خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ فروری 2025ء
ظالموں پر قابو پانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عفو، درگزر اور نرمی کا سلوک کیامتعصّب مصنفین اس کا کوئی ذکر نہیں کرتے، تعریف کرنا تو الگ رہا۔ پھر ان کی صلح کی درخواست کو مانتے ہوئے ان سب کو جلا وطن کرنے کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرتے ہوئےان کو معاف کر دیا۔ پھر اس سے بڑھ کر جب ان یہود نے یہ درخواست کی کہ ہمیں یہیں رہنے دیا جائےہم کھیتی باڑی کا کام جاری رکھیں اور نصف پیداوار آپ لے لیا کریں۔ آپؐ نےان کی یہ درخواست بھی تسلیم کر لی اور صلح و سلامتی کا ایک معاہدہ طے پایا
ایک روایت کے مطابق جب حضرت بِشر بن براءؓ نے وفات پائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس (یہودی)عورت کو قتل کر دوتو اسے قتل کر دیا گیا… لیکن غالب امکان یہی ہے کہ اس عورت کو معاف کر دیا گیا تھا جیسا کہ مسلم کی حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہ خیال تھا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی اور گزرے ہوئے ماہ و سال اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ آپؐ کو نعوذ باللہ شادیوں کی عیش و عشرت سے کوئی دور کا بھی واسطہ اور تعلق نہ تھا۔ بعد میں جو آپ نے شادیاں کیں اس کی ایک حکمت تھی کہ مخالف قوم اور قبیلے کے درمیان صلح و آشتی اور محبت و موَدَّت کا تعلق پیدا ہو اور اعتماد کی فضا پیدا ہو۔ جیسے بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ سے، قریش کے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے
یہ سب شادیاں یقیناً الٰہی اشارے کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھیں۔ ہاں ان کے نتائج انتہائی بابرکت مصلحتوں کے حامل تھے
کسی حدیث یا تاریخ و سیرت کی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کے متعلق کوئی بھی روایت بیان ہو تو قرآنی آیت کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر آپؐ کا سب کچھ تھا، اس کی روشنی میں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں ان چیزوں کو دیکھنا چاہیے اور پرکھنا چاہیے نہ کہ الزام لگا دیے جائیں اور ہر ایک مستشرق کی بات مان لی جائے اور سمجھا جائے کہ ہم لاجواب ہو گئے ہیں۔
یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو قائم رکھنے کا اصل کام نہ کہ صرف نعرے لگا دینا
غزوۂ خیبرکےتناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان
نبی اکرمﷺ کو زہر دینے کی مذموم سازش اور حضرت صفیہؓ سے شادی کی تفصیلات
دو دن بعد ان شاء اللہ رمضان بھی شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور مقبول روزوں کی اوردعاؤں کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے۔اس کے لیےدعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں
مکرم چودھری محمد انور ریاض صاحب آف ربوہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ فروری 2025ء بمطابق28؍ تبلیغ 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے جنگ میں کیا آپؐ کا اسوہ تھا؟ اس بارے میں خیبر کی جنگ کا ذکر ہو رہا تھا۔
خیبر کی جنگ کے بعد یہود کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی ایک سازش
ہوئی تھی اور
زہر آلود بکری کا گوشت کھلانے کی کوشش
کی گئی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب خیبر فتح ہو گیا اور اہل خیبر کے ساتھ معاہدہ ہو گیا جس کی بنا پر یہ بری طرح شکست کھانے کے بعد ایک بار پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت سے اس طرح فیضیاب ہوئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ ان کو معاف کر دیا بلکہ خیبر میں رہنے کی بھی اجازت دے دی۔ لوگ مطمئن ہو گئے تو ایک روز یہود خیبر کی فوج کے سپہ سالار سَلَّام بن مِشْکَمْ کی بیوی زینب بنت حارث نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بھنی ہوئی بکری کا گوشت پیش کیا اور کہا کہ آپ کے لیے ہدیہ لائی ہوں۔ بعض جگہ یہ بھی ملتا ہے کہ اس سازش میں صرف یہ اکیلی عورت شامل نہ تھی بلکہ یہود کے کچھ اَور لوگ بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر وہ ہدیہ لے کر آپؐ کے سامنے رکھ دیا گیا۔ وہاں کچھ صحابہ بھی موجود تھے جن میں حضرت بِشر بن بَرَاءؓ بھی تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ قریب آجاؤ۔ اس کے بعد آپؐ نے اس میں سے دستی کا گوشت اٹھایا اور اس میں سے تھوڑا سا ٹکڑا لیا۔ دوسرے لوگوں نے بھی لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ہاتھ روک لو کیونکہ یہ دستی کا گوشت بتا رہا ہے کہ یہ زہر آلود ہے۔ حضرت بِشر بن براءؓ جو وہاں موجود تھے کہتے ہیں کہ قَسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو یہ عزت و سربلندی عطا فرمائی۔ جو لقمہ میں نے کھایا اس میں مجھے کچھ محسوس ہوا تھا مگر میں نے صرف اس لیے اس کو نہیں اُگلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکھانا خراب ہوگا۔ پھر جب آپؐ نے لقمہ اگل دیا تو مجھے اپنے سے زیادہ آپؐ کا خیال ہوا اور مجھے یہ خوشی ہوئی کہ آپؐ نے اس کو نگلا نہیں۔ حضرت بِشرؓ ابھی اپنی جگہ سے اٹھے نہ تھے کہ ان کے جسم کی رنگت تبدیل ہونی شروع ہو گئی اور پھر اس قدر بیمار پڑ گئے کہ خود سے کروٹ بھی نہیں بدل سکتے تھے۔ یہاں تک کہ قریباً ایک سال کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ جبکہ بعض نے کہا ہے کہ حضرت بِشر بن براءؓ اپنی جگہ سے اٹھنے ہی نہ پائے تھے کہ وفات ہو گئی۔ دو روایتیں ہیں۔
(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ79 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(بخاری،کتاب المغازی، باب اذا غدر المشرکون بالمسلمین حدیث 3169)
(ایام فی حیاۃ الرسول ﷺ، ازقلم فاروق حمادۃ، صفحہ 144،دارالسلام،قاہرہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلا بھیجا اور کہا کہ کیا تُو نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟ اس نے کہا کہ آپؐ کو کس نے خبر دی؟ آپؐ نے فرمایا مجھے اس دستی کے گوشت نے خبر دی ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں میں نے زہرملایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں کس نے یہ کام کرنے کو کہا تھا؟ اس نے کہا کہ آپؐ نے میری قوم کے ساتھ جو کیا ہے وہ آپؐ پر مخفی نہیں ہے۔ مَیں نے یہ سوچا کہ اگر آپؐ بادشاہ ہیں تو ہم آپؐ سے نجات پا جائیں گے اور اگر آپؐ نبی ہیں تو آپؐ کو خبر دے دی جائے گی۔ آپؐ نے اس عورت سے درگزر فرمایا یعنی معاف کر دیا۔ آپؐ نے اس عورت سے کوئی بدلہ نہ لیا۔ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا کہ تجھے ایسا کرنے پر کس نے ابھارا ہے؟ اس نے کہا آپؐ نے میرے باپ اور میرے چچا اور خاوند اور بھائی کو قتل کیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق جب حضرت بِشر بن براءؓ نے وفات پائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس عورت کو قتل کر دو تو اسے قتل کر دیا گیا۔
یہ بھی ایک روایت ہے۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 135،134دار الکتب العلمیۃ بیروت)
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ اس عورت کو قتل نہیں کیا گیا
چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زہر ملابکری کا گوشت لائی۔ آپؐ نے اس میں سے کچھ کھا لیا۔ پھر عورت کو آپؐ کے پاس لایا گیا۔ آپؐ نے اس عورت سے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس عورت نے کہا میرا ارادہ آپ کو قتل کرنے کا تھا۔ آپؐ نے فرمایا یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ اللہ تمہیں اس کی طاقت دے یا فرمایا مجھ پر اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی طاقت دے۔ راوی کہتے ہیں لوگوں نے کہا کیا ہم اس عورت کو قتل نہ کر دیں جس نے یہ ارادہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ مَیں اس کا اثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں محسوس کرتا تھا۔
(صحیح مسلم كتاب السلام باب السم مترجم جلد 12 صفحہ 66 نور فاؤنڈیشن)
علامہ نَوَوِی نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کروا دیا تھا اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو حضرت بِشرؓ کے وارثوں کے سپرد کر دیا تھا جنہوں نے اسے قتل کر دیا۔ محدثین کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کروا دیا تھا۔ قاضی عیاض کے مطابق قتل کرنے اور نہ کرنے والی روایات کی اس طرح تطبیق کی جا سکتی ہے کہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل نہیں کیا تھا مگر جب حضرت بِشرؓ کا انتقال ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو حضرت بِشرؓ کے وارثوں کے سپرد کر دیا جنہوں نے اسے قصاص کے طور پر قتل کر دیا ۔
(المنھاج شرح صحیح مسلم جلد14 صفحہ1638 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
لیکن غالب امکان یہی ہے کہ اس عورت کو معاف کر دیا گیا تھا جیسا کہ مسلم کی حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہ خیال تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’ ایک یہودی عورت نے صحابہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور کے کس حصہ کاگوشت زیادہ پسند ہے؟ صحابہؓ نے بتایا کہ آپؐ کو دست کا گوشت زیادہ پسند ہے۔ اس پر اس نے بکرا ذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا۔ خصوصاً بازوؤں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سورج ڈوبنے کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آ رہے تھے تو آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ کے خیمے کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے۔ آپؐ نے اس سے پوچھا۔ بی بی! تمہارا کیا کام ہے ؟اس نے کہا اے ابو القاسم! میں آپؐ کے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ساتھی صحابیؓ سے فرمایا جو چیز یہ دیتی ہے اس سے لے لو۔ اس کے بعد آپؐ کھانے کے لیے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپؐ کے ایک صحابی بشیر بن البراء بن المعرورنے بھی لقمہ کھایا۔‘‘ صحابی کا نام یہاں سہو لگتا ہے۔یہاں ’’بشیر‘‘ کے بجائے ’’بِشر‘‘ ہونا چاہیے۔ ’’اتنے میں باقی صحابہؓ نے بھی گوشت کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپؐ نے فرمایا مت کھاؤ کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے (اس کے یہ معنی نہیں کہ آپؐ کو اس بارہ میں کوئی الہام ہوا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کاگوشت چکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گرنا چاہتی تھی جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ پس اس جگہ پر بھی یہ مراد نہیں کہ آپؐ نے فرمایا وہ دست بولا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے۔ چنانچہ اگلا فقرہ ان معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے)۔ اس پر بِشرؓ نے کہا کہ جس خدا نے آپؐ کو عزت دی ہے اس کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقمہ میں زہرمعلوم ہوا ہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں گزرے اور آپؐ کا کھانا خراب نہ ہو جائے اور جب آپؐ نے وہ لقمہ نگلا تو میں نے بھی آپؐ کے تتبع میں نگل لیا۔ گو میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ہے اس لیے کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لقمہ نہ نگلیں‘‘۔ حضرت مصلح موعود نے نگلنے کا ذکر کیا ہے لیکن دوسری روایات میں یہ ہے کہ نگلا نہیں تھا نکال دیا تھا۔ بہرحال اس کے بعد آپؓ کہتے ہیں کہ ’’اس کے تھوڑی دیر بعد بِشرؓ کی طبیعت خراب ہو گئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور اس کے بعد فوت ہو گئے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ مر گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے؟ اس نے کہا آپؐ کو یہ کس نے بتایا ہے؟ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت بکری کا دست تھا۔ آپؐ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے۔ اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپؐ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملایا ہے۔ اس پر آپؐ نے اس سے پوچھا کہ اس ناپسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا ؟اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپؐ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتہ دار اس لڑائی میں مارے گئےتھے۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں ان کو زہر دے دوں۔ اگر ان کا کاروبار انسانی ‘‘ رہا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’کا کاروبار انسانی کاروبار ہوگا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعہ میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچا لے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر اسے معاف فرما دیا اور اس کی سزا جو یقیناً قتل تھی نہ دی۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد20 صفحہ 327تا 329 )
یہ حضرت مصلح موعودؓ کا خیال ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس زہر کی وجہ سے ہوئی ہے۔
کیا یہ صحیح ہے؟
صحیح بخاری میں ہے حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں فرماتے تھے کہ اے عائشہ! اس کھانے کی تکلیف جو خیبر میں مَیں نے کھایا تھا مجھے ہمیشہ محسوس ہوتی رہی اور اب بھی اس زہر سے میں اپنی رگیں کٹتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں۔ اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے بعض مسلمان مفسرین اور محدثین نے یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات گویا خیبر کے موقع پر کھائے جانے والے اسی زہریلے گوشت کی وجہ سے ہوئی اور اس وفات کو اس وجہ سے شہادت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید اعظم تھے۔
(دلائل النبوۃ جلد4صفحہ264دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فتح الباری جلد8صفحہ166قدیمی کتب خانہ کراچی)
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیﷺ و وفاتہ حدیث 4428)
(صحیح بخاری کتاب الھبہ باب قبول الھدیہ حدیث2617)
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس تکلّف کی ضرورت نہیں۔
نبی تو اس مقام اور مرتبہ کا حامل ہوتا ہے کہ وہ شہید بھی ہوتا ہے، صدیق بھی ہوتا ہے بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایسا کہنا دشمن کو ہنسی کا موقع دینے کے مترادف ہے۔
یہود نے تو اس لیے زہر دیا تھا کہ اگر یہ خدا کا سچا نبی ہوگا تو اس زہر سے بچ جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچ جانے کی وجہ سے انہوں نے جان لیا کہ آپؐ واقعی خدا کے سچے نبی ہیں اور ان کی نگاہ میں تو یہ ایک معجزہ قرار پایا لیکن بعض سادہ لوح ہیں کہ وہ اس زہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو تسلیم کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہرگز ہرگز اس زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو صرف ایک تکلیف کا اظہار تھا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ بعض اوقات کوئی جسمانی تکلیف یا زخم یا بیماری کبھی کبھی کسی خاص موقع پر یا خاص موسم میں کسی سبب سے باہر آ جاتی ہے۔ اگر اس کی تفصیل میں جائیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ زہر ملا ہوا یہ گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ میں ڈال دیا تھا لیکن نگلا نہیں تھا اور منہ میں جانے کی وجہ سے آپ کے حلق یا کوے پر زخم آگیا تھا اور کبھی کبھار کھانے کے دوران اس میں تکلیف محسوس فرماتے تھے اور اسی تکلیف کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری بیماری میں فرمایا ہوگا۔
(فتح الباری جلد16 صفحہ303قدیمی کتب خانہ کراچی)
( سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ79دار الکتب العلمیۃ بیروت)
خیبر کی جنگ کے حوالے سے
حضرت صفیہؓ سے شادی
کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ خیبر کے قلعہ نَزَارکو جب فتح کیا گیا تو وہاں بہت سے قیدی بھی بنائے گئے۔ ان قیدیوں میں حضرت صفیہؓ اور ان کی چچا زاد اور دیگر عورتیں تھیں۔ بعض کتب میںنَزَار کی جگہ قموص قلعہ کا نام ملتا ہے۔ حضرت صفیہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کَتِیْبَہ کے قلعوں میں پہنچنے سے قبل ہی نَزَار کے قلعے میں قیدی بنا لیا تھا۔
(ماخوذاز فتح خیبر از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ161نفیس اکیڈمی کراچی)
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ697 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
کِنَانَہ کی رائے کے مطابق قلعہ نَزَار زیادہ مضبوط تھا اس لیے ان لوگوں نے عورتوں اور بچوں کو قلعہ نَزَار میں منتقل کر دیا تھا۔
(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد8 صفحہ424دا ر السلام)
حضرت صفیہؓ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آنے اور
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شادی کی تفصیلات
یوں بیان ہوئی ہیں کہ خیبر میں جب قیدیوں کو اکٹھا کیا گیا تو حضرت دِحْیَہ آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے ان قیدیوں میں سے ایک لڑکی دیجئے۔ فرمایا جاؤ ایک لڑکی لے لو۔ انہوں نے حُیَیّ بن اَخْطَبْکی بیٹی صفیہ کو لے لیا۔ اس پر ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ نے دِحْیَہ کوحُیَیّ کی بیٹی دے دی ہے جو بنی قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہے۔ وہ تو آپؐ کے علاوہ کسی کے لیے مناسب نہیں۔ فرمایا اسے اس کے ساتھ بلا لاؤ۔ وہ ان کو لے آیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا ان قیدیوں میں سے اس کے سوا کوئی اور لڑکی تم لے لو۔ حضرت انسؓ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ ؓکو آزاد کر دیا۔
مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ سے فرمایا کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔ چاہو تو مجھ سے شادی کر لو اور چاہو تو اپنے قبیلہ کی طرف واپس چلی جاؤ۔ دو choicesہیں۔ جس پر انہوں نے آزادی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کو پسند کیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
(مسنداحمدبن حنبل جلد4صفحہ 357حدیث نمبر12436 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت النبی ﷺ از صلابی صفحہ 281،280مکتبہ دار السلام)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دِحْیَہؓ کو فرمایا کہ کوئی اَور لونڈی لے جاؤ۔ تو ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت صفیہؓ کی چچا زاد بہن یا کِنَانَہ بن رَبِیْع کی بہن عطا کی۔ بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دِحْیَہؓکو سات غلام یا لونڈیاں دیں اور حضرت صفیہؓ کو حضرت ام سلمہؓ کے پاس بھیج دیا۔
(الاکتفاءجلد1صفحہ187 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرۃ النبیؐ از شبلی نعمانی جلد1صفحہ329 مکتبہ اسلامیہ)
( البدایہ والنھایہ جلد6صفحہ293 مطبوعہ دارھجر)
(نجاح القاری شرح صحیح بخاری جلد13صفحہ 106دار الکتب العلمیۃ بیروت)
خیبر کے تمام معاملات سے فارغ ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے روانہ ہوئے اور کوئی چھ میل کے فاصلے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤ کرنا چاہا تاکہ حضرت صفیہؓ سے شادی کی تکمیل ہو سکے لیکن حضرت صفیہؓ کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کو جاری رکھا اور خیبر سے قریباً بارہ میل کے فاصلے پر صَہْبَاءْ مقام پر پڑاؤ کیا ۔ حضرت ام سُلَیْمؓ نے دلہن کو تیار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ سے پوچھا کہ پہلی جگہ پر پڑاؤ کرنے سے کیوں روک دیا تھا؟ تو ان کےجواب سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ نے کس قدر حضرت صفیہؓ کے دل کو صاف کر دیا تھا۔ یہودی سردار کی بیٹی اور ایک یہودی سردار کی بیوی جس کا باپ مسلمانوں کے ہاتھوں سے غزوۂ خندق کے بعد قتل ہوا تھا۔ اس کا خاوند اور خاوند بھی وہ کہ ابھی دو ماہ قبل شادی ہوئی تھی چند روز قبل مارا گیا تھا۔ جس کا چچا بھی مارا گیا اور بھی قریبی رشتہ دار مارے گئے۔ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ میرے دل میں آپؐ کے بارے میں شدید نفرت تھی لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں پہلی بار ملی تو بہت ہی محبت اور شفقت سے مجھے ملے اور بار بار مجھ سے عذر فرماتے رہے کہ اے صفیہؓ! تیرا باپ سارے عرب کو ہمارے خلاف تیار کر کے لے آیا تھا اور اُس نے یہ کیا، اُس نے یہ کیا اور آخر کار ہمیں اپنے دفاع کے لیے خیبر آنا پڑا تاکہ اُس کی سازشوں کے خلاف کارروائی کریں۔ حضرت صفیہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی کثرت سے اور اتنی محبت سے یہ بات بار بار بیان کی کہ میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بالکل صاف ہو گیا اور مَیں پہلی مجلس سے ہی اٹھی ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھ کو کوئی محبوب نہ تھا اور جب خیبر سے واپسی کا سفر شروع ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے حسنِ سلوک کا یہ عالم تھا کہ جب سفر کے لیے روانہ ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر کو تہ کر کے وہاں رکھا۔ پھر اپنا گھٹنا زمین پر رکھا جس پرحضرت صفیہؓ اپنا پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوئیں۔ راستے میں جب حضرت صفیہؓ کو اونگھ آتی اور سر ہودج سے ٹکرانے لگتا تو اپنے ہاتھ مبارک سے حضرت صفیہؓ کے سر کو تھامتے اور فرماتے کہ کہیںچوٹ نہ لگ جائے۔ کیونکہ حضرت صفیہؓ ازواجِ مطہرات میں شامل ہو چکی تھیں اس لیے خیبر سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیچھے اونٹ پر سوار کیا اور پردے کے لیے ان پرچادر ڈال دی جس سے یہ واضح ہو کہ وہ آپؐ کی لونڈی نہیں بلکہ بیوی ہیں۔
بہرحال چھ میل پر نہ رکنے کا انہوں نےجو جواب دیا اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا ہی اثر تھا کہ حضرت صفیہؓ کو دنیا جہان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اَور کوئی محبوب نہ تھا۔ چنانچہ حضرت صفیہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا کہ آپؐ خیبر کے بہت قریب پڑاؤ کرنا چاہتے تھے تو مجھے اپنی قوم سے خوف تھا کہ کہیں وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ اس لیے میں نے چاہا کہ آپؐ خیبر سے کچھ مزید دور نکل کر قیام فرمائیں۔ یہود کی سازشوں اور ان کے خطرناک ارادوں سے صحابہ بھی واقف تھے اور خیبر کی زینب نامی خاتون کے زہر ملے کھانے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے اس لیے آپؐ کے جانثار صحابہؓ اب کسی بھی لمحے آپؐ سے غافل نہیں رہنا چاہتے تھے۔
یہاں ابو ایوبؓ کا واقعہ بیان ہوتا ہے جنہوں نے رات کو پہرا دیا اور ان کا ایک معصومانہ اور عاشقانہ مظاہرہ اس شادی کے دوران دیکھنے میں آیا اور وہ اس طرح ہے کہ رات گزرنے کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت اپنے خیمے سے باہر نکلے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ تلوار ہاتھ میں لیے آپ کے خیمے کے باہر چاک وچوبند کھڑے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مجھے اس یہودی نو مسلم خاتون یعنی حضرت صفیہؓ سے اندیشہ ہوا کہ اس کا باپ اور خاوند اور اس کی قوم کے لوگ قتل ہوئے ہیں اور ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے آپؐ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ اس لیے میں ساری رات تلوار لیے باہر پہرہ دیتا رہا۔ حضرت ابو ایوبؓ کی اس معصومانہ محبت کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا دیتے ہوئے فرمایا۔ اے اللہ! ابوایوبؓ کی حفاظت فرما جیسے انہوں نے میری حفاظت کرتے ہوئے رات بسر کی۔ ان کا نام خالد بن زید تھا یہ وہی صحابی ہیں جن کو ہجرت مدینہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ماہ تک میزبانی کا شرف حاصل ہوا ۔ پچاس ہجری میں ایک مہم کے دوران وفات پائی اور استنبول میں ان کا مزار ہے۔
بہرحال اگلے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوتِ ولیمہ کا انتظام کیا گیا یہ دعوتِ ولیمہ بھی بہت پُروقار اور سادہ تھی۔ کھجور، پنیر اور گھی سے تیارشدہ حَیْس تھا جو سب کے لیے تیار کیا گیا۔ تین دن کے قیام کے بعد یہاں سے روانگی ہوئی۔ حضرت صفیہؓ کی آزادی ہی ان کا حق مہر قرار پایا۔
حضرت صفیہؓ کی ایک خواب کا بھی ذکر ملتا ہے جس کی صداقت بھی اس شادی سے واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ کی آنکھ کے قریب نیل کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ چوٹ کا نشان کس وجہ سے ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپؐ کے خیبر آنے سے چند روز قبل یا بعض روایات کے مطابق خیبر کے محاصرہ کے دنوں میں مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ چاند یثرب کی طرف سے آیا ہے اور میری جھولی میں گر گیا ہے۔ میں نے یہ خواب اپنے شوہر کِنَانَہکو بتایا تو اس نے میرے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا کہ تم یثرب کے اس بادشاہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے خواب دیکھ رہی ہو۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحہ65دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت ابن ہشام صفحہ698دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد8 صفحہ423-424بزم اقبال لاہور)
(ماخوذازاسد الغابہ جلد2صفحہ123،121دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(نجاح القاری شرح بخاری ،جلد13صفحہ 551دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت النبیؐ از صلابی صفحہ281 دار السلام)
(امتاع الاسماع جلد 10 صفحہ56دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بعض روایات کے مطابق یہ خواب بہت پرانا تھا اور ان کے والد حُیَیّ نے تھپڑ مارا تھا لیکن زیادہ تر کتب میں یہی ہے کہ ان کے خاوند نے تھپڑ مارا تھا اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ حضرت صفیہؓ کا نام زینب تھا لیکن مالِ غنیمت تقسیم ہونے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو لے کر آزاد کر دیا تھا اور اس وقت کے دستور کے مطابق مالِ غنیمت کی تقسیم سے قبل جو اموال سردار کے لیے ہو اس کو صَفِیَّہ یا اَلصَّفٰی کہا جاتا تھا۔ اس مناسبت سے ان کا نام صفیہ معروف ہو گیا۔ حضرت صفیہؓ نے پچاس ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں وفات پائی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔
(سیرۃ النبی از شبلی نعمانی جلد2 صفحہ709-710مکتبہ اسلامیہ)
(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 269 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت صفیہؓ کی شادی پر بھی مستشرقین تنقید کرتے ہیں اور اپنی عادت کے مطابق حضرت صفیہؓ کی شادی پر بعض اعتراض کرتے ہیں جو ان کی اپنی جہالت اور تعصب کی دلیل ہے۔ مثلاً انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے نویں ایڈیشن میں Muhammadanism کے تحت لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس کامیاب معرکے کا آخری کارنامہ بادشاہ کی بیٹی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عقد تھا۔ صفیہ کو ایسے شخص سے ذرا بھی کراہت نہ ہوئی، یہ مستشرق لکھ رہا ہے کہ جو اس کے باپ حُیَیّ اور اس کے شوہر کِنَانَہ کے قتل کا باعث تھا بلکہ نہایت شان سے اس نے اپنے آپ کو نئے رنگ میں رنگ لیا۔ اس سے زیادہ قابلِ ستائش تو ایک دوسری یہودیہ زینب کا طرز عمل تھا جس نے اپنی قوم کے قاتل کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس جرم کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ یہ کوشش ناکام رہی لیکن کہا جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری علالت میں بھی اس زہر کا اثر محسوس کرتے تھے، یعنی صفیہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس کا خاوند اور باپ مارا گیا اور چاہیے تو یہ تھا کہ کچھ غیرت کا مظاہرہ کرتی اور اس کا بدلہ لیتی لیکن انہوں نے اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کر لی۔ اس کے بالمقابل دوسری یہودی عورت جس نے زہر دیا تھا اس کی یہ تعریف کر رہا ہے کہ اس نے کم از کم غیرت کا مظاہرہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کی کوشش کی۔
ان مصنفین کی اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کی کوئی حد نہیں ہے۔ اتنابھی نہیں سوچتے کہ ذرا سی عقل سلیم رکھنے والا شخص ان کی تحریرات سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ تعصب کا زہر ہے جو ان کی تحریرات سے خود بخود عیاں ہوتا چلا جاتا ہے۔ انصاف سے کام نہیں لیتے۔
خیبر کے یہود کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زبردست مقابلہ ہوا۔ پھر انہوں نے بری طرح شکست کھائی۔ اس کے بعد ان سے کیا سلوک ہونا چاہیے تھا؟ یہ جنگی قاعدہ چاہے اُس زمانے کا ہو یا آج کل کی مہذب دنیا کا، اس کے مطابق اگر ان سب کو تہ تیغ بھی کر دیا جاتا تو یہ جائز تھا۔ ان کی بائبل کی رو سے بھی اور اس وقت کے قواعد اور طریق کے مطابق بھی یہ سب جائز تھا لیکن
ان ظالموں پر قابو پانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عفو، درگزر اور نرمی کا سلوک کیا اس کا کوئی ذکر نہیں کرتے تعریف کرنا تو الگ رہا۔ پھر ان کی صلح کی درخواست کو مانتے ہوئے ان سب کو جلا وطن کرنے کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرتے ہوئے ان کو معاف کر دیا۔ پھر اس سے بڑھ کر جب ان یہود نے یہ درخواست کی کہ ہمیں یہیں رہنے دیا جائے ہم کھیتی باڑی کا کام جاری رکھیں اور نصف پیداوار آپ لے لیا کریں۔ آپ نے ان کی یہ درخواست بھی تسلیم کر لی اور صلح و سلامتی کا ایک معاہدہ طے پایا
لیکن ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان لوگوں نے سازش کر کے ایک عورت کے ذریعہ سے آپؐ کو زہر دلوانے کی کوشش کی اور اس عورت نے جرم تسلیم بھی کر لیا جیسا کہ ابھی بتایا۔ آج کی مہذب دنیا کے مہذب لوگ جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں وہ ایسی بدعہد عورت کو ایک قومی ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور جس عورت نے حق وصداقت کو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا خود مشاہدہ کر کے سچائی کو قبول کر لیا اور باوجود آزادی کے پروانے کے جو آپؐ نے فرمایا تھا کہ آزاد ہو تم، اس بات کو ترجیح دی کہ آپؐ کے ساتھ رہے اس پہ تنقید کرتے ہیں۔ یعنی اس وقت تو شخصی آزادی اور عدل و انصاف کے تمام اصول بھول جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح بعض دوسرے معترضین اعتراض کرتے ہیں اور بدنما انداز میں اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہؓ کے حسن کی تعریف سنی تو حضرت دِحْیَہؓ سے انہیں واپس مانگ لیا اور خود ان سے شادی کر لی وغیرہ۔ اصل میں یہ اعتراض تو اپنی ذہنی پستی کی وجہ سے یہ لوگ کرتے ہیں اور دوسرے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی سوانح اور سیرت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے دل تعصب سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لوگ انصاف کی نظر سے اور پاک دل سے دیکھیں تو ایسی سوچ نہ رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزری ہوئی زندگی پر نظر ڈالی جائے جس کی طرف قرآن کریم بھی بڑے خوبصورت انداز میں توجہ دلاتا ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(يونس: 17) کہ پس میں اس رسالت سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں تو کیا تم عقل نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بھرپور جوانی کیسے گزاری اس قوم میں جہاں شراب اور شباب کی محفلیں نہ صرف عام تھیں بلکہ فخر کے اظہار کے طور پر اس کا ذکر کیا جاتا تھا۔ آپ نے اپنی ساری جوانی ایک بیوہ اور معزز اور شریف عورت کے ساتھ شادی کر کے گزاری اور کم و بیش پچاس سال کی عمر تک اسی ایک بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ خوبصورت سے خوبصورت عورت کی پیشکش خود سرداران قریش نے آپ کو کی تھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے لیکن آپ نے ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی اور گزرے ہوئے یہ ماہ و سال اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ آپ کو نعوذ باللہ شادیوں کی عیش و عشرت سے کوئی دور کا بھی واسطہ اور تعلق نہ تھا۔ بعد میں جو آپ نے شادیاں کیں اس کی ایک حکمت تھی کہ مخالف قوم اور قبیلے کے درمیان صلح و آشتی اور محبت و موَدَّت کا تعلق پیدا ہو اور اعتماد کی فضا پیدا ہو۔ جیسے بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ سے، قریش کے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے۔
ایسے ہی خیبر فتح ہوا تو بجائے اس کے کہ قبیلے کے سردار کی بیوی اور بیٹی کو غلام اور لونڈی کے طور پر ایک عام شخص کے حوالے کر دیا جاتا، اس کی ذلت اور رسوائی کی جاتی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو روحانی دنیا کے بادشاہ تھے، مدینہ کی ریاست کے بھی سربراہ تھے انہوں نے حضرت صفیہ کو پہلے آزاد کیا اور ان کی عزت افزائی کی۔ پھر ان کو اپنے گھر والوں کی طرف جانے کی پیشکش کر کے ان کے مقام و مرتبہ کو اَور بڑھایا۔ جاؤ اپنے گھر والوں کی طرف جا سکتی ہو۔ پھر ان کے ساتھ شادی کر کے ان کو وہ مقام دیا کہ تمام مومنین کی ماں کہلائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے قبائل اور خاندان کی عزت و توقیر میں بھی اضافہ ہوا اور معاشرے میں امن و سلامتی کی ایک فضا پیدا ہوئی۔ولیم منٹگمری واٹ ایک سکاٹش مستشرق ہے جس نے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت سخت ریمارکس اپنی کتب میں دیے ہیں۔ اس کی ایک کتاب کا نام ’’Muhammad at Medina‘‘ ہے۔ اس کتاب میں متعصب ہونے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کے بارے میں وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہے کہ
یہودیوں کی بیٹیوں صفیہ اور ریحانہ سے شادی استوار کرنے کے
سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں۔
یہ نہیں کہا کہ کوئی خوبصورتی پسند آئی ہے بلکہ کہتا ہے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک اس یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں یا ضمنی فہرست میں خواتین کے ساتھ مجوزہ شادیوں کا تعلق ہے غالباً اس کا بنیادی مقصد سیاسی تھا۔ کم از کم اتنا تو یہ تسلیم کر لیا کہ کوئی غلط نظر نہیں تھی۔
(Encyclopedia Britannica 9th Edition Vol 16 p.558)
(Muhammad At Medina By Montgomery Watt p.288 )
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ ایک مشہور مستشرق ولیم میور کے حضرت صفیہؓ کی شادی پر اس طرح کے اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’مسٹر میور(Muir) نے اعتراض کیا مگر وہ جانتا نہ تھا کہ ملک عرب میں دستور تھا کہ مفتوحہ ملک کے سردار کی بیٹی یابیوی سے ملک میں امن و امان قائم کرنے اور اس ملک کے مقتدر لوگوں سے محبت پیدا کرنے کے لیے شادیاں کیا کرتے تھے۔ تمام رعایا اور شاہی کنبہ والے مطمئن ہو جایا کرتے تھے کہ اب کوئی کھٹکا نہیں۔ چنانچہ خیبر کی فتح کے بعد تمام یہود نے وہیں رہنا پسند کیا۔‘‘
(خطبات نور صفحہ 532)
حضرت صفیہؓ کی شادی کے حوالے سے ہمارے سیرت نگار اور مؤرخین نے بھی بے احتیاطی کی ہے اور یہ غلطی کی ہے کہ بغیر چھان پھٹک کے ان روایات کو لیتے چلے گئے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ مثلاً یہ روایت کم و بیش ہر تاریخ اور سیرت کی کتاب میں ملتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ کو پہلے حضرت دِحْیَہؓ کے سپرد کر دیا تھا لیکن جب ان کے حسن و جمال کے قصے سنے تو پھر حضرت صفیہؓ کو بلایا اور اپنے لیے خاص کر لیا اور اس طرح کے مضمون کی ایک روایت بخاری میں بھی ہے۔ جس کی روایت اس طرح ہے کہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں جب ہم خیبر پہنچے اور جب اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کر دیا تو صفیہ بنت حُیَیّ بن اخطب کی خوبصورتی کا تذکرہ آپؐ کے سامنے کیا گیا اور وہ نئی نویلی دلہن ہی تھی کہ اس کا شوہر مارا گیا تھا۔ یعنی شادی کو ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے لیے چن لیا۔ یہ وہ روایت ہے کہ بعض بیمار ذہن کے جو لوگ ہیں اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
مشہور سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت صفیہؓ کی نسبت بعض کتب حدیث میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان کو دِحْیَہ کلبی کو دیا تھا پھر کسی نے ان کے حسن کی تعریف کی تو اس سے مانگ لیا اور اس کے معاوضہ میں ان کو سات لونڈیاں دیں۔ مخالفین نے اس روایت کو نہایت بدنما پیرائے میں ادا کیا ہے اور جب اصل روایت میں اتنی بات موجود ہے تو ظاہر ہے کہ مخالف اس سے کہاں تک زیادہ کام لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت صفیہؓ کا یہ واقعہ حضرت انسؓ سے منقول ہے لیکن خود حضرت انسؓ سے متعدد روایتیں ہیں اور وہ باہم مختلف ہیں۔ حضرت انسؓ سے ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت صفیہؓ دِحْیَہ کے حصے میں آئیں تو لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کیا کہ وہ سردارانِ خیبر کی ایک عالی مرتبت معزز خاتون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اَور کوئی اس کے لائق نہیں۔ تو اوّل تو کوئی ایسی روایت اگر واقعی درست ہے جیسا کہ بخاری کی یہ روایت ہے کہ ان کے حسن و جمال کی تعریف کی گئی تھی تو ممکن ہے کہ صحابی کے بعد والے کسی راوی نے یہ روایت کی ہو اور یہ الفاظ اپنی جانب سے شامل کر دیے ہوں کیونکہ کوئی صحابی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بارے میں ایسی کوئی بات بیان نہیں کر سکتا۔ پہلا واقعہ جو ہے کسی صحابی نے بیان کیا ہے۔ بعد میں بعض لوگوں نے ان روایتوں میں ایڈیشن کر دی کیونکہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بارے میں ایسی کوئی بات بیان نہیں کر سکتا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں کسی بھی قسم کی ذرا سی تنقیص کی طرف اشارہ ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں نے اپنے طور پر حضرت صفیہؓ کے حسن و جمال کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر خوبیاں اور خاندانی مقام و مرتبہ کا ذکر کیا ہواور راوی نے ایک مختصر سے الفاظ میں جو اس کویاد رہ گیا وہ بیان کر دیا لیکن ایک اہم اور بنیادی بات جس کی طرف سیرت نگار نظر نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس عظیم مقام و مرتبہ پر فائز ہیں ان کے لیے کسی کے اندر پائی جانے والی یہ خوبیاں اور کمالات ایک سطحی اور ضمنی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ نے شادی کے فیصلے جب کیے تو بنیادی سبب یہ نہیں تھے جو بیان کیے جاتے ہیں اصل بنیادی سبب تو حکمِ الٰہی ہوتا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ایک ایک حرکت و سکون الٰہی منشاء کے بغیر نہیں ہوا کرتی تھی جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163)تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ جو سارے کام ہی اس کی خاطر کرتے ہوں اور جن کی لمحہ لمحہ راہنمائی عرش کا خدا کرتا ہو وہ بھلا اتنا بڑا فیصلہ ازخود کیوں کر سکتے ہیں۔ تو
یہ سب شادیاں یقیناً الٰہی اشارے کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھیں۔
ہاں ان کے نتائج انتہائی بابرکت مصلحتوں کے حامل تھے۔
(بخاری کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر حدیث4211)
(سیرت النبیﷺ ازشبلی جلداول صفحہ 283مکتبہ اسلامیہ)
(ماخوذاز بخاری کتاب الصلوٰۃ، باب مایذکرفی الفخذ حدیث371)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنی ایک کتاب آئینہ کمالات اسلام میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت صحابہ کا بلا شبہ یہ اعتقاد تھا کہ آنجناب کا کوئی فعل اور کوئی قول وحی کی آمیزش سے خالی نہیں گو وہ وحی مجمل ہو یا مُفَصَّل، خَفِی ہو یا جَلِی، بَیِّن ہو یا مشتبہ یہاں تک کہ جو کچھ آنحضرت صلعم کے خاص معاملات و مکالمات خلوت اور سِرّ میں بیویوں سے تھے یا جس قدر اکل اور شُرب اور لباس کے متعلق اور معاشرت کی ضروریات میں روزمرہ کے خانگی امور تھے سب اسی خیال سے احادیث میں داخل کیے گئے کہ وہ تمام کام اور کلام روح القدس کی روشنی سے ہیں۔ چنانچہ ابوداؤد وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے اور امام احمد بہ چند وسائط‘‘ یعنی کچھ واسطوں سے ’’عبداللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ نے کہا کہ میں جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا تھا لکھ لیتا تھا تا میں اس کو حفظ کر لوں۔ پس بعض نے مجھ کو منع کیا کہ ایسا مت کر کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں کبھی غضب سے بھی کلام کرتے ہیں تو میں یہ بات سن کر لکھنے سے دستکش ہو گیا اور اس بات کا رسول اللہ صلعم کے پاس ذکر کیا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’تو آپ نے فرمایا ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ اس ذات کی مجھ کو قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو مجھ سے صادر ہوتا ہے خواہ قول ہو یا فعل وہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہی احادیث کی کتابوں میں بعض امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجتہادی غلطی کا بھی ذکر ہے۔ اگر کل قول وفعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی سے تھا تو پھر وہ غلطی کیوں ہوئی؟ گو آنحضرت اس پر قائم نہیں رکھے گئے‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’تواس کا جواب یہ ہے کہ وہ اجتہادی غلطی بھی وحی کی روشنی سے دور نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قبضہ سے ایک دم جدا نہیں ہوتے تھے۔ پس اس اجتہادی غلطی کی ایسی ہی مثل ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں چند دفعہ سہو واقع ہوا تا اس سے دین کے مسائل پیدا ہوں۔ سو اسی طرح بعض اوقات اجتہادی غلطی ہوئی تا اس سے بھی تکمیل دین ہو اور بعض باریک مسائل اس کے ذریعے سے پیدا ہوں اور وہ سہو بشریت بھی تمام لوگوں کی طرح سہو نہ تھا بلکہ دراصل ہم رنگ وحی تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تصرف تھا جو نبی کے وجود پر حاوی ہو کر اس کو کبھی ایسی طرف مائل کر دیتا تھاجس میں خداتعالیٰ کے بہت مصالح تھے۔ سو ہم اس اجتہادی غلطی کو بھی وحی سے علیحدہ نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ایک معمولی بات نہ تھی بلکہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنے نبی کو اپنے قبضہ میں لے کر مصالح عام کے لیے ایک نور کو سہو کی صورت میں یا غلط اجتہاد کے پیرایہ میں ظاہر کر دیتا تھا اور پھر ساتھ ہی وحی اپنے جوش میں آ جاتی تھی۔ جیسے ایک چلنے والی نہر کا ایک مصلحت کے لیے پانی روک دیں اور پھر چھوڑ دیں۔ پس اس جگہ کوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ نہر سے پانی خشک ہو گیا یا اس میں سے اٹھا لیا گیا۔ یہی حال انبیاء کی اجتہادی غلطی کا ہے کہ روح القدس تو کبھی ان سے علیحدہ نہیں ہوتا مگر بعض اوقات خدا تعالیٰ بعض مصالح کے لیے انبیاء کے فہم اور ادراک کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے تب کوئی قول یا فعل سہو یا غلطی کی شکل پر ان سے صادر ہوتا ہے اور وہ حکمت جو ارادہ کی گئی ہے ظاہر ہو جاتی ہے تب پھر وحی کا دریا زور سے چلنے لگتا ہے اور غلطی کو درمیان سے اٹھا دیا جاتا ہے گویا اس کا کبھی وجود نہیں تھا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح کی ایک مثال دیتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح ایک انجیر کی طرف دوڑے گئے تااس کا پھل کھائیں اور روح القدس ساتھ ہی تھا مگر روح القدس نے یہ اطلاع نہ دی کہ اس وقت انجیر پر کوئی پھل نہیں۔ بایں ہمہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ شاذ و نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے ‘‘پس کبھی کبھار کوئی چیز ہونی ہو تو یہ نہ ہونے کی طرح ہے۔ ’’پس جس حالت میں ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے اور ہر بات میں، حرکات میں، سکنات میں، اقوال میں، افعال میں روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر اگر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بُو آوے تو اس سے کیا نقصان بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لیے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تالوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 112 تا 116)
پس کسی حدیث یا تاریخ و سیرت کی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کے متعلق کوئی بھی روایت بیان ہو تو مذکورہ بالا قرآنی آیت جو مَیں نے پڑھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر آپؐ کا سب کچھ تھا۔ اس کی روشنی میں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں ان چیزوں کو دیکھنا چاہیے اور پرکھنا چاہیے نہ کہ الزام لگا دیے جائیں اور ہر ایک مستشرق کی بات مان لی جائے اور سمجھا جائے کہ ہم لاجواب ہو گئے ہیں۔یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو قائم رکھنے کا اصل کام نہ کہ صرف نعرے لگا دینا۔
دو دن بعد ان شاء اللہ رمضان بھی شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور مقبول روزوں کی اور دعاؤں کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے۔ اس کے لیےدعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں۔
جنازہ غائب
بھی مَیں ابھی پڑھاؤں گا۔ یہ
چودھری محمد انور ریاض صاحب ربوہ
کا ہے جو چودھری محمد اسلام صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے بیٹے ناصر محمود طاہر کینیا کے مشنری انچارج ہیں اور ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ مرحوم کے باقی تمام بچے بھی کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
ناصر محمود صاحب لکھتے ہیں کہ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت چودھری غلام محمد جٹ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے آئی تھی جنہوں نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ اپنے گاؤں کے اوّلین احمدیوں میں سے تھے۔1996ء میں ان کے والد کو ایک کیس میں تقریباً ایک ماہ اسیر راہ مولیٰ رہنے کی بھی سعادت ملی۔ اس دوران پولیس نے آپ سے کافی بدسلوکی بھی کی، ناروا سلوک بھی کیا لیکن آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کیا اور بڑے حوصلے سے یہ سزا بھگتی۔
نظام جماعت اور خلافت کا بہت احترام کرنے والے تھے۔ نمازوں اور چندوں میں باقاعدہ، زندگی میں تمام حصہ جائیداد ادا کر دیا۔ جب کوئی آمدنی ہوتی سب سے پہلے چند ہ ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کاسلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی صبر و حوصلہ دے اور اس بیٹے کو جو باہر ہیں اللہ تعالیٰ ان کوصبر وحوصلہ عطا فرمائے۔
٭…٭…٭