آؤ میرے چاند کی تُم بھی پذیرائی کرو
رنگ بادل تو دھنک بکھرا کے رخصت ہو گیا
تم یہی کہتے رہو ساون ابھی آیا نہیں
اس شکستہ ناؤ کے بندے بچانے کے لیے
ہم تو گھبرائے ہیں لیکن وہ تو گھبرایا نہیں
وہ جو رویا ساتھ اُس کے آسماں بھی رو پڑا
وہ ہنسا تو کیا زمیں پر پُھول رُت لایا نہیں
ہر کسی مُنڈیر پر اُس نے تو دیپک رکھ دیا
تم نے آنکھیں مُوندھ لیں تم کو نظر آیا نہیں
کیا خدا نے اُس کی خاطر اک معیّن وقت پر
آسماں پر چاند اور سورج کو گہنایا نہیں
اُس کی رخشندہ صداقت کے نشاں کے طور پر
معجزوں پر معجزہ کیا اُس نے دکھلایا نہیں
اُس نے صحرا کو چمن زاروں کا جوبن دے دیا
تم نے جس کے سامنے دامن ہی پھیلایا نہیں
تم نے خود چہروں پہ غفلت کی ردائیں اوڑھ لیں
ورنہ سورج پر تو بادل کا کوئی سایا نہیں
آؤ میرے چاند کی تم بھی پذیرائی کرو
تم نے اُڑتے جُگنوؤں سے نور تو پایا نہیں
ہر مسافت کے لیے عابدؔ وہ منزل کا سراغ
اور ہر ظلمت کدے میں ہے وہی روشن چراغ