بنگلہ دیش میں تین روزہ بچی کی قبر کشائی کا دلخراش اور تکلیف دہ واقعہ
مکرم احمد تبشیرچوہدری صاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا سیکشن جماعت احمدیہ بنگلہ دیش ایک دلخراش اور افسوسناک واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ گھاٹورا گاؤں کی جماعت میں مذہبی انتہا پسند ملاؤں کی جانب سے ایک نومولود احمدی بچی کی نعش کو تدفین کے کچھ ہی دیر بعد قبر کشائی کر کے اس کی بے حرمتی کی گئی۔
اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ مورخہ 7؍جولائی 2020ء کو مکرم محمد سیف الاسلام صاحب کے گھر ایک بچی پید اہوئی جو کہ صرف تین دن زندہ رہنے کے بعد قضائے الٰہی سے وفات پا گئی۔اس کی تدفین گھاٹورا جماعت کے مقامی قبرستان میں ہوئی جہاں دیگر مسلمانوں کے ساتھ احمدیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ مورخہ 9؍ جولائی کو اس کی تدفین کے کچھ ہی دیر بعدملاؤں نے احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی اور لوگوں کو اکسانا شروع کر دیا کہ وہ مقامی قبرستان میں کسی بھی ’’قادیانی‘‘ کی تدفین نہ ہونے دیں گے۔ چنانچہ چند گھنٹوں میں ہی قبرستان میں ایک مشتعل ہجوم اکٹھا ہو گیا اور احمدیوں کے خلاف نعرہ بازی کرنے لگا نیز اس مشتعل ہجوم نے نہ صرف نومولود معصوم بچی کی قبر کشائی کی بلکہ اس کی نعش کو باہر گلی میں پھینک کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔
اس واقعہ کی پولیس کو اطلاع دی گئی تو پولیس نےبھی آکر ملاؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی بلکہ احمدیوں کو کہا کہ وہ اس بچی کی تدفین برہمن بڑیہ قصبہ کے احمدیہ قبرستان میں کر لیں۔ اس پر مجبوراً احمدیوں کو ایسا کرنا پڑا۔
اگرچہ مختلف حکومتی اور دیگر سیاسی و سماجی حلقوں سے اس واقعہ کی شدید مذمت کی جا رہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی حفاظت پر مامور ادارے حقیقی طور پر اپنے ملک کے شہریوں کے محافظ بنیں نہ یہ کہ وہ مذہبی انتہاء پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ لہٰذااس بربریت کے خلاف سخت حکومتی ایکشن کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام احمدیوں کو مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین
(رپورٹ: نوید احمد لیمون۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)