ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورۂ یورپ۔ ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۹ء کے چند واقعات۔ حصہ اول)
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
(حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۹ء کے دوران یورپ کے بعض ممالک کا دورہ فرمایا۔ اس دوران پیش آمدہ بعض ایمان افروز واقعات میں سے ایک انتخاب پیش ہے۔ادارہ)
انکساری کا شہزادہ
جب ہم دوبارہ سفرکے شروع ہونے کے منتظر تھے تو میں نے امیر جماعت احمدیہ فرانس اشفاق ربانی صاحب کے ساتھ کچھ لمحے گزارے۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ کیسے ۲۰۱۸ء میں سپین کے راستے میں حضور نے ایک شام فرانس کے ہوٹل میں گزاری۔ حضور کو ہوٹل میں دیکھ کر کچھ غیر ملکی سیاح امیر صاحب فرانس کے پاس آئے۔ یہ سیاح جو کہ مشرقِ بعید سے تعلق رکھتے تھے، حضور سے بہت متاثرنظر آئے اور حضور کو شاہی خاندان کا سینئر رکن سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے پوچھاکہ وہ پگڑی پہنے ہوئے شہزادہ کون ہیں؟ وہ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں؟ جواب میں امیر صاحب نے کہا کہ وہ ہماری جماعت کے خلیفہ ہیں اور کسی بھی شہزادے سے کہیں زیادہ عظیم ہیں۔ بعدازاں امیر صاحب نے یہ گفتگو حضور کی خدمت میں عرض کی جسے سُن کر حضور مسکرائے اور فرمایا کہ آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ ’ایک غریب ملک کا غریب انسان‘۔
جب امیر صاحب فرانس یہ بیان کررہے تھے توحضور کے الفاظ کی عاجزی و انکساری کا تصور کر کے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بلاشبہ حضور کے الفاظ یہ ثابت کرتے ہیں کہ خلافت کا عظیم اور منفرد مقام پانے کے باوجود حضور خود کو ہمیشہ ایک سادہ اور خاکسار انسان سمجھتے ہیں۔
دعاؤں کی برکات
حضورِانور نے ہالینڈ بھر سے آنے والے احمدیوں کے ساتھ فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ایک ملاقات میں نعیم الرشید میر (عمر۴۸سال ) نے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔انہوں نے بتایا کہ وہ ۲۰۱۵ء میں بھی اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ حضور سے ملے تھے۔ ان کے بیٹے اور بیٹی دونوں پیدائشی جینیاتی بیماریوں کا شکار تھے، جس کی وجہ سے ان کی نشوونما ٹھیک طرح سے نہیں ہو رہی تھی اور اس بات کا بہت امکان تھا کہ وہ مستقبل میں مفلوج ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ کیسے اُنہوں نے ۲۰۱۵ء میں حضور سے دعا کی درخواست کی اور حضور نےان کے بچوں کو اپنے دستِ مبارک سے مَس فرمایا اور اُن کے لیے دُعا کی۔دعا کے بعد حضور نے فرمایا کہ ڈاکٹر میرے بیٹے کے جسم میں ’Rod‘ ڈالیں گے جس کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا کیونکہ کئی طبی مشوروں کے باوجود کسی بھی ڈاکٹر نے کبھی دھات کی راڈ ڈالنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مگر ٹھیک ایک ماہ بعد ڈاکٹروں نے اچانک ہمیں بتایا کہ سب سے بہتر آپشن ہمارے بیٹے کے لیے یہ ہے کہ اس کے جسم میں دو دھاتی راڈز(metal rods) ڈالے جائیں تاکہ اس کی نشوونما میں بہتری آئے۔ چنانچہ راڈز ڈال دیے گئے اور تب سے میرے بیٹے کی صحت میں بہت بہتری آئی ہے۔
موصوف بیان کرتے ہیں کہ ۲۰۱۵ء میں حضور سے ملاقات کے بعد نہ صرف میرے بیٹے بلکہ میری بیٹی کی صحت میں بھی حیران کن بہتری آئی ہے۔ ہم بطورفیملی حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کے معجزانہ اثر کے گواہ اور ثبوت ہیں کہ وہی بچےجن کے بارے میں چند سال پہلے تک امید بھی نہ تھی آج ایک نارمل زندگی گزار رہے ہیں اور یہ سب کچھ صرف اور صرف حضور کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
چند لمحوں بعدمیری ملاقات ایک اور احمدی عرفان اعجاز (عمر۳۷سال) سے ہوئی جنہوں نے دعاؤں کی شفا بخش طاقت کا ایک ایسا ہی ایمان افروز واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی فیملی ۲۰۱۱ء میں پاکستان سے ہجرت کر کے ہالینڈ آ گئے تھے۔اس سے دو سال قبل ۲۰۰۹ء میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا لیکن وہ دل میں چار خانوں (chambers) کی بجائے صرف دو خانوںکے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ اس کے باعث اُس کے جسم میں خون کی روانی متاثر ہوئی تھی اور ڈاکٹروں نے اس بیماری کو اُس کی زندگی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
موصوف نے کہا کہ جب ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارا بیٹا عمران اِس مہلک بیماری میں مبتلا ہے تو ہم نے مسلسل حضورِانور کو دعاؤں کے لیے لکھنا شروع کیا۔ ہمارا دکھ اور تکلیف ناقابلِ بیان تھی لیکن حضورِانور کی محبت اور دعاؤں نے ہمیں تسلی دی اور ہم نے کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ بالآخر امریکہ سے تعلق رکھنے والے احمدی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ہمارے بیٹے کا طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں معائنہ کیا اور امریکہ میں ہونے والی جدید طبی تحقیق کی روشنی میں ایک علاج تجویز کیا۔ ان کے مشورے کے مطابق ہمارے بیٹے کے ربوہ میں دو آپریشن ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کامیاب بھی رہے۔
موصوف نے مزید بتایا کہ اب کئی سال بعد گذشتہ ماہ میرے بیٹے کی ہالینڈ میں ایک اور سرجری ہوئی، جس میں اسے ایک پیس میکر (Pacemaker) لگایا گیا۔ ابتدائی طور پر سرجری کامیاب رہی لیکن follow-up معائنہ ہوا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ زخم کے ٹانکے ٹھیک سے نہیں بھرے اور انفیکشن کا شدید خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ میرے بیٹے کے پیٹ پر ٹانکوں والی جگہ ایک پریشان کن نشان بھی نمایاں ہو گیا تھا۔ اس لمحے مجھے بہت بےچینی ہوئی کہ میرے بیٹے کو اب مزید علاج کروانا پڑے گا۔
موصوف نے مزید بتایا کہ گذشتہ جمعرات کو ہماری یہاں ہالینڈ میں حضورِانور سے ملاقات ہوئی، جس میں ہم نے حضور کی خدمت میں اپنے بیٹے کی صورتحال بتائی اور دعاؤں کی درخواست کی۔ حضور نے ہمارے بیٹے کو بےحد توجہ اور محبت دی۔ انہوں نے اس سے بات کی اور فرمایا کہ وہ اپنی خوراک کا خیال رکھے۔ حضور نے اسے خاص طور پر ہدایت فرمائی کہ وہ ایسے جوس نہ پیے جو تازہ اور خالص نہ ہوں۔ حضور نے اسے اپنے قریب بلایا اور انتہائی محبت سے ایک تحفہ عنایت فرمایا۔
گھر لوٹنے کے بعد کیا ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ گھر پہنچنے کے بعد میرا بیٹا اچانک خوشی کا اظہار کرنے لگا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے جواب دیا کہ جو نشان پہلے پیٹ پر نمودار ہوا تھا، وہ بالکل غائب ہو گیا ہے اور ٹانکے بھی ٹھیک نظر آرہے ہیں۔ بعد میں ڈاکٹروں نے بھی تصدیق کی کہ اب کسی مزید علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ سب خلافت کی برکات کی بدولت ہوا ہے اور ان شاء اللہ ہمارا بیٹا اب ایک صحت مند زندگی گزارے گا۔
اس موقع پر انہوں نے اپنے بیٹے عمران کو بلایا جس نے مجھے اپنی مختلف سرجریوں کے نشانات دکھائے۔ اس کمسن بچے نے مجھے بڑی بہادری سے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور اسے پختہ یقین ہے کہ اس کی اچھی صحت صرف حضورِانور کی دعاؤں کی برکت سے ہے۔اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ آج اس کے والد نے اسے ’شیزان‘ کے آم کا جوس لے کر دیا لیکن اس نے فوراً اُنہیں یاد دلایا کہ وہ یہ جوس نہیں پی سکتا کیونکہ حضور نے تاکید فرمائی تھی کہ صرف تازہ اور خالص جوس ہی پینا ہے۔
جلد بازی و بے خیالی میں بولنا
صبح کے وقت میں نے دو خدام کے ساتھ کچھ وقت گزارا جو گذشتہ روز حضورِانور کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ کی عاملہ کی میٹنگ میں شامل تھے۔وہ اس بات پر خوش قسمتی محسوس کر رہے تھے کہ انہیں حضور کی بابرکت صحبت میں کچھ وقت گزارنے اور براہ راست راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اِنہیں اُس خادم سے ہمدردی ہے جس نے غلطی سے حضورِانور کو جواب دیتے ہوئے ’جی صدر صاحب‘ کہہ دیا تھااور بتایا کہ وہ خود بھی ایسے لمحے کا تجربہ کر چکے ہیں جب خلیفۃالمسیح کے سامنے غلط الفاظ منہ سے نکل گئے۔ایک خادم نے بتایا کہ ان کے قریبی دوست کو حضورِانور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ملاقات کے دوران اس نے حضور کو بتایا کہ جب وہ پاکستان میں تھا تو واپڈامیں کام کرتا تھا۔
یہ سن کر حضورِانور نے ازراہِ تفنن فرمایا کہ اگر آپ واپڈا میں کام کرتے تھے تو پھر آپ نے رشوت بھی لی ہوگی؟خادم نے بغیر سوچے سمجھے بڑی گرمجوشی سے جواب دیا: جی حضور!
ملاقات چند مزید منٹ تک جاری رہی لیکن اچانک اس خادم کو احساس ہوا کہ حضور نے کیا پوچھاتھا تو وہ انتہائی پریشان ہو گیا۔ حالانکہ گفتگو آگے بڑھ چکی تھی خادم نے اچانک کہا کہ حضور! میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی رشوت نہیں لی۔
ہمارے ساتھ موجود ایک اَور خادم نے بتایا کہ وہ چند سال قبل خدام الاحمدیہ کے ایک وفد کے ساتھ حضورِانور سے ملاقات کی خاطر لندن گئے تھے جہاں انہیں حضورِانور سے اجتماعی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ملاقات کے دوران حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ آیا کسی خادم کی ایک سے زائد بیویاں ہیں۔ یہ سن کر خادم نے بے خیالی میں اور شاید حضور کی بابرکت موجودگی کی خوشی میں فوراً اپنا ہاتھ بلند کر دیا بغیر یہ سمجھے کہ حضور نے اصل میں کیا سوال کیا تھا!
اُس کے گروپ کے باقی خدام نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا کیونکہ اُن سب کو یہی معلوم تھا کہ اس خادم کی صرف ایک ہی بیوی ہے۔ ملاقات کے بعد سب نے اس سے پوچھا کہ اس نے ہاتھ کیوں اٹھایا؟ جب انہوں نے وضاحت کی کہ حضورِانور کا سوال اصل میں کیا تھا، تو وہ خود بھی حیران رہ گیا۔ہم سب ہنس پڑے کیونکہ یہ غلطیاں معصومانہ طور پر محض گھبراہٹ اور خوشی کے ملے جلے جذبات کی وجہ سے ہوتی ہیں جو ہر احمدی کو حضور سے ملاقات کے وقت محسوس ہوتے ہیں۔
(مترجم:طاہر احمد۔فن لینڈ۔انتخاب:مظفرہ ثروت۔جرمنی)
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات