خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍نومبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ کی سیرت کے حوالے سے بدر کے فوری بعدواقعات کا میں ذکر کر رہا تھا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنت البقیع کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: جنت البقیع کی بنیاد اور ابتدا کے بارے میں جو تفصیل ملی ہے وہ اس طرح ہے کہ آنحضرتﷺ کے مدینہ میں ورود کے بعد وہاں بہت سے قبرستان تھے۔ یہودیوں کے اپنے قبرستان ہوا کرتے تھے جبکہ عربوں کے مختلف قبائل کے اپنے اپنے قبرستان تھے۔ مدینہ طیبہ چونکہ اس وقت مختلف علاقوں میں بٹا ہوا تھا اس لیے ہر قبیلہ اپنے ہی علاقے میں کھلی جگہ پر اپنی میتوں کو دفنا دیتا تھا…حضرت عبیداللہ بن ابی رافعؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں صرف مسلمانوں کی قبریں ہوں اور اس غرض سے آنحضرتﷺ نے مختلف جگہوں کو ملاحظہ بھی فرمایا۔ جا کے دیکھا۔ یہ فخر بقیع الغرقد کے حصہ میں لکھا تھا۔رسالت مآبﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس جگہ کو یعنی بقیع الغرقد کو منتخب کر لوں۔ اسے اس دَور میں بقیع الخبخبہ بھی کہا جاتا تھا۔اس میں بےشمار غرقد کے درخت اور خود رو جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ مچھروں اور دیگر حشرات الارض کی اس جگہ پر بھرمار تھی اور مچھر جب اس جگہ گندگی کی وجہ سے یا جنگل کی وجہ سے اڑتےتھے تو ایسا لگتا تھا کہ دھویں کے بادل چھا گئے ہیں۔ وہاں سب سے پہلے جن کو دفن کیا گیا وہ حضرت عثمان بن مظعونؓ تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر نشانی کے طور پر رکھ دیا اور فرمایا یہ ہمارے پیشرو ہیں۔ ان کے بعد جب بھی کسی کی فوتیدگی ہوتی تو لوگ آنحضرتﷺ سے پوچھتے کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے؟ تو آپﷺ فرماتے کہ ہمارے پیشرو عثمان بن مظعون کے قریب بقیع میں دفن کرو۔ بقیع عربی میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں درختوں کی بہتات ہو۔ بہت زیادہ درخت ہوں۔ بہرحال مدینہ طیبہ میں اس مقام کو بقیع الغرقد کے نام سے جانا جانے لگا کیونکہ وہاں غرقد کے درختوں کی بہتات تھی جیساکہ میں نے بتایا۔ اس کے علاوہ وہاں دیگر خود رو صحرائی جھاڑیاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اسے جنت البقیع بھی کہا جاتا ہے۔ جنت کا لفظ جو ہے اس کا عربی میں ایک مطلب باغ یا فردوس کے بھی ہیں۔ اس لیے یہ جگہ زیادہ تر عجمی زائرین میں جنت البقیع کے نام سے جانی جاتی ہے۔ عبدالحمید قادری صاحب ہیں انہوں نے یہ تفصیل لکھی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب عموماً اپنے مقابر اور قبرستانوں کو جنت ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کا ایک نام مقابر البقیع بھی ہے جو اعرابیوں میں زیادہ مشہور ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بنوغطفان میں مشرکین کےخلاف رسول اللہﷺکی روانگی اورنصرت الٰہی کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: مشرکین کی جتھہ بندی کے خلاف رسول اللہﷺ کی روانگی کی تفصیل میں یوں لکھا ہے کہ مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ کو ذُو الْقَصَّہ مقام میں بنو ثعلبہ کا ایک شخص ملا۔ ذُوالْقَصَّہ رَبَذَہ کے راستے پر مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلے پر تھا۔ اس شخص کا نام جبار تھا۔ صحابہ کرامؓ نے اسے گرفتار کر لیا اور اسے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔ اس نے کہا یثرب جانا چاہتا ہوں اور اپنے روزگار کی تلاش کے لیے جا رہا ہوں تو اس کو نبی کریمﷺ کے پاس لایا گیا۔ اس نے رسول اللہﷺ کو اپنی قوم کے حالات سے آگاہ کیا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً مسلمان ہو گیا۔ جب اسے آپﷺ کے ارادے کا علم ہو اکہ آپؐ بنوثعلبہ اور بنو محارب پر چڑھائی کے لیے نکلے ہیں تو اس نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے محمدﷺ وہ ہرگز آپؐ کا سامنا نہیں کریں گے۔ اگر انہیں آپؐ کی آمد کے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ فرار ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جائیں گے۔…اور کہا کہ میں بھی آپؐ کے ساتھ چلتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے جبار کو بلال کے سپرد کر دیا۔ وہ شخص مسلمانوں کو ایک دوسرے راستے سے لے کر چلا اور ان کے علاقے میں لے آیا۔ وہاں موجود لوگوں نے جب اسلامی لشکر آتے دیکھا تو وہ سب نکل بھاگے اور پہاڑوں پر جاچڑھے۔ آنحضرتﷺ پیش قدمی کرتے ہوئے ذی امر نامی چشمہ پر پہنچے۔ وہاں پڑاؤ ڈالا۔ اچانک وہاں بہت تیز بارش شروع ہو گئی اور آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ کے کپڑے بھیگ گئے۔ آپﷺ نے اپنے گیلے کپڑے سوکھنے کے لیے درخت پر ڈال دیے اور خود اس درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ دوسرے صحابہ کرامؓ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ یہیں نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی تھی۔ اس بارے میں لکھا ہے جو تلوار سونتنے والے شخص کا واقعہ آتا ہے۔ یہ لوگ جو پہاڑوں کی چوٹیوں میں چھپ گئے تھے وہ اوپر سے پہاڑوں پر سے آنحضرتﷺ کی ساری نقل و حرکت دیکھ رہے تھے۔ مشرکوں نے جب آنحضرتﷺ کو ایک جگہ تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو وہ اپنے سردار دُعْثُور کے پاس آئے۔ یہ شخص ان میں سب سے زیادہ بہادر تھا۔ مشرکوں نے اسے کہا کہ اس وقت محمدﷺ بالکل تنہا لیٹے ہوئے ہیں۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ ان سے نمٹ لو۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ خود دُعْثُور نے جب آنحضرتﷺ کو وہاں تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا کہ اگر اس وقت بھی میں محمد (ﷺ ) کو قتل نہ کروں تو اللہ خود مجھے ہلاک کر دے۔ بہرحال یہ کہہ کردُعْثُور تلوار سونتتے ہوئے چلا اور بالکل آنحضرتﷺ کے سرہانے پہنچ کر رکا۔ پھر اچانک اس نے آپؐ کو مخاطب کر کے کہا۔ آج،یا یہ کہا کہ اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آنحضرتﷺ نے اطمینان سے فرمایا: اللہ مجھے تم سے بچائے گا! اس پر وہ زمین پر گر گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آنحضرتﷺ نے فوراً اس کی تلوار اٹھا لی اور اسے فرمایا: اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس پر دعثور نے کہا لَا أَحَدٌ، وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ، وَاللّٰهِ لَا أُ كَثِّرُ عَلَیكَ جَمْعًا أَبَدًا۔کوئی بھی نہیں۔ مجھے تو اب کوئی نہیں بچا سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ کی قسم !آئندہ میں کبھی آپؐ کے خلاف لوگوں کی جتھہ بندی نہیں کروں گا۔ یہ اس نے عہد کیا۔ آپﷺ نے اس کی تلوار اسی کو عنایت فرمادی اور ایک روایت میں ہے کہ دعثور آپؐ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرنے لگا۔ اللہ کی قسم! آپؐ احسان کرنے کے معاملے میں مجھ سے بہتر ہیں۔ رسول اللہﷺ نے جواباً فرمایا کہ اَنَا أَحَقُّ بِذٰلِكَ مِنْكَ۔میں تم سے اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ احسان کروں اوردُعْثُور اپنی قوم کی طرف لوٹ آیا لیکن اس کا حال ہی بدلہ ہوا تھا اور وہ اپنی قوم کو تبلیغ کر رہا تھا۔دُعْثُورنے واقعہ بیان کیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا، کس طرح میں گر گیا۔وہ گرنے کے واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کہتا ہے کہ میں نے وہاں ایک دراز قد آدمی کو دیکھا۔ جب میں وہاں تلوار سونت کے کھڑا تھا تو میں نے دیکھا ایک بہت دراز قد آدمی وہاں آیا ہے۔ اس نے میرے سینے کو دھکا دیا تو میں پیٹھ کے بل گر گیا، ہاتھ مارا اس نے تو میں پیٹھ کے بل گر گیا۔ تب میں نے جان لیا کہ یہ کوئی انسان نہیں ہے،یہ تو کوئی فرشتہ ہے۔ چنانچہ میں نے اسی وقت اقرار کر لیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ کہتا ہے اللہ کی قسم! میں ان کے خلاف کبھی کوئی جنبش نہیں کروں گا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی۔ بہرحال اس کے بعد آپﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے اور کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ اس غزوہ کے لیے آپؐ کل گیارہ دن مدینہ سے باہر رہے اور ایک قول کے مطابق پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے اور ابوعمر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نجد میں صفر کا پورا مہینہ رہے۔بہرحال یہ مختلف روایتیں ہیں لیکن یہ چند دن کا ہی سفر تھا۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت رقیہؓ کی وفات اورحضرت ام کلثومؓ کےحضرت عثمانؓ کےساتھ نکاح کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: جب رسول اللہﷺ غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عثمانؓ کو اپنی بیٹی حضرت رقیہؓ کے پاس چھوڑا۔ وہ بیمار تھیں اور انہوں نے اس روز وفات پائی جس دن حضرت زید بن حارثہؓ مدینہ کی طرف فتح کی خوشخبری لے کر آئے جو اللہ تعالیٰ نے بدر میں رسول اللہﷺ کو عطا فرمائی تھی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عثمانؓ کے لیے بدر کے مالِ غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور آپؐ کا حصہ جنگ بدر میں شامل ہونے والوں کے برابر تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ اپنی صاحبزادی حضرت اُمّ کلثومؓ کی شادی کر دی۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ حضرت عثمانؓ سے مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمانے لگے کہ عثمان یہ جبرئیل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثومؓ کا نکاح رقیہؓ جتنے حق مہر پر اور اس سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے۔ وہی جو رقیہ کا حق مہر تھا اسی پر تمہارے ساتھ نکاح کر دیا ہے۔ یعنی دوسری بیٹی کا نکاح بھی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ سے کر دیا جائے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہﷺ نے ام کلثومؓ کی شادی حضرت عثمانؓ سے کی تو آپؐ نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا: میری بیٹی ام کلثومؓ کو تیار کر کے عثمان کے ہاں چھوڑ آؤ اور اس کے سامنے دف بجاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔رسول اللہﷺ تین دن کے بعد حضرت ام کلثومؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ ام کلثوم نے عرض کیا وہ بہترین شوہر ہیں۔حضرت ام کلثومؓ حضرت عثمانؓ کے ہاں نو ہجری تک رہیں۔ اس کے بعد وہ بیمار ہو کر وفات پاگئیں۔ رسول اللہﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر کے پاس بیٹھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو حضرت ام کلثومؓ کی قبر کے پاس اس حال میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپﷺ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔بخاری کی ایک روایت میں اس واقعہ کا یوں ذکر ہوا ہے کہ ہلال نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی بیٹی کے جنازے پر موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت ام کلثومؓ کی وفات پر فرمایا: اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے کروادیتا۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک جگہ سے گزرے تو دیکھا کہ حضرت عثمانؓ وہاں بیٹھے تھے اور حضرت ام کلثومؓ بنت رسولﷺ کی وفات کے غم میں رو رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپﷺ کے ہمراہ آپؐ کے دونوں ساتھی یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی تھے۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا: اے عثمان! تم کس وجہ سے رو رہے ہو؟ حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میرا آپؐ سے دامادی کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ دونوں لڑکیاں میرے سے بیاہی گئیں،دونوں فوت ہو گئیں۔ اب دامادی کا تعلق ختم ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ مت رو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میری سو بیٹیاں ہوتیں اور ایک ایک کر کے فوت ہو جاتیں تو میں ہر ایک کے بعد دوسری کو تجھ سے بیاہ دیتا یہاں تک کہ سو میں سے ایک بھی باقی نہ رہتی۔
٭…٭…٭