سیرت خلفائے کرام

حضرت مصلح موعودؓ کےبچپن اورجوانی کی کہانی…آپؓ کی اپنی زبانی

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے بچپن اور جوانی کے ایاّم کے بعض واقعات مختلف اوقات میں بیان فرمائے۔لیکن اِن واقعات کوحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے خطبات میں اِس طرح پڑھنے اور سننے والوں کے سامنے پیش کیا کہ بیان فرمودہ ہر واقعہ اپنے اندر سبق اندوز نصائح اور جِدت طراز رکھتاہے۔ بیا ن کردہ چند واقعات“حضرت مصلح موعود ؓکا بچپن اورجوانی ۔آپؓ کی اپنی زبانی”کے عنوان سے پیشِ خدمت ہیں:

صحت کا عالَم

حضرت مسیح موعود ؑکی دعائیں اور روزے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ 24؍ اکتوبر 2014ء میں فرماتے ہیں:

“پھر آپ اپنے بچپن کا ایک ہلکا پھلکا واقعہ …تعلیم کے بارے میں بھی بیان فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ‘‘میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ مَیں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ اس لیے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے۔ میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھ میں سخت کُکرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف کُکروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ مجھے اس وقت یادنہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے۔ بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لیے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو (مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس وقت) یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دوچار فٹ پر اگر ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو مَیں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہوتو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آ سکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اس میں بھی ککرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں مَیں جاگ کر کاٹا کرتا تھا…بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا اور چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ (جگر کی خرابی کے لیے یہ علاج بھی اچھا ہے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی)۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی تھی’’۔ اس کے لیے بھی علاج ہوتا تھا۔ اور پھر آنکھوں کے کُکرے۔ کافی بیماریاں تھیں۔ پھر اس کے ساتھ بخار بھی شروع ہو جاتا تھا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا تھا”

(ماخوذ از الموعودانوارالعلوم جلد 17صفحہ 565تا 569)(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ اکتوبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل14تا 20نومبر2014ء)

14؍ نومبر2014ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور فرماتے ہیں:

“اپنے بارے میں ایک اور بات بیان فرماتے ہیں ‘‘ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر اس سفر میں کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کسی ہندو پنشنر سیشن جج کی آمد کی خبر دینے آئے جو بغرض ملاقات آئے تھے۔ آپؑ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)نے اس وقت ان سے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں مگر محمود بھی بیمار ہے۔ مجھے اس کی بیماری کا زیادہ فکر ہے۔ آپ اس کا توجہ سے علاج کریں۔’’

(اصلاح نفس، انوار العلوم جلد5صفحہ 456)(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر2014ء ۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

پڑھائی کی داستان۔ شکایتیں

حضورِانور خطبہ جمعہ 24؍ اکتوبر 2014ء میں فرماتے ہیں:

“ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ نہیں پڑھتا۔ کبھی مدرسے میں آ جاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو مَیں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا کہ (ماسٹر فقیر اللہ صاحب!)آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کرسکے۔ پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے۔ حساب اسے آئے نہ آئے کوئی بات نہیں۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا۔ اگر یہ مدرسے میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔’’حساب کی بھی بات بتا دوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بعد میں حساب ایسا تھا کہ تقریر کے دوران ہی لاکھوں کی ضربیں تقسیمیں کر کے حساب سامنے رکھ دیا کرتے تھے۔بہر حال فرماتے ہیں کہ ‘‘یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آ گئے۔ مَیں نے اس نرمی سے اَور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ کبھی مہینے میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی۔ غرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی …تو کہتے ہیں ‘‘میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہوگا۔

(ماخوذ از الموعودانوارالعلوم جلد 17 صفحہ 565تا 569) (خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ اکتوبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل14تا20نومبر2014ء)

اردو کا امتحان

اسی خطبہ جمعہ میں آپ فرماتے ہیں:

“ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ نے میرا اردو کا امتحان لیا۔ مَیں اب بھی بہت بدخط ہوں۔ (لکھائی اچھی نہیں۔)مگر اس زمانے میں میرا اتنا بد خط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ مَیں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتا لگائیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتا نہ چلا۔ ان کی طبیعت بڑی تیز تھی۔ غصے میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچے۔ مَیں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اَور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نامعلوم کیا ہو۔ خیر میر صاحب آ گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے۔ میں نے اس کا اردو کا امتحان لیا۔ آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں۔ اس کا اتنا بُرا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ پھر اسی جوش کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہنے لگے کہ آپ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا۔ ‘‘بلاؤ حضرت مولوی صاحب کو’’۔ جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آپ ہمیشہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بڑی محبت تھی۔ آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے سر اٹھا کر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ ‘‘مولوی صاحب! مَیں نے آپ کو اس غرض کے لیے بلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے’’۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا۔ مَیں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر نقل کر دیا۔ اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی۔ دوسرے مَیں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اَور بھی زیادہ آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے۔ پھر مَیں نے آہستہ آہستہ نقل کیا۔ الف اور باء وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے۔ مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے حضور!میر صاحب کو یونہی جوش آ گیا ہے ورنہ خط تو اچھا بھلا ہے۔’’

(ماخوذ از الموعودانوارالعلوم جلد 17 صفحہ 565تا 569)(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ اکتوبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل14 تا 20نومبر2014ء)

عمر گیارہ سال۔ ارادہ مصمّم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ 14؍ نومبر 2014ء میں فرماتے ہیں:

“حضرت مصلح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‘‘میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام)کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کا تھا تو میں نے مصمّم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو مَیں گھر سے نکل جاؤں گا مگر مَیں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا۔ حتی ٰکہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا۔

(سوانح فضل عمرجلد اوّل صفحہ 96)(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

“پھر آپ نے بتایا کہ ‘‘جب میں نے دستی بیعت کی تو میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر دس سال کی عمر میں ایسی حرکت پیدا ہوئی کہ جو بیان نہیں کی جا سکتی۔’’

(ماخوذ ازیاد ایام۔ انوار العلوم جلد8صفحہ 365)(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

’’بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ عقل مند ہیں‘‘

اسی خطبہ جمعہ میں مزید فرمایا:

“بچوں کی دل داری کے بارے میں ایک جگہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘مجھے اپنے بچپن کی بات یاد ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہو کر فرمایا کرتیں کہ اس کا سر بہت چھوٹا ہے (یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا)تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ کوئی بات نہیں۔ راٹیکین جو بہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی بہت چھوٹا سا تھا۔’’ آپ کہتے ہیں کہ ‘‘بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ عقلمند ہیں۔جو شخص اپنی اولاد کو علم اور عرفان سے محروم کرتا ہے اور اس کا سر اگرچہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے۔ جس شخص کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے کہ خدا اور رسول کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ وہ عرفان کیسے حاصل کر سکتا ہے۔’’(خطبات محمود جلد2صفحہ174)پس اصل چیز جو ہمیں چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے احکامات کو سمجھیں، ان پر غور کریں اور ان کی ذات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم کو سمجھیں۔ اور یہی حقیقت ہے جس سے دماغ روشن ہوتے ہیں۔”

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

لڑکے کے کندھے پر کہنی رکھنابُری عادت

“میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیاران کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ایک دفعہ مَیں ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے والد تھے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے۔ اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔”

’تم‘ کا لفظ برابر والوں کے لیے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لیے نہیں

“اسی طرح ایک صوبیدار صاحب مرادآباد کے رہنے والے تھے ان کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے’’لکھتے ہیں کہ ‘‘ہماری والدہ چونکہ دلّی کی ہیں اور دلّی بلکہ لکھنؤ میں بھی‘تم’ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بزرگوں کو بیشک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے ‘‘آپ’’کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے۔ اس لیے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ‘‘تم’’ ہی کہا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان (صوبیدار صاحب)کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے۔’’کہتے ہیں ‘‘صوبیدار محمد ایوب خان صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے۔ گورداسپور میں مقدمہ تھا اور میں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو‘تم’کہہ دیا۔ وہ صوبیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لیے محل ادب ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ‘تم’کا لفظ برابر والوں کے لیے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لیے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے اس کا استعمال مَیں بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ پہلا سبق تھا جو انہوں نے اس بارے میں مجھے دیا۔’’

(الفضل11؍مارچ 1993ء صفحہ7جلد 27نمبر58)(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

مَیں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند دنیا کے کناروں تک جائے گا

اِسی طرح 14 نومبر2014ءکے خطبہ جمعہ میں ہی فرمایا:

“ایک واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ‘‘ہم بھی بچپن میں مختلف کھیلیں کھیلا کرتے تھے۔ مَیں عموماً فٹبال کھیلا کرتا تھا۔ جب قادیان میں بعض ایسے لوگ آگئے جو کرکٹ کے کھلاڑی تھے تو انہوں نے ایک کرکٹ ٹیم تیار کی۔’’حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ‘‘ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جاؤ حضرت صاحب سے عرض کرو کہ وہ بھی کھیلنے کے لیے تشریف لائیں۔ چنانچہ میں اندر گیا۔ آپ اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ جب میں نے اپنا مقصد بیان کیا تو آپ نے قلم نیچے رکھ دی اور فرمایا۔ تمہارا گیند تو گراؤنڈ سے باہر نہیں جائے گا لیکن میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند دنیا کے کناروں تک جائے گا۔ اب دیکھ لو کیا آپ کا گیند دنیا کے کناروں تک پہنچا ہے یا نہیں۔”

(الفضل 8؍فروری 1956 ء صفحہ 4جلد45/10نمبر33) (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

جبرائیل اب بھی آتا ہے

“حضرت مصلح موعودنے ایک دفعہ فرمایا کہ ‘‘میری عمر جب نو یا دس برس کی تھی۔ مَیں اور ایک اور طالبعلم گھر میں کھیل رہے تھے۔ وہیں الماری میں ایک کتاب پڑی ہوئی تھی جس پر نیلا جزدان تھا اور وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی۔ نئے نئے علوم ہم پڑھنے لگے تھے۔ اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرائیل نازل نہیں ہوتا۔ مَیں نے کہا یہ غلط ہے۔ میرے ابّا پر تو نازل ہوتا ہے۔ اس لڑکے نے کہا۔ جبرائیل نہیں آتا کتاب میں لکھا ہے۔ ہم میں بحث ہو گئی۔ آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس)گئے۔ اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا۔ آپ نے فرمایا۔ کتاب میں غلط لکھا ہے۔ جبرائیل اب بھی آتا ہے۔”

(سوانح فضل عمرجلد1صفحہ 150-149) (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے۔ اِن پر نہ گرے

“پھر اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ‘‘بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے۔ کئی دفعہ اس واقعے کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے ہیں۔ مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک رات ہم صحن میں سو رہے تھے۔ گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گرجنے لگا۔ اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے …۔ اس کڑک اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے۔ جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اس وقت ہم بھی جو صحن میں سو رہے تھے اٹھ کر اندر چلے گئے۔ مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے، ان پر نہ گرے۔ بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا، نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ (آپ) بجلی سے محفوظ رہتے۔’’

(سوانح فضل عمرجلد1صفحہ 150-149) (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

دایاں فرشتہ کون سا ہے اور بایاں فرشتہ کون سا

“حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘1905ء آیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب بیمار ہوئے۔ میری عمر17سال کی تھی اور ابھی کھیل کود کا زمانہ تھا۔ مولوی صاحب بیمار تھے اور ہم سارا دن کھیل کود میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لیے گیا۔ اس کے سوا یادنہیں کہ کبھی پوچھنے بھی گیا ہوں۔اس زمانے کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب فوت ہی نہیں ہو سکتے وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد فوت ہوں گے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی۔ ایک دو سبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دیے۔ اس سے زیادہ ان سے تعلق نہ تھا۔ ہاں ان دنوں میں یہ بحثیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کون سا ہے اور بایاں فرشتہ کون سا ہے۔ بعض کہتے کہ مولوی عبدالکریم صاحب دائیں ہیں اور بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں۔ علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت ہی نہ تھی۔(یعنی بچپن لڑکپن تھا۔ سوچ نہیں تھی)اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفہ اول مجھ سے کیا کرتے تھے میں نور الدینیوں میں سے تھا۔ ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا تھا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی۔ (یعنی کہ حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود کے زیادہ قریبی تھے)۔”

(یاد ایام، انوار العلوم جلد 8صفحہ 368-367)(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

مولوی عبدالکریم کی وفات مَیں نہ کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھمے

“غرض مولوی عبدالکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کے پُرزور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت ِحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معتقد تھا۔ مگر جونہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا۔ وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزر گئی۔ جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی۔ دوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازے بند کرلیے۔ پھر ایک بے جان لاش کی طرح چارپائی پر گر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ وہ آنسو نہ تھے ایک دریا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی، مولوی صاحب کی محبتِ مسیح علیہ السلام اور خدمت مسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے۔ دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں میں یہ بہت سا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اب آپ کو بہت تکلیف ہو گی اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جاتا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگتا تھا۔ اس دن مَیں نہ کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھمے حتی کہ میری لا ابالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تعجب ہوا اور آپ نے حیرت سے فرمایا محمود کو کیا ہو گیا ہے۔ اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا۔ یہ تو بیمار ہو جائے گا ۔’’

(یاد ایام، انوار العلوم جلد 8صفحہ 368-367)، (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر 2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل5تا 11دسمبر2014ء)

گھوڑے کی سواری۔ مردانہ سواری

22؍مئی 2015ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“پھر ایک اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں جو گھڑسواری سے تعلق رکھتا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سائیکل چلانے اور گھڑ سواری کے مقابلے کا موازنہ کس طرح کیا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک گھوڑی خرید کر دی۔ درحقیقت وہ خرید تو نہ کی گئی تھی بلکہ تحفۃً بھیجی گئی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ آپ نے فرمایا مجھے سائیکل کی سواری تو پسندنہیں، مَیں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا اچھا آپ مجھے گھوڑا ہی لے دیں۔ آپ نے فرمایا پھر مجھے گھوڑا بھی وہ پسند ہے جو مضبوط اور طاقت ور ہو۔ اس سے غالباً آپ کا منشاء یہ تھا کہ میں اچھا سوار بن جاؤں گا۔ تو آپ نے کپورتھلے والے عبدالمجید خان صاحب کو لکھا کہ اچھا گھوڑا خرید کر بھجوا دیں۔ خانصاحب کو اس لیے لکھا کہ ان کے والد صاحب ریاست کے اصطبل کے انچارج تھے اور ان کا خاندان گھوڑوں سے اچھا واقف تھا۔ انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفۃً بھجوا دی اور قیمت نہ لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے۔ (پہلے حصے میں یہ آ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سواری کی preference پھر آگے حضرت مصلح موعودنے اپنے حالات کا بھی ذکر کیا اور وہ واقعہ اب پورا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے)تا کہ اس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے (کیونکہ اس کے بعد آمد کے ذرائع کم تھے اور حضرت امّاں جان اُمّ المومنین پر بوجھ پڑتا تھا۔ )فرمایا کہ مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہو گیا تھا اور جو اَب بھی زندہ ہیں کہلا بھیجا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اسے آپ بالکل فروخت نہ کریں۔ اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی۔ وہ جگہ جہاں یہ بات کہی گئی تھی اب تک یاد ہے۔ مَیں اس وقت ڈھاب کے کنارے تشحیذ الاذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا۔ جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود کا تحفہ ہے اس لیے اسے فروخت نہ کرنا چاہئے تو بغیر سوچے سمجھے معاً میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بیشک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے مگر اس سے بھی بڑا تحفہ اُمّ المومنین ہیں۔ مَیں گھوڑی کی خاطر حضرت اُمّ المومنین کو تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ چنانچہ میں نے گھوڑی فروخت کر دی۔

(ماخوذ ازخطبات محمو د جلد 29صفحہ 32-31)،(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مئی 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشل 12؍جون 2015ءصفحہ 7تا8)

لہجہ اور طرزِ تقریرحضرت مسیح موعود ؑکےمشابہ

22؍فروری 2019ءکے خطبہ جمعہ میں حضورِ انور نے فرمایا:

‘‘ایک اَور واقعہ جس کا میں اس مضمون میں ذکر کرنا چاہتا ہوں …حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی پہلی تقریر ہے جو حضورؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی۔ یہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں منعقد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کے دائیں طرف سٹیج پر رونق افروز تھے۔ سٹیج کا رخ جانب شمال تھا۔ اس تقریر کے متعلق دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ مولوی شیر علی صاحب لکھتے ہیں۔ اوّل عجیب بات یہ تھی کہ اُس وقت آپؓ کی آواز اور آپؓ کی ادا اور آپؓ کا لہجہ اور طرزِ تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اور طرز تقریر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ اس وقت سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی، جو ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا ہم سے جدا ہو ئے تھے، یاد تازہ ہو گئی اور سامعین میں سے بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس آواز کی وجہ سے جو ان کے پسر موعودؓ کے ہونٹوں سے اس وقت اس طرح پہنچ رہی تھی جس طرح گرامو فون سے ایک نظروں سے غائب انسان کی آواز پہنچتی ہے آنسو جاری ہو گئے اور اُن آنسو بہانے والوں میں ایک خاکسار بھی تھا۔ اگر یہ کہنا درست ہے کہ انسان کی روح دوسرے پر اترتی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آپ پر اتر رہی تھی اور اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ یہ ہے میرا پیارا بیٹا جو مجھے بطور رحمت کے نشان کے دیا گیا تھا اور جس کی نسبت یہ کہا گیا تھا کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔

(ماخوذ از سوانح فضل عمرجلد 1صفحہ 217تا 219)،(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍فروری2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مارچ2019ء)

پہلی پبلک تقریر۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا

20؍فروری 2015ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘1907ء میں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی۔ جلسے کا موقع تھا بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی موجود تھے۔ مَیں نے سورۃ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب مَیں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ پھر اس وقت حضرت خلیفہ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ اس لیے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریر آدھ گھنٹے یا پون گھنٹے جاری رہی۔ جب مَیں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ میاں !میں تم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی۔ مَیں تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ رہا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں بہت پڑھنے والا ہوں اور میں نے بڑی بڑی تفسیریں پڑھی ہیں مگر میں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے وہ مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نہ میرا مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر اس وقت ایسے معارف جاری کر دیے جو پہلے بیان نہیں ہوئے تھے۔’’

(ماخوذ از خطبات محمود جلد22صفحہ473-472)،(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍فروری 2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍مارچ 2015ء)

حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پرعہد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ 14؍ نومبر 2014ء میں فرماتے ہیں:

“پھر آپ فرماتے ہیں کہ ‘‘1908ء کا ذکر میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ وہ میری کیا سب احمدیوں کی زندگی میں ایک نیا دور شروع کرنے کا موجب ہوا۔ اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کے لیے بمنزلہ روح کے تھی اور ہماری بے نور آنکھوں کے لیے بمنزلہ بینائی کے تھی اور ہمارے تاریک دلوں میں بمنزلہ روشنی کے تھی، ہم سے جدا ہو گئی۔ یہ جدائی نہ تھی۔ ایک قیامت تھی۔ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آسمان اپنی جگہ سے ہل گیا۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے اس وقت نہ روٹی کا خیال تھا نہ کپڑے کا۔ صرف ایک خیال تھا کہ اگر ساری دنیا بھی مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دے تو مَیں نہیں چھوڑوں گا اور پھر اس سلسلے کو دنیا میں قائم کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ میں نے کس حد تک اس عہد کو نبھایا مگر میری نیت ہمیشہ یہی رہی کہ اس عہد کے مطابق میرے کام ہوں۔’’

(یاد ایام، انوار العلوم جلد 8صفحہ 368-367)،(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍نومبر2014ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشل5؍دسمبر2014ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button