حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

درود شریف کی برکات

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵ ستمبر۲۰۰۳ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ آنحضرتﷺ کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں ۔ لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے۔ پس جو فیضان شخص مد عولہٗ پرہوتا ہے وہی فیضان اس پر ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ آنحضرتﷺ پر فیضان حضرت احدیت کے بےانتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرتﷺ کے لئے برکت چاہتے ہیں ،بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے۔ (مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۲۴۔۲۵)

اس اقتباس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جو باتیں سمجھائی ہیں جن سے درود شریف پڑھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ فرمایاپہلے تو تم سب یہ یاد رکھو کہ آنحضرتﷺکو تمہاری دعاؤں کی ضرورت نہیں ۔یہ نہ سمجھو کہ تمہارے درود پڑھنے سے ہی آنحضرتﷺکا مقام بلند ہو رہاہے۔وہ توپہلے ہی ایک ایسی ہستی ہے جو خداتعالیٰ کو بہت پیاری ہے۔فرمایاکہ اس میں گہرا رازہے اور وہ یہ کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے سے ایک ذاتی تعلق اور محبت کی وجہ سے اس دوسرے شخص کے لئے رحمت اور برکت چاہتاہے تو وہ اس کے وجود کا ہی حصہ بن جاتاہے یعنی وہ محبت اور تعلق میں ایک ہو جاتے ہیں مثلاً دنیاوی رشتوں میں اب دیکھیں مثال دیتاہوں ، ماں بچے کی محبت ہے، بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچہ جب چلنا شروع کرتاہے،ذرا سی ہوش اس کو آتی ہے،اگراس کو کوئی کھانے کی چیز ملے تو وہ بعض دفعہ اس میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو اکثر ٹکڑے کی بجائے ذرّات کی شکل میں ہوتاہے۔ وہ اس پیار اور تعلق کی وجہ سے جو اس بچے کو اپنی ما ں سے ہے، اپنی ماں کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتاہے۔تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی وجہ سے ماں کا پیٹ تو نہیں بھر رہاہوتا لیکن ایک پیار کا اظہار ہو رہاہوتاہے اور اس حرکت کی وجہ سے ماں کو بھی اس بچے پر اتنا ہی پیار آتاہے اور بڑھتاہی چلا جاتاہے اور وہ اس کو پہلے سے بڑھ کراپنے ساتھ چمٹاتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی معصوم سی حرکت پر، اس کا خیال رکھتی ہے۔ تو اس طرح کی مثالیں کم وبیش آپ کو اوربھی دنیاوی تعلقات میں ، دنیاوی رشتوں میں ملتی رہیں گی۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اقتباس میں فرمارہے ہیں کہ جب محبت میں ایک ہی وجود بن جائیں توجو فیض اس کو ملتاہے اورجو برکتیں اس کو ملتی ہیں ،جس کے لئے آپ دعا کررہے ہوتے ہیں وہی آپ کو بھی مل رہاہوتاہے۔ فرماتے ہیں :کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا ء رحمتیں اور برکتیں ہیں ،اور بے انتہاء فیض ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺپر نازل فرمائیں اور فرما رہاہے اورفرماتا چلاجائے گا جب تک یہ دنیا قائم ہے۔ تو آپ کو بھی درود بھیجنے کی وجہ سے، اس ذاتی تعلق کی وجہ سے،جو ہمیں آنحضرتﷺکی ذات سے ہے اور ہونا چاہئے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺپر نازل ہونے والے فیض سے اُن لوگوں کو بھی حصہ ملتارہے گاجو ایک سچے دل کے ساتھ آپ پر درود بھیج رہے ہوں گے۔ مگر شرط یہی ہے کہ ایک جوش، ایک محبت ہوجو درود پڑھتے وقت آپ کے اندر پیدا ہو رہاہو۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اس کثرت سے درود شریف پڑھنے پر آپؑ پر جو بے انتہاء برکتیں ناز ل ہوئیں اس بارہ میں آپؑ فرماتے ہیں :

’’ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے میں ایک زمانے تک مجھے استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں ۔ بجز وسیلۂ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں۔ جیسا کہ خدا بھی فرماتاہے وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدہ:۳۳)۔ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقّے آئے ہیں اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے کاندھوں پر نورکی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذا مَاصَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘ﷺ۔ (حقیقۃالوحی۔ حاشیہ صفحہ ۱۲۸۔ تذکرہ۔ صفحہ ۷۷۔ مطبوعہ ۱۹۶۹ء)

تو اس میں آپؑ فرمارہے ہیں کہ کیونکہ مَیں اپنے پیدا کرنے والے خالق کو، مالک کو حاصل کرنا چاہتا تھا اور مجھے یہ پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنااتنا آسان کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا راستہ کوئی آسان راستہ نہیں ۔ بڑا مشکل اور کٹھن راستوں سے گزر کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتاہے۔تواس قرب کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی، آپ فرماتے ہیں کہ اب مجھ تک یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اب ایک ہی ذریعہ ہے، ایک ہی وسیلہ ہے اور وہ محمد رسول اللہﷺ ہیں ۔ تو آپ یہ فرمارہے ہیں کہ مَیں نے اس سے سبق لیتے ہوئے آپﷺپر بہت زیادہ درود بھیجا۔ اور گویا اس طرح تھاکہ مَیں ہر وقت اس ایک خیال میں ڈوبارہتاتھا اور آپؐ پر درود بھیجتا رہتاتھاتو نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بتانے کے لئے کہ تم بھی اب اس وسیلہ سے میرا قرب پا چکے ہومجھے کشفی حالت میں یہ نظارہ دکھایا کہ دو آدمی جن کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں ، اندرونی اور بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے اور کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ محمد رسول اللہﷺپر درود بھیجنے کی وجہ سے ہی یہ سب کچھ حاصل ہواہے۔ تو اندرونی اور بیرونی راستوں سے داخل ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اب اس برکت سے آپ پرہر طرح کی برکتیں اور فضل نازل ہوتے رہیں گے اور آپ پربھی آنحضرتﷺکا فیض جوہے وہ پہنچتارہے گا۔ تویہ ہیں درود کی برکات۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَم وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ۔ درود بھیج محمد ؐ اور آل محمد ؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہےﷺ۔ ‘‘

’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اسی کی طفیل سے ہیں ۔ اور اسی سے محبت کرنے کا صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے۔ کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے‘‘۔ (یعنی آپﷺکے اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کا مرتبہ کتنا بلند ہے کہ جو آنحضرتﷺسے محبت کرنے والاہے وہ اللہ تعالیٰ کا بھی محبوب بن جاتاہے۔اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے‘۔تو فرماتے ہیں کہ ’’اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نُور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں ۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجے تھے۔ﷺ۔

اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلی کے لوگ خصومت میں ہیں ۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔(اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ دین کا ازسرنو سے احیاء ہو، دین پھیلے ) لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحیی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثنا میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا۔ اور اشارہ سے اس نے کہا ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے‘‘۔ یعنی سب سے بڑی شرط یہی ہے کہ دین کو زندہ کرنے والا کون ہوگا،وہی جو اللہ تعالیٰ کے رسول سے محبت رکھتاہے ’’سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘یعنی یہ شرط حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام میں پائی جاتی ہے۔یہ اشارہ کررہے ہیں وہ فرشتے۔

’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے۔ سو اس میں بھی یہی سرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے۔ اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ۵۹۷ تا ۵۹۹)

مزید پڑھیں: بعض قرآنی دعائیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button