دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے احمدی مرد و زَن اور بچوں نیز نو مبائعین کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات کا بیان (خلاصہ خطبہ 08؍ نومبر 2019ء)
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
تحریکِ جدید کے 86 ویں سال کے آغاز کا اعلان
امسال13 اعشاریہ 6ملین پاؤنڈز کی قربانی پیش کی گئی جو گذشتہ سال سے 8؍ لاکھ دو ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍نومبر2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 80؍ نومبر 9102ء کو مسجد بیت الفتوح، لندن، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ،سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ آیت 273کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیتِ کریمہ کا درج ذیل ترجمہ پیش فرمایا
انہیں راہ پر لانا تیرے ذمہ نہیں۔ ہاں اللہ جسے چاہتاہے راہ پر لے آتا ہے اور جو اچھا مال بھی تم خداکی راہ میں خرچ کرو اور حقیقت یہ ہے کہ تم ایسا خرچ صرف اللہ کی توجہ چاہنے کے لیے کرتے ہو سو اس کا نفع بھی تمہاری اپنی جانوں ہی کو ہوگااورجواچھامال بھی تم خرچ کرووہ تمہیں پورا پورا واپس کردیا جائےگااورتم پرظلم نہیں کیا جائے گا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اس آیت سے واضح ہےکہ ہدایت دینا،صحیح راستےکی طرف لےجانا اللہ تعالیٰ کے فضلوں پرہی منحصر ہے۔ پس ضروری ہےکہ ہم ہدایت کے بعد اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنےکی کوشش کرتےرہیں۔ اس سے دعا کرتے ہوئے اس کے فضل بھی مانگتے رہیں۔
دوسری بات جو اس آیت میں فرمائی وہ یہ ہےکہ تم اچھے مال میں سے جو بھی خرچ کرواس کافائدہ تمہیں ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا بلکہ بڑھاکر لوٹاتاہے۔ حقیقی مومن کی تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنےکےلیے خرچ کرتےہیں۔ ایسے لوگ جو خدا کی رضا حاصل کرنےکےلیے خرچ کرتے ہیں وہ اس کے فضلوں کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کس طرح وہ ان کی قربانی کو قبول کرتے ہوئےانہیں واپس لوٹاتا ہےاورپھریہ بات انہیں مزید ایمان میں بڑھاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ مال پاک ہو۔ حضورِانور نے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہاں ان ملکوں میں رہنے والے خاص طور پر خیال رکھیں کہ پاک مال کمائیں۔زیادہ کمانے کےلیے حکومتی اداروں کو دھوکا نہ دیں۔ پھر جن کاموں کی اللہ تعالیٰ نے مناہی کی ہے ان کاموں سے کمایا ہوا مال بھی پاک مال نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مَیں پاک مال سے کی گئی قربانی،جو میری توجہ کےلیےکی جائے مَیں نہ صرف اسے قبول کرتاہوں بلکہ تمہیں پورا لوٹاتاہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے،اس بات کا تجربہ اور ادراک رکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں احمدی ہیں۔ حضورِانور نے تحریکِ جدیدکےنئے سال کے آغاز کے تناظر میں فرمایا کہ ہر قسم کے حالات میں قربانیاں کرنے والوں کے چند واقعات آج مَیں پیش کروں گا۔
سیرالیون کے ایک نومبائع احمدی کو جب تحریکِ جدید کا تعارف اور چندوں کی برکات کےبارےمیں بتایا گیا تو انہوں نے تحریکِ جدید کا چندہ ادا کیا۔غریب آدمی تھے لیکن بچ جانے والی رقم بھی چندے میں دےدی۔ اگلے ہی دن کمپنی نےان کا محکمہ تبدیل کردیا،تنخواہ دگنی ہوگئی۔
سیرالیون کے ہی ایک اور احمدی محمد صاحب نے اپنا وعدہ تحریکِ جدید پورا کرنے کےلیے سال کے آخرمیں کلو ڈیڑھ کلو چاول جو ان کے پاس تھے فروخت کرکے چندہ ادا کیا۔ کہتے ہیں کہ اس سے اگلےدن ان کے ایک دُورکے رشتےدار نے ایک بوری چاول اور کچھ رقم بطور تحفہ انہیں بھجوائی۔
گنی بساؤ کے ایک احمدی دیالو صاحب کو جب تحریکِ جدید کا بتایا گیا تو وہ بچوں کےکھانے کےلیے سامان لینے جارہے تھے۔ جیب میں رکھی تمام رقم چندے میں دےدی۔ اس کے بعد مچھلی پکڑنے گئے تو خداتعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ ایک گھنٹے میں 73کلو مچھلی ہاتھ آگئی۔ دوسرے سب مچھیرے بھی ان کی خوش قسمتی پر رشک کرنے لگے۔ اس پر وہ صاحب دوبارہ مشن ہاؤس آئے اور پھر مزیدچندہ ادا کیا۔
کانگو میں ایک غریب گاؤں میں معلم صاحب نےجب یہ بتایا کہ حضورِانور نے چندہ دہندگان کی تعداد بڑھانے کا فرمایا ہے تو ان کے پاس رقم نہیں تھی۔ چنانچہ وہ لوگ جنگل سے لکڑیاں لائے اور ان کا کوئلہ بنایا۔ پھردریاکا ایک دشوار گزار سفرکرکے شہرگئے۔ وہاں کوئلہ فروخت کیا اور حاصل ہونے والی رقم جو چھیانوے ہزار فرانک تھی وہ سب کی سب چندے میں ادا کردی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑکو عجیب قسم کےلوگ عطافرمائےہیں۔ آپؑ نے اپنی زندگی میں ہی فرمایا تھا کہ ان کے نمونے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
تحریکِ جدید کے آغاز میں غریب لوگوں کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کسی غریب عورت کے پاس انڈے ہیں تو وہ انڈےلے آئی۔ تھوڑے سے پیسے ہیں تو وہ وہی لے آیا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ لینے کےلیے لوگ خرچ کرتے ہیں۔
گنی بساؤ کی ایک غریب خاتون نے مرغی کواس نیت سے پالا کہ جب وہ بڑی ہوجائے گی تو اس کو بیچ کر چندہ ادا کریں گی۔ تنزانیہ کے ایک نوجوان راشد حسین صاحب نے اپنا چندہ ادا کرنے کے بعد معلم صاحب کی تحریک پر سال کے آخر میں مالی تنگی کے باوجود، تمام جمع پونجی مبلغ تین ہزار شلنگ چندے میں دے دیے۔ اسی روز اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ ان کی دوکان کا وہ سامان جو فوری بِک نہیں سکتا تھا ایک گاہک خرید کرلےگیا اور یوں ان کو تئیس ہزار شلنگ کی آمدنی ہوئی۔ سینٹرل افریقہ کے آجانا صاحب جنہیں بیعت کیے آٹھ ماہ ہوئے تھے انہوں نے خطبہ جمعہ میں یہ سن کر کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا غریب نہیں ہوتا ۔جیب میں موجود پانچ سو فرانک کی قلیل رقم چندہ تحریکِ جدید میں دےدی۔ اس کے بعد موصوف کو فکرپیداہوئی کہ رات کو کیا کھائیں گے۔ خداتعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ ان کے ایک عزیز اس شہر میں اپنے ہیرے فروخت کرنے آئے اور انہیں ستائیس ہزار فرانک تحفتاً دے گئے۔ اسی طرح جس شخص نے ہیرے خریدے تھے اس نے بھی دس ہزار فرانک ان کو دیے۔یوکے کی ایک خاتون نے اپنا وعدہ پورا کرنے کےبعد کسی اور کام کےلیے رکھی ساری رقم چندے میں دےدی۔ کہتی ہیں اگلے روز اپنا بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو اس میں چارگنا زیادہ رقم موجود تھی۔ بورکینا فاسو کےایک صاحب کو کسی نے تین بکرے تحفےمیں دیے۔ انہوں نے ایک بکرا تحریکِ جدید میں دےدیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کےبکروں میں اتنی برکت ڈالی کہ اب وہ کئی جانوروں کے مالک ہیں۔ بینن کے ایک ریجن میں شدید سیلاب آیا اور وہاں کا رابطہ دوسرے علاقوں سے منقطع ہوگیا۔ بڑی مشکل سے موٹر بوٹ کے ذریعے وہاں رابطہ ہوا تو اس جگہ کے صدر جماعت رو پڑے۔ ان کی فصلیں تباہ ہوگئی تھیں اور گھر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ جب انہیں تسلی دی گئی تو وہ کہنے لگے کہ مَیں اس وجہ سے نہیں رو رہاکہ میرا نقصان ہوگیا ہے بلکہ سیلاب کے آنےسے قبل مَیں نے اپنا چندہ جمع کرکے رکھا ہواتھا۔ سیلاب کی وجہ سے تمام راستے بند ہوگئے اور مجھے فکر پیداہوئی کہ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اب میرا چندہ مرکز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں۔اب آپ لوگ ہماری خبرگیری کےلیے آئے ہیں تو مَیں بےاختیاررو پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی جلدی میری دعا قبول کرلی اور مَیں اپنے فرض کو پورا کرنےکےقابل ہوا۔
حضورِانورنےبھارت،کینیڈا،روس،جرمنی،لیٹویا، مایوٹ آئی لینڈ اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک سے کئی مثالیں پیش فرمائیں۔ جن سے علم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح دنیا کے ہر خطّے اور ہرعلاقے میں قربانی کرنے والوں کے اموال میں برکتیں عطافرمارہا ہے۔ اس کے ساتھ حضورِ انور نے بچوں کی جانب سے کی جانے والی قربانیوں کے بعض واقعات پیش فرمائے۔ گھانا کے ایک نو دس برس کے طفل نے ایک دکان پر مزدوری کرکے حاصل ہونے والی رقم چندے میں ادا کی۔ سیرالیون کے اسی عمر کے ایک بچے نے لکڑیاں کاٹ کر اس کا گٹھا معلم صاحب کو پیش کردیا کہ اس کو خرید کررقم چندے میں شامل کرلیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کو جو قربانیوں کی توفیق عطافرمائی ہےوہ خداتعالیٰ کی خاص تائیدونصرت کےبغیرممکن نہیں۔ دلوں کو اللہ تعالیٰ ہی بدلتاہے اور وہی بڑوں کےبھی اور بچوں کے بھی دلوں میں ڈالتاہے۔ اگرکوئی عقل رکھنے والا ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات ہی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی دلیل ہے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے تحریکِ جدید کے86ویں سال کے آغاز کا اعلان فرمایا اور بعض کوائف پیش فرمائے۔ اس سال جماعت کو تحریکِ جدید کے مالی نظام میں 13؍اعشاریہ 6 ملین پاؤنڈکی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی جو گذشتہ برس سے آٹھ لاکھ دو ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔
پاکستانی روپے کی قدر میں شدید کمی کے باعث پہلی پوزیشن اب مکمل طور پر جرمنی کی ہے۔ اس ضمن میں حضورِ انور نے پاکستان کے مخدوش سیاسی ومعاشی حالا ت کے متعلق دعا کی تحریک بھی فرمائی۔پاکستان کے علاوہ باقی ملکوں میں جرمنی کے بعد برطانیہ پھرامریکہ، کینیڈا،بھارت،پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک ریاست،انڈونیشیا،آسٹریلیا،گھانا اور پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک اور ریاست کا نمبر ہے۔
مقامی کرنسی میں فی صد نسبت کے حساب سے اضافہ کرنے والے ممالک میں مشرقِ وسطیٰ کی ایک ریاست پہلے نمبر پر ہے۔ جس کے بعد بالترتیب بھارت،کینیڈا،جرمنی ، برطانیہ،گھانا،پاکستا ن، انڈونیشیا،امریکہ اور پھر آسٹریلیا کا نمبر ہے۔
فی کس ادائیگی کے اعتبار سے سوئٹزرلینڈ جبکہ افریقی ممالک میں مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے گھانا پہلے نمبر پر ہے۔
تحریکِ جدید کے چندے میں شاملین کی تعداد اب اٹھارہ لاکھ ستائیس ہزار سےاوپرہوچکی ہے۔
دفتر اوّل کے کھاتوں میں پانچ ہزارنوسوستائیس میں سے خداتعالیٰ کے فضل سے چھتیس افراد ابھی حیات ہیں اور وہ اپنے چندے خود ادا کر رہے ہیں۔ باقی فوت شدگان کے کھاتے ان کے ورثا اور مخلصینِ جماعت نے جاری کیے ہوئے ہیں۔
ان کوائف کے علاوہ حضورِ انور نے ازراہِ شفقت جرمنی،پاکستان،برطانیہ،کینیڈا،بھارت،اور آسٹریلیا کی مقامی پوزیشنز کا بھی تذکرہ فرمایا۔ آخرمیں حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطافرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭