ رہنے کا موقع ملا۔ بشیر آباد سندھ میں بطورقائد مجلس،صدر جماعت کام کرنے کی توفیق ملی، جنرل سیکرٹری حیدرآباد، ۱۳؍سال تک امیر ضلع حیدرآباد خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم خلافت سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، نظامِ جماعت کی اطاعت کرنے والے،سخی، مہربان،مہمان نواز، ہمدرد، حسنِ سلوک کرنے والے شفیق استاد تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور پانچ بیٹے شامل ہیں۔

حضورِانور نے مرحوم کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں:
غزوۂ خیبرکےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۷ فروری ۲۰۲۵

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button