یوم مسیح موعود کی مناسبت سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامسایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ارشادات سے ایک انتخاب
ہمیں یہ دن ہر سال یہ بات یاد دلانے والا ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین کرنا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اور ہم جو آپؑ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم نے بھی اس اہم کام کی سرانجام دہی کے لیے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس میں حصہ دار بننا ہے
یوم مسیح موعود کا دن ہم کیوں مناتے ہیں؟
۲۳؍مارچ کا دن… جماعت میںیومِ مسیح موعودکے دن سے پہچانا جاتا ہے۔ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے پہلی بیعت لی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دن کے حوالے سے جماعت میں جلسے بھی منعقد کیے جاتے ہیں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اور زمانے کے لحاظ سے آپؑ کے آنے کی ضرورت ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے بارے میں پیشگوئیاں، آپ کی سیرت کے مختلف پہلو وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں۔ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے اپنی بعثت کی اہمیت کا ایک موقع پر آپؑ نے یوں ذکر فرمایا کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور اپنے دین (یعنی دین اسلام) اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت دکھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا ہےتاکہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اگر زمانے میں ایسا فتنہ و فساد نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے لیے جس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا۔ پھر ضرورت کوئی نہیں تھی کسی کے بھیجنے کی۔ لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہرطرف، یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں۔ ہر طرف دائیں بائیں جہاں دیکھو یہی ہے کہ اسلام کو کس طرح ختم کیا جائے۔
اُس وقت بھی یہ حال تھا، یہی کوشش ہو رہی تھی جب آپؑ نے دعویٰ فرمایا اور اب بھی یہی حال ہے لیکن مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔
بہرحال آپؑ فرماتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں بھی مَیں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ۔ یعنی اس وقت جب آپؑ نے یہ فرمایا اس وقت مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر۔ اگر اس زیادتی کو جو اَب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب پاک و ہند کے ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت میں نہ ہوتا اور إِنَّا لَهٗ لَحَافِظُوْنَ اس کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو یقیناً سمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا۔ مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 73)
آپؑ نے اپنے دعوے کے بعد یہ بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپ کے ساتھ ہے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ کی قرآن کریم میں بیان کردہ پیشگوئیاں آپ کے حق میں پوری ہو رہی ہیں۔ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اپنے مہدی اور مسیح کے حق میں پوری ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں جیسا کہ میں نے کہا مختلف جلسے ہوتے ہیں ان جلسوں میں بھی سن رہے ہوں گے ایم ٹی اے پر بھی پروگرام آتے ہیں اس پر بھی سن رہے ہوں گے اور اس کی وضاحت ہو رہی ہو گی تو سننے والوں کو سننا چاہیے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۵؍مارچ۲۰۲۲ء)
جماعت احمدیہ میں یہ دن[۲۳؍مارچ] اس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے کہ اس دن جماعت کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لی۔ پس ہمیں یہ دن ہر سال یہ بات یاد دلانے والا ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین کرنا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اور ہم جو آپ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم نے بھی اس اہم کام کی سرانجام دہی کے لیے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس میں حصہ دار بننا ہے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کا تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہے اور بندوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانی ہے اور ظاہر ہے اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍مارچ۲۰۲۱ء)
آپؑ کی بعثت کی غرض
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپؐ ہی کے کام کو اور آپؐ کے دین کو دنیا میں پھیلانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے چنانچہ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں کہ آپ ہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور آپ ہی کے فیضان اور برکات کا نتیجہ ہے جو یہ نصرتیں ہو رہی ہیں۔‘‘آپؑ فرماتے ہیں ’’مَیں کھول کر کہتا ہوں اور یہی میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور نقش قدم پر چلنے کے بغیر کوئی انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 267)
آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روحانی فیض پایا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا۔ اسلام کی شان و شوکت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’وَاَرْسَلَنِیْ رَبِّیْ لِاِصْلَاحِ خَلْقِہٖ‘‘ کہ ’’اور خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا مَیں مخلوق کی اصلاح کروں۔‘‘(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 178)
پھر اپنی بعثت کے بارے میں مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ’’میں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اس کے اظہار سے میں رک نہیں سکتا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔ میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مردِ خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 7-8)
پھر اس بات کا اعلان فرماتے ہوئے کہ جس مسیح موعود کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی وہ اپنے وقت پہ ظاہر ہوا آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’سو اب اے بھائیو! برائے خدا دھکہ اور زبردستی مت کرو۔ ضرور تھا کہ میں ایسی باتیں پیش کرتا جن کے سمجھنے میں تمہیں غلطی لگی ہوئی تھی۔ اگر تم پہلے ہی راہ ثواب پرہوتے تو میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ میں کہہ چکا ہوں کہ میں اس امت کی اصلاح کے لیے ابن مریم ہو کر آیا ہوں اور ایسا ہی آیاہوں کہ جیسے حضرت مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لیے آئے تھے۔ میں اسی وجہ سے تو ان کا مثیل ہوں کہ مجھے وہی اور اسی طرز کا کام سپردہوا ہے جیسا کہ انہیں سپرد ہوا تھا۔ مسیح نے ظہور فرما کر یہودیوں کو بہت سی غلطیوں اور بے بنیاد خیالات سے رہائی دی تھی۔ منجملہ اس کے ایک یہ بھی تھا کہ یہودی ایلیا نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کی ایسی ہی امید باندھے بیٹھے تھے جیسے آج کل مسلمان مسیح ابن مریم رسول اللہ کے دوبارہ آنے کی امید باندھے بیٹھے ہیں۔ سو مسیح نے یہ کہہ کر کہ ایلیا نبی اب آسمان سے اتر نہیں سکتا زکریا کابیٹا یحیٰ ایلیا ہے جس نے قبول کرنا ہے کرے اس پرانی غلطی کو دور کیا اور یہودیوں کی زبان سے اپنے تئیں ملحد اور کتابوں سے پھرا ہوا کہلایا مگر جو سچ تھا وہ ظاہر کر دیا۔ یہی حال اس کے مثیل کا بھی ہوا اور حضرت مسیح کی طرح اس کو بھی ملحد کا خطاب دیا گیا۔ کیا یہ اعلیٰ درجہ کی مماثلت نہیں۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 394)(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍مارچ۲۰۲۰ء)
چاند سورج گرہن کی پیشگوئی
[۲۰؍مارچ۲۰۱۵ء کو انگلستان سمیت دنیا کے بعض دیگر ممالک میں سورج گرہن لگا۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی زبردست نشانی سورج اور چاند گرہن تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرق اور مغرب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں پورا ہوا۔ پس اس لحاظ سے گرہن کی نشانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے ایک خاص تعلق ہے۔آج کا یہ گرہن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نشان کے طور پر تو نہیں کہا جا سکتا۔ جو گرہن لگتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے نشان ہے مخصوص تو نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ گرہن اُس طرف توجہ ضرور پھیرتا ہے جو گرہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی نشانی کے طور پر ظاہر ہوا۔ اور پھر آج اِس دن کا گرہن اس لحاظ سے بھی اُس نشان کی طرف توجہ پھیرنے کا باعث ہے کہ آج جمعہ کا دن ہے اور جمعہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے بھی ایک خاص نسبت ہے۔ پھر مارچ کا مہینہ ہونے کی وجہ سے بھی توجہ ہوتی ہے کیونکہ تین دن بعد اسی مہینہ کو 23؍مارچ کو یوم مسیح موعود بھی ہے۔ دعویٰ بھی ہوا۔ گویا یہ مہینہ، یہ دن اور یہ گرہن مختلف پہلوؤں سے جماعت کی تاریخ کو یاد کروانے والے ہیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍مارچ۲۰۱۵ء)
سلسلے کی ترقی کی خبر
[حضرت مسیح موعودؑ کے صداقت کے نشانوں کے حوالے سے فرمایا :]اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور ہزاروں لوگ یہ نشانات دیکھ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ بیعتیں کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی بیعت میں آتے ہیں۔ ہاں بعض جگہوں پر احمدیوں کو تکالیف کا ضرور سامنا ہے، مشکلات کا سامنا ہے۔ وقت آئے گا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دُور ہو جائیں گی اور ہمارے ایمان و ایقان اور معرفت میں یقیناً ان کو دیکھتے ہوئے اضافہ ہو گا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’برائے خدا ناظرین اِس مقام میں کچھ غور کریں تا خدا ان کو جزائے خیر دے ورنہ خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا۔ اور اُسی کی ذات کی مجھے قَسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے۔ پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو۔ اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتااور اس تمام کاروبار کا نام و نشان نہ رہتا۔ مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں۔ دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے۔ اے بندگان خدا! کچھ تو سوچو، کیا خد اتعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟‘‘(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 554)
…اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ پس کیا یہ لوگ عقل استعمال نہیں کریں گے؟ مخالفین اپنی مخالفتوں سے باز نہیں آئیں گے؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ زمانے کے امام اور مسیح موعود کو پہچاننے والے ہوں۔ ورنہ جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو پھر یہ تمام مخالفین جو ہیں، چاہے جتنی طاقت رکھنے والے ہوں، خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ ایک سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح بھسم ہوجاتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ان کو عقل آئے اور یہ پہچاننے والے بنیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۱؍مارچ۲۰۱۴ء)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعائیں