خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ اگست 2019ء
تقویٰ کی روح سے کی گئی قربانی خدا تعالیٰ کو پسند ہے
اگر تمہاری قربانیاں صرف دنیاداری اور دکھاوے کی قربانیاں ہیں اور ان میں روح نہیں جو ایک متقی میں ہونی چاہیے تو پھر یاد رکھو تمہاری قربانیاں بے فائدہ ہیں
خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی
ایک آدھ نماز کو چھوڑنا پھر نمازوں سے لاپروا کر دیتا ہے
چھوٹی چھوٹی لغویات میں مبتلا ہونا دین سے دور ہٹا دیتا ہے
اگر حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد پورا کرنا ہے تو پھر ہر لغو چیز سے ہمیں اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے
’’ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا تقویٰ ہے‘‘
دعائیں بہت کریں، اپنے ایمان میں بڑھیں، اپنے بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی کوشش کریں
یہی وہ سبق ہے جو قربانی کی عید ہمیں دیتی ہے
شہدائے احمدیت کی بلندیٔ درجات، ان کے پسماندگان، مبلّغینِ سلسلہ،اسیرانِ راہِ مولیٰ اور قربانی کے دَور سے گزرنے والے پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍اگست 2019ء بمطابق 12؍ ظہور 1398ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن، (سرے) یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآ ؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ (الحج:38)
اس آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اسی طرح اُس نے تمہارے لیے اُنہیں مسخر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اُس نے تمہیں ہدایت عطا کی۔ اور احسان کرنے و الوں کو خوشخبری دیدے۔
آج ہم عیدالاضحی جسے عید قربانی بھی کہا جاتا ہے منا رہے ہیں۔ مکے میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں بھی مسلمان لاکھوں جانور آج ذبح کر رہے ہیں اور کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو یہ جانوروں کی قربانی عبادت کا حصہ ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے اور وہ لوگ جو عمرہ اور حج نہیں بھی کر رہے لیکن توفیق رکھتے ہیں ان کے لیے بھی قربانی کے جانور ذبح کرنا ایک اچھی بات ہے لیکن اگر تمہاری قربانیاں صرف دنیاداری اور دکھاوے کی قربانیاں ہیں اور ان میں وہ روح نہیں جو ایک متقی میں ہونی چاہیے تو پھر یاد رکھو تمہاری قربانیاں بے فائدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی خون کا پیاسا نہیں ہے، بھوکا نہیں ہے کہ لاکھوں جانوروں کے خون اور گوشت کی اسے حاجت ہے اور پھر وہ ان لوگوں کو جو اس کی یہ حاجت پوری کریں خوش ہو کر جنت کی بشارت دیتا ہے۔ اُس کو تو کوئی ضرورت نہیں اس چیز کی۔ پس اگر کسی کا دل تقویٰ سے خالی ہے تو قربانی کے نام پر تم درجنوں جانور بھی ذبح کر دو یا کسی ملک میں لاکھوں جانور بھی ذبح ہو جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں بن سکتے۔
پس ہمیشہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے اور تقویٰ کی روح سے کی گئی قربانی خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور اس ظاہری قربانی میں دل میں تقویٰ رکھنے والے کا یہ اظہار ہے اور ہونا چاہیے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوں اور جس طرح یہ جانور جو انسانوں کے مقابلے میں بہت معمولی چیز ہیں اس لیے ان کی قربانی دی جا رہی ہے، ایک ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لیے قربان کیا جا رہا ہے اسی طرح میں بھی اس قربانی سے سبق لیتے ہوئے اپنے سے اعلیٰ چیز کے لیے، اعلیٰ مقاصد کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا۔ میں اس قربانی سے یہ سبق لے رہا ہوں کہ میں جو عہد کرتا ہوں اور کر رہا ہوں کہ جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ہے اس کو ہر حال میں پورا کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ میرے کسی فعل میں دنیا داری اور نفس کی ملونی نہیں ہو گی۔ پس یہ عید قربانی ہمیں اگر ہمارے فرائض، ہماری ذمہ داریاں اور عہد دلانے والی نہیں تو یہ ایسی عید ہے جو ہم صرف ایک ظاہری میلے کی طرح منا رہے ہیں۔ یہ عید ہم میں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن رہی۔ یہ عید ہمیں قربانیوں کی اہمیت کا احساس نہیں دلا رہی۔ یہ عید ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کر رہی۔ یہ عید ہمیں اپنے عہد کو پورا کرنے کا احساس نہیں دلا رہی۔ صرف ہم نے قربانی کی اور بھیڑ، بکری یا گائے بھی ذبح کر کے خود بھی اس کا گوشت کھایا اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی کھلایا تو یہ سب بے فائدہ ہے اگر اس میں قربانی کی روح نہیں۔ فائدہ تو تبھی ہے جب ہم اپنے عہدکو پورا کرنے والے بنیں۔ اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کے آگے رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور پھر احمدی مسلمان بنایا۔جس نے زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جان، مال، وقت، عزت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا اور پھر اس عہد بیعت کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے خلافت احمدیہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کامل شرح کے ساتھ عہدِ بیعت نبھاؤں گا۔ پس جب یہ سب کچھ ہو گا تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رضا پانے والے لوگوں میں شامل ہونے کی خوشخبری دیتا ہے۔
پس اگر یہ روح ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے عمل اس کے مطابق ہو جاتے ہیں تو ہم بھی ان خوشخبری پانے والے لوگوں میں شامل ہونے کی امید رکھ سکتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔
اس آیت میں بیان مضمون اور اس کی حکمت اور فلسفے کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقعے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی ریاضتیں کرتے ہیں، بڑے مجاہدے کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں، ایک ہی پوزیشن میں ہاتھ رکھا، بلڈ کی سرکولیشن ختم ہو گئی، ہاتھ سوکھ گیا اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے ہیں ا ور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے۔ ایک ظاہری چیز تو ہو جاتی ہے لیکن وہ روحانیت، وہ نور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ نہیں ان کو ملتا، فرمایا کہ بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے یعنی روح سے اس کا تعلق کم ہوتا ہے۔ ظاہری جسمانی ریاضت ہوتی ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا اسی لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى
یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ فرمایا کہ حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا، ظاہری جو چھلکا ہے اس کو پسند نہیں کرتا وہ مغز چاہتا ہے، اس میں روح کیا ہے، اصل چیز کیا ہے وہ چاہتا ہے۔ فرمایا کہ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ فرمایا کہ اور اسی طرح نماز اور روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے، روح سے عبادت کر لی اور ظاہری جو حرکات ہیں نماز کی اس کی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ صبح سے لے کر شام تک کھائے پیئے بغیر رہنے کی، روزہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ دل سے مان لیا، روح کو اس بات کا قائل کر لیا کہ بھوکے رہنا اور غریب کا خیال رکھنا ضروری ہے یا کسی بھوکے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بات بالکل پکی ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی۔ یعنی ظاہری حرکات اگر نہیں ہو رہیں، جسم کا مجاہدہ نہیں ہو رہا تو روح پر اس کا اثر نہیں ہوتا اور اس میں وہ نیازمندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے۔ ظاہری حالتیں ہیں نماز کی مختلف حالتیں ہیں اور نماز کی مختلف حالتیں عاجزی اور نیازمندی پیدا کرنے کے لیے ہیں اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہماری روح بھی اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے، اسی طرح رکوع کر رہی ہے، اسی طرح سجدہ کر رہی ہے اور یہ مقصد ہونا چاہیے، یہ عبادت کا مقصد ہے۔ اور فرمایا کہ جو جسم سے کام لیتے ہیں اور روح کو اس میں شریک نہیں کرتے، ظاہری حرکات کر لیں اور اصل جو روح ہے نماز کی وہ قائم نہیں، یہ پتا ہی نہیں کہ کیا پڑھ رہے ہیں یا کوئی بھی عبادت کر رہے ہیں تو یہ پتا ہی نہیں کیا کر رہے ہیں۔ قربانی کر رہے ہیں تو یہی علم نہیں کہ کس لیے ہم قربانی کر رہے ہیں، روزہ رکھ رہے ہیں تو یہی نہیں پتا کہ کس لیے روزہ رکھ رہے ہیں، مقصد کیا ہے تو فرمایا کہ روح کو اس میں شریک نہیں کرتے تو وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے لوگ ہیں جو ظاہری جسمانی عبادتیں کرتے ہیں۔ فرمایا روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا روح پر اثر پڑتا ہے۔ غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہوتی ہے۔ انسان کا دل عاجز ہو اس کا روح پر اثر پڑتا ہے اور پھر جسم میں بھی عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے جب روح میں واقعی میں عاجزی و نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو رہی ہوتی ہے۔ ظاہری حرکات جب ہوتی ہیں تو روح بھی متاثر ہوتی ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد4صفحہ420-421)
پس یہ ظاہری قربانیاں ہماری روح کو جھنجھوڑنے کے لیے ہیں، یہ سمجھانے کے لیے ہیں کہ جس طرح یہ ادنیٰ چیز تمہارے لیے قربان ہو گئی اسی طرح ایک حقیقی مومن کی شان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے۔ اپنے جسم کو بھی قربانی کے لیے تیار کرو اور روح کو بھی۔ اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند کرو۔ اسی تقویٰ کے بلند معیار کے حصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’اس سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے ’’اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانی ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔‘‘ فرمایا کہ ’’جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ99حاشیہ)
پس یہ مقام ہے جسے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اور حضرت ہاجرہ علیھا السلام نے اس تقویٰ کے معیار کو حاصل کرتے ہوئے وہ قربانی پیش کی تھی جس کی یاد میں آج مسلمان دنیا کے ہر ملک میں جہاں بھی وہ ہیں جمع ہوئے ہیں اور اس قربانی کی یاد کو تازہ کر رہے ہیں۔ اس خاندان کی قربانی نے کسی بھی عمر اور طبقے کے مسلمان کو یہ عذر پیش کرنے والا نہیں رہنے دیا کہ ہم کس طرح تقویٰ کا یہ اعلیٰ معیار پیش کرتے ہوئے قربانی کر سکتے ہیں۔ مرد نے بھی قربانی دی، عورت نے بھی قربانی دی اور بچے نے بھی قربانی دی۔ اس چھری کے نیچے آنے کی قربانی سے بہت بڑھ کر یہ قربانی تھی کہ بے آب و گیاہ جگہ میں کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کے ایک مشکیزے کے ساتھ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر زندگی گزارنے کے لیے وہ عورت تیار ہو گئی۔ وہ عورت جس کو اپنی جان سے زیادہ اپنے بچے کی جان پیاری تھی لیکن اللہ تعالیٰ پر یقین اور توکّل تھا اس لیے اس قربانی کے لیے تیار ہو گئی کہ خدا تعالیٰ کی خاطر کی جانے والی قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی اور خوش خبری ملتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ہاجرہؑ کو یہ ادراک تھا ۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اگر تم اللہ کے سہارے پہ، حکم پہ ہمیں چھوڑ رہے ہو تو کوئی پروا نہیں۔ جاؤ۔ اللہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفون… حدیث 3364)
پس خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی اور خوش خبریاں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی چادر میں ایک متقی لپیٹا جاتا ہے اور یہ نمونے انہوں نے دیکھے، اور یہ نمونے ہزاروں بزرگوں نے دیکھے، ہزاروں لوگوں نے دیکھے۔ ہر شخص جو اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے اس کی فکریں، غم اور دکھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے یا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے خوشیوں میں بدل جاتی ہیں۔ وہ عورت اپنی اور بچے کی قربانی کے لیے تیار ہو گئی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بن جائے اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس قربانی کو ایسا نوازا کہ اس قربانی کو تاقیامت زندہ کر دیا اور پھر یہ بھی، سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی نسل میں سے ایک عظیم نبیؐ پیدا ہوئے جس کی قوت قدسی نے پھر ایسی جماعت پیدا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا ہر شخص مرد، عورت، بچہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو چھوتے ہوئے ایسی قربانی کی مثالیں دینے والا بنا جس کی مثالیں ڈھونڈنا دنیا میں مشکل نظر آتا ہے۔ آج کل خطبات میں جب مَیں بدری صحابہ کے حالات پیش کر رہا ہوں اس میں عورتوں اور بچوں کے حالات اور معیار قربانی کا بھی ضمناً ذکر آ جاتا ہے اور اس ضمناً ذکر میں بھی ان کی قربانیوں اور تقویٰ کے معیار کے ایسے نمونے ہیں جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کے عمل ہمارے لیے نمونہ ہیں، اسوۂ حسنہ ہیں۔
(مشکاۃ المصابیح الجزء الثانی صفحہ414کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ حدیث6018 دار الکتب العلمیۃ بیروت2003ء)
پس اس زمانے میں جب ہم نے مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کو مانا ہے تو اس بات کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا ہر ایک قسم کی نیکی کا بجا لانا اور نیکی کے بجا لانے کا معیار ان لوگوں کے برابر ہے یا ہم کم از کم اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قائم فرمایا تھا؟ ہم آخرین کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے اندر بھی ایک طبقہ ہے جو یہ حالت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی حالت ہے، جو تقویٰ پر چلنے والوں کی حالت ہے، جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والوں کی حالت ہے لیکن دنیا داری نے ہم میں سے بھی ایک حصے میں، ایک طبقہ میں وہ حالت پیدا کی ہوئی ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد تو کرتے ہیں لیکن تقویٰ کی وہ حالت نہیں جو ایک حقیقی تقویٰ پر چلنے والے کی ہونی چاہیے۔ اور وہ حالت کیا ہے؟ اس حالت اور اس کے معیار کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے ایک دو ارشادات پیش کر دیتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے، یعنی تقویٰ کی جو باریکیاں ہیں ان کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ فرمایا کہ سلامتی اسی میں ہے کہ ان باریکیوں کو سامنے رکھو۔ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنا دیں گی، پھر بڑے گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اور وہی چھوٹی باتیں پھر بڑے گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں، دین سے دور ہٹا دیتی ہیں۔ فرمایا تم اپنے زیر نظر تقویٰ کے اعلیٰ معیار کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد8صفحہ106)
پس بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ آپؑ کا ارشاد بڑا واضح ہے کہ اگر لا پروا ہو گئے، اگر یہ خیال آ گیا کہ یہ چھوٹی سی غلطی ہے یا یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کے بارے میں اتنا پریشان ہوا جائے یا اتنی سختی کی جائے تو پھر یہی باتیں بڑے گناہ بن جاتے ہیں۔ ایک آدھ نماز کو چھوڑ دینے والے بعض کہتے ہیں جی نمازیں ہم نہیں پڑھتے ایک آدھ چھوٹ جاتی ہے۔ ایک آدھ نماز کو چھوڑنا پھر نمازوں سے لاپروا کر دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی لغویات میں مبتلا ہونا دین سے دور ہٹا دیتا ہے۔ پس اگر حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد پورا کرنا ہے تو پھر ہر لغو چیز سے ہمیں اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔
پھر تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقعے پر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے۔ بڑا تفصیل سے لکھا ہوا ہے کہ کیا چیزیں کرنے والی ہیں، کیا نہیں کرنے والی اور مختلف احکامات ہیں۔ فرمایا اور مختلف قسم کے احکامات کی کئی سو شاخیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ خلاصةً یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو ہرگز یہ منظور نہیں کہ زمین پر فساد کرے۔ اس نے مخلوق پیدا کی ہے۔ اس کا مقام یہ نہیں ہے کہ زمین پر فساد پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر وحدت پھیلانا چاہتا ہے لیکن جو شخص اپنے بھائی کو رنج پہنچاتا ہے، ظلم اور خیانت کرتا ہے وہ وحدت کا دشمن ہے۔ جب تک یہ بدخیال دل سے دور نہ ہوں کبھی ممکن نہیں کہ سچی وحدت پھیلے۔
پھر آپؑ نے فرمایا ہرقسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا تقویٰ ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد8 صفحہ374-375)
پس یہ ہے تقویٰ کی باریکی۔ جو وحدت کا دشمن ہو اس میں تقویٰ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس یہ بڑے فکر اور خوف کی بات ہے اگر ہم اپنے بھائی کو دکھ دیتے ہیں تو ہم وحدت کے دشمن ہیں۔ اگر ہم کہیں خیانت کرتے ہیں تو ہم وحدت کے دشمن ہیں۔ اگر ہمارے دل میں بدخیال پیدا ہوتا ہے تو یہ تقویٰ سے دوری ہے اور ایسے خیالات سے ہم نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنی ہے تبھی ہم وحدت قائم کر سکتے ہیں، تبھی ہم اس عہد کو پورا کر سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے کیا ہے۔
خدا تعالیٰ کرے کہ ہم سچے تقویٰ پر چلنے والے ہوں۔ یہ قربانی کی عید ہمیں قربانی کا صحیح فہم و ادراک دلانے والی ہو۔ ہم اپنے نفس کو ہر برائی سے پاک کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ تقویٰ کی باریک راہوں کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں خدا تعالیٰ خوش خبری عطا فرماتا ہے۔
آج اس قربانی کی عید میں ان لوگوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جنہوں نے اپنی جانوں کی بھی قربانی جماعت کے لیے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی نسلوں کو ہمیشہ مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے وابستہ رکھے، جوڑے رکھے۔ ان کے حق میں ان قربانی کرنے والوں، ان بچوں کے حق میں، نسلوں کے حق میں، شہداء کی نسلوں کے حق میں ان کی شہداء کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔
پھر ان مبلغین کے درجات کے لیے بھی دعا کریں جو ابتدا میں بڑی قربانی کرکے دور دراز ممالک میں گئے اور اسلام کا حقیقی پیغام ان قوموں کو پہنچایا جو بالکل اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان مبلغین کی نسلوں میں بھی اخلاص و وفا اور ایمان و ایقان پیدا فرمائے اور اسے قائم رکھے۔
پھر دعاؤں میں انہیں بھی یاد رکھیں جو اس وقت دین کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں اور اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق دے اور ہر ایک نفس کی ملونی سے پاک ہو کر وہ خدمت دین کرنے والے ہوں۔ پھر ان کی قربانیوں کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ جو لوگ ظالمانہ قانون کی وجہ سے ایک لمبے عرصے سے قربانیوں کے دَور سے گزر رہے ہیں پاکستان میں یا اَور کسی جگہ پر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتے ہوئے جلد ان کو اس ظلم سے نجات دلائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری بھی پردہ پوشی فرمائے۔ ہم پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایمان اور ایقان میں بڑھائے۔ ہم پہلے سے بڑھ کر احمدیت اور حقیقی اسلام کی ترقی کے نظارے دیکھنے والے ہوں تاکہ حقیقی عید کی خوشیاں ہم دیکھ سکیں۔
پس یہ دعائیں بہت کریں، اپنے ایمان میں بڑھیں، اپنے بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی کوشش کریں۔ یہی وہ سبق ہے جو قربانی کی عید ہمیں دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭خطبہ ثانیہ٭٭٭
دعا کر لیں۔ (دعا)
آپ کو بھی اور تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی عید مبارک ہو۔ السلام علیکم ورحمة اللہ
٭٭٭