منظوم کلام حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ
ملّتِ احمدؐ کے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں
بیوفاؤں میں نہیں ہوں مَیں وفاداروں میں ہوں
فخر ہے مجھ کو کہ ہوں میں خدمتِ سرکار میں
ناز ہے مجھ کو کہ اس کے ناز برداروں میں ہوں
سر میں ہے جوشِ جنوں دل میں بھرا ہے نور و علم
میں نہ دیوانوں میں شامل ہوں نہ ہشیاروں میں ہوں
پوچھتا ہے مجھ سے وہ کیونکر ترا آنا ہوا
کیا کہوں اس سے کہ میں تیرے طلبگاروں میں ہوں
مَیں نے مانا تُو نے لاکھوں نعمتیں کی ہیں عطا
پر مَیں ان کو کیا کروں تیرے طلبگاروں میں ہوں
شاھدوں کی کیا ضرورت ہے کسے انکار ہے
مَیں تو خود کہتا ہوں مولیٰ مَیں گنہگاروں میں ہوں
حملہ کرتا ہے اگر دشمن تو کرنے دو اُسے
وہ ہے اغیاروں میں مَیں اس یار کے یاروں میں ہوں
ظلمتیں کافور ہو جائیں گی اِک دن دیکھنا
مَیں بھی اِک نورانی چہرہ کے پرستاروں میں ہوں
اھلِ دنیا کی نظر میں خوابِ غفلت میں ہوں مَیں
اھلِ دل پر جانتے ہیں یہ کہ بیداروں میں ہوں
ہوں تو دیوانہ مگر بہتوں سے عاقل تر ہوں مَیں
ہوں تو بیماروں میں لیکن تیرے بیماروں میں ہوں
مدّتوں سے مر چکا ہوتا غم و اندوہ سے
گر نہ یہ معلوم ہوتا مَیں ترے پیاروں میں ہوں
جانتا ہے کس پہ تیرا وار پڑتا ہے عدو
کیا تجھے معلوم ہے کس کے جگر پاروں میں ہوں
ساری دنیا چھوڑ دے پر مَیں نہ چھوڑوں گا تجھے
درد کہتا ہے کہ مَیں تیرے وفاداروں میں ہوں
ہو رہا ہوں مست دیدِ چشمِ مستِ یار میں
لوگ یہ سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں مَے خواروں میں ہوں
عشق میں کھوئے گئے ہوش و حواس و فکر و عقل
اَب سوالِ دید جائز ہے کہ ناداروں میں ہوں
گو مرا دل مخزنِ تیرِ نگاہِ یار ہے
پر یہ کیا کم ہے کہ اس کے تیر برداروں میں ہوں