حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ورجینیا ریجن کےایک وفد کی ملاقات

پہلے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبّت پیدا کرو پھر نماز پڑھنے کا مزہ آئے گا۔اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اپنے اندر ماں باپ سے زیادہ محبّت میرے لیے پیدا کرو۔
اس لیے استغفار زیادہ کرو اور نماز میں ہی دعا مانگو کہ اللہ میاں ! تُوہمیں اپنی محبّت عطا کر دے۔ پھر انسان صحیح مومن بنتا ہے

مورخہ ۳۰؍دسمبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےورجینیا ریجن کےایک وفد کو اسلام آباد (ٹلفورڈ)میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل اسی ریجن کا ایک سترہ ( ۱۷)رکنی وفد مورخہ۳۰؍نومبر ۲۰۲۴ءکو حضورِانور سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل کر چکا ہے۔

جب حضورِانور ملاقات کے لیے تشریف لائے تو آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔

دورانِ ملاقات حضورِانور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے تفصیلی تعارف حاصل کیا۔بعدازاں خدام کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اچھے، دیانت دار اور بااخلاق انسان بننے کے لیےمذہب کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز عرض کیا کہ کیا پیارے حضور راہنمائی فرما سکتے ہیں کہ یہ بات کیوں درست نہیں ہے اور یہ کہ انسان کو صحیح راستہ پر چلنے کےلیے مذہب کی کیوں ضرورت ہے؟

حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ پچھلے دنوں ہی مَیں نے ایک جواب میں بتایا تھا کہ ضروری نہیں ہے کہ جو اچھے moralوالے ہیں وہ ضرور مذہبی لوگ ہی ہوں۔ اب بہت سارے مسلمان claimکرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن یہ مسلمان آجکل کیا کر رہے ہیں؟ ان کے یہ moralsکوئی اچھے تو نہیں ہیں۔

[حضورِانور نے یہاں جس جواب کا تذکر فرمایا ہے، وہ دراصل مورخہ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو ناصرات الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کے ایک وفد کے ساتھ منعقد ہونے والی ملاقات کے دوران دیا گیا تھا۔ اس ملاقات کی تفصیلی رپورٹ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کی اشاعت مورخہ ۲؍ جنوری ۲۰۲۵ء میں شائع ہو چکی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اس رپورٹ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔]

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس کے بجائے بعض atheistsہیں، وہ زیادہ اچھے moralsکے حامل ہیں،بعض جو practisingمسلمان نہیں ہیں یا کرسچن نہیں ہیں یا کوئی بھی مذہب نہیں رکھتے، ان میں بھی اچھے morals پائے جاتے ہیں۔

تو اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کا قصور نہیں ہے یا مذہب کا قصور نہیں ہے کہ moralsنہیں سکھاتا۔ ہر نبی جو آیا ہے اس نے morals سکھائے ہیں، کامن ٹیچنگ ہرایک کی یہ ہے کہ خداکو ایک سمجھو، عبادت کرو اور اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ Christianityکی بھی یہی تعلیم ہے، بدھ اِزم کی بھی تعلیم ہے، موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی اسلامی تعلیم ہے۔

حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ ہر نبی نے یہی سکھایا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کسی بھی moral کی basisہیں، وہ مذہب سے ہی آئی ہیں اور اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے اخلاق سیکھا ہے، وہ مذہب سے ہی سیکھا ہے۔ آگے اَور بات ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم خدا کو نہیں مانتے، ہم مذہب کو نہیں مانتے، یہ ایک علیحدہ چیز ہے۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ ان میں بھی اچھے morals والے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو مذہب کو نہیں مانتے، لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تم مذہب کو مانو گے، میرا حق ادا کرو گے اور ساتھ ہی تمہارے اچھے moralsبھی ہوں گے تو مَیں تمہیں کئی گنا reward دوں گا۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ لوگ جو مذہب کو مانتے ہیں، بظاہر نمازیں پڑھنے والے ہیں، لیکن اگر وہ غریبوں کا حق نہیں ادا کرتے، سچ نہیں بولتے، لڑائیوں میں involveہیں اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے ہیں تومَیں ان کی نمازیں بھی قبول نہیں کروں گا اور ان کو جہنّم میں ڈال دوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو خود کہہ دیا کہ صرف مذہب کو ماننا ضروری نہیں ہے، اچھے اخلاق بھی ضروری ہیں اور جس طرح اللہ کے rights ہیں، اسی طرح بندوں کے بھی rights ہیں، اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم یہ ادا کرو۔ تو حقوق العباد اگر تم نہیں ادا کرو گے تو میرے rights جو تم سمجھتے ہو کہ مَیں ادا کر رہا ہوں، وہ بھی قبول نہیں ہوں گے۔

اس لیےجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب نے ہمیں خراب کیا ان کو کہو کہ مذہب نے خراب نہیں کیا بلکہ مذہب کی basicتعلیم ہی تھی کہ جس نے تمہارے اندر morals پیدا کیے۔ یہ اَور بات ہے کہ تم نے آہستہ آہستہ اس مذہب کی جو حقیقی تعلیم تھی اس کوچھوڑ دیا، اور صرف moralsکو لے لیا، چلواچھی بات ہے۔ لیکن جو مذہب کو ماننے والا بھی ہے اور اچھے morals والا بھی ہے، اس کو ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کے بعد eternal زندگی تو اگلے جہان کی ہے، وہاں جا کے کئی گنا reward دے گا، جو تمہیں نہیں دے گا جو مذہب کو نہیں مانتے۔ہم اُس زندگی پر زیادہ یقین کرنےو الے ہیں۔ یہاں تو اسّی، سَو سال کے بعد انسان اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسی کی عمر سَو سال یا شاید ایک سَو پانچ سال تک پہنچتی ہے۔ کل ہی آپ کا صدر جمی کارٹر سَو سال کی عمر میں فوت ہو ا ہے، اس سے زیادہ عمر کے چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن بصورتِ دیگر عمومی طور پر لوگوں کی عمریں اسّی سے نوّے سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ تو اگلے جہان میں جاکے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوگنا reward دے گا جو مذہب کو مانتے ہیں اور اچھے اخلاق اپناتے ہیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ تو یہی ہمارا نظریہ ہے، ہم مذہب کو ماننے والے، خدا کو ماننے والے ہیں اور اگلے جہان پر یقین کرنے والے ہیں۔ اس لیے مذہب کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے اچھے moralsبھی ضروری ہیں۔ صرف یہ کہنا کہ مَیں مسلمان ہوں، نمازیں پڑھتا ہوں، تو اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مَیں تمہاری نمازیں تمہارے منہ پر مار دُوں گا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی کہہ دیا۔

حضورِانور نے آخر پر سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں تلقین فرمائی کہ انہیں کہو کہ ہم کب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض نمازیں پڑھنے والے کو ہی بخش دے گا، تمہیں نہیں بخشے گا، ہاں! اگر اچھے کام کر رہے ہو تو وہ تمہیں بھی بخش دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے، وہ جج نہیں ہے، وہ مالک ہے۔ یہ نہیں ہے کہ وہ صرف انصاف کرے، وہ چاہے تو اپنی مرضی سے کسی کو بخش بھی سکتا ہے، اگر اس کے اچھے عمل ہیں۔

ایک خادم نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ اگر ہمارے قریبی رشتہ دار احمدی نہیں ہیں، تو ہماری کیا ذمّہداری ہے، اُن کے لیے دعا کرنے کے علاوہ ہمیں ان کو کس طرح سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ احمدیت کی سچائی کو مان جائیں؟

حضورِانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ بات یہ ہے کہ مذہب میں کوئی زبردستی تو ہے نہیں۔ جو رشتہ دار احمدی نہیں ہیں، وہ اگر اچھا تعلق رکھتے ہیں، at leastہمیں اچھا سمجھتے ہیں تو تبھی توتعلق رکھتے ہیں۔ بعضوں کے رشتہ دار احمدی نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں کہ تم احمدی ہو گئے توہم تم سے بائیکاٹ کر دیتے ہیں، بولتے نہیں ہیں، تمہارے خلاف باتیں کرتے ہیں، تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

نیک فطرت غیر از جماعت رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک اور ان کے لیے دعا کی تلقین کرتے ہوئے حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ جو رشتہ دار تم سے تعلق رکھ رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی فطرت اچھی ہے، تو ان سے دوستی اور تعلق رکھو۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق ان کو اپنے اچھے morals دکھاؤ۔ ابھی moralsکی بات ہی ہو رہی ہے اور جہاں ان کو ضرورت ہو،ان کی خدمت کرو، ان کے کام آؤ، ان کے لیے دعا کرو۔ تو یہ چیزیں جب وہ دیکھیں گے کہ تمہارا behaviourکیا ہے،ان کی طرف کیاattitudeہے، تو ان میں خود ہی یہ روح پیدا ہو گی کہ ہاں ! یہ لوگ اچھے ہیں اور آہستہ آہستہ پھر ایک وقت آئے گا کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے دل بھی کھولے گا تو وہ احمدی بھی ہو جائیں گے۔

مزید برآں رحمی رشتے نبھانے کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے حضورِانور نے یاددہانی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ جو مسلمان ہوتا ہے، تم نے صرف اس کے ساتھ رحمی رشتے نبھانے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ رحمی رشتوں کا خیال رکھو، جو تمہارےblood relations ہیں، ان کا خیال رکھو اور جو تمہارےin lawsکے blood relationsیعنی جو بیوی کےblood relationsہیں، ان کا بھی خیال رکھو۔ تو جب تم یہ کرو گے تو وہ چاہے کوئی بھی ہو تو اس پر ایک اچھا اثر پڑے گا، ماحول میں ایک امن سلامتی قائم ہو گی اور آہستہ آہستہ جب وقت آئے گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہوا ہے کہ انہوں نے مذہب کو قبول کرنا ہے، اسلام کو قبول کرنا ہے، تو وہ کر لیں گے۔ اگر نہیں تو کم از کم تمہارے اچھے اخلاق کا ہی تمہیں دوگناrewardمل جائے گا۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ حضور نے کافی دفعہ پہلے بات کی ہے کہ اسلام میں نماز بہت ہی ضروری چیز ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا کوئی ایساطریق یا حکمتِ عملی ہے، جسے ہم نماز میں توجہ زیادہ مرکوز کرنے اور سستی کے وقت نماز کو وقت پر ادا کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اختیار کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آپ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کی دل سے خواہش ہوتی ہے، ہم نے نماز کیوں پڑھنی ہے، کیاصرف اپنے مقصد کے لیے؟

حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ ایک آدمی کے لیےدو چیزیں ہوتی ہیں۔ایک چیز یہ ہے کہ کسی ٹارگٹ کو achieveکرنے کےلیے انسان کوئی کام کرتا ہے۔ اور ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کسی سے پیار ہو تو وہ اس کے پیار کو حاصل کرنے کے لیے کوئی کام کرتا ہے۔ اپنے ماں باپ کی بات اگر مانتا ہے تو اس لیے نہیں مانتا کہ ان سے ہم نے پیسے یا کپڑے لینے ہیں یا ماں شام کو کھانا نہیں دے گی۔ پیار نہیں کرو گے تو تب بھی کھانا دے گی۔ لیکن تمہیں ماں سے پیار ہے، باپ سے پیار ہے، اس لیے کہ تمہارا خیال رکھتے ہیں۔ ماں باپ سے اس لیے انسان محبّت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم مجھ سے ان سے زیادہ محبّت کرو۔ ماں باپ سے زیادہ محبّت خدا تعالیٰ سے ہونی چاہیے۔ جب خدا تعالیٰ سے محبّت ہو گی تو تم اس کی عبادت کرو گے، پھر تمہیں عبادت کا خیال بھی آئے گا اور جب خیال آئے گا تو نمازیں پڑھنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں فرمایا ہے کہ مَیں نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبادت سے اللہ میاں کہتا ہے کہ مجھے تو کوئی فائدہ نہیں ہے، مگر تمہیں ہی فائدہ ہے، یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی benefitحاصل کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے اس کا benefitبھی تمہیں جاتا ہےکہ تمہیں پھر اللہ تعالیٰ reward دے گا اور تمہاری تھوڑی سی effort کےزیادہ اچھے، بہتر resultsکر کے دکھائے گا اور اگلے جہان کا reward اس کے علاوہ ہے۔

الله تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے ان پر شکرگزاری کے حوالے سے حضورِانور نے زور دیا کہ یہ بات دل میں ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں اتنی نعمتیں دیں اور ہمارے لیے بے شمار سامان اور وسائل فراہم کیے۔ ماں باپ دیے، ان کو یہ توفیق دی کہ میرا خرچ اُٹھائیں، مجھے پڑھائی کرنے کی توفیق ملی، مجھے کپڑے اور سہولتیں ملیں، یہ opportunitiesملیں کہ مَیں یہاں امریکہ میں رہ کے پڑھائی کر رہا ہوں اور اچھیjobکر رہا ہوں یا کر سکتا ہوں کہ اچھی opportunities ہیں تو پھرمَیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں۔

اظہارِ شکرگزاری کے لیے عبادت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حضورِانور نے توجہ دلائی کہ الله تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا شکر ادا کرو، مَیں تمہیں نعمتوں میں اور بڑھاؤں گا، تو جب آدمی شکرگزار ہوتا ہے تو پھراظہار بھی کرتا ہے۔ تو اظہار کرنے کے لیے پھر اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ اگر تم نے مجھ سے شکرگزاری کا اظہار کرنا ہےتو پھر میرے پاس پانچ وقت آنا پڑے گا۔ میرے پاس پانچ وقت آ جاؤ، مَیں تمہیں شکرگزاری میں اور بڑھاؤں گا اور تمہارے انعامات بڑھاتا رہوں گا۔

الله تعالیٰ کی محبّت اور عبادت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ اپنے دماغ کو اس طرف لانا ہوگا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے پیار کرنا ہے اور جب اللہ تعالیٰ سے ہمیں پیار ہو گا تو اس کی عبادت بھی ہو گی۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے لکھا ہے اگر صرف فرض سمجھ کے ٹھوکریں مار کے چلے جاتے ہو تو اللہ کہتا ہے کہ اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآنِ شریف میں لکھا ہے کہ ایسے بعض لوگوں کی نمازیں جو نماز کاحق ادا نہیں کرتے،ان کو واپس کر دوں گا، ایک تو یہی ہے کہ لوگوں کے حق ادا نہیں کرتے۔ بلکہ یہ لکھا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے سستی سے کھڑے ہوتے ہیں کہ کیا مصیبت پڑ گئی ہے؟ امّاں نے کہا ہے کہ نماز پڑھ لو، چلو! امّاں کو دکھانے کےلیے نماز پڑھ لیتے ہیں، ابّا نے کہا ہے کہ نماز پڑھ لو تو چلو! چلے جاتے ہیں یا خدام الاحمدیہ نے کہا کہ آج میٹنگ ہے تم نے وہاں آنا ہے تو اس بہانے چلو !چلیں گے تو مغرب کی نماز پڑھ لیں گے اور عشاء بھی پڑھ لیں گے یا جمعہ پڑھنا مجبوری ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

پہلے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبّت پیدا کرو پھر نماز پڑھنے کا مزہ آئے گا۔اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اپنے اندر ماں باپ سے زیادہ محبّت میرے لیے پیدا کرو۔ اس لیے استغفار زیادہ کرو اور نماز میں ہی دعا مانگو کہ اللہ میاں ! تُوہمیں اپنی محبّت عطا کر دے۔ پھر انسان صحیح مومن بنتا ہے۔

ایک شریکِ مجلس نے دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں حضورِانور سے استفسار کیا کہ کیا حضور کو یہ لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں مسلمان جو کہ مغربی دنیا میں رہتے ہیں، ان کی زندگی مشکل ہو جائے گی اور مغربی دنیا میں ہم سے ہماری آزادیاں چھین لی جائیں گی؟

حضورِانور نے یاد دلایا کہ اس بارے میں تو مَیں کئی دفعہ بتا چکا ہوں، پہلے بھی کئی دفعہ لوگ میرے سے پوچھ چکے ہیں، کہ اگر اسلام نے ترقی کرنی ہے تو یہ ترقی جماعتِ احمدیہ کے ذریعہ سے ہونی ہے، اس لیے جماعتِ احمدیہ کو زیادہ خطرہ ہے اور ایسے حالات ایک وقت میں آ کے پیدا ہوں گے کہ جب اسلام کے خلاف اور ultimatelyجماعتِ احمدیہ کے خلاف بعض لوگ کھڑے ہوں گے اور اس میں ہو سکتا ہے کہ مخالفتیں زیادہ پنپیں ، اگر اس سے پہلے کہ تم لوگوں نے کوئی انقلاب پیدا نہ کر دیا۔

اس لیے یہ تو ظاہر ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے تو مخالفت بھی زیادہ بڑھتی ہے۔ یہاں ویسٹ میں بھی بڑھ جائے گی بلکہ ابھی کچھ نہ کچھ تو باتیں ان کو پتا ہوتی ہیں، کر رہے ہوتے ہیں، ان کے دماغوں میں یہ بھی ہے کہ کسی وقت ہم خلافت کو بھی نقصان پہنچائیں، اور اس کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ پھر ان کے مختلف طریقے ہیں لوگوں کو نقصان پہنچانا، مخالفت کرنا اور ان کی لابنگ ہوتی ہے، تمہیں پتا ہے، امریکہ میں تو بہت زیادہ لابنگ ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر کیا کچھ کریں گے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اس سے پہلے اگر ہماری کوششیں صحیح ہوں گی، اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا، دعا ہو گی، تو اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں بچا بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ تبھی تو مَیں کہتا ہوں کہ ابھی سے ہمیں اپنے پیغام کو ہر جگہ پہنچانا چا ہیے، بجائے اس کے کہ جب پینتالیس ہزار فلسطینی مر گیا تو بعض لوگ ویسٹ بلکہ یہودیوں میں بھی، عیسائیوں میں بھی، atheist بھی آواز اُٹھانا شروع ہوگئے کہ یہ ظلم ہو رہا ہے، genocideہو رہا ہے اور اسرائیل کے خلاف بولنے لگ گئے۔مگر پہلے کوئی نہیں بولتا تھا کہ جب تک اس میں تیس، چالیس ہزار بندہ نہیں مر گیا، ستّر فیصد بچے نہیں مرگئے۔ تو اسی طرح بجائے اس کے کہ اسلام پر اتنا ظلم ہو کہ تم لوگ مرنے شروع ہو جاؤ اور پھر ایک reaction ہو، اس سے پہلے پہلے ہمیں تعارف کروانا چاہیے کہ ہم کیا چیز ہیں۔

حضورِانور نے زور دیا کہ اس لیے مَیں کہتا ہوں کہ اپنے ملکوں میں تبلیغ کرو یا کم از کم احمدیت کو introduceکراؤ اور آج سے پندرہ بیس سال پہلےمَیں نے کہا تھا کہ دس فیصد آبادی کو بتاؤ اور اگر دس فیصد آبادی کو اس وقت سے بتانا شروع کر رہے ہوتے اس وقت تک کہیں کا کہیں ہمارا introduction ہو جاتا۔ ابھی تو تمہارے ورجینیا میں جہاں تم لوگ رہتے ہو، میرا نہیں خیال کہ تمہارے دو فیصد لوگ جو وہاں کی آبادی ہے، وہ جانتی ہو کہ احمدی کون ہیں؟ تم نے مسجد مبارک بھی بنا لی، مسجد مسرور بھی وہاں بنا لی اور بڑے بڑے کام کر دیے، فنکشنز پرلوگوں کو، neighboursکو بلاتے بھی ہو، لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جو تمہیں جانتے ہیں؟

مخالفت بڑھنے سے پہلے بروئے کار لائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ اس لیے یہ تو ہو گا، لیکن اس مخالفت سے پہلے ہم اپنی طرف سے کیا اقدامات لے سکتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ ہم اپنے آپ کو متعارف کروائیں اور اس سے پہلے یہ بتائیں کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور ہمارا کوئی اور ایجنڈا نہیں، کوئی اور مقصد نہیں لیکن صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پہچانو۔ نہ ہم نے حکومت لینی ہے، یہی ان politiciansیا دنیا داروں کو خطرہ ہو تا ہے کہ حکومت میں نہ آ جائیں، ہمارے حق نہ غصب ہو جائیں، تو ان کو کہو کہ ہماری اس سے کوئی غرض نہیں، ہم تو صرف مذہب کو مانتے ہیں، مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور باقی حکومتیں تمہارے سپرد۔ تو یہ ان کو realiseہو جائے تو شاید مخالفت کچھ حدّ تک کم ہو جائے۔

لیکن بہرحال ایک وقت میں آ کے مخالفت تو ہو گی، جب جماعت کی ترقی بھی ہو گی۔ اس کے ساتھ بہرحال جماعت کی ترقی کو بھی بریکٹ کرنا ہو گا اور تبلیغ کرو گے تو پھر تمہاری مخالفت اَور زیادہ بڑھے گی کہ جب لوگ دیکھیں گے کہ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ابھی تو صرف پاکستانی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستانی لوگ ہیں، چند ایک افریقن امریکن نے احمدیت قبول کر لی ہے یا ایک دو وائٹ امریکنز نے کر لی یا ایشینز چند ایک آئے ہوئے ہیں، تو اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا، چھوٹی سی کمیونٹی ہے، اس نے ہمیں کیا کہنا ہے؟

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ لیکن جس طرح مَیں نے بتایا کہ ان کے دماغوں میں ابھی سے یہ ہے کہ کیونکہ یہ خلافت پر چلتے ہیں تو اس لیے ان کے پاس ایک مرکز ہے کہ جس کے کہنے پر یہ چلتے ہیں، اس لیےمرکز کو بھی پکڑنا چاہیے۔ ان لوگوں کویہ خیال پیدا ہو سکتا ہے، جو دنیا دار ہیں، ان کی نظریں بڑی دُور دُور ہوتی ہیں۔ یہ لوگ آج سے تیس سال بعد کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں بھی اسی طرح پلاننگ کرنی چاہیے۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ایک شریکِ حیات کی طرف سے دوسرے پر زبانی تشدد جیسی زیادتیوں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن اس کے دیرپا منفی اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو اس کا کس طرح سامنا کرنا چاہیے اور جماعت اس شخص کی مدد کے لیے کیا کر سکتی ہے؟

حضورِانور نے اس پر دریافت فرمایا کہ

who is suffering more, the husband or wife?

نیز فرمایا کہ زیادہ تر تو یہی کیس ہوتے ہیں کہ جو abuseہو رہا ہوتا ہے، مجھے بھی شکایتیں تو یہی آتی ہیں کہ بیویاں کہتی ہیں کہ خاوندوں نے یہ کیا۔ اس کے لیے جماعت ان کو سمجھاتی ہے، اس کے لیے اصلاحی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور مقصد یہ ہے کہ آپس میں لجنہ اور خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ جو میاں بیوی کے due rights ہیں، وہ ایک دوسرے کو دو۔

حضورِانور نے نشاندہی فرمائی کہ spouse یعنی میاں بیوی میں کیوں riftپیدا ہوتی ہے؟ تو مجھ سے جب کوئی پوچھتا ہے تومَیں کہتا ہوں کہ اگر دونوں کی یہ understandingہو کہ perfectتو کوئی نہیں ہوتا، کوئی نہیں کہہ سکتاکہ مَیں perfectہوں اور تم غلط ہو، دونوں میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ “everybody has some shortcomings” یعنی ہر کسی میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں پائی جاتی ہیں تو اس لیے ایک دوسرے کی کمزوریاں دیکھ کے آنکھیں، زبان اور کان بند کر لو تو پھر تم بڑے خوش رہو گے۔ اگر نقص نکالتے رہو گے، تو پھر یہ rift بہت زیادہ ہو جائے گی، confrontation زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ تو جماعت کی اصلاحی کمیٹیاں بھی ہیں اس میں معاملہ حل ہونا چاہیے۔ لیکن اگر خود انسان صحیح مومن ہےاور اگر میاں بیوی کے حق ادا کر رہا ہے تو کیوں لڑائی ہوتی ہے؟ اپنے آپ کو perfectنہ سمجھو، تم بیوی کے حق بھی ادا کرو اور بیوی کو بھی چاہیے کہ خاوند کے حق ادا کرے تو یہ تو understandingہے۔ دونوں میں آپس کی understandingہونی چاہیے۔

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اب جہاں سمجھتے ہو کہ cause of riftکیا ہےاس کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، وہ تو تم لوگ خود ہی بہتر جان سکتے ہو۔ جماعت کے پاس جب آؤ گے تو ساری باتیں بتاؤ گے بھی نہیں، کون بتاتا ہے کہ میرا یہ قصور تھا اور بیوی کب بتائے گی میرا یہ قصور ہے؟ وہ کہے گی قصورواریہ ہے، تم کہو گے کہ نہیں نہیں! میرا یہ قصور نہیں بلکہ یہ بیوی کا قصور ہے۔ ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہو گے۔ یہ تو پھر کیس چلتے ہیں۔ جبlitigation (قانونی چارہ جوئی) چلتی ہے تو پھر چلتی چلی جاتی ہے۔

حضورِانور نے نصیحت فرمائی کہ اس لیے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے اندر understanding، تقویٰ اور اللہ کا خوف پیدا کر لو تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پھر ہی جماعت، لجنہ اور خدام الاحمدیہ کی اصلاحی کمیٹی بھی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے اسلام صرف یہ نہیں کہتا کہ اپنے rightsلو بلکہ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ لوگوں کو rightsدو، جب دونوں کی یہ سوچ ہو جائے گی تو کوئی confrontation ہو ہی نہیں سکتی۔

ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خاص دعا ہے جو حضرت مسیح موعود موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باقاعدگی سے پڑھتے تھے؟

حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بہت ساری دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام وقتاً فوقتاً کیا کرتے تھے، کچھ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سکھا دیں، ان میں سے ایک درود شریف ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ درود شریف زیادہ پڑھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ درود شریف کے ذریعہ سے تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہو اور اسی بات کو ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا تھا۔جب مفتی محمد صادق صاحب رضی الله عنہ نے کہا کہ مَیں اب سے ہر نماز میں جو بھی دعا کروں گا تودرود شریف ہی پڑھوں گا۔ حضرت مسیح ِموعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سےزیادہ اچھی اور کون سی دعا ہے، بڑی اچھی بات ہے،مَیں بھی یہی پڑھتا ہوں۔

[قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی مکمل روایت بھی تحریر کی جاتی ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں لاہو ر کے دفتر اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا۔ ۱۸۹۸ء کا یا اس کے قریب کا واقعہ ہے کہ مَیں درود شریف کثرت سے پڑھتا تھا اور اس میں بہت لذّت اور سرور حاصل کرتاتھا۔ انہی ایام میں مَیں نے ایک حدیث میں پڑھا کہ ایک صحابی ؓنے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے حضور میں عرض کیا کہ میری ساری دعائیں درود شریف ہی ہوا کریں گی۔ یہ حدیث پڑھ کر مجھے بھی پُرزور خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں بھی ایسا ہی کروں۔ چنانچہ ایک روز جبکہ قادیان آیاہوا تھا اورمسجد مبارک میں حضرت مسیحِ موعود ؑکی خدمت میں حاضر تھا، مَیں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ مَیں اپنی تمام خواہشوں اور مُرادوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں۔ حضورؑنے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اُٹھا کر اسی وقت میرے لیے دعا کی۔ تب سے میرا اس پرعمل ہے کہ اپنی تمام خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ سے مانگتاہوں۔(رسالہ درود شریف از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب جلالپوریؓ۔صفحہ۱۳۸)]

حضورِانور نے اپنے اختتامی خطاب ارشاد فرمودہ برموقع ۱۲۹ویں جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۲۴ء کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ابھی کل ہی مَیں نے تقریر میں مثال دی کہ خودحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اس کو یہ مقام اس لیے ملتا ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے محبّت کرتا ہے اور اس پر درود بھیجتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپؑ توسب سے زیادہ درود پڑھتے ہوں گے۔ یہی دعا تھی کہ جس سے سب کچھ آپؑ کو ملا۔ تو درود شریف سے اچھی دعا اور کون سی ہو سکتی ہے؟

[قارئین کے استفادہ کے لیے حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا اصل ارشاد بھی درج کیا جاتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطّر ہو گیا۔ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زُلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لیے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ والہ وسلم)۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصّہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ مَلاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیاء ِدین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا کہ ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) سے محبّت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبتِ رسولؐ ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔(براہینِ احمدیہ حصّہ چہارم،روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۵۹۸)]

حضورِانور نے اختتامی خطاب میں مذکورہ بالا ارشاد کی روشنی میں مزید وضاحت فرمائی تھی کہ یعنی مجھے جو کچھ ملا وہ اس لیے تھا کہ مَیں رسولِ پاک صلی الله علیہ وسلم سے محبّت کر رہا ہوں، صرف محبّت کا دعویٰ نہیں کرتا، بلکہ میرا دل اس محبّت سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔

بہت ساری اور دعائیں ہیں جو وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھتے رہتے تھے لیکن آپؑ نے فرمایا کہ اصل چیز یہی ہے کہ دل میں سے دعا کی آوازنکلنی چاہیے۔ اس لیے مسنون دعائیں بے شک ان کی برکات حاصل کرنے کے لیے پڑھو، لیکن اصل دعا وہ ہے جو خود اپنی زبان میں کرو اور خاص طور پر نماز میں اپنی زبان میں کرو، اس سے پھر ایک اندر سے جوش پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ جو دعا دل سے نکلتی ہے تو وہ پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔

آخر پر حضورِانور نے متنبہ فرمایا کہ پیروں نے بتا دیا، shortcutہو گیا کہ بس اتنی دعا کر لو، پیر صاحب نے کہا کہ یہ دعا کر لو تو معاف ہو جاؤ گے۔ پانچ نمازیں نہیں پڑھو گے تو کوئی دعا نہیں کام آتی، پہلے پانچ نمازیں پڑھ کے وہ حالت بھی پیدا کرو، توپھر دعائیں بھی کام آئیں گی۔

ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو حضورِانور سے از راہِ شفقت بطورِ تبرک قلم لینے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ اورلجنہ اماء الله ہالینڈ کے ایک وفد کی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button