خدا کے واسطے مُسلم ذرا تو ہوش میں آ
منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبو باقی
بس ایک دل میں رہے تیری آرزو باقی
پڑی ہے کیسی مصیبت یہ غنچۂ دیں پر
رہی وہ شکل و شباہت نہ رنگ و بُو باقی
کہاں وہ مجلسِ عیش و طرب وہ راز و نیاز
بس اب تو رہ گئی ہے ایک گفتگو باقی
جو پوچھ لو کبھی اتنا کہ آرزو کیا ہے
رہے نہ دل میں مرے کوئی آرزو باقی
ملا ہوں خاک میں باقی رہا نہیں کچھ بھی
مگر ہے دل میں مرے اُن کی جستجو باقی
وہ گاؤں گا تری تعریف میں ترانۂ حمد
رہے گا ساز ہی باقی نہ پھر گلُو باقی
گیا ہوں سوکھ غمِ ملتِ محمدؐ میں
رہا نہیں ہے مرے جسم میں لہو باقی
قُرونِ اولیٰ کے مسلم کا نام باقی ہے
نہ اُس کے کام ہیں باقی نہ اس کی خو باقی
خدا کے واسطے مُسلم ذرا تو ہوش میں آ
نہیں تو تیری رہے گی نہ آبرو باقی
شکائتیں تھیں ہزاروں بھری پڑی دل میں
رہی نہ ایک بھی پر اُن کے روبرو باقی
(اخبار الفضل جلد 1 ۔27؍اگست 1913ء)