بچوں کا الفضل

گلدستۂ معلومات

کیوں؟

پیارے بچو! آج کا سوال ہے کہ تھرما میٹر زبان کے نیچے کیوں رکھا جاتا ہے ؟

پیارے بچو! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بخار ہونے پر یا کسی اور سبب جسم کا درجہ حرارت جانچنے کے لیے تھرما میٹر استعمال کیا جاتا ہے اور تھرما میٹر کو زبان کے نیچے یا بغل میں رکھا جا تا ہے۔ تھرما میٹر میں موجود پارہ پھیل کر حرارت کی مقدار بتاتا ہے چنانچہ تھرما میٹر کا بلب یعنی تھرمامیٹر کا حساس حصہ کچھ دیر تک جسم کے کسی مناسب حصے کے ساتھ مَس کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ تھرما میٹر کا بلب کسی ایسے مقام پر رکھا جائے جو براہ راست خارجی فضا سے متاثر نہ ہوتا ہو۔ تھرما میٹر کا بلب چاروں طرف سے جسم میں گھرا ر ہے تا کہ جسم کا حقیقی درجہ حرارت معلوم ہوسکے۔ بغل اس مقصد کے لیے اچھا مقام ہے۔ یہاں تھرمامیٹر پہ ضرب آنے اور ٹوٹنے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ اسی لیے بچوں کا درجہ حرارت معلوم کرنے کے لیے اکثر ان کی بغل میں تھرما میٹر رکھا جاتا ہے۔ بالغ افراد میں تھرمامیٹر کا بلب زبان کے نیچے رکھا جاتا ہے کیونکہ اس جگہ جِلد نہایت حساس ہوتی ہے۔ بلب چاروں طرف سے جِلد میں ملفوف (لپٹ)ہو جاتا ہے جس سے بدن کا درست ترین درجہ حرارت معلوم ہو جاتا ہے۔

تو بچو یہ تھا اس سوال کا جواب! آج کل تو جدید قسم کے تھرمامیٹر بھی ایجاد ہوگئے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ آپ نے کس قسم کے تھرمامیٹر دیکھے ہیں؟

٭… ٭… ٭… ٭… ٭

ایک ضرب المثل کی کہانی

انگور کھٹّے ہیں

یہ اس وقت کہتے ہیں جب کہیں پر کسی کا بس نہ چلے تو وہ کہے کہ میں یہ کام کرنا ہی نہیں چاہتا یا پھر خود کو اعلیٰ کردار ظاہر کرے کہ میں غلط قسم کے کام نہیں کرتا۔اس ضرب المثل کی کہانی کچھ یوں ہے: کسی اونچی دیوار پر انگوروں کی بیل تھی اور اس پر انگوروں کے گچھے لٹک رہے تھے۔ ایک لومڑی کا وہاں سے گزر ہوا۔ انگور کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ وہ قریب گئی۔ اس نے دیکھا کہ انگور کافی اونچے ہیں۔ اس نے بہت اچھل کود کی کہ کسی طریقے سے انگوروں تک پہنچ جائے مگر انگور اونچے ہونے کی وجہ سے وہ ان کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ آخر تھک گئی۔ جب بس نہ چلا تو یہ کہہ کر چل دی کہ یہ سب انگور تو کھٹے ہیں۔ انہیں کھانے سے کیا فائدہ؟

٭… ٭… ٭… ٭… ٭

اردو محاورے

ہونْہار بِرْوا کے چِکنے چِکنے پات: لیاقت اور قابلیت کے آثار پہلے ہی سے نظر آ جاتے ہیں۔

زُبان لَمْبی ہونا: زبان دراز ہونا، بد زبان ہونا۔

زَبان دَراز/درازی کَرْنا: بڑھاکر بیان کرنا، بڑھ کر بولنا، منہ لڑانا۔

نام بِگاڑنا: نام کو اصل حالت پر نہ رکھنا، بُری طرح نام لینا۔

٭… ٭… ٭… ٭… ٭

امیر خسروؔ

امیر خسرو کا اصل نام ابوالحسن یمین الدین تھا۔ وہ 1253ء میں ایٹہ ضلع کے قصبہ پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر سیف الدین، چنگیزی فتنہ کے دوران، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحد پر واقع مقام کش(موجودہ شہر سبز) سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور ایک ہندوستانی امیر عماد الملک کی بیٹی سے شادی کر لی۔ خسرو ان کی تیسری اولاد تھے۔شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خسرو ایک بڑے موسیقار بھی تھے۔ ستار اور طبلہ کی ایجاد کا سہرا اُن کے سر ہے۔امیر خسرو نے 1286ء میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہوتاہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے۔ خواجہ صاحب کے چہیتے مرید اور فارسی و اردو کے پسندیدہ صوفی شاعر، ماہر موسیقی، انہیں طوطیٔ ہند بھی کہا جاتا ہے۔؎

زِحالِ مسکیں مکن تغافل

دُرائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں

نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

ترجمہ:اس غریب کے حال سے غفلت نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر، اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے۔

٭… ٭… ٭… ٭… ٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button