منظوم کلام

ندائے احمدیت

دَرکار ہیں کچھ ایسے جوانمرد، کہ جن کی
فِطرت میں وَدِیعت ہو مَحبت کا شرارا

بے عشق نہیں حسن کے بازار میں رونق
وہ اس کا طلبگار۔ تو یہ اُس کا سہارا

آئیں وہ اِدھر، رکھ کہ ہتھیلی پہ سر اپنا
‘‘لبیک’’! کہ دِلبر نے ہے عاشِق کو پکارا

ہر ایک میں ہو عزم وہ ثابِت قدمی کا
جِھجکا نہ ہو خطرے سے، نہ ہِمّت کبھی ہارا

پروا نہ ہو ذرّہ بھی محبت کے نَشے میں
شمشیر ہو گردن پر کہ ہو فَرق پہ آرا

اِک آگ ہو سینے میں نِہاں، کام کی خاطِر
ہر رنگ نیا، بات کا ہر ڈھنگ نِیارا

فرہادؔ کے اور قیسؔ کے قِصّوں کو بُھلا دیں
دِکھلا کے جُنوں اور مَحبت کا نظارا

بے زَر ہوں، پہ ہو جائیں وہ امریکہ روانہ
بے پر ہوں تو پیدل ہی پہنچ جائیں بُخارا

سامان کے محتاج، نہ آفات سے خائِف
گر زاد نہ ہو۔ کر سکیں پتّوں پہ گزارا

برپا ہو قیامت جو وہ تبلیغ کو نکلیں
عِفَّت ہو جو بے داغ تو اَخلاق دِل آرا

اموال کمائیں، تو کریں نَذرِ ‘اِشاعت’
اَملاک بنائیں تو کریں وَقف خدارا

بس ایک ہی دُھن ہو کہ کریں خود کو تَصَدُّق
راضی ہو کسی طرح سے محبوب ہمارا

وہ دِین جو مُحتاج ہے خِدمت کا ہماری
ہو جائے اگر ہو سکے۔ اس کا کوئی چارہ

قُربان ہو ہر چیز اسی بات کی خاطِر
اِسلام کا اُونچا ہو زمانہ میں منارا

اب عشقِ مَجازی کی نُمائِش کو مِٹا کر
ہم عشقِ حقیقی کا دکھائیں گے نظارا

عمر یست کہ آوازۂ منصور کہن شد
مَن از سرِ نَو جلوہ و ہم صدق و وفا را


(کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بخار دل صفحہ۷۲ الفضل ۱۰؍جنوری ۱۹۲۵ء)

مزید پڑھیں: ’’ہو گیا آخر نمایاں فرق نورو نار کا‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button