پہلے جاپانی احمدی مسلمان، مترجم قرآن کریم مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

احبابِ جماعت کو نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ پہلے جاپانی احمدی اور جاپانی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کے علاوہ متعدد خدمات سرانجام دینے والے مخلص وجود مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب مورخہ ۱۲؍ مارچ ۲۰۲۵ء بروز بدھ چورانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انّا للہ وانا الیہ راجعون
مکرم کوبایاشی صاحب ۱۹۳۱ء میں ٹوکیو میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جاپان کے ایک مؤقر تعلیمی ادارے Waseda یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ جب آپ کی عمر تقریباً بیس برس ہوئی اور آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کا سوچ رہے تھے تو ٹوکیو میں ریل کا سفر کرتے ہوئے آپ کی نظر ٹوکیو میں واقع ایک مسجد پر پڑی۔ آپ کو اس عمارت کا ڈیزائن اور بہت دلکش لگی۔ آپ مسجد چلے گئے اور اس طرح اسلام سے ابتدائی تعارف حاصل ہوا۔ چنانچہ آپ نے بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ آپ آئندہ اسلام کے بارے میں تحقیق کریں گے۔
آپ نے مصر کے سفارتخانے کے توسط سے جامعہ ازہر میں داخلہ کے لیے اپلائی کر دیا اور آپ کو داخلہ بھی مل گیا۔ لیکن جاپان مسلم ایسوسی ایشن کے امیر صاحب نے آپ کو مشورہ دیا کہ گو آپ جامعہ ازہر کے داخلہ ٹیسٹ میں پاس ہوچکے ہیں لیکن جاپان میں مسلمانوں کی آئندہ ضروریات کو دیکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ آپ پاکستان میں رائے ونڈ چلے جائیں اور وہاں جا کر مدرسے میں اسلام کی تعلیم حاصل کریں۔ مکرم کوبایاشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں تو ابھی ۲۱ برس کا نوجوان تھا اور زیادہ معلومات نہ تھیں لیکن یہ سوچ کر کہ کسی بڑے عہدیدار نے مشورہ دیا ہے، ان کا مشورہ مانتے ہوئے رائے ونڈ جانے پر تیار ہوگیا۔

آپ تقریباً ۱۹۵۶-۵۷ء میں رائے ونڈ تشریف لے گئے اور مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو تبلیغی جماعت کے ہمراہ پاکستان کے طول وعرض کے دورے کرنے کا موقع ملا۔ مکرم کوبایاشی صاحب اس سلسلے میں اپنے زمانہ طالب علمی کے واقعات بیان کرتے ہوئے سفرِ ملتان اور سفرِ حیدرآباد کا خصوصی ذکر کیا کرتے تھے۔
رائے ونڈ میں تحصیلِ علم کو تقریباً ایک برس گزرا تھا کہ اس دوران ایک دفعہ آپ کو لاہور جانے کا اتفاق ملا۔ آپ چڑیا گھر کی سیر کے بعد واپس رائے ونڈ جانے کا ارادہ کر رہے تھے کہ چڑیا گھر کے باہر کوئی شخص انہیں ملے اور انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ چینی ہیں۔ مکرم کوبایاشی صاحب نے جواب دیا کہ نہیں میں جاپان سے اسلام سیکھنے آیا ہوں اور آجکل رائے ونڈ کے مدرسہ میں طالب علم ہوں۔ وہ دوست اتفاق سے احمدی تھے۔ انہوں نے مکرم کوبایاشی صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اتنی دور سے اسلام سیکھنے تشریف لائے ہیں تو آپ ربوہ بھی ضرور آئیں اور جماعت احمدیہ کے جامعہ میں داخل ہو کر اسلام سیکھیں۔ مکرم کوبایاشی صاحب کو ان کی باتوں میں دلچسپی محسوس ہوئی لہذا انہوں نے ربوہ کا ایڈریس اور تعارف حاصل کر لیا۔
جب آپ واپس رائے ونڈ پہنچے اور مدرسہ میں آکر یہ واقعہ بیان کیا تو کوبایاشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مدرسہ کے طلبہ اور ساتھیوں نے شدید مخالفت کی اور منع کیا کہ خبردار وہاں نہیں جانا۔ ربوہ میں انسان نہیں بلکہ جن رہتے ہیں لہذا وہ آپ کو کیا اسلام سکھائیں گے۔ جاپانی لوگ عموماً جنوں اور روحوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ ممکن ہے طلبہ کو اس بات کا اندازہ ہو اور انہوں نے مکرم کوبایاشی صاحب کو جنوں سے ڈرانے کی کوشش کی ہو۔ مگر کوبایاشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے دل میں ارادہ باندھ لیا کہ زندگی میں انسان تو بہت دیکھے ہیں لیکن جن دیکھنے کا کبھی موقع نہیں ملا لہٰذا ضرور ربوہ جانا چاہیے۔ چنانچہ آپ اسی رات یا اگلی رات رائے ونڈ سے ریل کی پٹری پر چلتے چلتے لاہور پہنچے اور وہاں سے آپ ربوہ تشریف لے آئے۔ مکرم کوبایاشی صاحب اپنے ایک انٹرویو میں بیان کرتے ہیں کہ جب میں پہلی دفعہ ربوہ پہنچا تو آس وقت ربوہ کے قیام پر ابھی دس برس بھی نہ گزرے تھے اور آبادکاری نئی نئی شروع ہوئی تھے اور ہندوستان کے طول وعرض سے لوگ ربوہ آکر آباد ہو رہے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ غالباً ۱۹۵۸-۵۹ء کا ہوگا۔
جب آپ ربوہ تشریف لائے اور جامعہ احمدیہ ربوہ پہنچے تو مکرم میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ آپ سے نہایت محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ آپ نے ابھی باقاعدہ اسلام احمدیت قبول نہیں کی تھی مگر اس کے باوجود آپ کو جامعہ احمدیہ میں داخل کر لیا گیا۔ لیکن چند ہی ہفتوں کے بعد آپ نے خود بیعت کی خواہش ظاہر کی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہوگئے۔ آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے اپنی ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا کرتے تھے اور بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے بیعت کی تو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ یا حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک دور افتادہ دیس سے آنے والے مسلمان کی مناسبت سے آپ کا اسلامی نام محمد اویس رکھ دیا۔ یوں آپ محمد اویس کوبایاشی کے نام سے مشہور ہوئے۔
جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ابھی بمشکل دو سال ہی گزرے تھے کہ آپ کے ویزے کی مدت ختم ہوگئی اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے ویزے میں توسیع کی درخواست منظور نہ کی گئی، لہٰذا آپ جامعہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ آپ بیان کیا کرتے تھے کہ اس زمانے میں مکرم عثمان چینی صاحب بھی جامعہ میں زیر تعلیم تھے اور ان دونوں کی آپس میں اچھی دوستی تھی، جو بعد میں بھی قائم رہی۔
آپ واپس جاپان تشریف لے آئے اور یہاں سے خط و کتاب کے ذریعہ سے مرکز احمدیت سے وابستہ رہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جاپان میں کئی سال تک احمدیہ مشن کی تجدید نہ ہوسکی اور باقاعدہ مبلغ نہ تھے مگر آپ اپنے عہد بیعت پر قائم رہتے ہوئے جماعت سے وابستہ رہے اورجب بھی کوئی خدمت کا موقع پیدا ہوا آپ نے بخوشی قبول فرمایا۔

مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید جب مشرقِ بعید کے ممالک کے تبلیغی جائزہ کے سلسلہ میں ۱۹۶۸ء میں جاپان تشریف لائے تو مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب نے ان کے دورۂ جاپان کے لیے معاونت کا فریضہ انجام دیا۔ ۱۹۸۱ء میں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک صاحب بطور وکیل اعلیٰ دوبارہ جاپان کے دورہ پر تشریف لائے تو اس موقع پر بھی آپ کو ان کی میزبانی کا موقع ملا اور اس دورے کے دوران بھی انہیں غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی۔

۱۹۶۹ء میں جاپان میں دوبارہ احمدیہ مسلم مشن کا احیاء نو ہوا اور مکرم میجر (ر) عبدالحمید صاحب بطور مبلغ امریکہ سے تشریف لائے۔ آپ نے ان کے مشنری ویزہ کے حصول کے لیے غیرمعمولی تعاون فرمایا۔۱۹۷۵ء میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کا جاپان تقرر ہوا تو آپ نے ویزہ کے حصول اور خدمت دین کے دیگر مواقع میں بھر پور حصہ لیا۔
مکرم عطاء المجیب راشد صاحب سابق امیر ومبلغ انچارج جاپان کے دور سے ہی جاپان میں مجلس شوریٰ، جلسہ سالانہ اور ذیلی تنظیموں کا نظام قائم ہے۔ مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب ۱۹۸۲ء میں منعقد ہونے والی جماعت احمدیہ جاپان کی پہلی مجلس شوریٰ کے ممبر تھے، اسی طرح آپ کو جماعت احمدیہ جاپان کے پہلے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق ملی اور آپ پہلی مجلس عاملہ کے بھی ممبر تھے۔ ۱۹۸۲ء میں ہی آپ کو مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر جماعت احمدیہ جاپان کی نمائندگی کی توفیق نصیب ہوئی۔
سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر آپ ۱۹۸۵ء میں جاپانی ترجمة القرآن کی خدمت پر مامور ہوئے اور مکرم مغفور احمد منیب صاحب سابق امیر ومبلغ انچارج جاپان کی معاونت سے نہایت اخلاص اور دلجمعی کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دی۔ جماعت کی طرف سے جشن تشکر سے قبل جاپانی ترجمة القرآن مکمل کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا مگر آپ نے یہ خدمت ایک سال قبل ۱۹۸۸ء تک ہی مکمل کر دی۔ آپ نے نہایت محبت و عقیدت اور بے لوث جذبے سے یہ خدمت انجام دی اور شبانہ روز ایک کرکے جاپانی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام مکمل کیا۔
آپ کو چار خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذاتی ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ آپ خلفاء سے ملاقات کے بابرکت لمحے ہمیشہ یاد رکھتے اور خصوصاً حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی علالت کے دوران ان کی زیارت اور ملاقات کی تفاصیل بیان کیا کرتے تھے۔ آپ نے جملہ مراکز احمدیت یعنی قادیان، ربوہ اور پھر لندن کے سفر اختیار کیے۔ ان سفروں کی بدولت آپ کو خلفائے احمدیت سے ملاقات کی سعادت کے علاوہ، بزرگان سلسلہ کی صحبت اور نظام جماعت کو بغور دیکھنے کا موقع ملا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ ۱۹۸۹ء میں جاپان تشریف لائے تو آپ کو سفر کے دوران غیر معمولی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔
اس عاجز نے ۲۰۰۹ء میں آپ کی خدمت میں قرآن کریم کے جاپانی ترجمہ کی نظرثانی کی درخواست کی۔ مکرم محمداویس کوبایاشی صاحب نے نہ صرف یہ درخواست قبول فرمائی بلکہ اپنے خرچ پر کئی ماہ کے لیے ربوہ تشریف لے گئے اور مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کی راہنمائی میں جاپانی ڈیسک کے ممبران کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی نظر ثانی کی توفیق پاتے رہے۔ لیکن کئی ماہ کی محنت کے بعد بھی جب یہ کام مکمل نہ ہوسکا تو جاپان واپس آکر قرآن کریم کے جاپانی ترجمہ کی نظر ثانی کے کام میں مشغول رہے۔ اس دوران مکرم ضیاء اللہ مبشر صاحب اور دیگر احباب و خواتین کو اس کام میں معاونت کی سعادت نصیب ہوئی۔
مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب جب تک صحت مند تھے باقاعدہ نماز جمعہ پر تشریف لاتے رہے۔ Covid-19کے وبائی ایام سے پہلے تک باقاعدہ جلسہ سالانہ جاپان میں شریک ہوتے۔ اجتماعات میں شامل ہوتے اور احباب جماعت سے نہایت بے تکلف گفتگو فرماتے۔ آپ کو پہاڑوں سے خاص شغف تھا۔ خدام الاحمدیہ جاپان کے ایک وفد کے ہمراہ آپ کو جاپان کے سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ فوجی سر کرنے کا موقع ملا۔ تادم وفات آپ جماعت احمدیہ جاپان کی نیشنل عاملہ کے اعزازی ممبر تھے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً ۹۴ برس تھی۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کے اس قدیمی خادم کو غریق رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا بخشے۔ آمین
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: جاپان کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشاداتِ عالیہ