رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور عیدالفطر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمرِ ہمّت کَس لیتے اور اپنی رات کو (عبادت میں شب بیداری سے) زندہ کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے
اسلامی لحاظ سےرمضان المبارک کا مہینہ دیگر مہینوں سے زیادہ اہمیت کاحامل ہے اور رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے۔ لیکن ماہ رمضان کے آخری دس دنوں کی اہمیت اور عظمت بہت زیادہ ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ ہے۔
اس عشرہ کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں لیلۃ القدر آتی ہےجو طاق راتوں میں سے ایک نہایت بابرکت رات ہے۔ اس کا ثواب ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ حضرت سلمان فارسی ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن ارشادفرمایا کہ لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، یہ مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (ایسی رات ہے) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتو ں میں (نوافل کے لیے ) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد ۵۔ باب فضائل شھر رمضان۔ الباب الثالث والعشرون، باب فی الصیام حدیث نمبر ۳۳۶۳)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشَرَ شَدَّ مِئْزَرَہٗ وَاَحْيَا لَيْلَهٗ وَاَيْقَظَ اَهْلَهٗ ( بخاری کتاب فضل لیلۃالقدر) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) آخری عشرے میں داخل ہوتے تو کمرِ ہمّت کس لیتے اور اپنی رات کو (عبادت میں شب بیداری سے) زندہ کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
جب کسی پیاری چیز کے الوداع ہونے کا وقت آتا ہے تو بے اختیار جذباتِ محبت جوش مارتے ہیں۔ کچھ یہی کیفیت ہمارے آقا سید و مولیٰ، آنحضرت صلی اللہ علیہ کی رمضان کی رخصتی پر ہوتی تھی۔ جب روحانیت کی بہار اپنی رونق دکھا کر رخصت ہونے کو آتی تو آپؐ ان آخری ایّام میں کمر کس لیتے اور بر کات ِرمضان کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے۔
حضرت عائشہ ؓکی ہی ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں عبادات میں جتنی کوشش و محنت اور مجاہدہ فرماتے تھے وہ جد و جہد اس کے علاوہ ایّام میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ( ابن ماجہ)
معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ رمضان کی رخصتی کے خیال سے پوری ہمّت اور طاقت خرچ کر کے ان بر کتوں کو حاصل کرنے کی کوشش فرماتے تھےجو اللہ تعالیٰ نےان آخری ایّام میں جو خاص برکات رکھی گئی ہیں ان کا حصول بھی مقصود ہوتا تھا۔
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے رمضان کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے (بیہقی) آخری عشرے میں آنحضورؐاعتکاف بھی فرماتے تھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتیں بھی زندہ کرتے تھے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے حوالے سے آنحضورؐ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے۔جو شخص اس کا ثواب حاصل کرنے کے لیے ان میں قیام کرے تو اللہ اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دے گا اور یہ طاق راتوں میں ہوتی ہے یعنی آخری عشرےکے نویں ،ساتویں، پانچویں،تیسری یا آخری رات۔(مسند احمد، مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ، حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ،حدیث نمبر ۲۲۷۶۵)
آگ سے نجات پانے کی قرآنی دعائیں
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ: ۲۰۲)اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت میں بھی حسنہ عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اَلَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:۱۷) جو لوگ کہتے ہیں اے ہمارے ربّ ! یقیناً ہم ایمان لے آئے پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (الفرقان:۶۶)وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔
اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ۔ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَاَ زْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۔ وَقِهِمُ السَّيِّاٰتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (المومن:۸ تا ۱۰)وہ جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے گرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بخشش طلب کرتے ہیں جو ایمان لائے۔ اے ہمارے ربّ! تُو ہر چیز پر رحمت اور علم کے ساتھ محیط ہے۔ پس وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا۔ اور اے ہمارے رب ! انہیں اُن دائمی جنتوں میں داخل کر دے جن کا تُو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے اور انہیں بھی جو ُان کے باپ دادا اور ان کے ساتھیوں اور ان کی اولاد میں سے نیکی اختیار کرنے والے ہیں۔ یقیناًتُو ہی کامل غلبہ والا (اور ) بہت حکمت والا ہے۔ اور انہیں بدیوں سے بچا اور جسے تُو نے اس دن بدیوں (کے نتائج) سے بچایا تو یقیناًتُونے اس پر بہت رحم کیا اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں
اَسْاَلُكَ أَنْ تُعِیْذَنِي مِنَ النَّارِ وَاَنْ تَغْفِرْ لِي ذُنُوبِيْ (ابن ماجہ)میر اسوال تیرے دربار میں یہ ہے کہ مجھے آگ کے عذاب سے پناہ دے اور میرے گناہ بخش دے۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ(سنن النسائی:۵۴۷۷)اے اللہ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
اَللّٰهُمَّ اَجِرْنِي مِنَ النَّارِ (ابوداؤد)اے اللہ ! مجھے آگ سے پناہ دے۔
يَا شَافِيَ الصُّدُوْرِ كَمَا تُجِيْرُ بَيْنَ الْبُحُوْرِ أَنْ تُجِيْرَنِيْ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ وَمِنْ دَعْوَةِ الثُّبُوْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْقُبُورِ(ترمذی) اے دلوں کو تسکین عطا کرنے والے! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح بھرے سمندروں میں تو انسان کو بچالیتا ہے اُسی طرح مجھے آگ کے عذاب سے بچالے۔ ہلاکت کی آواز اور قبر کے فتنہ سے مجھے پناہ دے۔
اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ كَرِيْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی(الترمذي، كتاب الدعوات، باب حدثنا يوسف بن عيسى، ۳۵۱۱۳)اے اللہ ! تُو بہت معاف کرنے والا کریم ہے۔ تو عفو کو پسند کرتا ہے پس مجھ سے در گزر فرما۔
اَللّٰهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ، وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ، وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِكَ (ترمذی) اے اللہ ! تُو ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کرنا، اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کرنا اور اس سے پہلے ہمیں بچا لینا۔
اَللّٰهُمَّ قِنِيْ عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ (ابوداؤد)اے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچانا جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔
اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ (ترمذی)میں آگ والوں کے حال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں۔
أَسْأَلُكَ يَا اللّٰهُ أَنْ لَّا تَشْوِيَ خَلْقِى بِالنَّارِ (مستدرك)اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے وجود کو آگ سے نہ جھلسانا۔
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَتَقَبَّلْ مِنَا وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ۔(ابن ماجہ)اے اللہ ! ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر ہم سے راضی ہو اور ہم سے دعائیں اور عبادتیں قبول کر اور ہمیں جنت میں داخل کر اور آگ سے بچا اور ہمارے سب کام خود بنادے۔
اَللّٰهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْاُمُوْرِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ (مستدرك) اے اللہ ! سب کاموں میں ہمارا انجام بخیر کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔
اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں آگ کی تپش کے شر سے۔
اس کے علاوہ دعائے قنوت، درود شریف، دعا لیلۃ القدر اور صفات الہٰیہ کے ذکر میں بھی آگ سے نجات طلب کی گئی ہے۔
سید نا حضرت مسیح موعودؑکی دعائیں
رَبِّ اَخْرِجْنِي مِنَ النَّارِ۔(تذکرہ:۶۱۲، ایڈیشن ۲۰۰۴ء)اے میرے رب مجھے آگ سے نکال۔
رَبِّ ارْحَمْنِي إِنَّ فَضْلَكَ وَرَحْمَتَكَ يُنْجِی مِنَ الْعَذَابِ (تذکرہ صفحہ ۶۲۱ایڈیشن چہارم) اے میرے رب ! مجھ پر رحم فرما اور تیر افضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں۔
رَبِّ سَلِّطْنِي عَلَى النَّارِ۔ (تذکرہ صفحہ۵۱۸ایڈیشن چہارم) اے میرے رب ! مجھے ہر آگ پر مسلط کر دے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي اَخْرَجَنِيْ مِنَ النَّارِ۔سب تعریف اس خدا کے لیے ہے جس نے مجھے آگ سے نکالا۔
رَبِّ لَا تُضَيِّعْ عُمُرِىْ وَعُمُرَهَا وَاحْفَظْنِيْ مِنْ كُلِّ اٰفَةٍ تُرْسَلُ اِلَىَّ۔اے میرے ربّ !میری اور اس کی عمر کو ضائع نہ کریو اور مجھے ان تمام آفات سے محفوظ فرما ئیو جو میری طرف بھیجی جاویں۔ (تذکرہ صفحہ ۵۲۴)
اے ربّ العالمین! تیرے احسانوں کا مَیں شکریہ نہیں کرسکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بےغایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وَجْہِ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما۔ اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین (الحکم ۲۰ فروری ۱۸۹۸ء صفحہ۹)
اعتكاف
اعتکاف کے لغوی معنے کسی جگہ بند بیٹھ رہنے یا ٹھہرے رہنے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اس سے یہ مراد ہے کہ عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہر جائے۔ جیسا کہ ہدایہ میں لکھا ہے:اَللَّبْثُ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِيَّةِ الْاِعْتِكَافِ یعنی عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔(هدايہ باب الاعتكاف)
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب میں بھی اعتکاف کا وجود پایا جاتا تھا۔ جیسا کہ کلامِ پاک میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے ذکر میں آیا ہے کہ وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهٖمَ وَإِسْمٰعِيْلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ (البقرة: ۱۲۶)اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اوررکوع کرنے والوں (اور ) سجدہ کرنے والوں کے لیے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔
بعثت سے قبل ہمارے پیارے نبی حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کئی کئی روز دنیا سے الگ تھلگ ہو کر غارِ حرا میں اپنے رب کی عبادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہ بھی ایک طرح کا اعتکاف ہی تھا۔ گویا انسان جب اور جس دن چاہے اعتکاف بیٹھ سکتا ہے اور اس کے لیے کوئی معین وقت اور دن مقرر نہیں۔ لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔
اعتکاف کی اہمیت و برکات
ہمارے پیارے آقا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتکاف کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دن اعتکاف بیٹھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی خندقیں بنادے گا جن کے درمیان مشرق و مغرب کے مابین فاصلہ سے بھی زیادہ فاصلہ ہوگا۔(المعجم الاوسط)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ هُوَ يَعْتَكِفُ الذُّنُوْبَ وَ يُجْرَى لَهٗ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا (ابن ماجہ كتب الصیام)حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے متعلق فرمایا: معتکف اعتکاف کی وجہ سے جملہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اُسے ان نیکیوں کا اجر جو اس نے اعتکاف سے پہلے بجالائی تھیں اسی طرح ملتارہتا ہے جیسا کہ وہ اب بھی انہیں بجالا رہا ہے۔
اعتکاف کتنے دن اور کہاں بیٹھنا چاہیے؟ نیز کیا بغیر روزہ کے اور مسجد کے باہر اعتکاف بیٹھا جاسکتاہے؟
ان سوالات کے جواب حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے دو مکتوبات میں ارشاد فرمائے ہیں۔فرمایاآنحضورﷺ کی سنت سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ رمضان کا اعتکاف روزوں کے ساتھ ہی فرمایا کرتے تھے۔ اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُوْدَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ۔(سنن ابی داؤد کتاب الصوم بَاب الْمُعْتَكِفِ يَعُودُ الْمَرِيضَ)یعنی سنت یہ ہے کہ معتکف کسی مریض کی عیادت اور نماز جنازہ کے لیے مسجد سے باہر نہ جائے۔ اوربیوی کو(شہوت کے ساتھ) نہ چھوئے، اور نہ اس کے ساتھ مباشرت کرے۔اور سوائے انسانی ضرورت (قضائے حاجت وغیرہ) کے کسی اَورضرورت کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں۔ اور جامع مسجد کے سوا کسی اور جگہ اعتکاف درست نہیں۔
پس مسنون اعتکاف کے بارے میں صحابہ رسولﷺ اور علماء و فقہاء کا یہی موقف ہے کہ اس کے لیے روزے رکھنے ضروری ہیں اور حضورﷺ کی سنت متواترہ یہی تھی کہ آپﷺ رمضان کے آخری دس دن مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب الاعتکاف بَاب اعْتِكَافِ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)
باقی جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کے علاوہ عام اعتکاف کرنے یا کسی نذر کا اعتکاف کرنے کی بات ہے تو ایسا اعتکاف روزے کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ اعتکاف چند دنوں یا چند گھنٹوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر کو پورا کرو۔ (سنن ترمذی کتاب النذور والایمان بَاب مَا جَاءَ فِي وَفَاءِ النَّذْرِ)
پس خلاصہ کلام یہ کہ رمضان کا مسنون اعتکاف روزوں کے ساتھ، رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں ہو سکتا ہے۔ جبکہ رمضان کے علاوہ عام اعتکاف روزوں کے بغیر اور کم یا زیادہ وقت کے لیے ہو سکتا ہے۔(بنیادی مسائل کے جواب، قسط ۱، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷ اکتوبر تا ۲۰ نومبر ۲۰۲۰ء)
جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کا تعلق ہے وہ تو جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے گھر پر اور تین دن کے لیے نہیں ہو سکتا۔
آنحضورﷺ کی سنت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺرمضان المبارک میں کم از کم دس دن اور مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ۔(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشر الاواخر والاعتکاف فی المساجد کلھا)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی وفات تک رمضان کے آخری دس دن اعتکاف فرماتے رہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رمضان کے مسائل بیان فرمائے ہیں وہاں اعتکاف کے بارے میں احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا:وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ۔ (البقرہ:۱۸۸)کہ رمضان کے اعتکاف میں ایک تو میاں بیوی کے تعلقات کی اجازت نہیں اور دوسرا یہ کہ اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مسجدیں ہیں۔
احادیث میں بھی اس امر کی وضاحت آئی ہے کہ رمضان کا اعتکاف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُوْدَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ۔(سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب المعتکف یعود المریض)ترجمہ : معتکف کے لیے مسنون ہے کہ وہ مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ جنازہ میں شامل ہواور نہ اپنی بیوی کو چھوئے اور نہ اس سے جسمانی تعلق قائم کرے۔ اور سوائے اشد ضروری حاجت کے جس کے سوا چارہ نہ ہو مسجد سے باہر نہ جائے۔ اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں اور نہ ہی جامع مسجد کے علاوہ دوسری جگہوں پر اعتکاف درست ہے۔
پس قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ کے مطابق رمضان المبارک کا مسنون اعتکاف کم از کم دس دن ہوتا ہے اور اس کے لیے مسجد میں ہی بیٹھا جاتا ہے۔
ہاں رمضان کے علاوہ عام دنوں میں اگر نیکی کے طور پر اور ثواب کی خاطر کوئی اپنے گھر میں چند دن کے لیے اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے اور اس کی کہیں ممانعت نہیں ملتی۔ علاوہ ازیں بعض فقہاء نے عورت کے گھر میں اعتکاف کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ میں لکھا ہے:اما المرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا۔(ہدایہ باب الاعتکاف)یعنی عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:‘‘مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔’’(روز نامہ الفضل۶؍مارچ ۱۹۶۲ء)(بنیادی مسائل کے جواب، قسط ۵۵، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷ اکتوبر تا ۲۰ نومبر ۲۰۲۰ء، ۲۰ مئی ۲۰۲۳ء)
یعنی ایسی مسجد میں اعتکاف بیٹھنا چاہیے جہاں نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہوں لیکن مجبوری کی بنا پر مساجد سے باہر بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔ جب با قاعدہ مسجد میسر نہ آئے۔ یا کوئی اکیلا احمدی کہیں رہتا ہے اور قریب کوئی مسجد نہیں۔ مجبوری کے حالات کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ جگہ جو نماز کے لیے مخصوص کی گئی ہو وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھا جا سکتا ہے۔
اعتکاف میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ حوائج ضروریہ کے علاوہ کسی اور وجہ سے مسجد سے باہر نہ نکلے۔ نہانے اور بال کٹوانے کے لیے بھی مسجد سے باہر نہیں آنا چاہیے۔ البتہ ضروری امور مثلاً وضو، غسل جنابت کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ جمعہ پڑھنے کے لیے جامع مسجد جانے کی بھی اجازت ہے اس کے علاوہ باقی ضروریات مثلاً درس القرآن یا اجتماعی دعا میں شامل ہونے، بال کٹوانے، کھانا کھانے، نماز جنازہ پڑھنے، کسی عزیز کی بیمار پرسی کرنے یا کسی کی مشایعت کے لیے باہر آنے کی اجازت میں اختلاف ہے۔ اکثر ان اغراض کے لیے مسجد سے باہر آنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ اعتکاف کی روح بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ ان ثانوی اغراض کے لیے معتکف مسجد سےباہر نہ آئے اور اس قسم کی ترغیبات اور خواہشات کی قربانی دینے کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔(فقہ احمدیہ حصہ اول صفحہ ۳۰۹،۳۰۸)
سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ مُعتکف اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں تو آپؐ نے فرمایا:‘‘سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لیے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جاسکتا ہے۔’’(بدر ۲۱؍فروری۱۹۰۷ء)
دوران اعتکاف معتکف کو کیا کرنا چاہیے؟
اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت یاد الٰہی اور عبادت میں گزارے۔ ادھر اُدھر کی فضول باتوں کی بجائے ذکر الٰہی پر زور ہو۔ تلاوت قرآن کریم بہترین ذکر الٰہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ‘‘معتکف کلی طور پر اپنے آپ کو خدا کے حضور میں ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا!مجھے تیری ہی قسم میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ تُو مجھ پر رحم فرمائے۔’’(در منثور صفحہ۲۰۲ جلد اوّل زیر آیت وانتم عاكفون فی المساجد)
عيد الفطر
عید الفطر ان روزہ داروں کے لیے جشنِ مسرت ہے جنہوں نے رمضان المبارک میں بھوکا پیاسارہ کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی۔
عيد الفطرکے آداب: ۱۔ صدقۃ الفطر ادا کر کے عید گاہ کی طرف روانہ ہوں۔۲۔ عید کے دن غسل کرنا مستحب اور خوشبو کا استعمال مسنون ہے۔۳۔ عید الفطرکی نماز میں کچھ نہ کچھ کھا کر شامل ہونا سنت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طاق کھجوریں کھایا کرتےتھے۔۴۔ آتے اور جاتے وقت راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔۵۔ نماز عید کے لیے نہ اذان ہے اور نہ ہی اقامت۔ ۶۔ عورتیں بھی عید گاہ جائیں۔۷۔عید کی نماز میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات ہیں، جو تلاوت سورہ فاتحہ سے پہلے کہی جاتی ہیں۔۸۔خطبہ اہتمام سے سننا چاہیے۔۹۔عید کی نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں۔۱۰۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیرات سے مزیّن کرو۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں:اَللّٰهُ اَكْبَرُ، اَللّٰهُ اَكْبَر، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ، وَاللّٰهُ اَكْبَرُ، اَللّٰهُ اَكْبَر، وَلِلّٰهِ الْحَمْد۔ ۱۱۔ نماز عید کے بعد ایک دوسرے کومل کر مبارکباد دیں اور ایک دوسرے کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے روزے قبول فرمائے۔
عید الفطر کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ روزے رکھنے مسنون ہے۔ حدیث میں آیا ہےکہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے ہمیشہ روزے رکھے۔(مسلم)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے آخری عشرہ کی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے اور اس رمضان میں حاصل کردہ نیکیوں کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
(خواجہ محمد افضل بٹ۔روچسٹر نیو یارک اسٹیٹ)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: قبولیت دعا کے بہار کا موسم ماہِ صیام