احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ دوم)
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ
[پیدائش:اندازاً1791ءوفات :جون 1876ء]
آپؒ کا عزم وہمت
اولوالعزمی آپ کی زندگی کا ایک نمایاں وصف تھا۔آپ کی ساری زندگی اسی عزم وہمت اور عالی حوصلگی سے عبارت تھی جس کی ایک نمایاں مثال قادیان کی ریاست کی واپسی کے لئے مسلسل تگ ودو میں آپ کا مصروف رہنا تھا۔آپ ابھی جلاوطنی کی زندگی ہی گزاررہے تھے کہ آپ نے خاندان کی سربراہی ملتے ہی قادیان کی واپسی کی کوششیں شروع کر دیں۔ایک طرف سارے ہندوستان کا پاپیادہ سفر کرنا بھی اسی مقصد کی ایک کڑی محسوس ہوتاہے۔اور دوسری طرف جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیہ مسل اوردوسری مسلوں پر قابو پاتے ہوئے سارے پنجاب پر اپنا تسلط جمالیا اورمہاراجہ کا لقب اختیار کرلیا تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربارمیں بھی رسائی کی۔یہ ساری جدوجہد اشارہ کرتی ہے کہ قادیان واپس جانے کی تڑپ آپ کے دل کو بے چین کئے ہوئے تھی۔یہ عزم وہمت اور عالی حوصلگی آپ کووراثت میں ملی تھی۔
چنانچہ آپ کے والدبزرگواریعنی مرزاعطامحمدصاحب کوایک بار ریاست کپورتھلہ کے سردار جناب فتح سنگھ صاحب آہلووالیہ نے جو کہ آپ کے خاندان کے شاہی میزبان تھے کئی گاؤں آپ کے خاندان کے لئے بطور جاگیر دینا چاہے اور خواہش کا اظہار کیا کہ یہیں وہ مقیم رہیں لیکن خاندانی وقار اورحمیت وخودداری کے باعث طبیعت پیشکش قبول کرنے سے ہمیشہ متنفر رہی۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
راجہ فتح سنگھ نے مرزا عطا محمدصاحب کو دو گاؤں کی پیشکش کی لیکن انہوں نے صاف انکارکرتے ہوئے کہا اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر ہم یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہوجائے گی اوراپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اس کے دل سے جاتارہے گا۔
( ماخوذ از رپورٹ مجلس مشاورت 1937ء ص 20،تاریخ احمدیت جلد اول،باب خاندانی حالات صفحہ 34)
یہ وہ جوہرتھا جواس عظیم باپ نے اپنے اس عظیم بیٹے کے قلب وذہن میں پیداکیا۔انہی اعلیٰ اوصاف کولے کریہ بیٹا جوان ہوا۔اورواقعی وہ پست ہمت نہ ہوااور اپنی جائداد کو واپس لینے کی لگن دل میں ہمیشہ موجزن رہی۔بلکہ اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک یہ لوسینے میں جلتی رہی ہرچندکہ عدالتوں کے فیصلوں نے بظاہرسارے امکان معدوم کردئے لیکن امیدوں کاایک چراغ تھا جوایک جگہ جلتارہااوربجھنے نہ پایا۔ نہ اس کی لوکم ہوئی اور وہ اس ایک بیٹے کادل تھا۔مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کادل…
بہرحال قادیان کی ہجرت کے بعد ریاست بیگووال میں قیام کے دوران انہوں نے قادیان کوپانے کی تگ ودوجاری رکھی یہاں تک کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ تک یہ حالات وواقعات پہنچے یا پہنچائے گئے کہ قادیان کا یہ معزز خاندان اپنی ریاست سے جلاوطن ہوکر بیگووال میں پناہ گزیں ہے تو اس نے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ کو اپنے دربار میں اعزاز کے ساتھ بلایا اور قادیان اور اسکے ساتھ کچھ گاؤں واپس کردئے۔
سرلیپل گریفن اپنی کتاب ’’پنجاب چیفس‘‘ میں لکھتے ہیں :
“Ranjit singh, who had taken possession of all the lands of the Ramgarhia Misal, invited Ghulam Murtaza to return to Kadian, and restored to him a large portion of his ancestral estates.”
(The Punjab Chiefs Pg. 41)
یعنی رنجیت سنگھ، جوکہ رام گڑھیہ مسل کے تمام علاقہ پرقابض ہوچکاتھا۔اس نے غلام مرتضیٰ کوقادیان واپس لوٹانے کاعندیہ دیا اور اس کی جدی ریاست کے ایک بڑے حصہ کوبحال کردیا۔[نوٹ: سرلیپل گریفن جواس کتاب کے مصنف تھے۔یہ ایک اعلیٰ انتظامی عہدیدارتھے اور ترقی کرتے کرتے نمایاں مقام پایا۔لیکن حیرت ہے کہ یہاں انہوں نے جوبات لکھی ہے وہ تاریخی حقائق کے سراسرمنافی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ restored to him a large portion of his ancestral estates حالانکہ یہ تو بٹالہ کاپٹواری بھی جانتا تھا کہ حضرت مرزاصاحب کے آباواجدادکی ریاست کئی سودیہات پرمشتمل تھی اور سکھوں کے زمانہ تک بھی 85گاؤں جوکہ اصل میں کم ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔اور رنجیت سنگھ نے جب قادیان کی بستی واپس کی تو صرف پانچ گاؤں واپس کئے۔اب ان پانچ گاؤں کو Large portion لکھنا ایک حیرت انگیزبات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مصنف سے سہو ہوا ہے۔ایاز]
حضرت اقدسؑ نے اس واپس ملنے والی جاگیرکوایک قطرہ بلکہ اس سے بھی کم بیان فرمایاہے۔چنانچہ آپؑ اس کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثم رداللّٰہ الی أبی بعض القرٰی فی عہدالدولۃ البرطانیۃ،فوجدقطرۃً اواقل منہا من بحر الاملاک الفانیۃ۔‘‘
( حقیقۃا لوحی (الاستفتاء)، روحانی خزائن جلد 22صفحہ704)
ترجمہ: پھراللہ تعالیٰ نے دولت برطانیہ کے عہدمیں بعض گاؤں واپس لوٹادئے اوریوں اس ضائع شدہ ملوکیت کے سمندرمیں سے گویاایک قطرہ یااس سے بھی کم انہوں نے پالیا۔
ایک اورجگہ آپؑ تحریرفرماتے ہیں :
’’پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیاں میں واپس آئے اورمرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی۔ سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لودھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا۔ غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے۔ پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے۔ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 175، 176حاشیہ)
لیکن یہ چند گاؤں یعنی پانچ گاؤں ان کئی سو گاؤں کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ اس لئے آپؒ کے دل میں مسلسل یہ لگن تھی کہ یہ کھوئی ہوئی ریاست واپس لے کر رہیں گے۔ چنانچہ اس کے لئے جب تک سکھ حکومت رہی تو آپ نے یہاں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔اور جب سکھ حکومت ختم ہوگئی اور انگریزوں کا تسلط ہوگیا اور آپ کی یہ جاگیر جو پانچ گاؤں پر مشتمل تھی وہ بھی ضبط کرلی گئی تو آپ نے اس وقت کی انگریز حکومت کی عدالت کے دروازے پردستک دی اور اس جائدادکوپانے کے لئے مقدمات کا ایساسلسلہ شروع ہوا کہ آپ کو اپنی زندگی بھر اس میں ناکامی کا ہی سامنا کرناپڑا۔آپ نے اپنی تمام تر جمع پونجی ان مقدمات میں صرف کردی حالانکہ جتنا روپیہ ان مقدمات میں صرف ہوا اس رقم سے موجودہ جائداد سےسَوگنا زیادہ جائداد بنائی جاسکتی تھی۔
ان مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہارے دادا نے قادیان کی جائیداد پر حقوق مالکانہ برقرار رکھوانے کے لئے شروع شروع میں بہت مقدمات کئے اور جتنا کشمیر کی ملازمت میں اور اس کے بعد روپیہ جمع کیا تھااور وہ قریباً ایک لاکھ تھا سب ان مقدمات پر صرف کر دیا۔ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس زمانے میں اتنے روپے سے سو گنے بڑی جائیداد خریدی جا سکتی تھی۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کو یہ خیال تھا کہ خواہ کچھ ہوقادیان اور علاقہ کے پرانے جدّی حقوق ہاتھ سے نہ جائیں اور ہم نے سنا ہے کہ دادا صاحب کہا کرتے تھے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان ہمارے بزرگوں کا آباد کیا ہوا ہے جو آخر عہد بابری میں ہندوستان آئے تھے۔قادیان اور کئی میل تک اس کے ارد گرد کے دیہات ہمارے آباء کے پاس بطور ریاست یا جاگیر کے تھے۔ رام گڑھی سکھوں کے زمانہ میں ہمارے خاندان کو بہت مصائب دیکھنے پڑے اور سخت تباہی آئی لیکن پھر راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے عہد میں ہماری جاگیر کا کچھ حصہ ہمارے آباء کو واپس مل گیا تھا۔لیکن پھر ابتداء سلطنت انگریزی میں پچھلے کئی حقوق ضبط ہو گئے اور کئی مقدمات کے بعد جن پر دادا صاحب کا زَرِ کثیر صرف ہوا صرف قادیان اوراس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ اور قادیان کے قریب کے تین دیہات پر حقوق تعلقہ داری ہمارے خاندان کے لئے تسلیم کئے گئے۔یہ حقوق اب تک قائم ہیں…(اس روایت میں جو خاکسار کی طرف سے یہ فقرہ درج ہوا ہے کہ ’’قادیان اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ … تسلیم کئے گئے‘‘ یہ درست نہیں ہے بلکہ سہو قلم سے یہ الفاظ درج ہو گئے ہیں کیونکہ حق یہ ہے کہ قادیان کے مشمولہ دو گاؤں جن کا نام قادر آباد اور احمد آباد ہے وہ دونوں دادا صاحب نے سلطنت انگریزی کے قیام کے بعد آباد کئے تھے اس لئے الفاظ ’’اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات‘‘حذف سمجھے جانے چاہئیں۔)‘‘
(سیرت المہدی : جلد اول روایت نمبر44)
قادیان اور اس کے ساتھ پانچ گاؤں جو رنجیت سنگھ نے واپس کئے وہ انگریزوں نے اس خاندان کی وفاداری کی سزا کے طورپر دوبارہ ضبط کرلئے اور اس کی جگہ پورے خاندان کی پنشن 700روپے سالانہ مقررکردی تھی۔جو حضرت مرزا غلام مرتضٰی صاحب کی وفات پر کم ہوکر 180روپے رہ گئی اور صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر بالکل ہی بند ہوگئی۔
[تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوسیرت المہدی روایت نمبر48]
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنی یہ ضبط شدہ جاگیر واپس حاصل کرنے کے لئے عدالت کا رخ کیا جہاں سے صرف وہ گاؤں واپس ملے جو کہ سکھ حکومت کے آخری عہد میں آپ کے پاس تھے۔ یعنی تین پرانے گاؤں اور دوتوخود حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نےہی آباد کیے تھے۔ اور ان کی ملکیت بھی برائے نام سی کاغذی ملکیت تھی اسکے علاوہ اورکچھ نہ تھا۔البتہ باقی ماندہ ریاست کے گاؤں کبھی بھی واپس نہ مل سکے۔اور اس کی حسرت ہی آپ کے دل میں رہی۔
حضورؑ فرماتے ہیں’’میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اورمہموم رہتے تھے۔ انہوں نے پیروی مقدمات میں سترہزار روپیہ کے قریب خرچ کیاتھا جس کاانجام آخر ناکامی تھی۔کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے۔اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا۔اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے……اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی۔مگر جوکچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اورمحزون رہتے تھے…‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 187-188حاشیہ)
آپ کے عزم وہمت کی یہ پرحسرت داستان تو الگ رہی۔لیکن اس سب کے باوجود آپ کی شجاعت اور اولوالعزمی آپ کی عزت اور آپ کے اعلیٰ کردارکاایک لازمہ رہی۔ اگریہ کہاجائے کہ آپ کی ساری زندگی اسی جرأت اوربہادری اور اولوالعزمی سے عبارت تھی تومبالغہ نہ ہوگا۔ آپ کے عزم وہمت کی ایک زبردست مثال ایک مسجد کی تعمیر کے لئے اس جگہ کا خریدنا بھی ہےجو ہندوؤں اور قادیان کے دیگر باشندوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ مرزاصاحب کو یہ جگہ خریدنے نہیں دیں گے۔ان حالات میں آپ نے عزم کیا کہ اگر مجھے اپنی ساری جائداد بھی فروخت کرنی پڑے تو میں اس زمین کو خرید کر مسجدبناؤں گا۔چنانچہ ایساہی ہوااوریہ مسجدآپ نے بنائی جو مسجد اقصیٰ کے نام سے آج بھی قادیان میں موجودہے اور آپ کے پاکیزہ عزم وہمت کی روشن مثال ہے جو قیامت تک انشاء اللہ قائم رہے گی۔ اور یہ بھی آپ جیسے عزم وہمت کے پیکر کا ہی کمال تھا کہ قادیان واپس آنے کے بعدقادیان کی تعمیر از سرِ نوکی۔وہ مکانات جو گرگئے تھے وہ بنائے۔یہاں تک کہ دو گاؤں نئے آباد کئے اور اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر ان کانام رکھا۔ایک ’’احمدآباد‘‘ اور ایک’’قادرآباد‘‘۔ان دونوں کے متعلق ’’سیرت المہدی‘‘میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑکے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت صاحب سے بڑے تھے۔ ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گاؤں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا چنانچہ ایک کا نام قادرآباد رکھا اور دوسرے کااحمد آباد۔ احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آباد رہ گیا۔چنانچہ قادر آباد حضر ت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزا سلطان احمد صاحب کا حصہ آیا لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا واپس ہمارے پاس آگیا ہے اور اب وہ کلیۃً صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادر آباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر25)
قادیان کی موجودہ صورت حال کے مطابق قادرآباد ’’سرائے طاہر‘‘ کے تقریباً پچھلی جانب ایک گاؤں ہے اوراس کا موجودہ نام ‘ترکھانانوالہ’ہے۔ جبکہ احمد آباد قادیان کے شمال مشرق کی جانب قدرے فاصلے پر ریلوے لائن کراس کرنے کے بعد ہے اور اس کا موجودہ نام ’بھگت پورہ‘ ہے۔
(باقی آئندہ)