قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے
چھٹی شرط بیعت (حصہ چہارم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
قرآن شریف ہی میں تمہاری زندگی ہے(حصہ دوم)
پھر اس چھٹی شرط میں ایک بات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکامات کو اپنے ہر معاملہ میں دستور العمل کے طور پر سامنے رکھے گا۔ جب ضرورت ہوگی ان سے مشورہ لے گا ۔اب یہ کوئی منہ سے کہنے والی بات نہیں؟ اس عہد کو پورا کرنے کے لیے آدمی غور کرے تو بڑی فکر پیدا ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا(النساء:آیت60)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی اور اگر تم کسی معاملہ میں اولو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے او رانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے ۔
پھر فرمایا:
وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (آل عمران: آیت133)
اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم رحم کئے جائو۔
پھر فرماتا ہے
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔(الانفال: آیت2)
وہ تجھ سے اموال غنیمت سے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تو کہہ دے کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کے ہیں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرو اپنے درمیان اصلاح کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے احکامات کو صحیح طور پر مانو، ان پر عمل کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احکامات کی جو تشریح کی ہے اس کے مطابق عمل کرو۔ تمہارے جو امراء مقرر ہیں ،جو نظام مقررہے اسکی پوری اطاعت کروتو کہا جاسکتا ہے کہ تم نے بیعت کرنے کا حق ادا کردیا ۔اس بارے میں چند احادیث بھی پیش کرتا ہوں ۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس امر پرکی کہ ہم پسند کی صورت میں اور ناپسند کی صورت میں بھی ان کا ارشاد سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب کیف یبایع الامام الناس)
عبد الرحمٰن بن عَمرو سُلَمِی اور حجر بن حجر بیان کرتے ہیں کہ وہ عِرباض بن سَارِیہؓ کے پاس آئے پھرعرباضؓ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپؐ نے بہت موثر فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے اور دل ڈرگئے حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے۔ آپکی نصیحت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو ۔کیونکہ ایسا زمانہ آنے والاہے کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا۔ پس تم ان نازک حالات میں میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا، دانتوں سے مضبوط گرفت میں کرلینا۔ تمہیں دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچنا ہوگا۔ کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام سے جاری ہو بدعت ہے اور بدعت نری گمراہی ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب العلم۔ باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ،ابو داؤد کتاب السنۃ باب لزوم السنۃ)
آنحضرتﷺ کی کامل پیروی اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے ہم احمدی جو ہیں ان کو ہر وقت اس نصیحت اور اس حدیث کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔اسی طرح ایک روایت ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس میں تین باتیں ہوں وہ ایمان کی حلاوت کو پا لیتا ہے ۔ نمبر ایک اللہ اور اس کا رسول دیگر تمام وجودوں سے اسے زیادہ محبوب ہوں۔ دو یہ کہ وہ کسی شخص کو صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر محبوب رکھے ۔ اورتین یہ ہے کہ وہ کفر میں لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب حلاوۃ الایمان )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32)
خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لاشریک خدا کی تلاش ہونا چاہیے۔ شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رسوم کا تابع اور ہواوہوس کامطیع نہ بنناچاہیے۔ دیکھو میں پھر کہتاہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں ۔آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں ۔سو تم ان سے پرہیز کرو۔ ان لوگوں نے آنحضرتﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑناچاہا گویا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے ۔تم یادرکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں ۔ بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اسکے رسول کے فرمودہ کا تابع دار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے‘‘۔
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ 102-103)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32)
اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں ۔کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہیے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں ۔رسومات کی بجا آوری میں آنحضرتؐ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اوروہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرتﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔‘‘
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ316)
(باقی آئندہ)