رسول اکرم ﷺ کی آمد کے متعلق گوتم بدھ اور بدھ صحائف کی پیشگوئیاں
میتیا کے الفاظ سے روشن استاد، پُر حکمت، اقبال مند اور پُر نور وجود کی بشارت
قرآن کریم کا عظیم الشان دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں ہادی اور نبی مبعوث فرمائے۔مگر رسول کریم ﷺ کے سوا تمام انبیاء مختص القوم اور مختص الزمان تھے۔ اسی طرح قرآن کریم یہ بھی اعلان کرتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو اُس عالمگیر اور خداکے سب سے پیارے نبی کی آمد کی خبر دی جس نے کامل شریعت کے ساتھ نازل ہونا تھا اور آسمانی بادشاہت کو زمین پر حقیقی رنگ میں قائم کرنا تھا۔اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو اس نبی آخر الزمان پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کی تلقین فرمائی جیسا کہ آیت میثاق النبیین میں فرمایا:
وَإِذْ أَخَذَاللّٰهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَاآتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنصُرُنَّهٗ…
یعنی اور جب اللہ نے نبیوں کا میثاق لیا کہ جبکہ میں تمہیں کتاب اور حکمت دے چکا ہوں پھر اگر کوئی ایسا رسول تمہارے پاس آئے جو اس بات کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لے آؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے…۔(آل عمران:82)
پس لازم تھا کہ ہر نبی اپنی قوم کو اُس نبی کے متعلق کچھ علامتوں کے ساتھ خبر دیتاتاکہ اس کی قوم اُس موعود کو پہچان لیتی اور اس کی مدد گار ہوتی۔دنیا کے بڑے مذاہب عیسائیت، یہودیت،ہندو مت وغیرہ میں وضاحت سے ایسی پیش گوئیاں ملتی ہیں جن سے روشنی پا کر سعید روحوں نے سید المرسلین ﷺکو شناخت کر لیا۔
بدھ مت بھی دنیا کا ایک بڑا مذہب ہے۔ کروڑوں انسان اس کے پیرو ہیں۔ بدھ از م کا لٹریچر عام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے ۔ اس لیے اس کی پیش گوئیاں کم منظرِ عام پر آتی ہیں۔
اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق گوتم بدھؑ کی پیشگوئیاں بیان کی جائیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت بدھ ؑکا زمانہ آج سے تقریباً2500؍سال قبل کا ہے۔ اس لحاظ سےدیگر مذاہب کی مقدس کتب کی طرح بدھ مت کی کتب بھی انسانی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکیں۔دوسرا یہ کہ یہ لٹریچر ابتدائی طور پر پالی اورسنسکرت زبان میں لکھاگیا۔ اصل ماخذ سے ترجمہ در ترجمہ ہوتے ہوتے،کئی مراحل عبور کرتےہوئےہزاروں سال کے سفر کے بعد یہ کتب ہمارے تک پہنچی ہیں۔اس لیے ان کے الفاظ میں یقیناً انسانی ہاتھ بھی کارفرما رہا ہے۔تاہم ان میں پھر بھی وہ ہیرے موجود ہیں جو رسول اللہﷺ کے وجود باجود پر منطبق ہوتے ہیں۔
ان تمام پیش گوئیوں پر یکجائی نظر ڈالنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت بدھ ؑنے اپنے بعد کم از کم دو عظیم الشان وجودوں کی خبر دی۔ جن کے لیے ایک ہی لفظ ‘‘میتیا ’’یا ‘‘میتریا بدھا’’استعمال کیا گیاہے۔ جس سے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ہی وجود کے بارے میں پیش گوئیاں ہیں ۔لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ پیش گوئی کی اصل حقیقت اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ پوری ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تصنیف لطیف ‘‘مسیح ہندوستان میں ’’میں کچھ پیشگوئیاں حضرت مسیح علیہ السلام پر چسپاں کی ہیں ۔آپؑ نے فرمایا ہے کہ گوتم بدھ ؑنےاپنے بعد ایک میتیا کی آمد کی خبر دی۔ چنانچہ کتاب Tibet, Tartary and Mongolia میں لکھا ہے:گوتم بدھ نے اپنے آپ کو پچیسواں بدھ قرار دیا ہے اور کہا کہ بگوا متّیا ابھی آنے والا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے بگوامتّیاسےیہ استنباط فرمایا ہے کہ میتیابدھا کا رنگ بگّا یعنی سفید ہو گا۔نیز آپؑ نے فرمایا کہ گوتم بدھ ؑنے بدھ ازم کی عمر پانچ سو سال بیان کی ہے۔حضرت مسیح ناصری ؑگوتم بدھ ؑسے پانچ سو سال بعد کشمیر میں تشریف لائے نیز آپ کی رنگت بھی سفید تھی۔ چنانچہ حضرت مسیح ناصریؑ کوکشمیر میں بطورمیتریا قبول کر لیا گیا ۔پس ایک قسم کی پیش گوئیوں کا تعلق حضرت مسیح ناصری ؑکی کشمیر آمد سے ہے ۔
کتاب تمدنِ ہند کے مطابق فرانسیسی مؤرخ ڈاکٹر لی بان نےبھی ان پیشگوئیوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ایک نہیںبلکہ دو بشارتیں ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر لی بان کہتے ہیں کہ بدھ مت میں بدھ کے بعد دو بدھوں کے آنے کی بشارت موجود ہے۔ لکھتے ہیں کہ
‘‘ان جدید فرقوں کے لیے شاکیا منی ہی ایک بدھ نہ تھا جو ہدایت اور راستی کو دنیا میں لایا۔ اس کے بعد ایک اور بدھ بھی آئےگا۔ اس کے بعد ایک اور جو نئی روشنی اور نئی قوتوں کو لائے گا۔ اور نجات کے لیے اس سے بھی آسان راستہ بنائے گا۔’’
اُس دوسرے بدھ کے لیے گوتم بدھؑ نے جو عظیم الشان علامات بیان فرمائی ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ صرف حضرت رسول کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک ہے کیونکہ یہ تمام علامات قرآن اور احادیث میں رسول اللہﷺ کے حوالےسے بیان ہو چکی ہیں۔آئیں اب ہم ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
بدھ مت کی روایات کے مطابق گوتم بدھ ؑنےاپنے بعد ایک روشن استاد کی آمد کا ذکر کیا ہے۔جسے ‘میتیا ’یا ‘متیریا بدھا’ کی آمد کی پیشگوئی سے موسوم کیاجاتاہے۔
حضرت گوتم بدھ ؑنے یہ پیشگوئی فرمائی کہ ان کی وفات کے ایک عرصے بعد جب بدھ مت زوال پذیر ہو جائے گا تو دنیا کی اصلاح کے لیے ایک اَور وجود ظاہر ہو گا جو عظیم الشان صفات کا حامل ہو گا۔ اس آنے والے وجود کا نام میتیا بدھا ہو گا۔میتیا ایک رئیس زادے کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔معرفت الٰہی (نروان)حاصل کرنے کے بعد دنیاوی جنت پر تا ابد حکومت کرے گا اور بہتوں کو راہ ہدایت دکھانے کا موجب ہو گا۔ یہ پیشگوئی بدھ ازم کے تمام فرقوں میں مسلمہ ہے۔متعدد بدھ کتب میں یہ پیشگوئی مختلف تفاصیل کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ذیل میں چند حوالہ جات پیش ہیں۔
لفظ میتیایا میتریا کا مطلب
مختلف بدھ کتب میں اسم ‘میتیا’مختلف صورتوں میں آیا ہے ۔ ان میں میتیہ،میتیو، میتیا،میلی پوسا،میلی فو،میتریا وغیرہ شامل ہیں۔ ان الفاظ کے معانی میں بھی قلیل سا اختلاف پایا جاتا ہے۔میتریا (Maitreya)سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ پالی زبان میں یہ لفظ میتیا (Metteyya)ہے ۔ان الفاظ کا مادہ سنسکرت لفظ maitriیا پالی لفظ mettaہیں جن کا مطلب ہے محبت ،رحم دلی اور شفقت۔پس لفظ میتیا اور میتریا کا مطلب دوست،محبت کرنے والا اور مشفق وغیرہ کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس لفظ کے معنی یہ ہوں گے کہ ایسا مصلح جو انسانیت کے لیے مجسم رحمت و شفقت ہو اور اس کی تعلیمات دوستی ،انس اور محبت میں گندھی ہوئی ہوں۔
موعودہ بدھ کے بارہ میں سب سے اہم اور تفصیلی پیشگوئی مقدس بدھ کتب ترے پٹاکا (Tripitaka)کی دوسری کتاب ستاپٹاکا(Sutta Pitaka)کےحصہ Digha Nikayaکے چھبیسویں باب Cakkavatti-Sihanada Suttaمیں موجود ہے۔ Digha Nikayaکے مطابق گوتم بدھ اپنےمتبعین کو آنے والے کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب گناہ کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کی عمر کم ہوتی ہوتی دس برس تک رہ جائے گی ۔ اس زمانہ میں کوئی اخلاقی تعلیم باقی نہ رہے گی ۔اور میتیا کا زمانہ آئے گا جس میں لوگوں کی عمر بڑھتے بڑھتے اسی ہزار برس تک ہو جائے گی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
And in that time of the people with an eighty thousand year life-span, there will arise in the world a Blessed Lord, an Arahant fully-enlightened Buddha named Metteyya, endowed with wisdom and conduct, a Well-Farer, Knower of the worlds, incomparable Trainer of men to be tamed, Teacher of gods and humans, enlightened and blessed, just as I am now. He will thoroughly know by his own super-knowledge, and proclaim, this universe with its Devas and Maras and Brahmas, its ascetics and Brahmins, and this generation with its princes and people, just as I do now. He will teach the Dhamma, lovely in its beginning, lovely in its middle, lovely in its ending, in the spirit and in the letter, and proclaim, just as I do now, the holy life in its fullness and purity. He will be attended by a company of thousands of monks, just as I am attended by a company of hundreds
اس وقت جب لوگوں کی عمریں اسّی ہزار برس ہوں گی، اس وقت دنیا میں ایک برگزیدہ اور اعلیٰ ہستی جنم لے گی۔ایک ارہت(عارف باللہ)،کامل معرفت والابدھا ہو گاجس کا نام میتیا ہو گا۔ پُر حکمت ، اقبال مند اور دنیا کو جانچنے والا اور سمجھنے والا ہو گا۔ہدایت کے متمنی لوگوں کا ہادی،فرشتوں اور انسانوں کا استاد،پُرنور اور بابرکت ہو گا،جیسا کہ میں اس وقت ہوں۔
جو کچھ بھی وہ اپنے کامل علم کے ذریعہ پائے گا وہ سب دنیا پر ظاہر کر دے گا اور تمام کائنات مع اس کے جنّ اور شیاطین اور برہمنوں اور زاہدوں اور راہبوں کو اور اس نسل کے بادشاہوں اور عوام الناس ،سب کواپنے روحانی تجربات سے آشکار کر دے گا جیسا کہ میں کرتا ہوں۔ وہ لوگوں کو ایسادھرم سکھائے گاجو اپنی بنیادوں کے لحاظ سے عالی شان اور مقاصد کے لحاظ سے بھی ظاہر و باطن دونوں طرح سے شاندار اور سود مند ہو گا ۔اس کلام کی روح اور الفاظ دونوں حسین ہیں۔جیسا کہ میں اب لوگوں کو مقدس زندگی کی مکمل حقیقت اور پاکیزگی سکھاتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہزاروں راہب ہوں گےجیسا کہ اس وقت میرے ساتھ سینکڑوں ہیں۔
اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی تمام مذکورہ صفات ہمارے پیارے نبی ﷺ پر بڑے کمال سے پوری اترتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ میتیا کی آمد سے قبل لوگوں کی عمر دس سال تک رہ جائے گی اور اس کے زمانے میں لوگوں کی عمر بڑھتے بڑھتے اسی ہزار برس تک جا پہنچے گی۔ یہ ایک تمثیلی کلام ہے جس میں لوگوں کی روحانی زندگی کی عمر کا بیان کیا جا رہا۔ دس سال عمر سے مراد انسان کی بلوغت سے قبل کی عمر ہے جب انسان فطرت صحیحہ پر تو ہوتا ہے مگر بلارادہ نیکی ختم ہو جائے اور اسّی ہزار سال عمرسے جنت کی لافانی عمر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتاہے جیسے کہ فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا۔ رسول اللہ ﷺ کی آ مد سے قبل زمانہ حقیقتاً ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِکا نمونہ پیش کر رہا تھا اور آپﷺ نے لوگوں کووہ روحانی مائدہ پیش کیا کہ جس نے بھی اس سے حصہ پایا وہ طویل روحانی عمر پاتا چلا گیا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن بیان کرتا ہے کہ
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے اِس رسول کی پکار پر لبیک کہو ،جب وہ تمہیں بلائے تاکہ وہ تمہیں روحانی طور پر زندہ کرے۔(الانفال:25)
آنے والے وجود کی ایک اَور صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ کامل ارہت یعنی خدا تعالیٰ کی کامل معرفت رکھنے والا ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کو جس واضح اور روشن طور سے رسول اکرم ﷺ کی ذات نےدیکھا اور ہمیں دکھایا ،اس کی نظیرنہیں ملتی۔خدا تعالیٰ کا جو قرب اور ادراک آپﷺ کو حاصل ہوا وہ بے مثال ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلٰى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰى
جبکہ وہ (خدا)بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ(محمد ﷺخدا کے )نزدیک ہوا۔ پھر وہ (خدا)نیچے اُتر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہوگیا یا اس سے بھی قریب تر۔(النجم:8تا10)
آنے والے وجود کو مذکورہ بالا پیشگوئی میں پُر نور وجود قرار دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی قرآن کریم نے نور قرار دیا ہے۔فرمایا۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ۔
پھر اللہ تعالیٰ نےسورة النور میں اپنے نور کی مثال بھی رسول اللہ ﷺ سے دی۔
پھر ایک اَور صفت بیان کی گئی کہ آنے والا وجود پُرحکمت اور اقبال مند ہوگا۔آپ ﷺ نے صرف تعلیم کتا ب ہی نہیں دی بلکہ لوگوں کو ان کی مخفی حکمتیں اور معارف بھی سکھائے ۔نیز صرف دینی علوم سکھانے کی طرف توجہ نہیں فرمائی بلکہ دنیاوی امور میں ترقی کرنے کی بھی رہ نمائی فرمائی۔ یہاں تک کہ زندگی کے ہر شعبہ میں قابل عمل نمونہ پیش فرمایا ۔ رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ …
وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے …۔(الجمعہ:3)
ایک اَور علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ہادیٔ کامل ہو گا نہ صرف انسانوں بلکہ فرشتوں کو بھی ہدایت دینے والا ہو گا یعنی عوام الناس کے لیے بھی اور خواص الناس کے لیے بھی استاد ہو گا۔ قرآن کریم نے آپﷺ کو طٰہٰ یعنی اے طیب اور ہادی کہہ کر پکارا ۔پھر ایک اور جگہ پر یٰسیعنی اے سردار کہہ کر پکارا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا :
‘‘میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا ۔ہر نبی اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا۔ نیزفرمایا قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا۔’’
پھر ایک اَور علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جو کچھ کامل علم سے پائے گا وہ سب بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحٰى عَلَّمَهٗ شَدِيدُ الْقُوٰى
اور یہ نبی خواہش ِنفس سے کلام نہیں کرتا بلکہ یہ تو محض وحی ہے جو اس کی طرف اتاری جا رہی ہے اور اس کو مضبوط طاقتوں والے نے سکھایا ہے۔(النجم:4تا6)
پھر ایک اَور علامت بتائی گئی کہ وہ دنیا کے تمام طبقات تک اپنا پیغام پہنچائے گا ۔ عوام ،خواص ، بادشاہ، غریب،تارک الدنیا ، ہراچھے برےتک اپنا پیغام پہنچائے گا۔یہ فضیلت صرف اور صرف رسول اکرم ﷺ کو حاصل ہوئی ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے ۔فرمایا
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
تو کہہ دے کہ اے لوگومیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(الاعراف:159)
پھر فرمایا
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا
اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔(سبا:29)
ایک اور عظیم علامت یہ بیان ہوئی کہ میتیا ایسا مذہب سکھائے گا جو اپنی بنیادوں سے انتہاؤں تک باکمال ہو گا۔اس کے کلام کی روح اور الفاظ دونوں حسین ہو ں گے۔ قرآن کریم اور شریعت محمدی ہی وہ کامل راستہ ہیں جو گمراہوں کو با خدا اور باخدالوگوں کو خدا نما بنانے کی طاقت اپنے اندر رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔(المائدہ:4)
پھر اس کی ایک اور علامت بیان کی گئی ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں نیک لوگ ہوں گے۔ یہ ظاہری علامت بھی رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات پر پوری اتری۔اسی کا ذکر بائبل میں بھی ہے جس میں آپ کو دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ کوہ فاران سے ظاہر ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔رسول اللہﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو آپؐ کے ساتھ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔ غزوۂ حنین کے موقع پر آپؐ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر موجود تھا۔ غزوۂ تبوک میں تقریباً تیس ہزار صحابہ کرام موجود تھے۔
میتیا بدھاکی آمد کی دوسری اہم پیشگوئیBuddhavasmaمیںموجودہے۔ کتاب بدھا واسما (Buddhavasma) بھی بدھ ازم کی مقدس کتاب سُتا پٹاکا (Sutta Pitaka)کا ایک حصہ ہے۔ اس کتاب میں گوتم بدھ ،اس سے قبل آنے والے چوبیس بدھوں کے حالات اور اس کے بعد میں آنے والے بدھ کی پیشگوئی موجود ہے۔ چنانچہ گوتم بدھؑ فرماتے ہیں:
I at the present time, am the Self-Awakened One, and there will be Metteyya. These are the five Buddhas, wise ones, compassionate toward the world
اس وقت ،میں مکمل باشعور(زندگی اور موت کی حقیقت سے آگاہ)ہوں اور (میرے بعد )ایک وجود متّیا ہو گا ۔یہ پانچ بدھ ہیں ،جو پر حکمت اور دنیا کے لیے موجب رحمت ہیں۔
اس پیشگوئی میں میتیا کی ایک علامت بتائی گئی کہ وہ دنیا کے لیے موجب رحمت ہو گا۔ یہ علامت روز روشن کی طرح رسول اللہ ﷺ پر پوری اترتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
اور ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے(الانبیاء:108)
پھر فرمایا
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
یقینا ًتمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور)وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے)حریص (رہتا)ہے۔ مومنوں کے لیے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔(التوبہ:128)
میتیا کی آمد کی ایک اور پیشگوئی Anagata Vamsaمیں ملتی ہے ۔ اس کتاب میں مذکور ہے کہ ایک راہب Sariputta نے گوتم بدھ سے آنے والے بدھ کے بارہ میں سوال کیا ۔گوتم بدھ نے کہا
I am now the perfect Buddha. And there will be Metteyya [i.e., Maitreya] too
Before this same auspicious aeon. Runs to the end of its years. The perfect Buddha, Metteyya. By name, supreme of men
میں ایک کامل بدھ ہوں اور میرے بعد میتیا آئے گا۔ اس سے پہلے کہ یہ موجودہ دور اپنے آخری سالوں تک چلا جائے۔ وہ بھی کامل بدھا ہو گا۔ اس کا نام میتیا ہو گا اور وہ انسانوں کا سردار ہو گا۔
اس پیشگوئی میں میتیا بدھا کو انسانوں کا سردار قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو جو مقام اور مرتبہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا اس تک نہ کو ئی پہنچ سکتا ہے اور نہ پہنچ سکے گا۔ آپؐ اس کائنات کی تخلیق کا باعث ہیں ۔آپؐ سیّد وُلد آدم ہیں۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مقام محمود پر فائز فرمایا۔آپؐ کو خاتم النبیین کا مقام عطا ہوا۔ چنانچہ فرمایا
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلٰكِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کی مہر ہیں(الاحزاب:41)
ان تمام مذکورہ بالا حوالہ جات میں جس عظیم الشان نبی کی صفات کا ذکر ملتا ہے و ہ صرف آنحضورﷺ کی ذات بابرکات ہے۔
ایک اَور بدھ کتا ب میں میتیا کی آمد کی پیشگوئی میں یہ علامات بھی مذکورہیں کہ
‘‘وہ سارے عالم کے لیے سراسر رحمت اور صلح کا پیغامبر اور صلح کرنے والا اور پُر سکون نیند سونے والا اور غیر معمولی عقل اور گہرے فکرو خیال کا مالک ہو گا۔ وہ توہمات اور جھوٹی خوابوں سے مبرا ہو گا۔ خدا کے فرشتے اس کے محافظ و نگران ہوں گے۔ اور وہ لڑائی میں خدا کی حفاظت میں ہو گا۔ زہر اس پر اثر نہیں کرے گا۔وہ آگ اور پانی کے نقصان سے محفوظ اور دوسروں کی حفاظت کا موجب ہو گا اور دنیا میں نہایت کامیاب اور آخرت میں اپنی وفات کے بعد خدا کے ساتھ ہو گا۔وہ صادق کہلائے گا اور سچائی، کلام میں نرمی، عزتِ نفس، وفاداری اور شفقت و حلم جیسی اعلیٰ صفات سے متصف ہو گا۔’’
یہ تمام صفات بھی رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہستی پر پوری اترتی ہیں۔
میتیا بدھا کےمتعلق پیشگوئیوں میں میتیا کے متبعین کی نشانیاں بھی بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ بدھ کتاب Divyavadana میں میتیا کو ماننے والوں کی چند نشانیاں بھی مذکور ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:
تمام انسان ،دیوتا اور دوسری مخلوقات میتیا کی عبادت کریں گے اور اُن کے شبہات دور ہو جائیں گے۔ان کی نفسانی خواہشات کی تکالیف ختم ہو جائیں گی۔ وہ دوبارہ پیدائش کے سلسلہ سے باہر آجائیں گے ۔میتیا کی تعلیم پر عمل کرنے سے وہ ایک پاکیزہ زندگی گزاریں گے۔وہ کسی چیز کو اپنی ملکیت نہیں گردانیں گے، نہ سونے کو نہ چاندی کو،نہ گھر اور نہ رشتہ داروں کو۔وہ میتیا کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ایک مقدس زندگی گزاریں گے۔وہ سب نفسانی خواہشات کے جال کو توڑ دیں گےاور ابدی سکون میں داخل ہونے والے ہوں گے۔ان کے لیے لا محدود خوشی اور اطمینان کی زندگی ہو گی۔وہ میتریا کی اتباع میں مقدس زندگی گزاریں گے۔
ان علامات میں سے اگر حشو وزوائد کو الگ کر دیا جائے تو بہت ساری علامات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین پر پوری اترتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے عرب کےامّیوں کو اپنی قوّت قدسی سے حیوان سے با خدا اور خدا نما انسان بنا دیا۔ ان کی تمام روحانی تکالیف کو دور فرمایا ۔ کوئی ایسی اخلاقی برائی نہ تھی جو عرب کے باسیوں میں نہ تھی مگر رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار تک جاپہنچے۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیم نے ان کو دنیا کی بہترین امت بنا دیا۔صحابہ کرام نے اپنا تمام مال و اسباب اسلام کے لیے قربان کر دیا ۔
میتیا بدھاکی آمد کے وقت کی تعیین
بدھ لٹریچرسے ثابت ہوتا ہے کہ میتیا اس وقت آئے گا جب بدھ ازم زوال پذیر ہو جائے گا۔ بدھ کتب سے متعدد حوالہ جات مل جاتے ہیں جن میں بدھ مذہب کی عمر مذکور ہے۔ مستند ترین حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ گوتم بدھؑ نے اپنے مذہب کی عمرپہلے 1000سال بیان کی پھر بعد میں اس کو500 سال تک محدودکر دیا ۔ اس کی مزید وضاحت بدھ علماء نے اس طرح کی ہے کہ بدھ مذہب پر 500 سال کے 2 ادوار آئیں گے۔ پہلے دور کوsaddharmaیعنی اصل دھرم کہتے ہیں جو500 سال پر مشتمل ہو گا ۔دوسرے دور کوsaddharma-pratirupakaیعنی اصل دھرم سے مشابہ دور کہتے ہیں ۔ یہ دور بھی 500سال پر مشتمل ہو گا ۔
حضرت مسیح ناصریؑ گوتم بدھ سے 500سال بعد کشمیر میں وارد ہوئے۔ اور میتیا کی آمد کہلائے اوررسول اللہﷺ گوتم بدھ سے پورے ایک 1000سال بعد تشریف لائے۔پس اس اعتبارسے آپﷺ کے آنے سےبھی میتیا بدھا کی آمد کی پیشگوئی بھی پوری ہوتی ہے۔
اس جگہ آسمانی نشان کا ایک واقعہ بھی پیش ہے جو بیان کردہ دعویٰ کی تصدیق کرتاہے ۔The Encyclopaedia of Religionکے مطابق کوریا میں چھٹی صدی عیسوی میں ایک راہب نے کشف دیکھا کہ میتریا اس دنیا میں Hwarang۔Flower Boyکی صورت میں ظاہر ہو چکاہے۔ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش بھی چھٹی صدی عیسوی میں ہوئی۔
میتیا بدھا کا ظاہری حلیہ
بدھ کتب میں میتیا بدھا کے ظاہر ی حلیہ کے بارہ میں بہت تفاصیل ملتی ہیں۔میتیا کا قد 132؍فٹ ہو گا۔اس کے بازو کی لمبائی 38؍فٹ ہو گی۔ اس کی ہتھیلی اور انگلیوں کی لمبائی14؍فٹ ہو گی۔ اس کے ہونٹ کی لمبائی8؍فٹ ہو گی۔ اس کی زبان کی لمبائی13؍فٹ ہو گی۔اس کی آنکھیں8؍فٹ اور کان 10؍فٹ بڑے ہوں گے۔ اس کا چہرہ 30؍فٹ محیط دائرہ کا ہو گا۔میتیا کی علامات لوگوں کو 75؍میل دور سے نظر آ جائیں گی۔میتریا کی روشنی سےکائنات اپنی بلندیوں سے زمین کی اتھا ہ گہرائیوں تک روشن ہو جائے گی۔اس کی آنکھوں کی روشنی لا محدود ہوگی۔
معلوم ہوتا ہے کہ عجوبہ پسندی کے شوق میں بدھ مت کے مریدوں نےان علامات میں بہت کچھ بڑھایا ہے۔میتیا کے ظاہری حلیہ سے متعلق علامات کی پیشگوئیوں کے اصولوں کی روشنی میں آسانی سے وضاحت ہو سکتی ہے۔ غیر معمولی قد وقامت میتیا کے عظیم الشان مقام اور روحانی قد کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کا سردار ہو گا۔ بازوؤں کی لمبائی سے اس کی قوت بازواور قوت عملیہ کی طرف اشارہ ہے۔ ہتھیلی اور انگلیوں کی لمبائی سے مراد ہو سکتا ہے کہ جو دوسخا میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔ہونٹوں ،آنکھوں اور زبان کی غیر معمولی طوالت یقیناًاس کی روحانی بصیرت و بصارت اور حقائق و معارف کے بہتے دریا کی طرف اشارہ ہے۔ طویل کان سے مراد ہے کہ دور دور سے ا قوام او ر قبائل اور ان کی خبریں اس تک پہنچیں گی۔ میتیا کی علامات پچھتر میل دورسے نظر آنے سے مطلب دوردراز اقوام کا اس کی طرف کھینچے چلے آنا اور اس پر ایمان لانا ہے۔ہمارے مضمون کی تائید اس حوالہ کا آخری حصہ بھی کر رہا ہے کہ اس کی روشنی سےکائنات اپنی بلندیوں سے زمین کی اتھاہ گہرائیوں تک روشن ہو جائے گی۔ نیزاس کی آنکھوں کی روشنی لا محدود ہوگی۔مگر بعد میں آنے والوں نے ان پر حاشیہ آرائیاں کیں۔
ان علامات کو ظاہر ی طور پر لینا ایسی ہی بات ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے دجال کی بعض ظاہری علامات بیان کیں اور مسلمان اِن کو ظاہر میں پورا ہوتا دیکھنے کے منتظر ہیں۔ جیسےدجال کے گدھے کے کانوں کے درمیان ستر گز کا فاصلہ ہو گا۔ اس کا ایک قدم مشرق اور ایک مغرب میں ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔جبکہ درحقیقت ان سے دجال کی سائنسی ترقی کی طر ف اشارہ ہے۔
اے مقدس بدھ ؑکے ماننے والو !خوشخبری ہو کہ جس موعود میتیاکاصدیوں سے انتظار تھا وہ ظاہر ہو چکا !پس تم ہی و ہ خوش قسمت لوگ ہو جنہوں نے بدھ کے بیان کردہ مبارک وجود کا زمانہ پا لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گوتم بدھ کے الفاظ پر بنظر غور تدبّر کیا جائےاور اس آخری نجات دہندہ پر ایمان لایا جائے ۔وہ نبی مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْکامصداق بدھ کی پیشگوئی پوری کر کے بدھ ؑکی صداقت پر مہر تصدیق ثابت کر گیا۔وہی نور ہے ۔وہی علم و حکمت کا شہزادہ ہے۔وہی تمہاری روحانی زندگی کا نقیب ہے۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ
وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
٭…٭…٭