حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ برمپٹن (Brampton)ویسٹ ریجن کینیڈاکے صدران جماعت اور اراکین مجلس عاملہ کی ملاقات

افرادِ جماعت کے دل میں یہ راسخ کیا جائے کہ ان کے کچھ فرائض ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ہے، ہمارے کچھ کام ہیں ان کی ادائیگی ہے اور عبادت کے علاوہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے کہ جب جماعتی نظام میں تم شامل ہوتے ہو تو اس کی پابندی کرو

مورخہ۲۴؍نومبر۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ برمپٹن ویسٹ ریجن، کینیڈا کے صدرانِ جماعت اور اراکینِ مجلس عاملہ کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس وفد نے اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے خصوصی طور پر کینیڈاسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔

ملاقات کا آغاز دعا سے ہوا جس کے بعد حضورِانور نے تمام اراکین کو خوش آمدید کہتے ہوئے السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔

اس کے بعدتمام شاملینِ مجلس کو انفرادی طور پر اپنا تعارف پیش کرنے اور اس دوران عصرِ حاضر کے مسائل اور جماعتی امور پر حضورِانور سے قیمتی ہدایات حاصل کرنے کا موقع ملا۔ حضورِانور نے اراکین کے سوالات کے جوابات دیے اور ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کے بارے میں ان کی راہنمائی فرمائی۔

حضورِانور نے سیکرٹری صاحب تبلیغ سے استفسار فرمایا کہ انہوں نے کیا تبلیغی ہدف مقرر کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ مرکز کی جانب سےبیس بیعتوںکا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ بس!کینیڈا کی کل آبادی کتنی ہے؟جواباً عرض کیا گیا کہ کینیڈا کی آبادی چار کروڑ سے زائد ہے۔ جسے سماعت فرما کر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ ٹارگٹ بڑا رکھنا چاہیے۔ مرکز نے کیا ٹارگٹ دینا تھا، خود بھی تو initiative لیا کریں۔ مرکز آپ کو انگلی پکڑ کر تونہیں چلائے گا۔ آپ مرکز کے نمائندے ہیں، خود مرکز کو بتائیں کہ اتنا بڑا ٹارگٹ ہم نے مقرر کیا ہے۔

حضورِانور نے اراکینِ عاملہ سے ان کی تبلیغی مساعی کے بارے میں مزید دریافت کی جس پر انہوں نے بین المذاہب پروگرامز سمیت مختلف مساعی کا ذکر کیا جن کے ذریعے اسلام احمدیت کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ اس پر حضورِانور نے ان کوششوں کو مزید وسعت دینے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو تھوڑے سے لوگوں کو آپ نے متعارف کروایا ہے۔ اتنا کریں کہ ایک دفعہ ساری آبادی کو تعارف تو ہو جائے۔ مَیں نے آج سے پندرہ سال پہلے کہا تھا کہ کم از کم دس فیصد آبادی تک اسلام کا پیغام پہنچ جائے، تعارف تو ہو، اس کے بعد آگے بڑھنا ہے۔اب تک کہیں کا کہیں پہنچ جانا چاہیے تھا۔

کوئی ایسا منصوبہ بنائیں جس سے ہر علاقے میں لوگوں کو معلوم ہو کہ اسلام کیا ہے اور اس کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔ غیرمسلم جو چہرہ مسلمانوں کا دیکھتے ہیں، وہ حقیقی چہرہ نہیں، اصل تعلیم کا تعارف کروانا ضروری ہے۔ اس کے لیے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کے ساتھ مل کر کام کریں۔ متحد ہو کر ایک منظم کوشش (concerted effort) ہونی چاہیے۔

ایک ممبر عاملہ نے حضورِانور سے سوال کیا کہ اگر جماعت اور شوریٰ کے انتخابات میں پہلی دفعہ کورم پورا نہ ہو تو اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ معاملہ ایسا ہے جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ احبابِ جماعت کی تربیت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں سیکرٹری تربیت کے بنیادی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ لوگوں سے رابطے کریں، ان کو قریب لائیں۔ ان کو جماعت کے نظام اور اس کے کاموں کی اہمیت کا پتا ہو۔ شوریٰ اور انتخاب کی اہمیت ان کے ذہن نشین کرائیں۔ جب یہ شعور پیدا ہوگا تو وہ خود آئیں گے اور کورم پورا کریں گے۔ یہ سیکرٹری تربیت کا کام ہے کہ ہر لحاظ سے تربیت کرے نہ کہ صرف خانہ پُری کے لیے رسمی رپورٹس بھیج دیں کہ کتنی نمازیں پڑھی ہیں، قرآنِ شریف کتنا پڑھا، حالانکہ کسی نے پڑھا کہ نہیں پڑھا، وہ آپ کو نہیں پتا، خط میں لکھ دیا کہ چار سَو میں سے دو سَو یا سَو نے پڑھ لیا۔ یہ تربیت نہیں ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ تربیت یہ ہے کہ افرادِ جماعت کے دل میں یہ راسخ کیا جائے کہ ان کے کچھ فرائض ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ہے، ہمارے کچھ کام ہیں ان کی ادائیگی ہے اور عبادت کے علاوہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے کہ جب جماعتی نظام میں تم شامل ہوتے ہو تو اس کی پابندی کرو۔ ہم نے یہ عہد کیا ہے، ہر دفعہ عہد لیتے ہیں، خدام لیتے ہیں، انصار لیتے ہیں، لجنہ لیتی ہیں، اپنے اپنے اجلاسوں میں عہد لیتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ تو پھر مقدم رکھنے کا تو یہی مطلب ہے کہ اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر، پیچھے کر کے جو جماعتی ضروریات ہیں ان کے لیے آگے آئیں۔ اور اگر سال میں ایک دفعہ یا دو، تین سال بعد اگراجلاس میںجوالیکشن ہوتا ہے، اس میں اگر نہیں آ سکتے تو کیا عہد پورا کیا؟ عہدوں کا پورا کرنا بھی ذمہ داری ہے۔

حضورِانور نے سیکرٹری تربیت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید فرمایا کہ یہ سیکرٹری تربیت کا کام ہے کہ لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں اچھی طرح ڈالیں کہ تم نے عہد پورے کرنے ہیں۔ صرف سطحی قسم کی رپورٹ دے دینا یا روایتی رپورٹ دے دینا کہ ہمارے اتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں، کون سا کمال کر دیا، نماز تو فرض ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں اور عبادت کی تعریف آپؑ نے یہی کی کہ نماز۔ پانچ وقت نمازیں پڑھو۔ تو یہ پانچ وقت نمازیں پڑھ لینا تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ یہ تو فرض ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر رہے تو پھر وہ احمدی کس بات کے ہیں؟ قرآن ِشریف پڑھنا ہے۔ تلاوت کرنی چاہیے، یہ ضروری ہے۔ چاہے ایک رکوع، دو رکوع پڑھیں، تبھی دین کا علم حاصل ہو گا۔ یہ بھی ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے۔ اس کے علاوہ جو باقی کام ہیں، جو انتظامی کام ہیں، ان میں اپنا ہاتھ بٹانا، ان میں اپنا وقت دینا، تبلیغ کے لیےباہر نکلنا، تربیت کے پروگراموں کے لیے باہر نکلنا، اپنے گھروں میں تربیتی ماحول پیدا کرنا، یہ زائد چیزیں ہیں، جو ہر احمدی کو کرنی چاہئیں۔ اس کا پھر ایک ماحول ہو، جب سارے یہ کر رہے ہوں گے، تو یہ جو مشترکہ کوشش ہے، یہ پھر ان کو بہتر کرے گی۔ پھر ان کو شکوہ نہیں ہو گا کہ آج تین سال کے بعد مجلس انتخاب کا اعلان ہوا ہے تو کورم پورا نہیں ہوا یا الیکشن کے وقت کورم پورا نہیں ہوا۔ یا خدام الاحمدیہ کو شکوہ نہیں رہے گا، یا لجنہ کو نہیں رہے گا، انصار اللہ کو نہیں رہے گا۔ ہر ایک کے اپنے اپنے کورم وقت پہ پورے ہوتے رہیں گے۔ تو یہ تو ایک روح پیدا کرنے والی بات ہے۔

حضورِانور نے جماعتی ترقی کے لیے سیکرٹری تربیت کے کلیدی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مزیدفرمایا کہ سیکرٹری تربیت کا بہت بڑا کام ہے۔ سیکرٹری تربیت فعال ہو تو امورِ عامہ کا کام بھی ختم ہو جاتا ہے، تبلیغ کے کام میں مدد مل جاتی ہے، مال کے شعبے کو بھی مدد مل جاتی ہے۔ ہر آدمی کو خود احساس ہو گا کہ مَیں نے کرنا ہے۔ جن کی تربیت اچھی ہے، جن کو پتا ہے کہ قربانی کی روح کیا ہے اور ہمارا مقصد کیا ہے وہ مالی قربانی بھی کرتے ہیں، وقت کی قربانی بھی دیتے ہیں۔ تو یہ سارے شعبے تربیت کے ہیں۔ اگر آپ فعّال ہو گئے اور آپ کا شعبہ فعّال ہو گیا اور مربیان اس لحاظ سے سب کی تربیت کرنے لگ جائیں تو مسائل خود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

آخر پر حضورِانور نے احبابِ جماعت کی اصلاح کے ضمن میں اراکینِ عاملہ کے ذاتی نمونے قائم کرنے کے حوالے سے اس پیرائے میں توجہ دلائی کہ باجماعت نماز پڑھنے والے تو آپ کے عاملہ کے ممبران بھی نہیں ہوں گے، جو سَو فیصد پانچ نمازیں باجماعت پڑھ لیتے ہوں۔ تو جب عاملہ میں یہ حال ہے تو باقیوں کا کیا حال ہو گا؟

ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ ایسے خدام یا لجنہ جو سٹوڈنٹ ہوتے ہیں اور یونیورسٹی سے پڑھ کر یا اپنی تعلیم مکمل کر کے جب ملازمت شروع کرتے ہیں یا کاروبار کرتے ہیں تو ان کی یہ transition ہمارے لیے چندے میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو طویل عرصے تک سٹوڈنٹ ہی ظاہر کرتے رہتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ مالی تحریکات میں انہیں شامل کریں لیکن ہمیں مشکل ہوتی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ اگر سٹوڈنٹس کو اس بات کا علم ہو کہ ان کا تعلق مسجد سے ہے اور وہ یہاں آتے ہیں تو مربیان انہیں خطبات میں تلقین کرتے رہیں کہ جو کمانے والے ہیں، وہ اپنا چندہ دیتے رہیں۔ اگر کسی سٹوڈنٹ کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں تو وہ لکھ کر دے سکتے ہیں کہ وہ سٹوڈنٹ ہیں اور ان کے اخراجات پورے نہیں ہوتے، اس لیے وہ باقاعدہ چندہ نہیں دے سکتے، مگر وہ باقی تحریکات میں حصہ لیتے رہیں گے۔

یہ تو تربیت کا شعبہ ہے، ان کو بتاتے رہیں، چیلنج کا کیا ہے؟ یہ تووہی بات ہے کہ آپ جتنا تعلق ان سے جوڑیں گے اتنا ہی وہ آپ کے کام آنے والے ہوں گے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑکو اللہ تعالیٰ نے یہی کہا تھا کہ پرندے پکڑو اور ان کو کونوں میں بٹھا دو۔ فَصُرْهُنَّ۔ پھر ان کو اپنی طرف بلاؤ۔ تمہاری تربیت اگر صحیح ہے توتربیت کر کے ان کو چھوڑ دو، رکھ دو، تم انہیں بلاؤ گے تو وہ تمہارے پاس آئیں گے۔

حضورِانور نے یہ بھی فرمایا کہ مربیان، صدران، تربیت والوں اور عاملہ کو چاہیے کہ وہ خود اپنے ذاتی نمونے پیش کریں۔ پھر وہ خود ہی آتے رہیں گے۔ اگر یہ نمونے ہوں گے کہ،لوگ آپ سے خوفزدہ رہیں یا بعض حرکتوں کی وجہ سے کچھ تحفظات ہوں تو پھر تو کوئی نہیں آئے گا۔

اگلا سوال یہ تھا کہ اس وقت جماعت کے دو بہشتی مقبرہ جات قادیان اور ربوہ میں موجود ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں کسی تیسری جگہ بھی اس کا قیام عمل میں لایا جائے گا؟

حضورِانور نے فرمایا کہ بہشتی مقبرہ تو وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں قادیان میں قائم کیا۔ اس کے بعد ربوہ میں بھی ایک بہشتی مقبرہ ہے جو کہ خلیفہ ثانیؓ نےقائم فرمایا اور وہاں نبی کی بیوی حضرت امّاں جان اُمّ المومنینؓ اور ان کی اولاد دفن ہے۔ اس کی حد تک تو ہم کہہ سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیّت میں خود لکھا ہےکہ اس طریق پر دوسرے ملکوں میں بھی قبرستان قائم کیے جائیں گے۔تو وہ قبرستان موصیان ہر جگہ قائم ہیں جو ‘مقبرۂ موصیان ’کہلاتا ہے، آپ کے ملک کینیڈا میں بھی ہے، جہاں وصیّت والوں کو علیحدہ دفن کرتے ہیں۔ یہاں بھی ہم نے رکھا ہوا ہے، ہمارے جو قبرستان ہیں ان میں ایک حصّہ موصیوں کے لیےمختص کیا ہوا ہے۔اس میں صرف وصیّت والے جاتے ہیں، تو اس کی اجازت باقاعدہ خلیفۂ وقت سے لیتے ہیں کہ یہ موصی یہاں دفن ہونا ہے اس کی اجازت دے دیں۔تو وہ ‘مقبرۂ موصیان ’کہلاتا ہے۔ جو باہر کے غیر ملکی ہیں ان کی یادگارقادیان میں لگ جاتی ہے، جو پاکستانی origin کے ہیں، ان کی یادگار ربوہ میں لگ جاتی ہے تو وہ بہشتی مقبرے کا حصّہ بن جاتے ہیں۔

حضورِانور نے واضح فرمایا کہ مَیں تو نام نہیں دے سکتا، بہشتی مقبرے تو وہی ہیں، جو کسی وجہ سے ہیں۔ باقی ‘مقبرۂ موصیان’ رسالہ الوصیّت میں حضرت مسیح موعود ؑکے اپنے الفاظ ہیں، وہ نکال کے دیکھ لیں۔

ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ بعض فیملیز ایسی ہیں جو جماعتی اجلاسات اور دیگر پروگراموں میں شامل نہیں ہو سکتیں یا نہیں ہوتیں اور جماعت سے رابطہ بھی رکھنا نہیں چاہتیں۔ اور جب عہدیداران ان سے رابطہ کرتے ہیں تا ان کا بھی نظام کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بن سکے،مگرپھر بھی انہیں کامیابی نہیں ہوتی، نیز راہنمائی طلب کی کہ اس سلسلے میں ایک عہدیدار کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟

حضورِانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ مستقل ان کو سمجھاتے رہیں، کہتے رہیں، یہاں تک کہ یا تو وہ انکار کر دیں کہ ہم احمدی نہیں ہیں یعنی احمدی ہونے سے انکاری ہو جائیں۔ جب تک وہ کہتے ہیں ہم احمدی ہیں تو پھر اسے کہو یہ ہمارا نظام ہے اس سے تمہیں تعاون کرنا چاہیے، پیار سے محبت سے ان کو قریب لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ عہدیداروں کا کام ہے کہ مستقل مزاجی سے ان کے لیے کوشش بھی کریں اور ان کے لیے دعا بھی کریں۔

حضورِانور نے عہدیداران میں پائے جانے والے عمومی رویے کی نشاندہی کرتے ہوئے ذاتی رابطوں کی اہمیت پر زور دیا کہ ہمارا یہ طریق ہے کہ عہدیدار، سیکرٹری مال بھی اس وقت جائے گا جب چندہ لینا ہے۔ سیکرٹری تربیت اس وقت جائے گا جب اس نے کوئی اجلاس کرنا ہے۔ صدر جماعت اس وقت جائے گا جب اس کا کوئی خاص مقصد ہو گا۔ ویسے کسی کا کوئی پتا ہی نہیں ہوتا۔اس لیےمَیں کہتا ہوں کہ عہدیداروں کے ذاتی رابطے ہوں۔ سیکرٹری مال صرف چندہ لینے نہ جائے، ویسے ہی جا کر کبھی کبھار آتے جاتے چندے کا ذکر کیےبغیر ایسے لوگوں کا حال احوال پوچھ لیا کرے۔ اسی طرح ان کو آتے جاتے سیکرٹری تربیت یا مربی بھی کہہ سکتا ہے کہ مسجد آیا کریں، اچھی بات ہے۔ تو مطلب ہے طریقے سے، حکمت سے ان کو بتایا جا سکتا ہے اور کہا جا سکتا ہے تو وہ لوگ آتے ہیں۔

حضورِانور نے دنیا داری میں پڑنے والے افراد کے لیے کوشش، دعا اور لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ جو بالکل دنیا داری میں پڑ چکے ہیں، دین سے ہٹ ہی گئے ہیں تو ان کے لیےکوشش کریں، ان کے اپنے حالات کے مطابق کیالائحہ عمل بنانا چاہیے، یہ تو آپ ہی دیکھ سکتے ہیں اور ساتھ ان کے لیے دعا کریں۔لیکن چھوڑنا اس وقت تک نہیں جب تک وہ یہ نہ کہہ دے کہ مَیں احمدی نہیں ہوں۔ جب تک وہ یہ اقرار کر رہا ہے کہ مَیں احمدی ہوں تو پھر اس کو سمونے کی کوشش کرنی ہے۔

ایک سوال کیا گیا کہ کیا حصّہ جائیداد کے سلسلے میں جب گھر کی مالیت کی منظوری مرکز سے آ جاتی ہے تو دو سال میں یا زیادہ سے زیادہ پانچ سال میں اس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ کیونکہ پچھلے چند سالوں میں گھروں کی مالیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اس لیے اگر اس میعاد کو بڑھا کر دس سال کر دیا جائے تو ادائیگی میں آسانی ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں حضورِانور کی راہنمائی درکار ہے۔

اس پر حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ یہ تو شوریٰ نے ہی قاعدہ بنایا ہوا ہے کہ جس گھر میں آپ رہتے ہیں، پانچ سال تک اس کی ادائیگی کی اجازت ہے، اور جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو فوت ہونے کے بعد اس کی ادائیگی ورثاء نے کرنی ہے، وہ گھر کو بیچ کر کریں یا کوئی اَور جائیداد بیچ کر کریں، یا اس کی کوئی بچت یا reserve ہے، اس میں سے اداکریں۔ تو وہ دو سال کے اندر اندر ادائیگی کریں۔

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ قیمتیں تو دس سال میں بڑھ گئی ہیں، اگر بڑھ گئی ہیں تو اکثر گھروں کے مارگیج(mortgage) ہی ہیں۔ اس میں آپ مارگیج ادا کرتے ہیں ساتھ وصیّت بھی تھوڑی سی ادا کر دیا کریں، آسانی ہوتی جائے گی، ساتھ ساتھ اترتا جائے گا۔ موصی نے تو کہا تھا کہ مَیں اپنی جائیداد دیتا ہوں، اس نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اگر میری جائیداد کے بعد پیسے بچے تو میری بیوی بچے دے سکے تو دوں گا۔ جائیداد دیتا ہوں، یہ تو اس کی commitment ہے، تو اس جائیداد کو بیچ کر اتنا حصّہ دیتے ہیں۔

حضورِانور نے اس حوالے سے وضاحت فرمائی کہ اگر آپ بینک سے مارگیج لے رہے ہیں اور آپ کی وہ ادائیگی نہیں ہوتی، تو ڈیفالٹر ہو گئے ہیں، گھر کو بینک ملکیت میں لے لیتا ہے، یا پھر اس کو بولی میں لے جاتا ہے یا سیل کر دیتا ہے۔ اب اس میں سے جتنا حصّہ اپنی مارگیج کاادا کر چکے ہیں، وہ نکالنے کے بعد باقی رقم اگر اس کی قیمت اس سے زیادہ ملی ہے، تو بینک اپنے پیسے نکال کے باقی آپ کو دے دے گا۔ اور اگر نہیں بنی تو وہ آپ کو bankruptبنا کر بینک اپنا حصّہ لے لے گا اور گھر آپ کے ہاتھ سے چلا جائے گا۔

مارگیج کی ادائیگی اور ملکیت کے تعلق میں حضورِانور نے مزید بیان فرمایا کہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آسانی اورسہولت یہی ہے کہ جتنی جتنی آپ مارگیج دیتے جاتے ہیں اتنا حصّہ آپ کی ملکیت میں آتا جاتا ہے۔اگر آپ اس کی امانتاً رقم جمع کراتے جائیں، ان کو بتا دیں کہ یہ مارگیج مَیں دے رہا ہوں، یہ میری ملکیت ہے، اس کا شمار کرتے جاؤ تو وہ چاہے آپ پانچ سال میں دیں، دس سال میں دیں، آپ کی شمار ہو جائے گی۔ تشخیص شروع میں کرا لیں۔اگر اس طرح آپ دے رہے ہیں تو جتنی جتنی مورگیج دیتے جائیں گے اس کا عرصہ لمبا چلا جائے گا۔ وہ آپ کی وصیت کی ادائیگی شمار ہوتی جائے گی، آپ کارپرداز میں نوٹ کرا دیں، یہ ہو سکتا ہے۔ اس پر لکھ کے امیر صاحب کے ذریعہ سے ایک تجویز بھجوا دیں لیکن یہ کہنا کہ پوری ملکیت آپ کی ہے، آپ کافری ہولڈ(freehold) ہو گیا، مورگیج کلیئر ہو گئی، سب کچھ ہو گیا، پراپرٹی اب آپ کے پاس آگئی۔اس کے بعد آپ کہیں گے اب مَیں دس سال میں اس کی ادائیگی کروں تو اس کی تشخیص جو آپ کروا رہے ہیں، اس کی قیمت یہ ہے۔ پھر د س سال میں جب ادائیگی کر رہے ہیں تو دس سال میں جو اس کی قدربڑھ گئی ہے پھر اس کو بھی پانچ سال بعد دوبارہ تشخیص کروائیں۔ پھر وصیّت بھی بڑھائیں۔ وہاں تو آپ آسانی لے رہے ہیں، پھر اس کا چندے میں بھی تو آگے قربانی کریں۔ سوال یہ ہے کہ پانچ سال میں قیمتوں میں ایک معقول اضافہ ہوتا ہے۔ اس کو ہم consider کر لیتے ہیں کہ پانچ سال کی قیمت فکس ہے، اس میں تم چندہ ادا کر دو تو تمہاریrevalueنہیں ہو گا۔ لیکن پانچ سال کے بعد جب چھٹے سال یا ساتویں سال میں آپ جا کر کرتے ہیں تو وہ جو چار ملین کی پراپرٹی ہے وہ آٹھ ملین میں ہو جاتی ہے۔ تو آپ کہیں کہ مَیں وصیّت تو چار ملین پر دوں گا مگر پراپرٹی میری آٹھ ملین کی ہے۔ تو اب یہ قربانی تو نہ ہوئی۔

اب جس طرح آپ کے پیس ولیج (Peace Village)میں وہی جو مکان ڈیڑھ ڈیڑھ،دو دو لاکھ کے تھے وہ ڈیڑھ،دو ملین کے ہو چکے ہیں۔ اب آپ نے اگر آج سے دس سال پہلے اس کی چار یا پانچ لاکھ کی تشخیص کروائی تو آج وہ دو یا ڈیڑھ ملین کا ہے تو پھر آپ کو فائدہ ہوا، وصیّت کیا ہوئی؟ قربانی کیا ہوئی؟ تو اس دورانیہ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ کتنے عرصہ اس کی قدرقائم رہتی ہے اس لیے پانچ سال کا عرصہ رکھا ہے، پانچ سال ایک سہولت ہے۔ باوجود اس کے کہ اس پانچ سال میں بھی اس کی قدربڑھ گئی ہے لیکن آپ کو یہ سہولت دی جا سکتی ہے کہ آپ پانچ سال پہلے جو قیمت تھی، اسی پر وصیّت دے دیں۔

آپ کہتے ہیں کہ نہیں قیمت تو میری دو ملین ہو جائے گی لیکن وصیّت مَیں چار لاکھ پر دوں گا۔ تو پھر یہ قربانی کیا ہوئی؟ وصیّت کیا ہوئی؟ چندہ عام ادا کرنے والے اور وصیّت کرنے والے میں قربانی کا کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔ پھر تواس کی زیادہ قربانی ہوئی جو چندہ عام ادا کر رہا ہے۔اپنی آمد میں سے دے تو رہا ہے، آپ تو داؤ لگا رہے ہیں۔

اس ملاقات کا آخری سوال جو حضورِانور کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا یہ تھا کہ آیا یہ احمدیوں کے لیےممکن ہو گا کہ کسی وقت ہم فریضہ ٔحج بطور احمدی ادا کر سکیں گے؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دعا کریں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ ہماری تو یہ خواہش بھی ہے اور دعا بھی ہے۔

لیکن بہرحال اب کم از کم یہ سہولت ہو گئی ہے کہ آپ کو علیحدہ ایمبیسی (Embassy)کے ذریعہ جا کر پاسپورٹ نہیں لینا پڑتا، وہاں احمدی یا غیر احمدی کا سوال نہیں پیدا ہوتا، آپ کو آن لائن ویزہ مل جاتا ہے۔ یہ سہولت تو اِس وقت پیدا ہو گئی ہے تو آئندہ اللہ تعالیٰ مزید حالات بہتر کرے تو ہو سکتا ہے کسی وقت وہاں کا بادشاہ مزید اَور سہولتیں پیداکر دے۔ باقی ہمارا کام دعا کرنے کا ہے، جب ہماری اتنی تعداد ہو جائے گی، تو ان شاء اللہ وہ سب مواقع پیدا ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا میں قبول کرنے یا پھیلنے میں تین سَو سال سے زائد عرصہ لگا تھا اور تمہیں تین سَو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا، جب تم جماعتِ احمدیہ کی اکثریت دیکھو گے۔ تو جب ایسی حالت ہو گی تو ان شاء اللہ تعالیٰ عمرہ اور حج بھی ہو جائے گا۔

ملاقات کے اختتام پر حضورِانور نے تمام شاملینِ مجلس کو الله حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button