عصر حاضر کا معاشرتی نظام
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
بدقسمتی سے آج کے معاشرہ میں لوگوں کے اخلاق سے مذہب کا اثر تیزی سے مٹتا جا رہا ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ لوگ کسی نہ کسی طرح مذہبی فرائض سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور مذہبی پابندیوں سے دامن چھڑانے کا یہ رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف مذہبی اور اخلاقی اقدار سے لاپرواہی برتی جا رہی ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں افراتفری اور عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کے باعث خوف و ہراس کی کیفیت بھی جنم لے رہی ہے۔ اس حیّ و قیّوم خدا پر ایمان تیزی سے اٹھتا چلا جا رہا ہے جو نہ صرف انسان کی تقدیر بنانے والا ہے بلکہ وہی یہ حق بھی رکھتا ہے کہ ہمارے لیے زندگی کے طور طریقے اور آداب وضع فرمائے۔ اس صورت حال کومختصر طور پر قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے۔
ظَھَرَ الفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (سورۃ الروم آیت 42)
ترجمہ۔ فساد خشکی پر بھی غالب آ گیا اور تری پر بھی ۔
انیسویں صدی کے آغاز تک مغرب میں عیسائیت کا غلبہ تھا اور عیسائیوں کے اخلاق اور کردار پر عیسائیت کی گرفت بڑی مضبوط اور مؤثر تھی مگر افسوس کہ اب یہ منظر تبدیل ہو چکا ہے۔ سائنٹفک سوشلزم اور تیز رفتار سائنسی اور مادی ترقی کے زیراثر ایک ایسی تہذیب ابھری ہے جس نے عیسائیت کو قدم بقدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور لوگوں کے معاشرتی اخلاق کی تشکیل میں عیسائیت کا کردار رفتہ رفتہ معدوم ہوتا چلا گیا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مغرب میں لوگوں کے اخلاق اور کردار پر عیسائیت کا محض اتنا ہی نقش باقی ہے جتنا کہ اکثر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوںپر اسلام کا۔ افسوس یہ ہے کہ باقی دنیا میں بھی سماجی اور اخلاقی انحطاط کا یہی عالم ہے۔ مختلف ممالک میں مہاتمابدھ، حضرت کنفیوشس اور حضرت کرشن کے ماننے والے تو بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بدھ ازم، کنفیوشس ازم اور ہندوازم کہیںنظر نہیں آتے۔ یعنی سمندر چاروں طرف موجود ہے لیکن پیاس بجھانے کو ایک قطرہ بھی میسر نہیں۔
اگر کسی معاشرہ سے مذہبی یا روایتی اخلاقی قدریں اٹھ جائیں تو پھر نئی نسل اپنے روایتی ورثہ کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا کرتی۔ اس کے لیے یہ قدریں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ایسی نسل کو لازماً ایک ایسے نازک عبوری دور اور بحران میں سے گزرنا پڑتا ہے جس میں سوائے مایوس کُن خلا کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ ہی کوئی اخلاقی تعلیم ان کے پاس ہوتی ہے۔ تب جستجو کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ لیکن منزل کانہ کچھ پتہ ہوتا ہے اور نہ انجام کی کچھ خبر۔
عین ممکن ہے کہ اس سفر میں انہیں کوئی بہتر ضابطہ اخلاق مل جائے مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جستجو انسان کو مکمل ابتری اور اخلاقی طوائف الملوکی کی طرف لے جائے۔ جو حالات مجھے دکھائی دے رہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے عصر حاضر کا معاشرہ یہی مؤخرالذکر راستہ اختیار کر چکا ہے۔ آج دنیا کے سبھی معاشرے خواہ وہ مشرقی ہوں یا مغربی مذہبی ہوں یا غیر مذہبی انقلابات کی زد میں ہیں اور ان کے بداثرات نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج کا انسان اس بڑھتی ہوئی اخلاقی عفونت کے متعلق اتنافکر مند نہیں جتنا مادی فضائوں کی آلودگی کے متعلق پریشان ہے۔ قرآن کریم ایک ایسے ہی پرآشوب دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۔وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْر۔
(سورۃ العصر آیات 2تا 4)
ترجمہ۔ زمانے کی قسم!یقینا ًانسان ایک بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور حق پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور صبر پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
استحصال، دھوکا دہی، منافقت، خودغرضی، ظلم، لالچ، لذت کی دیوانہ وار تلاش، بدنظمی، بدعنوانی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، حقوق انسانی کی خلاف ورزی، فریب کاری، دغابازی، احساس ذمہ داری کا فقدان اور باہمی احترام و اعتماد کی کمی آج کے جدید معاشروں کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ ظاہری تہذیب کی جھوٹی ملمع کاری زیادہ دیر تک اس بدنمائی کو چھپا نہیں سکتی جو اَب کھل کر سامنے آرہی ہے۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ اس قسم کی انسانی کمزوریاںپہلے زمانوں میں نہیں ہوتی تھیںبلکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی بہت سی تہذیبیں اپنی صف لپیٹے جانے سے پہلے ایسے ہی امراض کا شکار تھیں۔ تاریخ انسانی میں نسیًا منسیًا ہو جانے سے پہلے انہیں بھی ایسی ہی بیماریاں لاحق تھیں اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی خاص قوم یا خطہ ہی ایسا تھا جو اس قسم کی اخلاقی برائیوں کے باعث ہلاکت کے گڑھے تک جا پہنچا تھا بلکہ یہ وہ تاریخ ہے جو باربار دہرائی گئی ہے۔
آج بھی دنیا کے مختلف معاشرے انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں اور سب جگہ اس انحطاط کی وجوہات بھی خاصی ملتی جلتی ہیں۔ یک جماعتی آمرانہ نظام رکھنے والے ممالک کے برعکس نام نہاد آزاد دنیا میں فرد کی آزادی کا بڑھتا ہوا شعور بجائے خود ایک غیر متوازن رجحان کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ بے لگام آزادی کا یہی رجحان بڑی حد تک معاشرتی بے راہ روی کا ذمہ دار ہے۔
جن ممالک میں یک جماعتی آمرانہ نظام مسلط ہے وہاں شخصی آزادی کابڑھتا ہوا شعور جبرو استبداد کے پنجہ سے نجات حاصل کرنے کی سخت جدوجہد میں مصروف ہے۔ اگر ان ممالک کی مسلح افواج کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند آزادی کی اس لہر کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوئے تو امکان یہی ہے کہ آزادی کی یہ جنگ عنقریب کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گی۔ اس آزادی کے حصول کے بعد سابقہ کمیونسٹ ممالک کی آزاد اور بے لگام فضا میں نوجوان طبقے کے اخلاق پر کیا گزرے گی اس کے آثار تو کچھ اچھے نظر نہیں آرہے۔ اس بے دین اور ملحدانہ خلا میں پوری دو نسلیں پل کر جوان ہو چکی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ نہ تو کوئی اخلاقی نظام میسر ہے اور نہ ہی کوئی ایسے راہنما اصول جن کی روشنی میں وہ اپنے کردار کی صحیح تشکیل کر سکیں۔ ایک طرف تو ان معاشروں میں ان اخلاقی قدروں کا یکسر فقدان ہے جو کسی بھی روحانی نظام کی جان ہوا کرتی ہیں اور دوسری طرف لہوولعب اور عیاشی کے دلدادہ بے مقصد اور بے لگام مادر پدر آزاد مغربی رجحانات کا ایک سیلاب ہے جو سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جو آگے چل کر اس کی اخلاقی حالت پر تباہ کن اثرات پیدا کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ بے دین زندگی کے اس طویل تجربہ نے جہاں عصر حاضر کو بہت سی برائیوں میں مبتلا کر دیا ہے وہاں اس امر سے بھی انکار نہیںکیا جا سکتا کہ یہ تجربہ اپنے ہمراہ کچھ فوائد بھی لایا ہے۔ روس کے سوشلسٹ ممالک نہ صرف مذہب سے لاتعلق ہو گئے بلکہ انہیں بگڑے ہوئے کٹر مذہبی عقائد اور نظریات سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ عیسائیت ہو یا اسلام یا ان مذاہب سے تعلق رکھنے والاکوئی فرقہ سب کے مذہبی تصورات میں قرون وسطیٰ کی سی قدامت پسندی پائی جاتی تھی۔ مذہبی عقائد اور فطری حقائق میں جو باہمی تضاد پیدا ہو گیا تھا اس کا باعث یہی قدامت پسندی تھی۔ یہ تضادات اتنے گہرے تھے کہ مذہب اور فطرت دونوں کو بیک وقت درست تسلیم کرنا ناممکن ہو گیا۔ اس قسم کے مذہبی نظریات اور حقائق کے مابین اختلافات کی موجودگی میں ذہنی خلفشار سے بچ نکلنے کے لیے ایک خاص قسم کی ذہنی تربیت کی ضرورت ہے۔ تضادات کی دنیا میں رہنا اتنا آسان نہیں سوائے اس کے کہ نسل در نسل لوگ ان کی موجودگی میں پل بڑھ کر جوان ہوں یہاں تک کہ تضادات کا احساس ہی مٹ جائے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ مذہبی جماعتیں ان تضادات کی موجودگی میں زندہ تو رہتی ہیں لیکن انہیں یہ تضادات دکھائی نہیں دیتے۔ سوشلسٹ انقلاب نے ان ممالک کے رہنے والوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے ذہن سے کٹر نظریات دھل کر صاف ہو گئے ہیں اور کج نظری اور کج فہمی کی بیماریاں جاتی رہی ہیں۔ نتیجۃ ً ان میں ایک ا یسی معصومیت کی جھلک نظر آنے لگی ہے جو منافقت سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ کہنا تو ابھی بہت قبل از وقت ہوگا کہ آنے والی سخت جدوجہد کے مشکل وقت میں ایسی معصومیت انہیں کوئی اخلاقی فائدہ بھی دے گی یا نہیں؟ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ان لوگوں میں آج سچائی کے پیغام کو بلاتعصب قبول کرنے کے لئے دوسروں سے کہیں زیادہ صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔ افسوس کہ باقی دنیا میں شخصی آزادی کے نام نہاد علمبرداروں کے متعلق ہم یہی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ بے لگام آزادی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لوگ بھی قبول حق کے لئے تیار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ فرد کی آزادی کے نام پر عملاً ایک شخص جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس نام نہاد آزادی کے رجحان کا لیڈر امریکہ ہے جوبڑے وسیع پیمانے پر نہ صرف پہلی دنیا کے یوروپین ممالک بلکہ دوسری اور تیسری دنیا کے لوگوں پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے اور اب تو شخصی آزادی کے اس بگڑے ہوئے نظریے کی صدائے بازگشت سائنٹفک سوشلزم کی نظریاتی سرحد کے پار بھی بہت دور تک سنائی دے رہی ہے۔ یہ وہ نظریہ آزادی ہے جو فرد کو اخلاقیات کی حدود سے آزاد کرتا چلا جارہا ہے۔ ہم جنس پرستوں، عصمت فروشوں، بدمعاشوں، نشہ کرنے والوں، بگڑے ہوئے نوجوانوں غرضیکہ ہر قسم کے جرائم پیشہ افراد کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور یہ لوگ روز بروز طاقت پکڑتے جا رہے ہیں۔ ان بگڑے ہوئے نوجوانوں کی شوخی کا یہ عالم ہے کہ اگر انہیں سرزنش اور نصیحت کی جائے اور ٹوکا جائے کہ ایسی حرکتیں نہ کرو تو وہ جواباً پوچھتے ہیں کہ آخر ہم کیوں ایسا نہ کریں۔ ایسے نوجوانوں کا یہ رویہ آج معاشرہ کے لیے ایک خطرناک چیلنج بنا ہوا ہے۔
(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ 65تا 70)
٭…٭…٭