ہے علامت امنِ عالم کی، نشانِ آشتی
ہے علامت امنِ عالم کی، نشانِ آشتی
زندگی پہچان تیری ہے سراسر زندگی
بول ہیں شیریں ترے ،جو لَب ہلیں خوشبو گِرے
بات تیری معتبر ایسی نہیں ہے اور کی
تجھ میں وصل و ہجر کا لطفِ گراں مایہ بھی ہے
عشق یوں تیری جبیں پر روشنی ہی روشنی
تُو زمیں پر ربِّ کعبہ کا حسیں انعام ہے
تیرے ہونے سے ہوئی ہے قلب کی مشّاطگی
تُو ہی نظروں میں مری روشن مرے چاروں طرف
آئینہ خانے میں جیسے ہو تری تصویر ہی
اے مرے آقا! تجھے سوچوں میں اپنے دھیان میں
پھیر دوں میں رُخ تری جانب دُعا کا ہر گھڑی
عشق ہے تجھ سے مجھے پیارے تکّلف برطرف
شعر میں کہتا ہوں سب کچھ گفتنی نا گفتنی
شرط لازم ہے رہے دِل میں مگر پاسِ ادب
ٹوٹنے لگتی ہیں تیرے قرب میں سانسیں مری
سر پہ ہے سایہ فگن میرے لیے ہے آسماں
اِک شجر ہے تُو گھنیرا میں تری ڈالی ہَری
دِل مرا مسرور ہے، مسرور کو دیکھوں گا میں
اَب کے جی بھر کے اُسے، دلبر کی ہے یہ دلبری
خوش نصیبوں کو مِلا کرتی ہے یہ توفیق بھی
دیں امامِ وقت کے دربار میں وہ حاضری
(عبد الکریم خاؔلد)