احترامِ انسانیت
مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دُور ہوتا جائے
تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَلَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا۔ (بنی اسرائیل: ۷۱) اور یقیناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اورتری میں سواری عطا کی اور انہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا اور اکثر چیزوں پر جو ہم نے پیدا کیں انہیں بہت فضیلت بخشی۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے تمام ذی روح کے مقابل پر انسان کو بہترین صورت میں پیدا فرمایا، اعلیٰ عقل و شعور دیا، عمدہ کلام اور منطق کی صلاحیت عطا کی، اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا، اسے فطری طور پر قولوا للنّاس حُسنا کی عملی تصویر بنایا اور ایسے جسمانی اعضا عطا کیے جنہیں اپنی عقل و شعور کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استعمال میں لا کر وہ درجہ بدرجہ ترقی کر سکتا ہے۔ پس یہی چیزیں انسان کے اکرام و احترام کا باعث بنیں اور اسی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلایا۔
عالم پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انسانیت باقی نہ رہی، درندگی اور بہیمیت انسانی خصائل کا حصہ بن گئی، انسانی قدریں پامال ہونے لگیں، انسانی عزت و احترام کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور انسانوں کے ہاتھوں میں ایسی شمشیریں لہرانے لگیں جن پر سسکتے بلکتے شرفاء کا خون ہوتا تھا۔ ایسے وقت میں زمانہ کسی مصلح کو چیخ چیخ کر پکار رہا تھا۔ تب خداتعالیٰ کی رحمانیت جوش میں آئی اور ہمارے خالق ِ حقیقی نے سرور کائنات، فخر موجودات، خاتم النبیین، رحمۃاللعالمین، محمدمصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ظہور فرمایا تو سارا عالم اس نور مجسم سے منور ہو گیا اور آپؐ کے عملی نمونے سے انسان با اخلاق انسان بن گئے اور پھر با خدا انسان بن گئے اور کل عالم میں احترامِ انسانیت قائم ہوا۔
ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوراً احتراماً کھڑے ہو گئے۔ جب جنازہ گزر گیا تو صحابہؓ نے کہا کہ حضورؐ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔آپ کھڑے کیوں ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ یہودی تھا تو کیا انسان بھی نہیں تھا ؟ اور فرمایا کہ جب بھی جنازہ دیکھو تو احترام میں کھڑے ہوجایا کرو۔ (بخاري، کتاب الجنائز، القیام للجنازة، حدیث نمبر ۱۳۰۷)
یہ واقعہ ہمیں انسانی احترام کو رنگ و نسل، مذہب و ملت سے بالاتر کرنے کا درس دیتا ہے۔
حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃاللعالمین بنا کر بھیجا انسانیت پر مجسم رحمت بن کر جلوہ افروز ہوئے۔ آپؐ نے رنگ و نسل کا فرق ختم کر کے غلاموں کے حقوق قائم فرمائے، بیٹی جو واجب القتل سمجھی جاتی تھی اُسے انسانوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمایا، جنگی قیدی جن پر درندگی کی مثالیں رقم کی جاتی تھیں اُن کے ساتھ عزت و احترام اور حسنِ سلوک کا حکم فرمایا کہ آپؐ کے حکم کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین خود بھوکے رہ کر قیدیوں کو کھانا کھلاتے اور ان سے حسن سلوک فرماتے اور قیدیوں کو اس قدر احترام ملتا کہ وہ اپنے قبیلے کی طرف واپس لوٹنا نہ چاہتے گویا ہمارے آقا و مولا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انسانوں کے وہ حقوق مقرر فرمائے جن سے قطرہ دریا بن گیا، ادنیٰ اعلیٰ ہو گیا اور غلام بادشاہ بن گئے اور کنیز ملکہ بن گئی۔
جناب ہری چند اختر صاحب نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درّ یتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا
آنحضرتﷺ کو احترامِ انسانیت کے قیام کے لیے کوششوں میں کیا کیا تکلیفیں نہیں اٹھانی پڑیں۔ آپؐ کو تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، پتھراؤ کیا گیا، تیر برسائے گئے، جبین مبارک لہو لہان ہو گئی، دانت مبارک شہید ہو گئے مگر آپ نے اپنے خدا سے یہی دعا کی کہ اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَإِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْنَ۔
پھر الٰہی بشارات کے تحت آپؐ کو فتح نصیب ہوئی تب (فتح مکہ کے موقع پر) آپؐ کے سامنے وہ سب مخالف موجود تھے جو آپؐ کے خون کے پیاسے، مسلمان غلاموں کو گھسیٹنے والے، عورتوں پر ظلم کرنے والے، محصور کرنے والے، غلاظتیں پھینکنے والے سب موجود تھے مگر ہمارے آقا و مطاع محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انسانیت کا وہ درس دیا جو رہتی دنیا تک نہ تو کوئی قائم کر سکا اور نہ کر سکے گا۔ آپ نے سب دشمنوں کو لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَکہہ کر معاف فرما دیا اور ہر طرح کی عزت و احترام کی یقین دہانی کروائی۔
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلَیْکَ الصَّلَاۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
آج ’غیرمسلموں‘ کی لاشوں کی تدفین میں رکاوٹ ڈالنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے مگر آنحضورﷺ کا اسوہ تو یہ تھا کہ آپؐ ایک یہودی کے جنازے کے لیے بھی احتراماً کھڑےہوجاتے۔اسی طرح صحابہؓ بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا یہ معمول تھا کہ جنگ کے بعد کسی لاش کو خواہ وہ مسلم کی ہو یا غیرمسلم کی تدفین کے بغیر نہیں رہنے دیتے تھے۔اور کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلم ہے یا کافر۔ (السیرة الحلبیہ جلد۲ صفحہ۱۹۰) بدر میں ہلاک ہونے والے مشرک سرداروں کو آپؐ نے خود میدان بدر میں ایک گڑھے میں دفن کروایا۔(صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ)۳۹۷۶)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق، امام آخرالزماں، چودھویں صدی کے بدراور بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ، ہمارے آقا و مولیٰ، شرف انسانی کے قیّم اور علمبردار، مربی اعظم، ہادی کامل، نور افشاں، معالج زماں، کرامت نشاں، بے نفس انساں، بحر عرفاں، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :یہ تھا ہمارا آقا رحیم اور مہربان کہ جس نے وحشیوں کو انسان بنایا۔ وہ مربی اور نفع رساں جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا۔ وہ حسن اور صاحب احسان … جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھڑایا، وہ ابو الوقت اور صاحب زمان جس نے مشرق اور مغرب اور اسود و احمر کا فرق مٹایا، وہ نور اور نور افشاں … جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا وہ حکیم اور معالج زماں … جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا، وہ کریم اور کرامت نشاں جس نے مُردوں کو زندگی کا پانی پلایا، وہ شجاع اور پہلوان جو سسکتی ہوئی انسانیت کو موت کے منہ سے نکال کر لایا، وہ حلیم اور بے نفس انسان جس نے ہر شخص کا غم کھایا اور درد اٹھایا۔وہ کامل اور بحر عرفان جس نے قیامت تک آنے والی دنیا کو اپنے اسوہ سے منور فرمایا۔(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۱۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمدردی خلق اور انسان کی انسانیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑ دے اور اس سے دُور ہوتا جائے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے۔ جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے۔
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔ کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔ میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالٰی کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو خواہ وہ کوئی ہو۔ ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔ میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ ۲۱۶۔۲۱۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ لاہور سے حضورؑ کو ملنے کے لئے گئے تو سردی کے خدشہ کی وجہ سے آپ نے حضورؑ سے اوڑھنی مانگی۔ انسانیت کا احترام کیسے کرتے ہیں حضرت صاحب کا نمونہ دیکھنے کے لائق ہے۔ آپؑ نے اپنے بیٹے محمودؓ کی رضائی اور اپنا دُھسا بھیجوا دیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس یہی کچھ ہے جو دل کرتا ہے رکھ لیں۔ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۳۹۱)
آپ نے انسانیت کے احترام میں اپنے آرام کو ترجیح دینا مناسب نہ سمجھا۔
آج اگر ہم دنیا کے عمومی حالات کی طرف نظر دوڑائیں تو کہیں مذہب و ملت کی بنا پر انسانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہیں انسان خواہ زندہ ہو یا مردہ ان پر درندگی کی مثالیں رقم کی جا رہی ہیں اور کہیں منافرت کی بنا پر قتل عام ہو رہا ہے۔
اس ظلم اور فساد کی دنیا میں اگر ہم تدبر اور مخلصی کی نگاہ سے دیکھیں تو ہمیں ایک وجود ایسا بھی نظر آتا ہے جو دنیا میں امن و سلامتی کا پیامبر ہے، ہیومینٹی فرسٹ کا نعرہ بلند کر رہا ہے، دن رات دنیا کی اصلاح کے لیے خدا کے حضور سجدہ ریز ہے، وہ دوسروں کے غم بانٹنے والا، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والا، وہ خدا کی توحید اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے مذہب اسلام کے جھنڈے تلے آنے کی پوری دنیا کو دعوت دے رہا ہے، میری مراد سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہے جو آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعودؑ کے پانچویں خلیفہ ہیں۔( اللہ تعالیٰ آپ کی عمر و صحت میں برکت ڈالے اور ہم آپ کی خلافت میں ہی غلبۂ اسلام دیکھیں آمین) ہم سب سیدنا مسرور کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کامل کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی نیابت میں جاری نظام خلافت کی اطاعت کرنے اور ان کے شانہ بشانہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
(’ایم اے منور‘)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: پہاڑوں کے درمیان ایک سرگوشی