مسرورؔ کے ہاتھوں میں تُو بھی ہاتھ تھما دے
مسرورؔ کے ہاتھوں میں تُو بھی ہاتھ تھما دے
’’دیوانوں کی فہرست میں اِک نام بڑھا دے‘‘
غفلت میں پڑے سوتے ہیں جو نیند کے ماتے
اے کاش کوئی ان کے ضمیروں کو جگا دے
ہر خوف ہوا دُور، خلافت کی ہے برکت
ہر روز نئی تمکنتِ دیں کی عطا دے!
مصلح بنے پھرتے ہیں یہاں نت نئے مُفسد
شیطاں کی دکانیں ہیں ، خدا سب کو مِٹا دے
جتنے بھی جتن کر لو گے ناکام رہو گے
دشمن کو کوئی میرے یہ پیغام سنا دے
بیمار ہوں ، لاغر بھی ہوں، دامن بھی ہے صدچاک
مالک دے دوا اور غذا اور قبا دے
’کورونا‘ کے ایّام میں اتنا ہے غنیمت
آقا میرا گر دُور سے ہی ہاتھ ہلا دے
قائم ہے ’’سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا‘‘ کا قرینہ
حائل ہے ملاقات میں جو روک، ہٹا دے
جو آگ لگاتے ہو، وہی بنتی ہے گلزار
اے دشمنِ جاں تجھ کو خدا اس کی جزا دے!
دشمن تو ہے نادان، اُسے عقل عطا ہو
اے دوست ذرا ہاتھ اٹھا اُس کو دُعا دے
تحریر پہ قدغن ہے زبانوں پہ ہیں پہرے
اے دل میں دبی آہ نکل عرش ہلا دے
دیوانہ ہے طارقؔ بھی، رہِ یار میں اُس کو
وہ زخم مزا دے جو اسے درد سوا دے
(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)