ابو یحیٰ صاحب کے مضمون ’’احمدی حضرات اور مسلمان‘‘ پر تبصرہ
ابو يحيٰ صاحب کا مضمون ’’احمدي حضرات اور مسلمان‘‘ کے نام سے IBCپر شائع ہوا۔
اس مضمون ميں انہوں نے 1974ءميں پاکستان کے آئين ميں دوسري آئيني ترميم کا مذہبي جواز ثابت کرنے کي کوشش کي ہے۔ اس ترميم کے ذريعہ پاکستان کے آئين ميں احمديوں کو آئين اور قانون کي اغراض کے ليے غير مسلم قرار ديا گيا تھا۔اس مضمون کا آغاز انہوں نے عجيب انداز ميں کيا ہے۔شروع ميں وہ روز ِآخرت کي کچھ منظر کشي کرتے ہيں۔ اور يہ بيان کرتے ہيں کہ جب غير احمدي مسلمان جنت ميں جارہے ہوں گے تو احمدي حيران ہو کر ديکھ رہے ہوں گے کہ ان کے نبي کے انکار کے باوجود يہ لوگ جنت ميں کيوں جا رہے ہيں؟ انہوں نے يہ واضح نہيں کيا کہ روز ِقيامت کے بارے ميں انہيں يہ معين معلومات کس طرح حاصل ہوئيں ؟وہ يہ نتيجہ پيش کرتے ہيں کہ 1974ء ميں کيا جانے والا فيصلہ بھي درست تھا۔اور اس کے ساتھ يہ اظہار بھي کرتے ہيں کہ کسي کو کافر قرار دينے کا حق صرف اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ اس مضمون ميں آخر تک يہي کشمکش نظر آتي ہے۔شايد اس مضمون پر کسي تبصرے کي ضرورت نہ ہوتي اگر اس مضمون ميں ايسي باتيں نہ درج ہوتيں جو کہ ايسي ہيں جن کے ذريعہ کفر کے فتاويٰ کا سلسلہ صرف احمديوں تک محدود نہيں رہتا بلکہ مزيد فتنوں کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ اور اسلام کي طرف ايسي بھيانک باتيں منسوب کي گئي ہيں جو کہ اسلام کے شديد دشمنوں کو مزيد اعتراضات کا موقع دينے کا سبب بنيں گي۔ اس ليے ضروري ہے کہ اس مضمون ميں درج کچھ باتوں کے بارے کچھ حقائق پيش کيے جائيں۔
کسي فرد يا گروہ کو کس معيار پر کافر قرار ديا جائے
مضمون کے شروع ميں مضمون نگار تحرير کرتے ہيں:
“جہاں قانون و رياست کي سطح پر کسي فرد يا گروہ کو مسلمان يا غير مسلم قرار ديے جانے کا معاملہ زير ِبحث ہے، قرآن مجيد نے وہ متعين شرائط بيان کي ہيں جن کو پورا کرنے والے کسي شخص ہي کو مسلمان سمجھا جائے گا۔وہ شرائط اگر پوري نہيں کي جائيں تو پھر رياست اس بات کي پابند نہيں ہے کہ کسي ايسے شخص کے دعوئٰ اسلام کو لازماََ قبول کرے۔چونکہ بالعموم اس مسئلے پر مسلمانوں ميں ابہام پايا جاتا ہے، اس ليے قرآن کا موقف سامنے لانے کي ضرورت نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کيا۔”
يہاں اس بات کا ذکر ضروري ہے کہ جب 1974ء ميں يہ مسئلہ قومي اسمبلي کي سپيشل کميٹي ميں پيش ہورہا تھا جو جماعت ِ احمديہ کا موقف ايک محضرنامہ کي صورت ميں پيش کيا گيا تھا۔ اس محضرنامہ کے پہلے باب ميں يہ موقف بيان کيا گيا تھا کہ پاکستان کي قومي اسمبلي يا دنيا کي کسي بھي سياسي اسمبلي کو اس بات کا اختيار نہيں ہے کہ وہ يہ فيصلہ کرے کہ کسي گروہ يا فرد کا کيا مذہب ہے؟ اور اس کے بعد اس مسئلہ پر کہ کسے مسلمان کہا جاتا ہے ، جماعت ِ احمديہ کا يہ موقف بيان کيا گيا تھا کہ
“جماعتِ احمديہ کے نزديک صرف وہي تعريف قابلِ قبول اور قابل ِعمل ہو سکتي ہے جو قرآن کريم سے قطعي طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم سے قطعي طور پر مروي ہو اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم اور خلفائے راشدين کے زمانے ميں اس پر عمل ثابت ہو۔” (محضرنامہ صفحہ16)
1974ءميں قومي اسمبلي کي سپيشل کميٹي کي کارروائي کے دوران جماعت احمديہ کے مخالف مولوي عبد الحکيم صاحب نے ان الفاظ ميں جماعت احمديہ کے موقف پر اعتراض اور طنز کيا تھا:
“اس عنوان کے تحت صفحہ 15پر مرزائي محضرنامہ کے بيان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسي ايسي تعريف کو جائز نہيں سمجھتے جو کتاب اللہ اور خود سرورِ کائنات صلي اللہ عليہ وسلم کي فرمائي ہوئي تعريف کے بعد کسي زمانہ ميں کي جائے۔”(کارروائي 1974ءصفحہ2364)
ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ اُس وقت جماعت احمديہ کي تجويز يہ تھي کہ فيصلہ قرآن و سنت کے مطابق کيا جائے اور مخالفين اس کي مخالفت کر رہے تھے۔اس کے بعد ان کي تقرير کے مندرجات پڑھ ليں مولوي عبد الحکيم صاحب يہ ثابت کرنے کے ليے ہاتھ پائوں مارتے رہے کہ اس بارے ميں پيش کردہ آيات اور احاديث ميں باہمي اختلاف موجود ہے۔ اور انہوں نے اس کي پروا بھي نہيں کي اس سے تو قرآن مجيد اور احاديث پر الزام آئے گا۔بہر حال دير آيد درست آيد۔ اگر اب ہمارے بھائيوں کو خيال آ گيا ہے کہ فيصلہ قرآن و سنت کے مطابق ہونا چاہيے تو بسرو چشم ۔
اس مضمون کے شروع ميں وہ واضح کرتے ہيں کہ کس فرد کو رياست مسلمان قرار دے سکتي ہے اور کس کو غير مسلم قرار دے سکتي ہے ، اس کا معيار قرآن کريم ميں بيان کيا گيا ہے۔اور وہ معيار سورت توبہ کي آيت 11ميں بيان کيا گيا ہے۔ انہي کے بيان کردہ معيار کو سمجھنے کے ليے سب سے پہلے اس آيت کريمہ کا متن درج کيا جاتا ہے۔
فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوةَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِي الدِّيۡنِؕوَ نُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ(التوبة:11)
ترجمہ: اب بھي اگر يہ توبہ کرليں اور نماز کے پابند ہو جائيں اور زکوٰة ديتے رہيں تو تمہارے ديني بھائي ہيں ہم تو جاننے والوں کے ليے اپني آيتيں کھول کھول کر بيان فرما رہے ہيں۔
(يہ ترجمہ مولوي محمد جونا گڑھي صاحب کے ترجمہ تفسير ابن کثير سے ليا گيا ہے تا کہ يہ ابہام نہ رہے کہ احمديوں نے اپنا ترجمہ پيش کر کے نتيجہ نکالنے کي کوشش کي ہے۔)
اس آيت کريمہ کے بارے ميں ابو يحيٰ صاحب تحرير فرماتے ہيں:
“اللہ تعاليٰ نے يہ واضح کيا ہے کہ جب کوئي فرد ايمانيات کے باب ميں اللہ تعاليٰ کے بيان کردہ معيارات کي خلاف ورزي سے باز آ جائے اور اعمال ميں نماز اور زکوٰة کے فرائض کو ادا کردے تو وہ ديني طور پر باقي مسلمانوں کا بھائي تصور کيا جائے گا اور قانون و رياست کي سطح پر اُسے سارے حقوق ديے جائيں گے جو باقي مسلمانوں کے ہيں۔ اس ميں ظاہر ہے کہ مسلمان ہونے کي شناخت کا حق اوّلين طور پر شامل ہے۔”
ابو يحيٰ صاحب نے صرف اس آيت کريمہ کا ذکر کيا ہے اور يہ نہيں بيان کيا کہ اس آيت سے پہلے يعني سورت توبہ کے آغاز سے اس آيت تک ان مشرکين کا ذکر ہے جو جزيرہ عرب ميں موجود تھے اور ابھي مسلمانوں کي حکومت سے ان کا کوئي معاہدہ نہيں ہوا تھا۔ اور يہ اعلان کيا تھا کہ اب انہيں چار ماہ کي مہلت ہے۔ اور پہلے حضرت ابو بکر رضي اللہ عنہ اور پھر حضرت علي رضي اللہ عنہ نے جا کر يہ اعلان کيا تھا کہ اس کے بعد وہ بيت اللہ کا حج نہيں کر سکيں گے۔ ظاہر ہے اس آيت ميں مسئلہ ختم نبوت کا کوئي ذکر نہيں ۔ اس آيت سے دو آيت قبل يہ مضمون بيان کيا جا رہا ہے کہ يہ وہ مشرک ہيں جو جب تم پر غلبہ پاتے ہيں تو نہ کسي قرابت داري کا لحاظ کرتے ہيں اور نہ کسي معاہدے کا پاس کرتے ہيں۔ اور اس کے بعد آيتِ مذکورہ ميں بيان کيا گيا ہے اگر يہ مشرکين اب بھي توبہ کرليں اور نماز قائم کريں اور زکوٰة ادا کريں تو وہ تمہارے ديني بھائي ہيں۔
ابو يحيٰ صاحب کے فارمولے کو تسليم کرنے کا نتيجہ
اس کے باوجود اگر ابو يحيٰ صاحب کا بيان کردہ معيار تسليم کر ليا جائے کہ جو اس آيت ِکريمہ کے معيار پر پورا نہيں اترے گا حکومت کو اسے قانوني طور پرغير مسلم قرار دينا چاہيے ، تو پھر ہميں يہ بھي تسليم کرنا پڑے گا کہ جو نماز نہيں پڑھے گا يا زکوٰة نہيں دے گا اسے بھي آئين ميں غير مسلم قرار دينا چاہيے۔خاکسار کا تو اندازہ ہے اگر يہ قانوني معيار بنا ليا جائے تو پھر پاکستان ميں کسي غير مسلم اقليت کا سوال نہيں بلکہ جنہيں سرکار مسلمان ہونے کا سرٹيفيکيٹ عطا کرے گي وہ اقليت ميں ہوں گے۔ خاکسار يہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ابو يحيٰ صاحب کيا راستہ کھولنے کي کوشش کر رہے ہيں۔
حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے دعوے پر ايک عجيب اعتراض
اس کے بعد ابو يحيٰ صاحب حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے دعوے پر ايک اعتراض ان الفاظ ميں پيش کرتے ہيں:
“مرزا صاحب کے اپنے اس بيان سے يہ حقيقت بھي واضح ہوجائے گي وہ قرآن و حديث کي کسي توجيح و تاويل کے عمل سے گزر کر ان نتائج ِفکر تک نہيں پہنچے ۔بلکہ يہ اپنے زعم کے مطابق اُن پر بارش کي طرح اترنے والي وحي تھي، جس نے انھيں يقين دلايا کہ وہ اس امت کے ايک مسيح ہيں ، جو کہ ايک نبي بھي ہے۔”
جہاں تک پہلے الزام کا تعلق ہے تو اس بارے ميں يہ لکھنا ضروري ہے کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اپنے دعاوي کے حق ميں سب سے بڑي دليل قرآن کريم اور احاديث نبويہ صلي اللہ عليہ و سلم سے ہي پيش کي تھي۔ جيسا کہ آپ تحرير فرماتے ہيں:
“خلاصہ يہ کہ ميں حق پر ہوں اور نصوص قرآنيہ اور حديثيہ کے موافق ميرا دعويٰ ہے۔”
(براہين ِ احمديہ جلد پنجم ،روحاني خزائن جلد 21صفحہ304)
اور حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ہميشہ اپنے مخالفين کو بھي قرآن کريم اور احاديث ِنبويہ کي رو سے فيصلہ کے ليے بلايا جيسا کہ آپ فرماتے ہيں:
“صرف ايک مسئلہ وفات مسيح کا اختلاف تھا جس کو ميں قرآن کريم اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي سنّت صحابہ کے اجماع اور عقلي دلائل اور کتب ِسابقہ سے ثابت کرتا تھا۔”
(ملفوظات جلد 4صفحہ536)
اس جيسے سينکڑوںحوالےپيش کيےجاسکتے ہيں۔ان ارشادات کي موجودگي ميں يہ دعويٰ کہ نعوذُ باللہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اپنے دعاوي کي بنياد قرآن اور احاديث سے نہيں بيان فرمائي ايک ظلم ہے۔
اب اس اعتراض کا تجزيہ کرتے ہيں کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اللہ تعاليٰ سے وحي کے نتيجے ميں کيوں دعويٰ کيا؟ يہ بھي ايک عجيب الخلقت اعتراض ہے۔ اللہ تعاليٰ کي طرف سے مقرر ہونے والے تمام مامورين اللہ تعاليٰ سے خبر پاکر ہي اپنا دعويٰ پيش کرتے ہيں ۔ خاکسار کي درخواست ہے کہ کسي ايک مامور من اللہ کا نام بتا ديں جس نے محض غور و فکر کر کے کہا ہو کہ ميں غور و فکر کر کے اس نتيجہ پر پہنچا ہوں کہ مجھے خدا نے بھيجا ہے، اگرچہ ميرا يہ دعويٰ کسي الہام يا وحي کے نتيجہ ميں نہيں ہے۔ سب سے بڑھ کر آنحضرت صلي اللہ عليہ و سلم نے خود خبر دي تھي کہ آپ کي امت ميں آنے والے کو اللہ تعاليٰ کي طرف سے وحي ہو گي اور صحيح مسلم کي اس حديث کے راوي حضرت نواس بن سمعان رضي اللہ عنہ ہيں۔(صحيح مسلم ۔باب ذکر الدّجّال و صفتہ وما معہ ۔ کتاب الفتن و اشراط الساعة )تو اس صورتِ حال ميں جب کہ آنے والے وجود کو اللہ تعاليٰ کي طرف سے وحي ہو گي تو کيا اُس کا دعويٰ ہي اللہ تعاليٰ کي طرف سے بغير وحي کے ہو گا۔
حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے کس قسم کي نبوت کا دعويٰ فرمايا تھا؟
اس مضمون ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے دعوے کے بارے ميں ابو يحيٰ صاحب تحرير کرتے ہيں:
“مرزا صاحب اللہ تعاليٰ کي طرف سے وحي و نبوت کے کسي عمومي تسلسل کي بات نہيں کر رہے ، بلکہ اپني نبوت کا مستقل بالذات دعويٰ کر رہے ہيں۔”
گو کہ اس مضمون ميں واضح نہيں ہوتا کہ مصنف کيا اعتراض کرنے کي کوشش کر رہے ہيں ۔ ليکن اس ضمن ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي تحرير سے حوالہ پيش کرناضروري ہے۔حضرت مسيح موعود عليہ السلام تحرير فرماتے ہيں:
“کوئي شخص اس جگہ نبي ہونےکے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے ۔ ميں بار بار لکھ چکا ہوں کہ يہ وہ نبوت نہيں جو ايک مستقل نبوّت کہلاتي ہے کوئي مستقل نبي امتي نہيں کہلا سکتا ۔مگر ميں امتي ہوں ۔پس يہ صرف خدا تعاليٰ کي طرف سے اعزازي نام ہے جو آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي اتباع سے حاصل ہوا تا حضرت عيسيٰ سے تکميل مشابہت ہو۔”
(براہين احمديہ حصہ پنجم ،روحاني خزائن جلد 21صفحہ360)
پھر آپؑ ارشاد فرماتے ہيں:
“ اس ليے نبوت مستقلہ کا دروازہ بند ہو گيا اور کوئي ايسا نبي جو بجز آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلّم کي اتباع اور ورزش شريعت اور فنا في الرسول ہونے کے مستقل نبي صاحب ِ شريعت نہيں ہو سکتا ۔”(ملفوظات جلد 4صفحہ430)
ابو يحيٰ صاحب کا الزام بھي درج کر ديا گيا ہے اور حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے ارشادات بھي درج کر ديے گئے ہيں۔ پڑھنے والے ان الزامات کے متعلق اپني آزادانہ رائے خود قائم کر سکتے ہيں۔
ڈاکٹر عبد الحکيم کے ارتداد کي وجہ
اس کے بعد ابو يحيٰ صاحب يہ دليل ديتے ہيں کہ مرزا صاحب عبد الحکيم کو مرتد قرار ديتے ہيں کيونکہ وہ اُن پر ايمان نہيں لاتا تھا۔ہم يہ سمجھنے سے قاصر ہيں کہ اس موقع پر ان صاحب نے ڈاکٹر عبد الحکيم کي مثال کيوں دي ہے؟
حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اسے جماعت سے اس ليے عليحدہ کر ديا تھا کيونکہ اس نے اس خيال کا علي الاعلان اظہار کيا تھا کہ نجات کے ليے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم پر ايمان لانا ضروري نہيں ہے۔ خواہ کوئي اس سے خوش ہو يا ناراض ہو، جماعت ِ احمديہ کا يہ بنيادي عقيدہ ہے کہ اب کوئي ادنيٰ سا روحاني فيض بھي آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي اتباع کے بغير حاصل نہيں ہو سکتا خواہ کسي شخص کے اعمال پہاڑوں کے بھي برابر ہوں۔ جو شخص اس کے برخلاف عقيدہ رکھتا ہے وہ خود ہي جماعت ِاحمديہ سے عليحدہ ہو جاتا ہے۔ عبد الحکيم کے متعلق حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں:
“وہ ہم سے ہي کيا پھرا ہے وہ تو خود اسلام سے اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم سے ہي پھر گيا ہے ۔افسوس تو ان مولويوں اور مسلمانوں پر ہےجو اسلام کا دعويٰ کر کے ايک ايسے آدمي کي حمايت کرتے ہيں اور اس کا ساتھ ديتے ہيں جو خود آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي رسالت کو بھي ضروري نہيں جانتا اور اس کے نزديک گويا آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔”(ملفوظات جلد 5صفحہ46)
کيا آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد وحي کا دروازہ بند ہے؟
اس کے بعد ابو يحيٰ صاحب سورت بقرہ کي ايک آيت کا متن درج کيے بغير اس سے اپنا نتيجہ ان الفاظ ميں پيش کرتے ہيں:
“اس باب ميں سب سے واضح بيان قرآن مجيد کے آغاز ہي ميں سورت بقرہ کي آيت 4ميں ديکھ ليا جا سکتا ہے، جو اس حقيقت کو بيان کرتا ہے کہ آپ کے بعد وحي و نبوت کا کوئي تصور موجود نہيں ہے۔”
اس آيت کا متن يہ ہے:
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
ترجمہ:اور وہ لوگ جو اس پر ايمان لاتے ہيں جو تيري طرف اتارا گيا اور اس پر بھي جو تجھ سے پہلے اتارا گيا اور وہ آخرت پر يقين رکھتے ہيں۔
اس نتيجہ کو پرکھنے کے دو معيار ہي ہو سکتے ہيں۔ايک تو يہ کہ قرآن مجيد اس بارے کيا رہ نمائي کرتا ہے اور اس بارے ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا کيا ارشاد ہے۔سورت اعراف ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
يَابَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقٰى وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ
(الأعراف:36)
ترجمہ:اے ابنائے آدم !اگر تمہارے پاس تم ميں سے رسول آئيں جو تم پر ميري آيات پڑھتے ہوں تو جو بھي تقويٰ اختيار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئي خوف نہيں ہوگا اور وہ غمگين نہيں ہوں گے۔
يہ بالکل واضح آيت ہے۔ اس ميں مخاطب آنحضرت صلي اللہ وسلم اور آپ کے بعد آنے والي نسليں ہي ہو سکتي ہيں۔ اگر ايسا ہي تھا کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد کوئي نبي نہيں آ سکتا تو پھر يہ ارشاد نہيں نازل ہو سکتا تھا کہ اے بني آدم اگر تمہارے پاس رسول آئيں بلکہ يہ ارشاد ہونا چاہيے تھا کہ اب ہر گز کوئي رسول نہيں آ سکتا۔
جماعت ِاحمديہ کي طرف سے 1974ءميں پيش کيے جانے والے محضرنامے ميں اس آيت کريمہ کو پيش کيا گيا تھا ليکن نہ اُس کارروائي ميں اس دليل کا کوئي جواب ديا گيا اور نہ اب تک اس دليل کا کوئي جواب ديا گيا ہے۔اب ہم اس ضمن ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد پيش کرتے ہيں۔ اوپر صحيح مسلم کي جس حديث کا حوالہ ديا گيا ہے، اُس ايک حديث ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے آنے والے مسيح کو چار مرتبہ نبي اللہ کا نام ديا ہے اور يہ بھي فرمايا ہے کہ آنے والے مسيح پر اللہ تعاليٰ کي طرف سے وحي نازل ہو گي۔اب ايک طرف رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے اور دوسري طرف ابو يحيٰ صاحب کا دعويٰ۔پڑھنے والے خود ہي فيصلہ کر سکتے ہيں۔
ابو يحيٰ صاحب اپني ترديد خود ہي کر ديتے ہيں
جب ابو يحيٰ صاحب کا مضمون آگے بڑھتا ہے تو وہ خود ہي 1974ء ميں قومي اسمبلي کے فيصلے اور اپنے مضمون کے مندرجات کو غلط قرار ديتے ہيں ۔ وہ تحرير کرتے ہيں:
“يہاں البتہ يہ واضح رہے کہ ہم جس وقت کفر کا لفظ بول رہے ہيں تو اس سے ہمارا مقصد کسي فرد يا گروہ پر کفر کا ايسا حکم لگانا قطعاََ نہيں ہے، جس کا حق صرف اللہ اور اُس کے رسولوں کو حاصل ہوتا ہے، جس ميں اللہ تعاليٰ اپنے رسولوں کے مخاطبين کے سامنے حق کو آخري درجے ميں واضح کرکے اُن کے اخروي انجام کا فيصلہ اسي دنيا ميں سنا ديتے ہيں۔محمد رسول اللہؐ کي آخري رسالت کے بعد يہ حق ظاہر ہے کہ نہ کسي عالم کو حاصل ہے، نہ علماء کے کسي گروہ کو اور نہ ہي کسي رياست کو يہ حق حاصل ہو سکتا ہے۔اس کي جسارت اب کوئي کرے گا تو اسے جان لينا چاہيے کہ اُس کا يہ عمل اللہ اور اُس کے رسول کي جگہ خود کو رکھنے کا عمل ہوگا، جس کا کسي کو حق نہيں۔”
اسلام پر ايک بھيانک اعتراض
ليکن جب مضمون نگار اپنے مضمون کے آخر پر پہنچتے ہيں تو وہ ايک ايسا بھيانک نتيجہ نکالتے ہيں جو کہ نہ صرف اسلام کي بنيادي تعليمات کے خلاف بلکہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ ميں ايک ايسا ہتھيار تھما رہا ہے جس سےوہ اسلام پر دل کھول کر حملے کر سکتے ہيں۔اگر اس مضمون کے باقي نکات کي طرف توجہ نہ بھي کي جاتي تو اس ايک پہلو کي ترديد کرنا ضروري ہے۔ وہ سورت توبہ کي مذکورہ آيت درج کر کے تحرير کرتے ہيں:
“يہ آيت کفار عرب پر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کو فيصلہ کن سزا سنانے کے ضمن ميں نازل ہوئي ، جس ميں کفار کےليے موت کا فيصلہ سنا ديا گيا ، سوائے اس کے کہ وہ اسلام قبول کر ليں۔”
وہ اسي پر بس نہيں کرتے بلکہ ايک بار پھر وہ مدعيان نبوت کا ذکر کر کے يہ ظالمانہ نتيجہ پيش کرتے ہيں:
“رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف سے اتمام حجت کے بعد آپ کے مخاطب بني اسماعيل پر لازم تھا کہ وہ دين اسلام کے ايمانيات کو بعينہ قبول کر ليں ورنہ کفر کي پاداش ميں ان سے جنگ کرکے قتل کر دينے کا حکم تھا۔مگر منکرين رسالت کو يہ سزا فرشتوں نے نہيں ، بلکہ صحابہ کرام نے ديني تھي۔”
يہ بالکل واضح ہے کہ ابو يحيٰ صاحب اسلام کے اشد ترين دشمنوں کے موقف کي تائيد کر رہے ہيں کہ اسلام اپنے نشانوں اور دلائل سے نہيں بلکہ جبر سے اور تلوار سے پھيلايا گيا تھا۔ جماعت احمديہ کي مخالفت کا عمل اسي طرح آگے بڑھتا ہے۔ جماعت احمديہ کے خلاف آواز اُٹھائي جاتي اور اُس کي آڑ ميں ايسے دروازے کھولے جاتے ہيں جن سے گزر کر دوسرے فرقوں کو بھي کافر قرار دينے ميں سہولت پيدا ہو جائے اور اپنے ايسے خيالات اسلام کي طرف منسوب کر کے بيان کيے جاتے ہيں جن کي تشہير کے نتيجہ ميں اسلام کے مخالفين کو اسلام پر دل کھول کر حملے کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اگر اسلام کي يہي تعليم تھي کہ جو اسلام کو نہ قبول کرے اسے قتل کردو تو پھر اس ارشاد ِقرآني کا مطلب ذرا سمجھا ديں:
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الغَيِّ…
(سورة بقرة :256)
ترجمہ:دين ميں کچھ زبردستي نہيں بے شک ہدايت گمراہي سے صاف صاف الگ ہو چکي ہے۔
کيا ابو يحيٰ صاحب کے نزديک کسي کو کوئي مذہب قبول نہ کرنے کي پاداش ميں قتل کردينا زبردستي اور جبر کے زمرے ميں نہيں آتا۔اور وہ سورت توبہ کي جس آيت کا حوالہ دے رہے ہيں اس سے کچھ پہلے کي آيت ملاحظہ کريں:
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَ اللّٰهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَ يَعْلَمُونَ (التوبہ:7)
ترجمہ: اور اگر کوئي مشرک تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دےيہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اس کو اس کے امن کي جگہ پہنچا دے ۔ يہ سلوک اس وجہ سے ہے کہ وہ نادان قوم ہے۔
اگر يہ حکم تھا کہ جو مشرک يا غير مسلم نظر آئے تو سوائے اس کے کہ وہ اسلام قبول کرے اسے فوري طور پر قتل کردو تو پھر مشرک کو پناہ دينے اور پھر اس کے امن کي جگہ پہنچا دينے کا کيا مطلب؟ظاہر ہے کہ قرآني احکامات ابو يحيٰ صاحب کے خيالات کي مکمل ترديد کر رہے ہيں۔ ان کا مضمون جماعت احمديہ کو غير مسلم قرار دينے کي کوشش ميں شروع کيا گيا تھا اور اسلام پر ايک بھيانک الزام لگا کر ختم ہوا۔
٭…٭…٭