دعاؤں کی قبولیت-ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت
غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہیں
اے میرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو
( اخبار الفضل جلد ۹۔ ۲۶؍ دسمبر۱۹۲۱ء تا ۲؍ جنوری ۱۹۲۲ء)
اللہ تعالیٰ کی ہستی پہ ایمان اور یقین در حقیقت مذہب کی بنیاد اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہوتی ہے جس کے بغیر مذہب کا تصور ممکن نہیں۔ اسلام درحقیقت وہ زندہ مذہب ہے جس نے خدا تعالیٰ کے وجود کو زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے اور یہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے بندے کی دعاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے۔
خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ۔(البقرۃ:۱۸۷)ترجمہ: اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا ًمیں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
پھر ایک اور مقام پر فرمایا :وَقَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ(المومن:61)ترجمہ:اور تمہارے ربّ نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
یہ اسی خدا کا وعدہ ہے کہ اگر تمہارا ایمان سچا اور کامل ہے تو تمہیں وحی و الہام کی دولت عطا ہو گی۔ یہ بات جہاں اس قادرِ مطلق ہستی کا بیّن ثبوت ہے وہیں یہ مومنین کے ازدیادِ ایمان کا ذریعہ بھی ہے۔
آج احمدیت نے اس دنیا کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے جو بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا اور پھر قبولیتِ دعا کے شیریں ثمرات عطا فرماتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ملے۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملہم کو دیکھ سکیں سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے۔‘‘(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۶۲)
حضرت مسیح موعودؑ قبولیت دعا کے متعلق فرماتے ہیں: ’’دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اوراس کے ربّ میں ایک تعلق جاذبہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خداتعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفا داری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہِ اُلوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوتِ جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہٗ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لیے ضروری ہیں۔‘‘(برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد۶صفحہ۱۰،۹)
آج اکنافِ عالم میں جس تحدی، جلال، یقین کے ساتھ کثرت اور تواتر سے ہم قبولیتِ دعا کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ نظارے اور اس کی مثال اور کہیں نہیں ملے گی۔ آج دنیا میں کوئی احمدی خاندان ایسا نہیں ہے جس نے قبولیتِ دعا کا مشاہدہ یا تجربہ نہ کیا ہو۔ تاریخِ احمدیت قبولیت دعا کے واقعات سے بھری پڑی ہے جس طرح آسمان ستاروں سے بھرا ہوتا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں ثبوت کے طور پر چند واقعات پیش کرتی ہوں۔
ایک بہت مشہور واقعہ ہے۔ مولانا نذیر احمد صاحب غانا میں تھے۔ مخالفین نے یہ بات بنائی کہ اگر واقعی میں امام مہدی آچکے ہیں تو پھر زلزلہ آنا چاہیے۔ اگرچہ یہ کوئی معیارِ صداقت نہ تھا نہ ایسی پیش گوئی تھی لیکن آپ نے عاجزانہ دعا میں عرض کیا کہ اے قادرو توانا تو اپنی قدرت کا نشان دکھا۔ قدرت حق کا کرشمہ دیکھیے، چند دن کے اندر اندر سارے غانا کی سر زمین شدید زلزلہ سے لرز گئی اور یہ بہتوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنی۔ (ماخوذ از روح پرور یادیں صفحہ ۷۹،۷۷)
ثبوت کے طور پر ایک اور ناقابلِ فراموش واقعہ پیش کرنا چاہوں گی۔ ’’۴؍مئی ۲۰۰۸ء جمعرات کا دن تھا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے فارایسٹ ممالک کے دوران ناندی فجی میں تھے۔ رات قریباً اڑھائی بجے کا وقت تھا کہ ربوہ، لندن اور دنیا کے مختلف ممالک سے فون آنے شروع ہوگئے کہ اس وقت ٹی وی پر جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق ایک بہت بڑا سونامی طوفان فجی کے ساتھ والے جزائر Tongaمیں آیا ہے اور یہ طوفان طاقت کے لحاظ سے انڈونیشیا والے سونامی سے بڑاہے جس نے لکھوکھہا لوگوں کو غرق کردیا تھا۔ اور دنیا کے کئی ممالک میں تباہی مچائی تھی۔ جب TVآن کیا تو یہ خبریں آ رہی تھیں کہ یہ سونامی مسلسل اپنی شدت اور طاقت میں بڑھ رہاہے اور صبح کے وقت ناندی فجی کا سارا علاقہ غرق کردے گا۔ صبح ساڑھے چار بجے جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز فجر کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے تو حضورِ انور کی خدمت میں اس طوفان کے بارے میں رپورٹ پیش ہوئی اور جو پیغامات خیریت دریافت کرنے کے لیے فون پر موصول ہورہے تھے ان کے متعلق بتایا گیا۔ حضورِ انور نے نماز فجر پڑھائی اور بڑے لمبے سجدے کیے۔ اور خدا کے حضور مناجات کیں۔ نماز سے فارغ ہوکر مسیح کے خلیفہ نے احباب جماعت کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا کچھ نہیں ہوگا۔
اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے آئے۔ واپس آکر جب ہم نے TVآن کیا توTVپر یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اس سونامی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی شدت ختم ہورہی ہے۔ پھر قریباً دو اڑھائی گھنٹے کے بعد یہ خبریں آگئیں کہ اس طوفان کا وجود ہی مٹ گیا ہے۔پس اس دنیا نے عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ سونامی جس نے اگلے چند گھنٹوں میں لکھوکھہا لوگوں کو غرق کرتے ہوئے سارے علاقہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا تھا خلیفۂ وقت کی دعا سے چند گھنٹوں میں خود اس کا وجود مٹ گیا۔ اس روز فجی کے اخبارات نے یہ خبریں لگائیں کہ سونامی کا ٹل جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے تعلق باللہ کے واقعات صفحہ۱۱۱،۱۱۰)
تو یہ دعا کا زندہ معجزہ ہوا جو اس قادرو توانا خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرنے سے وقوع پذیر ہوا۔
خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ خدا ہمیں سچے دل سے اس کے سامنے جھکنے اور دعا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین
(درثمین احمد۔ جرمنی)
مزید پڑھیں: قبولیت دعا کے بہار کا موسم ماہِ صیام