جن سے تمہاری رشتہ داری اور تعلق نہیں ہے ان کی بھی مدد کرو
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کرنے اور حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے ہمیں مختلف رشتوں اور تعلقوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم فرمایاہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے ہی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اوران کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر فرمایاہے۔
… اس آیت [النساء :۳۷] میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں ،عزیزوں، رشتہ داروں، اپنے جاننے والوں ،ہمسایوں سے حسن سلوک کرو،ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طورپر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتاہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ۔اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا۔ ہمدردی ٔ خلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کرلوگے اور اس خیال سے کرلوگے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی ہے اوراحسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا۔احسان تو انسان خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتاہے۔تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گاجس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسر ے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق اسی جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔ اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت،اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے،اس پر عمل کر رہاہوگا۔آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔اگر یہ باتیں نہیں کروگے، فرمایا: پھر متکبر کہلاؤ گے اور تکبر کو ا للہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا۔ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتدا ہوتی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ ستمبر۲۰۰۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍نومبر۲۰۰۳ء)
مزید پڑھیں: امام زمانہ کو ماننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں