خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ فروری 2025ء

اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓسے ایسے ایسے علمی اور دینی اور انتظامی کام کروائے ہیں کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی آپؓ کے سامنے طفل ِمکتب لگتے ہیں، بالکل بچے لگتے ہیں اور آپؓ کا باون سالہ دورِ خلافت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے

آج پہلے سے بڑھ کر مسلمان دنیا اور عرب دنیا کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صرف نعرے لگانے سے، میٹنگیں کرنے سے کام نہیں بنے گا۔ عملی اقدام اٹھانے پڑیں گے۔

’’مسلمان اپنی غلطی سے تائب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور خود اسلام کو سمجھیں اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں اور دوسروں کو آگاہ کریں تا کہ وہ نکبت و اِدبار جو اس وقت مسلمانوں پر آ رہا ہے وہ دُور ہو … اگر مذہب کی خاطر انہوں نے تبلیغ نہیں کی، اگر خدا کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس بے نظیر تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیاتو اب اپنی حیات کے قیام کےلیے ہی کچھ کوشش کریں۔کیونکہ ان کی زندگی اور اسلام کی تبلیغ دونوں لازم و ملزوم ہو گئے ہیں ۔‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)

تجارت اور صنعت و حرفت میں بھی مسلمانوں کی ترقی کےلیے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے

حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ باہمی تفرقہ اور اختلافات کو ترک کر دیں اور قومی مفاد کی خاطر اتفاق اور اتحاد سے کام کریں۔ صرف اسی طریق پر وہ مخالف قوم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے

تفسیر کبیر پرانی پہلے دس جلدوں میں تھی اور اب آپؓ کے نوٹس سے اس میں مزید کچھ شامل کیا گیا ہے تو پندرہ جلدوں میں نئی چھپ چکی ہے اورمضامین مزید تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ پھر اور مزید سورتوں کی تفسیر میں بھی بعض نوٹس آپ کے ملے ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ شاید جب ان کو شائع کیا جائے تو اس کی بھی تیس جلدیں بن جائیں گی کیونکہ تیس ہزار صفحات ہیں

حضرت مصلح موعودؓکے علم و عرفان کے اس لٹریچر کو ہمیں پڑھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو آجکل کے حالات میں بھی منطبق ہو رہی ہیں اور اس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں

پیشگوئی مصلح موعود کی مناسبت سے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے حیرت انگیز علمی کارناموں کا مختصر اور پُرمعارف تذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ فروری 2025ء بمطابق21؍ تبلیغ 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

کل 20؍فروری تھی۔ یہ دن جماعت میں

پیشگوئی مصلح موعود

کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس دن یا ان دنوں میں آگے پیچھے جماعتوں میں پیشگوئی مصلح موعود کے جلسے بھی ہوتے ہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک لمبی پیشگوئی ہے جس میں ایک بیٹے کی پیدائش اور اس کی خصوصیات کا ذکر ہے۔ 20؍فروری 1886ء کو اس کو اشتہار کی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس پیشگوئی میں لڑکے کی خصوصیات کے بارے میں الہامی الفاظ کا ایک حصہ اس طرح سے ہے کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا‘‘ اور پھر ہے کہ ’’…علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 647)

اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بیٹا عطا فرمایا جو ان خصوصیات کا حامل تھا جن کا نام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد تھا، جن کو مصلح موعود بھی کہاجاتا ہے۔ جو بچے بھی جماعت کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں، بڑے تو رکھتے ہی ہیں اس پیشگوئی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اطفال میں خدام میں ہر جگہ ہی جلسے ہوتے ہیں۔

جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں کہ وہ لڑکا علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا
خدا تعالیٰ نے خود ان کی ذہانت کو جلا بخشی اور علوم سے پُر کیا۔

دنیاوی لحاظ سے تو آپ کی تعلیم شاید پرائمری تھی بلکہ یہ بھی نہیں تھی۔ ہاں سکول جاتے رہے لیکن امتحانوں میں حضرت مصلح موعودؓ نے خود لکھا ہے، بتایا ہے کہ کبھی پاس نہیں ہوتے تھے۔ دنیاوی مضمونوں میں بہت کمزور تھے لیکن

اللہ تعالیٰ نے آپؓ سے ایسے ایسے علمی اور دینی اور انتظامی کام کروائے ہیں کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی آپؓ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں، بالکل بچے لگتے ہیں اور آپؓ کا باون سالہ دورِ خلافت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آپؓ نے دنیا کے مختلف موضوعات پر بےشمار تقاریر کیں، مضامین لکھے۔ دینی اور قرآنی علوم کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ آپؓ نے دنیاوی موضوعات پر بھی، ملکی سیاست، بین الاقوامی سیاست کے بارے میں تقاریر کیں، مضمون لکھے۔ تاریخی حوالے سے غیر معمولی معیار کے مضامین لکھے اور تقاریر کیں۔ اقتصادی امور اور دنیا کے مختلف نظاموں سوشل ازم، کمیونزم، کیپٹل ازم کے بارے میں بھی ان کا تجزیہ کیا اور ایک تقریر کی جو بعد میں کتابی صورت میں بھی چھپ گئی۔ یہ جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے۔ حتٰی کہ عسکری معاملات، فوجی معاملات اور سائنسی اور علمی موضوعات پر بھی علم و معرفت کی وہ باتیں بیان فرمائیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بہت سی تقاریر آپؓ نے غیروں کے سامنے کیں اور وہ ان کی گہرائی اور معرفت کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ ہزاروں صفحات پر یہ مضامین اور تقاریر حاوی ہیں۔ مختصر وقت میں ان کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں بلکہ صرف تعارف بھی ممکن نہیں ہے۔ نمونۃً میں چند نمونے یہاں پیش کروں گا جو صرف تعارف پر مبنی ہیں۔

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘، ’’نظام نَو‘‘، ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ یہ موضوعات تو ایسے ہیں جن کا اکثر جماعت میں ذکر ہوتا ہے۔ ان سے ہٹ کر بعض دوسرے مضامین عموماً لوگوں کے سامنے نہیں آتے ان کا تعارف میں پیش کروں گا۔

آپؓ نے

’ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض‘

کے نام پر ایک مشورہ دیا، اس پر تبصرہ کیا اور یہ 1919ء کی بات ہے یعنی آپؓ کی خلافت کے ابتدائی دور کی۔ اس کا خلاصہ یا تعارف یہ ہے کہ اتحادِ ملت کے ہر موقع سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کےلیے حضورؓ نے ایسے وقت میں جبکہ ترکیہ حکومت خطرے میں تھی نہایت مدبّرانہ راہنمائی کرتے ہوئے 18؍ستمبر 1919ء کو یہ کتاب تحریر فرمائی۔ مختلف الخیال مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع کےلیے آپؓ نے یہ راہنما اصول بیان فرمایا کہ ’’میرے نزدیک اس جلسہ کی بنیاد صرف یہ ہونی چاہیے‘‘، ایک جلسہ ہونا تھا وہاں ترکی حکومت کے حق میں ’’کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو… ہٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلاتا ہے ناپسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے‘‘۔

پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ترک سلطنت اور مرکزِ اسلام حجاز کے متعلق جو میری راہنمائی ہے وہ اس طرح ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’عرب کی غیرتِ قومی جوش مار رہی ہے اور اس کی حریت کی رَگ پھڑک رہی ہے …تیرہ سو سال کے بعد اب وہ پھر اپنی چاردیواری کا آپ حاکم بنا ہے اور اپنے حسنِ انتظام اور عدل و انصاف سے اس نے اپنے حق کو ثابت کر دیا ہے۔ اس کے متعلق کوئی نئی تجویز نہ کامیاب ہو سکتی ہے نہ کوئی معقول انسان اس کو قبول کر سکتا ہے‘‘۔

ترکیہ کی بہتری کےلیے آپؓ نے ایک یہ مشورہ بھی دیا کہ ’’صرف جلسوں اور لیکچروں سے کام نہیں چل سکتا، نہ روپیہ جمع کر کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے…بلکہ ایک باقاعدہ جدوجہد سے جو دنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کےلیے کی جاوے۔ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں ’’یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور لوگ ہر ایک بات کےلیے دلیل طلب کرتے ہیں … پس اس مشکل کام کو پورا کرنے کےلیے باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے …بےفائدہ کام دانا کا کام نہیں ‘‘۔

یہی بات آج بھی مسلمانوں کو سوچنی چاہیے یہ تو اس زمانے میں صرف ترکی حکومت سے تعلق تھا۔ آج پہلے سے بڑھ کر مسلمان دنیا اور عرب دنیا کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صرف نعرے لگانے سے، میٹنگیں کرنے سے کام نہیں بنے گا۔ عملی اقدام اٹھانے پڑیں گے۔

ترکوں یا اسلام کے خلاف بغض و تعصب کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا کہ ’’آباؤ اجداد سے ان کے دل میں‘‘ یعنی اسلام مخالف لوگوں کے دلوں میں ’’اسلام کی نسبت اس قدر بدظنیاں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ اسلام کو ایک عام مذہب کے طور پر خیال نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی تعلیم خیال کرتے ہیں جو انسان کو انسانیت سے نکال کر جانور اور وہ بھی وحشی جانور بنا دیتی ہے … اسلام کے سوا دوسرے مذاہب سے وہ ڈرتے نہیں…مگر قابل نفرت سمجھتے ہیں مگر اسلام سے وہ خوف کھاتے ہیں۔‘‘ یعنی جو اسلام مخالف لوگ ہیں ’’اس کی ترقی کو تہذیب و شائستگی کے رستہ میں روک ہی نہیں خیال کرتے بلکہ خود انسانیت کےلیے اسے مہلک یقین کرتے ہیں‘‘۔

اور آجکل تو اس پر پہلے سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ ہر جگہ ہر ملک میں جو رائٹ وِنگ (right wing)ہیں یا دوسرے، وہ اسلام کے خلاف بڑی مہم چلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ اس صورتحال کی تبدیلی کےلیے یہ راہنمائی فرمائی کہ

’’مسلمان اپنی غلطی سے تائب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور خود اسلام کو سمجھیں اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں اور دوسروں کو آگاہ کریں تا کہ وہ نکبت و اِدبار جو اس وقت مسلمانوں پر آ رہا ہے وہ دُور ہو … اگر مذہب کی خاطر انہوں نے تبلیغ نہیں کی، اگر خدا کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس بے نظیر تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔‘‘ عملاً تو یہی ہوا ہے ناں۔ اسلام انہوں نے کب پیش کیا ہے ’’تو اب اپنی حیات کے قیام کےلیے ہی کچھ کوشش کریں۔‘‘ زندہ رہنا ہے تو اس کےلیے کچھ کوشش کریں ’’کیونکہ ان کی زندگی اور اسلام کی تبلیغ دونوں لازم و ملزوم ہو گئے ہیں ‘‘۔

(ترکی کا مستقبل، انوار العلوم جلد4صفحہ 16-18)

پس یہی اصول آج بھی مسلمانوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ نہیں تو اسلام مخالف دنیا مسلمان ممالک کے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جائے گی اور کر رہی ہے۔

پھر ایک موقع پیدا ہوا

آل مسلم پارٹیز کانفرنس

کا۔ اس پر آپؓ نے ’’آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ہدایات دیں۔ یہ پمفلٹ حضور نے آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں پیش کرنے کےلیے 13؍جولائی 1925ء کو تحریر فرمایا۔ منتظمین کانفرنس کی خواہش تھی کہ امام جماعت احمدیہ بنفس نفیس اس میں شریک ہو کر اپنے خیالات کا اظہار فرماویں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا کہ میں خود اس میں شمولیت سے معذور ہوں لیکن اپنے نمائندوں کے ذریعہ سے اپنے خیالات پیش کر دیتا ہوں۔ اس پمفلٹ میں حضور نے سب سے پہلے اسلام کی مذہبی اور سیاسی تعریف بیان فرمائی اور فرمایا کہ اسلام کی ایک تو مذہبی تعریف ہے جس کا ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے اس کی تعریف کرے۔ دوسری اسلام کی سیاسی تعریف ہے۔ سیاسی طور پر کون لوگ مسلمان ہیں؟ اس کا جواب صرف ہندو عیسائی اور سکھ ہی دے سکتے ہیں جن سے مسلمانوں کا سیاسی واسطہ پڑتا ہے کیونکہ اگر ایک جماعت کے پیرو جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کو دوسرے فرقہ کے لوگ خواہ غیر مسلم ہی سمجھیں لیکن سیاست میں ہندو اور سکھ جب ان سے معاملہ کریں گے تو ان سے ایک ہی معاملہ کریں گے اور جو کارروائی وہ ایک قوم کے خلاف کریں گے وہی دوسری قوم کے خلاف بھی کریں گے۔‘‘ہر فرقے کو انہوں نے مسلمان سمجھ کے کرنا ہے۔ پس سیاستاً ان کے مفاد ایک ہیں اور مسلمانوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا تو دوسرے ایک ایک کر کے ان کو کھا جائیں گے اور ان کو اس وقت ہوش آئے گی جب ہوش آنے کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس لیے حضورؓ نے تمام مسلمان فرقوں کے سامنے یہ زریں اصول پیش کیا کہ سیاسی معاملات میں مسلمان مکمل اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں کیونکہ سیاسی لحاظ سے اگر آپ کسی قوم کو الگ کر دیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے وہ دوسری قوموں کی طرف رجوع نہ کرے۔

اس کے بعد اسلام کی ترقی اور ترویج اور اس کے سیاسی استحکام کےلیے بعض تجاویز دیں اور فرمایا کہ اسلام کے استحکام کےلیے ضروری ہے کہ تمام ملک ہند میں اسلام کی ترویج کےلیے تبلیغی نظام مقرر کیاجائے اور تبلیغی انجمنوں کے باہم اتحاد کی کوئی راہ نکالی جائے کیونکہ اسلام کی زندگی تبلیغ پر ہی موقوف ہے اور اس کےلیے مکمل نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ (اور اب تو اس کا دائرہ عمل ساری دنیا ہو چکی ہے۔) نیز مسلمانوں کی صنعتی اور تعلیمی میدان میں ترقی کےلیے باقاعدہ صیغہ جات قائم کیے جائیں۔ ہر صیغے کا مطمح نظر ہو اور سال کے آخر پر بتایا جائے کہ مطمح نظر کو کس حد تک پورا کیا گیا ہے۔ اب تو یہ اسلام کی بڑی بڑی حکومتوں کا کام ہے۔ نیز اس وقت فوری طور پر ایک ایسی کمیٹی کا قیام بھی ضروری ہے جو اس امر کا جائزہ لے کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے اثر سے کس طرح آزاد کروایا جا سکتا ہے اور کون کون سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جن میں ماہر مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ پھر وہ کمیٹی اس کمی کو پورا کرنے کےلیے کوشش کرے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے مسلم بنک کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ اگر بلا سود کی صورت نکل سکے جو کہ نکل سکتی ہے تو ہماری جماعت بھی اس میں شامل ہونے کےلیے تیار ہے اور آپؓ نے بیت المال اور مسلم چیمبر آف کامرس کے قیام کی بھی تجویز دی نیز آپ نے جہاں غیر مسلم حکومتیں ہیں وہاں فوجداری مقدمات کے علاوہ مسلمانوں کے دیگر تنازعات کو عدالتوں میں لے جانے کی بجائے باہم مل کر تصفیہ کےلیے بھی پنچایتی نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

آپؓ نے فرمایا کہ قیام امن کےلیے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیا جائے۔ وسعتِ حوصلہ کے ساتھ دوسروں کو ان کے عقیدہ کے مطابق کام کرنے دیں اور خود اپنے عقیدہ کے مطابق کام کریں۔ حضور نے تجارت اور صنعت و حرفت کے متعلق فرمایا کہ تجارت ایسا شعبہ ہے جس سے مسلمانوں نے سب سے زیادہ تغافل برتا ہے اور تجارتی لحاظ سے وہ ہندوؤں کے غلام بن کے رہ گئے ہیں۔ اس زمانے میں تھے۔ اب تو ہمیں نظر آ رہا ہے کہ ہم دنیا کے بڑے بڑے جو امیر لوگ ہیں، مختلف مذاہب کے جو لوگ تجارت میں ہیں، چاہے وہ یہودی ہیں، عیسائی ہیں یا کوئی اور ہیں ان کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت یہی حالات تھے۔ آجکل اس معاملے میں دنیا کی حکومتوں اور تاجروں کے غلام ہم بن رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ پس اس طرف مسلمان حکومتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تجارت اور صنعت و حرفت میں بھی مسلمانوں کی ترقی کےلیے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آخر پر حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانوں کے باہمی تنازعات کو ختم کر کے باہم اتحاد اور یگانگت کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ پھر ایک دفعہ اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ سب محنت رائیگاں اور سب تدبیریں عبث جائیں گی اگر اس امر کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا گیا کہ ہم باوجود ایک دوسرے کو کافر کہنے کے اغیار کی نظروں میں مسلمان ہیں اور ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان ہے۔ پس سیاسی میدان میں ہمیں مذہبی فتووں کو نظر انداز کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ان کے دائرہ عمل سے خارج ہیں۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی سیاسی ضروریات کےلیے ان لوگوں سے مل کر کام نہیں کر سکتے جن کو تم مسلمان نہیں سمجھتے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے مقابلہ میں یہود سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان کہلانے والے فرقے اسلام کی سیاسی برتری بلکہ کہو کہ سیاسی حفاظت کےلیے اس میں مل کر کام نہ کر سکیں۔ اگر ہم اس موقع پر اتحاد نہ کر سکیں گے تو یقیناً اس سے یہ ثابت ہو گا کہ ہمارا اختلاف اسلام کےلیے نہیں بلکہ اپنی ذات کےلیے ہے، اپنے نفسوں کےلیے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بدبختی سے محفوظ رکھے۔

(ماخوذ از آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر، انوار العلوم جلد9صفحہ8تا 10)

پاکستان اور بعض مسلمان ممالک میں عمومی طور پر تو یہی صورتحال ہے۔ خاص طور پر احمدیوں کےلیے یہ سوچ کہ یہ کافر ہیں، ویسے تو ہر فرقہ دوسرے فرقے کو بھی کافر کہتا ہے اور غیر مسلم دنیا میں اسی وجہ سے جو غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے اور وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

پس اس نکتے کو آج بھی مسلمان حکومتوں کو اور مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرور ت ہے۔

ہندوستان کے حالات کے بارے میں، اس وقت جب پاک و ہندایک تھے ایک گول میز کانفرنس ہوئی تھی اور مسلمانوں کی نمائندگی کا سوال اس میں اٹھا تھا۔ حکومت برطانیہ نے ہندوستان کی آزادی کے جائزے کےلیے ایک کمیشن مقرر کیا تھا جس نے ہر دس سال بعد جائزہ لینا تھا کہ کس حد تک لوگوں کو یہ اختیار دیےجاسکتے ہیں کہ وہ علیحدہ حکومت قائم کریں۔ اس کے پہلے صدر ایک انگریز بیرسٹر تھے اس کمیشن کے صدر جن کا نام سر جان سائمن تھا۔

(ماخوذ از مسلمانانِ ہند کے امتحان کا وقت، انوار العلوم جلد 10صفحہ 2-3)

بہرحال اس کمیشن اور ان فیصلوں پر مختلف وقتوں میں بحث کی جاتی رہی اور حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف وقتوں میں راہنمائی فرماتے ہوئے اپنے تفصیلی خیالات بھی پیش کیے اور مسلمانوں کی راہنمائی بھی کی۔ اس سلسلہ میں ایک

گول میز کانفرنس

ہوئی جس کی تفصیل کا ہماری تاریخ میں حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے ذکر ملتا ہے۔ ’’حکومت برطانیہ کے قائم کردہ سائمن کمیشن کی رپورٹ اہلِ ہند کی توقعات پر پوری نہ اتری اس لیے وہ انہیں قابلِ قبول نہ تھی۔ ان حالات میں حکومت کی طرف سے گول میز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا‘‘ اس کی تفصیل اس طرح ہے ’’تاکہ برطانیہ اور ہندوستان کے نمائندگان ایک جگہ جمع ہو کر ہندوستان کے سیاسی ارتقاء کے بارے میں غورو فکر کر سکیں۔ اس موقع پر

حضورؓ نے مسلمانوں کی راہنمائی کےلیے فوری طور پر یہ مضمون تحریر فرمایا اور انہیں نصیحت کی کہ وہ باہمی تفرقہ اور اختلافات کو ترک کر دیں اور قومی مفاد کی خاطر اتفاق اور اتحاد سے کام کریں۔ صرف اسی طریق پر وہ مخالف قوم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ کانفرنس میں ایسے نمائندے جائیں جو قوم کی نمائندگی کا حق ادا کر سکیں۔ حضورؓ نے اس موقع پر گورنمنٹ کو بھی مشورہ دیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے مشورہ سے نمائندوں کا انتخاب کرے تا کہ کانفرنس کے فیصلوں کو لوگ خوش دلی سے قبول کر لیں۔

مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا: ’’میرے نزدیک آل مسلم پارٹیز کانفرنس کےلیے کام کا وقت ابھی آیا ہے۔ خالی اس امر کو شائع کر دینا کہ مسلمانوں کے یہ مطالبات ہیں کافی نہیں ہے۔ اگر ایسے لوگ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں گئے جنہوں نے ان مطالبات کو پسِ پشت ڈال دیا تو آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کی قیمت کچھ بھی باقی نہیں رہتی۔ پس یہی وقت ہے کہ وہ ایک طرف گورنمنٹ کو غلط انتخاب کے بد نتائج سے آگاہ کرے اور دوسری طرف پبلک کو اس کے خطرات سے واقف کرے اور اس وقت تک آرام نہ لے جب تک مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصلہ مسلمانوں کے منتخب نمائندوں اور ان کی اہم سیاسی انجمنوں کے ذریعہ نہ ہو۔‘‘(گول میز کانفرنس اور مسلمانوںکی نمائندگی، انوار العلوم جلد 11صفحہ 13-14)اور یہ مشورے اس زمانے کے جو حالات تھے اس کے مطابق بہت سے حلقوں میں بڑی سنجیدگی سےلیے گئے۔

پھر ہندوستان کے اس وقت کے جو سیاسی حالات تھے ان کے حل کے بارے میں آپ نے مضمون لکھا۔ اس ضمن میں آپ نے مضمون میں اس وقت کے جو حالات تھے ان کا حل پیش کیا۔ ’’سائمن کمیشن کی رپورٹ چھپنے کے کچھ دیر بعد‘‘ اس رپورٹ کا بھی ذکر ہوا۔ ’’حکومت برطانیہ نے لندن میں گول میز کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا‘‘جیسا کہ ذکر ہوا ہے ’’تا کہ ہندوستان کے سیاسی ارتقاء کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے آئندہ کےلیے لائحہ عمل تجویز کیا جائے۔ چونکہ سائمن کمیشن نے مسلمانوں کے حقوق کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھا تھا اس لیے حضورؓ کو تشویش تھی اور آپ چاہتے تھے کہ آئندہ مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اس لیے حضور نے مناسب سمجھا کہ اس موقع پر سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ کر کے اس کے نقائص واضح کیے جائیں اور ہندوستان کے مسائل کا ایسا حل پیش کیا جائے کہ آئندہ زمانے میں سب قومیں صلح اور آشتی سے باامن زندگی گزار سکیں۔

چنانچہ حضورؓ  فرماتے ہیں :’’میں سمجھتا ہوں کہ گو ایک مذہبی آدمی ہونے کے لحاظ سے مجھے سیاست ملکی سے اس قدر تعلق نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو رات دن انہی کاموں میں پڑے رہتے ہیں لیکن اسی قدر میری ذمہ داری صلح اور آشتی پیدا کرنے کے متعلق زیادہ اور نیز میں خیال کرتا ہوں کہ شورش کی دنیا سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے میں شاید کئی امور کی تہہ کو زیادہ آسانی سے پہنچ سکتا ہوں بہ نسبت ان لوگوں کے کہ جو اس جنگ میں ایک یا دوسری طرف سے شامل ہیں۔ پس اس وقت جبکہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے اعلان کی وجہ سے لوگوں کی توجہات مسئلہ ہندوستان کے حل کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔‘‘ اس زمانے میں یہ بہت بڑا ایشو تھا۔ ’’میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات دونوں ملکوں کے غیرمتعصب لوگوں کے سامنے رکھ دوں۔‘‘ حضور نے اپنے تبصرہ میں مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات پر سیر حاصل بحث کی اور ان کی معقولیت کو اجاگر کیا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کا نہایت معقول اور تسلی بخش حل پیش کیا۔ اس جامع و مانع تبصرہ کا انگریزی ایڈیشن‘‘ میں شائع کرنے کےلیے ’’فوراً شائع کر کے انگلستان پہنچا دیا گیا تا کہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والے اسے پڑھ کر فائدہ اٹھا سکیں۔ مسلمان نمائندوں کو خاص طور پر اس سے فائدہ پہنچا۔ چنانچہ انہوں نے پہلی بار متفقہ طور پر کامیابی سے اپنے مطالبات کانفرنس میں پیش کیے۔‘‘ فائدہ ہوا اس زمانے میں۔ ’’جس کا انگلستان کے صاحبِ رائے لوگوں پر گہرا اثر ہوا اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خصوصی حیثیت کے قائل ہو کر ان کے مطالبات کی معقولیت اور افادیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔

حضور ؓکی یہ کتاب ہندوستان اور انگلستان دونوں جگہ بہت مقبول ہوئی اور اسے بڑی دلچسپی اور توجہ سے پڑھا گیا اور کئی مدبّر سیاستدانوں اور صحافیوں نے شاندار الفاظ میں حضور کو خراج تحسین پیش کیا۔‘‘

(ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل، انوار العلوم جلد 11صفحہ 18-19)

تاریخ احمدیت میں کئی واقعات درج ہیں۔ یہ تبصرہ جیسا کہ میں نے کہا دونوں حلقوں میں بڑا مقبول ہوا۔ بڑی توجہ سے پڑھا گیا اور اس کے چند نمونے پیش کرتا ہوں:

لارڈ میسٹن (Meston) سابق گورنر یوپی کہتے ہیں ’’میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی۔‘‘ یہ بھیجنے والے کو لکھ رہے ہیں۔’’میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچسپی سے پڑھی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرےلیے خوشی اور فائدے کا موجب ہو گا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ214)

لیفٹننٹ کمانڈر کینوردی (Kenworthy) ممبر پارلیمنٹ کہتے ہیں ’’کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت بہت ممنون ہوں۔ میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ214)

سر میلکم ہیلے (Malcolm Hailey) گورنر صوبہ یوپی اور سابق گورنر پنجاب لکھتے ہیں ’’(امام مسجد لندن) اس کتاب کےلیے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ میں جماعت احمدیہ کے حالات سے خوب واقف ہوں اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لے کر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کےلیے کام کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرےلیے مفید ہو گی اور میں اسے نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھوں گا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ 215)

پھر سر ہون او ملر (Sir Hone O. Millar) کہتے ہیں کہ ’’اس چھوٹی سی کتاب کے ارسال کےلیے جس میں مسئلہ ہند کے حل کےلیے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں میں تہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے۔

میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ عرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے لیکن میں اس اخلاص، معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہز ہولی نس (امام جماعت احمدیہ) نے اپنی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور میں ہز ہولی نس‘‘حضرت مرزا بشیر الدین ’’… کی بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ 215)

پھر آنریبل پیٹرسن (Peterson) سی ایس آئی سی آئی ای کہتے ہیں ’’کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل کے ارسال کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے ابھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ امید ہے کہ چند دنوں میں ختم کر لوں گا لیکن جس قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصنیف موجودہ گتھی کے سلجھانے کےلیے ایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے۔ مسلمانوں کا نقطہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا‘‘۔(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ 217)آگے لکھ رہے ہیں بھیجنے والے کو۔

ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب علی گڑھ کے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں۔ ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو بھی ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے۔ اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے۔ جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سرانجام دی ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 218)

اب یہ غیر احمدی لکھ رہے ہیں کہ اسلام کی خدمت سرانجام دی ہے اور یہاں یہ غیر احمدی کہتے ہیں کہ احمدی غیر مسلم ہیں۔

سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون صاحب ایم ایل اے کراچی کہتے ہیں

’’میری رائے میں سیاست کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب ’’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل‘‘ بہترین تصانیف میں سے ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ 218)

علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لکھتے ہیں کہ

’’تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے نہایت عمدہ اور جامع ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ 218)

اخبار انقلاب لاہور نے لکھا۔ ’’جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد5صفحہ 218)

اخبار سیاست لاہور لکھتا ہے کہ ’’مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاست میں اپنی جماعتوں کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتدا کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے۔ آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے‘‘کہتا ہے کہ آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے ’’اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نکتہ نگاہ پیش کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نکتہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے استدلال سے مملو کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ زیرِ بحث کتاب سائمن رپورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کا طرز بیان سلیس اور قائل کر دینے والا ہوتا ہے آپ کی زبان بہت شستہ ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 219)

یہ تھے کچھ تبصرے۔

پھر

دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے؟

اس بارے میں بھی آپؓ نے لکھا۔

عالمگیر امن کے بارے میں

جو تقریریں ہوئی تھیں۔ خلاصةً بیان کر دوں کہ ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے عالمگیر امن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پرمعارف تقریر 9؍اکتوبر 1946ء کو بوقت شام ساڑھے پانچ بجے 8 پارک روڈ دہلی کے وسیع صحن میں ارشاد فرمائی۔ اس تقریر کو سننے کےلیے کئی سو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور انہوں نے نہایت توجہ اور سکون کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا۔ یہ تقریر پہلی دفعہ مورخہ 15؍اپریل 1961ء کو الفضل میں شائع ہوئی‘‘بہرحال۔ ’’…اس تقریر کے بارے میں اخبار ’’تیج‘‘ دہلی نے اپنی 14 اکتوبر 1946ء کی اشاعت میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا: ’’احمدیوں کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امن اور شانتی کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان کیونکہ انسانی فطرت کے ساتھ اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کا قیام مطلوب ہے تو اس کےلیے جذبہ دشمنی و نفرت کو ختم کرنا پڑے گا۔ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے اور اگر ہم خدا کی خدائی سے باخبر ہوں اور روٹی کا پیار، لالچ وغیرہ کو چھوڑ دیں تو اس کے بعد ہم میں نفرت اور لالچ کے بجائے برادری اور محبت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مذہبی دنیا کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں۔ اور اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں۔ جس طرح مذہبی معاملات میں تحمل کی ضرورت ہے ٹھیک اسی طرح دنیا داری کے معاملات میں بھی اس کا ہونا لازمی ہے’’ مسلمانوں اور ہندوؤں کے زمانے میں بھی یہ مسئلہ عیسائیوں کے ساتھ بھی کافی تھا۔ فرمایا کہ ’’ہمیں قومیت و رنگ کے جھگڑوں کو ختم کر کے عالمگیر برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔‘‘

(دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے؟، انوار العلوم جلد 18صفحہ 11-12)

تو یہ مختصر تعارف تھا ان کے اس مضمون کا۔

پھر ایک مضمون آپ نے اس اعتراض پر لکھا کہ

ہمارا فرض ہے کہ مظلوم قوم کی مدد کریں چاہیں وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں۔

دہلی کے اخبار کے بیان پر یہ تبصرہ تھا۔ دہلی کےاخبار نے لکھا تھا کہ احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ بھڑکا رہا ہے احمدیوں کو کہ احمدی پاکستان کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ مسلمان ان سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ پھر یہ لکھتا ہے کہ جب پاکستان بن جائے گا تو مسلمان پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔ یہ اخبار نے تبصرہ کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے 16؍مئی 1947ء کو نماز مغرب کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں۔ نیز آپ نے فرمایا کہ ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے۔ حضور کے اس خطاب کو قادیان میں بھی کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔

(ماخوذ از ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں۔ انوار العلوم جلد 18صفحہ 19)

آجکل بھی بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے کیوں پاکستان میں شامل ہونے کی حمایت کی تھی۔ تو یہ خطاب اس کا جواب ہے۔ اس وقت کے حالات میں مسلمانوں کی مدد کی ضرورت تھی اور جماعت ہمیشہ مسلمانوں کی مدد کےلیے صفِ اوّل میں ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے یہ انکار نہیں کیا کہ جماعت سے یہ ظلم نہیں ہو گا۔ آپؓ نے فرمایا کہ جو بھی ہو اس وقت مسلمانوں کو مدد کی ضرورت ہے اور احمدیوں کو ساتھ دینا چاہیے کیونکہ ہم نے مسلمانوں کا ساتھ دینا ہے۔

پاکستان کے مستقبل کے بارے میں لیکچرز

حضرت مصلح موعودؓ نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پاکستان کامستقبل کے موضوع پر بصیرت افروز لیکچرز ارشاد فرمائے جن میں لاہور کے بڑے بڑے دانشور سکالرز اور اہل علم حضرات شامل ہوئے اور ان لیکچرز پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پہلے پانچ لیکچرز مینارڈ ہال لاہور اور چھٹا لیکچر یونیورسٹی ہال لاہورمیں ارشاد فرمایا۔ کہتے ہیں کہ اس زیر نظر لیکچر میں جو 7دسمبر 1947ء کو مینارڈ ہال لاہور میں ارشاد فرمایا اور وقت کی کمی کے باعث اس مضمون کے کئی حصے بیان کرنے سے رہ گئے تھے لہٰذا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی یادداشت پر اس مضمون کو افادہ عام کرنے کےلیے بعد میں الفضل میں بھی شائع کروایا جو 9؍دسمبر 1947ء کے روزنامہ الفضل جو لاہور سے شائع ہوتا تھا اس میں شائع ہوا۔ حضور نے اپنے اس خطاب میں نباتی، زرعی، حیوانی اور معنوی دولت کے لحاظ سے پاکستان کو کیسے ترقی دی جا سکتی ہے اس کے زریں اصول بتائے، تجاویز دیں اور مشوروں سے نوازا۔(ماخوذ از پاکستان کا مستقبل، انوار العلوم جلد 19صفحہ 8)بڑا مشہور ہوا یہ لیکچر۔

دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی۔

اس بارے میں آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قادیان سے لاہور ہجرت کے بعد پاکستان کے مستقبل کے موضوع پرآپؓ نے جو لیکچر دیے یہ لیکچر ان میں سے آخری لیکچر ہے جو حضور نے یونیورسٹی ہال لاہور میں جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی کے موضوع پر دیا۔ یہ لیکچر افادۂ عام کےلیے اس وقت 18؍فروری 1948ء کو ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا اور اب بھی انوارالعلوم کی جلد 19میں موجود ہے۔ اس خطاب میں حضور نے دستور اسلامی کی وضاحت کرتے ہوئے اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین یا دستور نافذ ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں۔ پس اگر پاکستان کی constitutionمیں مسلمان جن کی بھاری اکثریت ہو گی یہ قانون پاس کردیں کہ پاکستان کے علاقے میں مسلمانوں کےلیے قرآن اور سنت کے مطابق قانون بنائے جائیں گے۔ اس کے خلاف قانون بنانا جائز نہیں ہوگا تو گو اساس حکومت کلّی طور پر اسلامی نہیں ہو گا کیونکہ وہ ہو نہیں سکتا مگر حکومت کا طریق عمل اسلامی ہو جائے گا اور مسلمانوں کے متعلق اس کا قانون بھی اسلامی ہو جائے گا اور اسی کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہندو اور عیسائی اور یہودی سے بھی اسلام پر عمل کرایا جائے بلکہ وہ بالکل اس کے خلاف ہے۔

(ماخوذ از دستورِ اسلامی یا اسلامی آئین اساسی، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 10-11)

وہ تو ہر مذہب کو، ہر کسی کو آزادی دیتا ہے۔

آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی ملک میں اسلامی آئین اور قانون ہے۔ اس کی ابتدا اور مشورہ تو حضرت مصلح موعودؓ نے دیا تھا۔ لیکن عملاً

اسلام کے نام پر ظلم کیا جا رہا ہے جبکہ آپؓ نے اسلامی تعلیم کے مطابق عملدرآمد اور آئین بنانے کی طرف توجہ دلائی تھی جیسا کہ میں نے بتایا۔ اگر احمدی اتنے ہی اسلام کے خلاف ہیں جیسا کہ آجکل کا ملاں کہتا ہے تو پھر اس مشورے اور توجہ کی آپ کو کیا ضرورت تھی۔ بہرحال

آج کل تو ملک کو نام نہاد ملاں یرغمال بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ملک میںکوئی رجل رشید پیدا کرے جو ان کے غلط منصوبوں سے ملک کو نجات دے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔

پھر ایک مضمون ہے کہ

پاکستان ایک اینٹ ہے اُس اسلامی عمارت کی جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے۔

یہ لیکچر آپ نے ٹاؤن ہال کوئٹہ میں دیا تھا۔ مصلح موعودؓ نے پاکستان بننے کے معاً بعد پاکستان کا مستقبل کے موضوع پر لاہور میں چھ لیکچر دیےتھے جیسا کہ ذکر ہوا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حضور مغربی پاکستان کے دوسرے متعدد مرکزی شہروں میں تشریف لے گئے اور پاکستان کے ہزاروں باشندوں کو استحکامِ پاکستان کے موضوع پر اپنے بصیرت افروز خیالات اور تعمیری افکار سے روشناس کرایا۔ جون 1948ء میں حضور کوئٹہ تشریف لے گئے اور کوئٹہ میں نہایت معلومات افزا اور روح پرور پبلک لیکچر فرمائے جن میں پاکستان کو پیش آمدہ اہم ملکی مسائل میں اہل پاکستان کی راہنمائی کرتے ہوئے نہایت شرح و بسط سے، بڑی تفصیل سے انہیں اپنی قومی اور ملی ذمہ داریوں کی بجا آوری کی طرف توجہ دلائی اور اپنے پُرجوش اور محبت بھرے الفاظ میں بے پناہ قوتِ ایمانی اور ناقابل ِتسخیر عزم و ولولہ سے لاکھوں پژمردہ اور غمزدہ دلوں میں زندگی اور بشارت کی ایک زبردست روح پھونک دی۔ یہ خطاب حضرت مصلح موعودؓ نے 4؍جولائی 1948ء کو ٹاؤن ہال کوئٹہ میں پاکستان اور اس کے مستقبل کے موضوع پر ارشاد فرمایا تھا۔ یہ مارچ 1952ء میں الفضل میں شائع ہوا اور اس کا لوگوں پر بڑا اثر ہوا۔

(ماخوذ از پاکستان ایک اینٹ ہے اُس اسلامی عمارت کی جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 19)

’’پاکستان کی ترقی اور اس کے استحکام کے سلسلہ میں زرّیں نصائح

11؍نومبر 1949ء کو جماعت احمدیہ سرگودھا نے کمپنی باغ میں ایک پبلک جلسہ منعقد کیا تھا۔‘‘ اس زمانے میں تو جلسے کر سکتے تھے۔ اب تو ہم اپنے تربیتی جلسے بھی نہیں کر سکتے۔ ’’یہ جلسہ اس لحاظ سے ایک ممتاز خصوصیت کا حامل تھا کہ اس میں پہلی بار سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سرگودھا اور مضافات کے ان ہزارہا احمدی اور غیر احمدی احباب کو جو اس تقریب میں شمولیت کےلیے تشریف لائے ہوئے تھے اپنی قیمتی نصائح اور ہدایات سے مستفیض فرمایا اور انہیں اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے اور پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی طرف نہایت دلآویز پیرائے میں توجہ دلائی۔ حضور کی تقریر اول سے آخر تک انتہائی دلچسپی، پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ سنی گئی۔ حضور نے پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’ہم نے خود کہا تھا کہ خدایا! ہمیں یہ ملک دے۔ اب اس کو صحیح طور پر قائم رکھنا اور اسے ترقی دینا ہمارے ہاتھ میں ہے۔اگر ہم اپنے فرائض کو نہیں سمجھیں گے تو ہم شرمندہ ہوں گے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کہے گا کہ میں نے تمہیں یہ ملک دیا تمہارے مطالبے پر مگر تم نے اسے ضائع کر دیا‘‘۔

آجکل یہی ملاں ضائع کرنے پہ لگے ہوئے ہیں۔ ’’پاکستان کی آمدن بڑھانے کےلیے آپ نے تمام طبقہ ہائے زندگی کے لوگوں کو دیانتداری سے اپنے ٹیکس ادا کرنے اور پاکستان کی حفاظت کےلیے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تلقین فرمائی۔ ان دنوں اخباروں میں یہ چرچا تھا کہ گورنمنٹ پاکستان اسلام کی حکومت قائم کرنے کےلیے کچھ نہیں کرتی ہم نے تو پاکستان اسلام کےلیے مانگا تھا۔ اس کے متعلق بصیرت افروز ارشادات فرمائے اور آخر پر ارشاد فرمایا کہ ’’محض نعرے لگا لینا کسی قوم کی کامیابی کی علامت نہیں ہوتی۔ اگر اس وقت سارے لوگ نعرہ تکبیر بلند کرنے لگ جائیں گے۔ اگر اس وقت سارے لوگ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ پاکستان زندہ باد۔ ہندوستان مردہ باد تو اس سے ہندوستان کی ایک چوہیا بھی نہیں مرے گی۔‘‘صرف نعرے سے توکچھ بھی نہیں مرے گا۔ ’’لیکن اگر سب لوگ ان باتوں پر عمل کرنے لگ جائیں جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے‘‘جو تقریر میں ذکر فرمایا تھا۔ ’’تاجر ٹیکس دینے لگ جائیں۔ عوام الناس بغیر ٹکٹ کے ریل کا سفر نہ کریں۔ نوجوان بیہودہ باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے تعلیم میں ترقی کریں اور جو مضبوط نوجوان ہیں وہ فوجوں میں بھرتی ہوں اور افسر رشوت خوری کی عادت کو ترک کر دیں اور تمام کام دیانتداری اور محنت سے کریں تو پاکستان عملی رنگ میں مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔‘‘ لیکن آجکل تو پہلے سے بڑھ کر اس کے خلاف ہو رہا ہے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’پھر آپ ایک دفعہ بھی پاکستان زندہ باد نہ کہیں نتیجہ یہی نکلے گا کہ پاکستان زندہ باد‘‘۔‘‘(پاکستان کی ترقی اور اس کے استحکام کے سلسلہ میں زریں نصائح، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 18-20)چاہے نعرہ لگاؤ یا نہ لگاؤ۔بہرحال پاکستان زندہ باد کا عملی ثبوت ملے گا۔

عسکری مضامین

بھی بہت سارے ہیں۔ ’’روس اور موجودہ جنگ‘‘ کے حوالے سے ایک نمونةً میں نے لیا ہے۔ جنگ عظیم دوم میں روس کا پولینڈ میں داخل ہونا، اس کے اوپر یہ تبصرہ ہے۔

’’جنگِ عظیم دوم کے دوران جب روس پولینڈ میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے یہ مضمون تحریر فرمایا۔ 21؍ستمبر 1939ء کے روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا۔ حضور نے اس مضمون میں روس کے پولینڈ میں داخلہ کی وجوہات اور مقاصد کا تجزیہ کرتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ روس پولینڈ کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اس کی نیت ٹھیک نہیں لگتی۔ اس نے جرمنی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اپنی فوجیں پولینڈ بھیجنے پر مُصِر اس لیے ہے کہ جرمنی کےلیے پولینڈ پر قبضہ کےلیے سہولت پیدا کر دے اور بغیر خونریزی کے پولینڈ کی حکومت ختم ہو جائے۔ اگر اس طرح کامیابی نہ ہو تو اس معاہدے کے ذریعہ جرمنی پولینڈ پر حملہ کر دے۔ اگر دوسری اقوام دخل نہ دیں تو ٹھیک ورنہ جرمنی پولینڈ کو کچل دے اور دونوں ممالک اس کو تقسیم کر لیں۔ نیز اس مضمون میں حضور نے اس جنگ کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالی اور اپنی بصیرت اور فراست سے اتحادیوں کو مفید مشورے دئیے۔‘‘(روس اور موجودہ جنگ، انوار العلوم جلد15صفحہ 13-14)اور بڑے عمدہ مشورے تھے۔ تبھی پولینڈ بچ گیا۔

بہرحال بین الاقوامی حالات پر بھی آپؓ کی گہری نظر تھی

جیسا کہ میں نے کہا اور اس سلسلہ میں آپ کے اَور بھی مضامین ہیں۔ دینی لٹریچر تفاسیر جیسا کہ میں نے کہاکہ غیر معمولی تعداد میں ہیں۔ خطبات جمعہ اور جماعتی جلسوں اور موقعوں پر تقاریر تو علم و عرفان کا ایک خزانہ ہے۔

تفسیر کبیر پرانی پہلے دس جلدوں میں تھی اور اب آپؓ کے نوٹس سے اس میں مزید کچھ شامل کیا گیا ہے تو پندرہ جلدوں میں نئی چھپ چکی ہے اور مضامین مزید تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ پھر اور مزید سورتوں کی تفسیر میں بھی بعض نوٹس آپ کے ملے ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ شاید جب ان کو شائع کیا جائے تو اس کی بھی تیس جلدیں بن جائیں گی کیونکہ تیس ہزار صفحات ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیشگوئی میں جو وعدہ فرمایا تھا اسے ہر پہلو سے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد میں پورا ہوتا دکھایا۔ چند مثالیں میں نے ابھی آپ کو دی ہیں۔

آپؓ کے علم و عرفان کے اس لٹریچر کو ہمیں پڑھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور
بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو آجکل کے حالات میں بھی منطبق ہو رہی ہیں اور اس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: غزوۂ خیبرکےتناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍فروری ۲۰۲۵ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button