غزوہ بدر الموعد اور غزوہ دومة الجندل کے حالات و واقعات کا بیان نیز دنیا میں قیامِ امن کے لیے دعا کی تحریک اور مسلمانوں کو اپنی بقا کے لیے ایک اکائی بننے کی تلقین: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍جولائی۲۰۲۴ء
٭… بظاہر تو مسلمان ابوسفيان سے جنگ کے ليے نکلے تھے مگر مسلمانوں کا تجارتي مال ساتھ رکھنا بتاتا ہے کہ انہيں خداتعاليٰ کے فضل سے يہ يقين تھا کہ يا تو ابوسفيان اس جنگ کے ليے آئے گا ہي نہيں يا اگر آيا بھي تو خداتعاليٰ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا
٭… غزوہ بدر الموعد میں حضورﷺ اور اسلامي لشکر کُل سولہ راتيں مدينے سے باہر رہنے کے بعد واپس آگيا۔ دشمن مدِ مقابل آنے کي ہمت نہ کرسکا۔ چنانچہ اس کي خوب سبکي ہوئي اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے
٭… غزوہ دومۃ الجندل اپنے ثمرات اور نتائج کے حوالے سے بہت مفید رہا ۔اس غزوے کے ذریعے مسلمانوں کو سارے علاقے کا علم ہوگیا
٭…غزوہ دومۃ الجندل کی ایک بڑی غرض ملک میں قیام امن تھا
٭… دنیا میں قیامِ امن کے لیے دعا کی تحریک اور مسلمانوں کو اپنی بقا کے لیے ایک اکائی بننے کی تلقین
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍جولائی۲۰۲۴ء بمطابق۵؍وفا ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۵؍جولائی۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج دو غزوات کا ذکر کروں گا۔
پہلا غزوہ، غزوہ بدر الموعد ہے جو ۴؍ہجری میں ہوا۔ اس غزوے کوبدر الثانیہ اور بدرالصغریٰ بھی کہا جاتا ہے۔
آنحضرتﷺ ماہِ شعبان ۴؍ہجری میں بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض مؤرخین نے مہینے میں اختلاف کیا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ۴؍ہجری میں جب شوال کے مہینے کا آخر آیا تو آنحضرتﷺ ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کے ساتھ مدینے سے باہر نکلے۔ اس غزوے کا سبب یہ ہے کہ
ابو سفیان بن حرب جب غزوۂ احد سے واپس پلٹا تو اس نے کہا تھا کہ آئندہ سال ہماری اور تمہاری ملاقات بدرا لصفراء کے مقام پر ہوگی،ہم وہاں جنگ کریں گے۔
آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو اسے جواب دینے کا ارشاد فرمایا تھا کہ کہو ہاں! ان شاء اللہ۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ نے خود جواباً ان شاء اللہ فرمایا تھا۔
بدر مکّہ اور مدینے کے درمیان ایک مشہور کنواں ہے جومدینے کے جنوب مغرب میں ایک سَو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس جگہ یکم ذی قعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔ کہنے کو تو ابوسفیان نے جنگ کا یہ اعلان کردیا تھا مگر اب جوں جوں وقت نزدیک آرہا تھا ابوسفیان جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا تھا۔ مگر ظاہر یہ کر رہا تھا کہ جیسے وہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ مدینے پر چڑھائی کی تیاری کر رہا ہو۔ اس مقصد کے لیے اُس نے نُعیم نامی ایک شخص کو بیس اونٹوں کا لالچ دے کر مدینے بھی بھجوایا جس نے ابوسفیان کی تیاریٔ جنگ کے متعلق مسلمانوں کو بہت مبالغہ آمیز کہانیاں سنا کر جنگ سے باز رہنے کی تلقین کی۔ مگر مخلص مسلمان اس شخص کی باتوں میں نہ آئے اور رسول اللہﷺ کو جنگ پر روانگی کے لیے اپنے اخلاص کی یقین دہانی کرائی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ باوجود احد کی فتح اور اتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے ابو سفیان بن حرب کا دل خائف تھا اور اسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمیعت اس کے ساتھ نہ ہوجائے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔
حضورﷺ کو جب ابوسفیان کے لشکر کی تیاری کی خبر ملی تو آپؐ نے اپنے پیچھے حضرت عبداللہؓ بن عبداللہ بن ابی بن سُلول جو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے تھے مگر بڑےپکے مسلمان اورجاںنثارصحابی تھے انہیں مدینے کا امیر مقرر فرمایا۔ایک روایت کے مطابق آپؐ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓکو امیر مقرر فرمایا تھا۔ آپؐ نے اپنا جھنڈا حضرت علیؓ کو عطا فرمایا۔ مسلمان اپنے تجارتی مال کے ساتھ بدر کی جانب نکلے۔
بظاہر تو مسلمان ابوسفیان سے جنگ کے لیے نکلے تھے مگر مسلمانوں کا تجارتی مال ساتھ رکھنا بتاتا ہے کہ انہیں خداتعالیٰ کے فضل سے یہ یقین تھا کہ یا تو ابوسفیان اس جنگ کے لیے آئے گا ہی نہیں یا اگر آیا بھی تو خداتعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا
اور مسلمان اُن تاریخوں میں لگنے والے میلے میں اپنے تجارتی مال کی فروخت کے ذریعے نفع اٹھا سکیں گے اور بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ عملاً اسی طرح ہوا۔
مسلمان تو حسبِ وعدہ جنگ کے لیے میدان میں پہنچ چکے تھے مگر دوسری جانب ابوسفیان نے سردارانِ قریش سے کہا کہ ہم نے نُعیم کو اس کام کے لیے بھیج دیا ہے وہ مسلمانوں کو روانگی سے قبل ہی پست ہمت کردے گا۔ وہ انتہائی کوشش کر رہاہے، لیکن ہم ایک یا دو راتوں کے لیے نکلیں گے پھر ہم واپس آجائیں گے۔ اگر مسلمان جنگ کے لیے نہ نکلے تو ہم کہہ دیں گے کہ مسلمان جنگ کے لیے نہیں آئے اور یوں ہم فاتح ٹھہریں گے اور اگر مسلمان جنگ کے لیے نکلے تو بھی ہم واپس لوٹ آئیں گے اور کہہ دیں گے کہ یہ سال ہمارے لیے خشک سالی کا سال ہے، جنگ کے لیے شادابی کا سال مناسب ہوگا۔
قریش نے ابوسفیان کا مشورہ پسند کیا اور اس کی قیادت میں دو ہزار کا لشکر روانہ ہوگیا۔ مکّے سے صرف بائیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ابوسفیان اور لشکرِ کفار کی ہمت جواب دینے لگی اور اُنہیں مسلمانوں سے لڑائی کی جرأت نہ ہوئی۔چنانچہ ابوسفیان نے لشکر میں واپسی کا اعلان کیا اور کہا کہ تمہارے لیے شادابی اور ہریالی کا سال جنگ کے لیے زیادہ مناسب رہے گا۔ اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا مَیں واپس جا رہا ہوں تم بھی واپس چلے چلو۔
ابوسفیان کے اس فیصلے پر تمام لشکر واپس پلٹ گیا اور کسی نے بھی اس فیصلے کی مخالفت نہ کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار پر مسلمانوں سے مقابلے کا کیسا خوف طاری تھا۔
آنحضورﷺ آٹھ راتیں قیام کے بعد واپس لوٹ آئےاور یوں حضورﷺ اور اسلامی لشکر کُل سولہ راتیں مدینے سے باہر رہنے کے بعد واپس آگیا۔ دشمن مدِ مقابل آنے کی ہمت نہ کرسکا۔ چنانچہ اس کی خوب سبکی ہوئی اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ اس علاقے کے بعض مقامی کافروں کا جھکاؤقریشِ مکّہ کی طرف تھا آنحضورﷺ نے نہایت بہادری سے اُن پر اپنا عزم واضح کیا تو وہ بھی دبک گئے۔ بدر کے بعض تاجر واپسی پر جب مکّہ گئے تو انہوں نے ابوسفیان کومسلمانوں کی مستحکم صورتِ حال اور عزم کے متعلق آگاہ کیا جس پر ابوسفیان اور قریشِ مکہ اپنی بزدلی اور وعدہ خلافی پر بہت شرمندہ ہوئے۔
دوسرا غزوہ دومة الجندل ہے۔یہ ۲۵؍ربیع الاوّل ۵؍ہجری میں ہوا۔
یہ مقام مدینے سے ۴۵۰؍کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قدیم دَور میں یہ سفر پندرہ سے سترہ دنوں میں مکمل ہوتا تھا۔ اس جگہ بہت بڑی تجارتی منڈی لگا کرتی تھی۔ یہ پہلی مہم تھی جو مدینے سے دُور رومی سلطنت کے صوبہ شام کی سرحدوں کے نزدیک وقوع پذیر ہونے والی تھی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں سے باربار شکست کھانے اور مسلمانوں کےبڑھتے ہوئے رعب کو محسوس کرتے ہوئے دشمنانِ دین کسی ایسے موقعے کی تلاش میں تھے کہ مسلمانوں اور اسلام کو جڑھ سے ہی ختم کردیا جائے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے
مدینے کے انتہائی شمال میں شام کی سرحد کے نزدیک دومة الجندل کے گرد قبائل نے اسلامی ریاست کو چیلنج کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کرنا شروع کیا۔
یہ لوگ فساد برپا کرتے ہوئے تجارتی قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ جب حضورﷺ کو ان حالات کی خبر ملی تو فیصلہ ہوا کہ اس سے قبل کہ دومة الجندل کے قبائل کوئی بڑی فوج تیار کرکے مدینے پر چڑھائی کردیں بہتر ہے کہ ان کے علاقے میں پہنچ کر انہیں اس طرح بکھیر دیا جائے کہ وہ مدینے پر چڑھائی سے باز رہیں اور تجارتی قافلے امن سے شام پہنچ سکیں۔
نبی اکرمﷺ نے لوگوں کو نکلنے کا حکم دیا اور ایک ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ آپؐ رات کو سفر کرتے اور دن بھر پوشیدہ رہتے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ
آپؐ پندرہ سولہ دن کی طویل مسافت طے کرنے کے بعددومة الجندل پہنچے تو وہاں جاکر معلوم ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں کی خبر پاکر ادھر اُدھر منتقل ہوگئے تھے۔
گو آنحضورﷺ وہاں کچھ دن ٹھہرے اور آپؐ نے چھوٹے چھوٹے دستے بھی روانہ کیے مگر وہ لوگ ایسےلاپتا ہوئے کہ اُن کا کوئی سراغ نہ ملا۔
دومة الجندل سے واپسی کے متعلق لکھا ہے کہ آنحضورﷺ وہاں تین دن قیام کے بعد تمام لشکر کے ہمراہ مدینے کی طرف روانہ ہوکر ۲۰؍ربیع الثانی کو واپس مدینے تشریف لے آئے۔ یہ غزوہ اپنے ثمرات اور نتائج کے حوالے سے بہت مفید رہا ۔اس غزوے کے ذریعے مسلمانوں کو سارے علاقے کا علم ہوگیا اور یہ بھی ایک مقصد تھا کہ سارے علاقے کا پتا چل جائے۔ اس غزوے کا ایک مقصد عربوں کی نفسیاتی مرعوبیت کو دُور کرنا بھی تھا کہ وہ کبھی سلطنتِ روم سے جنگ نہیں کرسکتے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ
یہ غزوہ اس رنگ میں پہلا غزوہ تھا کہ اس کی غرض یا کم از کم بڑی غرض ملک میں امن کا قیام تھا۔اہلِ دومہ کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا۔ وہ مدینے سے اتنی دُور تھے کہ ان کی طرف سے بظاہر یہ اندیشہ کسی حقیقی خطرے کا موجب نہیں ہوسکتا تھا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دعا کی طرف بھی دوبارہ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں عمومی امن بھی قائم فرمائے۔ وہ امن جس کی خاطر آنحضورﷺ نے اپنے زمانے میں بھی کوششیں کیں اور یہی مقصد ہےآپؐ کے آنے کا، اور یہی مقصد ہے اسلام کی تعلیم کا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہوسکتا ہے اور اس کے لیے دعاؤں کی بھی خاص ضرورت ہے۔
بظاہر لگتا ہے کہ دنیا والے اب اپنےپاؤں پر کلہاڑا مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ظاہری طور پر امن کی صورت نظر نہیں آرہی۔ دوسرے ان مغربی ممالک میں اب مسلمانوں کے خلاف بھی مہم بہت تیز ہوگئی ہے اورآئندہ خیال یہی ہے کہ مزید تیز ہوگی۔
اس کے لیے بھی مسلمانوں کو اپنی بقا کے سامان کرنے ہوں گے،ایک اکائی بننا ہوگا، اپنی حالتوں کوبہتر کرنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اسے سمجھنے والے ہوں۔ مسلمان ملکوں سوڈان وغیرہ میں مسلمان، مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں، ان کے لیے بھی دعاکریں۔ یہ دین کے اصل مقصد کو بھول کر بھائیوں کو مار رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ غیر بھی مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ملک و قوم کی خدمت کرنے والا اور امن قائم کرنے والا بنائے۔
٭…٭…٭