مسائل رمضان المبارک از ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (قسط نمبر 2)
جن کا روزانہ کا معمول سفر ہے وہ مسافر شمار نہیں ہوتے لیکن جو طاقت رکھتے ہیں ان کے لیے اور اگر عارضی طور پر بعض مجبوریوں کی وجہ سے تم روزہ نہیں رکھ سکتے مثلاً کوئی ہنگامی سفر آ گیا ہے، کوئی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے روزے رکھنا مشکل ہے تو فرمایا فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ پھر دوسرے دنوں میں یہ تعداد پوری کرو۔ پس کسی کو یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ مَیں بیمار ہو گیا ہوں یا سفر آ گیا ہے تو اس رعایت کی وجہ سے کہ ان دنوں میں روزے نہ رکھو ایسی حالت میں روزے معاف ہو گئے ہیں۔ نہیں، اگر ایمان میں ترقی چاہتے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو جب صحت ہو جائے یا جو روزے ہنگامی سفر کی وجہ سے ضائع ہوئے ہیں، چھوڑے گئے ہیں، انہیں رمضان کے بعد پورا کرنا ضروری ہے اور یہی ایک متقی کی نشانی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو سہولت دی ہے اس سہولت سے فائدہ کا جواز اس وقت تک ہے جب تک وہ حالت قائم ہے جس کی وجہ سے سہولت ملی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بیماری بھی ایسی ہو، حقیقی تکلیف دہ بیماری ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنا مشکل ہو، بہانے نہ ہوں۔ جس طرح جن لوگوں کا کام ہی سفر ہے مثلاً ڈرائیور ہے یا کاروبار کے لیے یا ملازمت کی وجہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے لمبا سفر کرنا پڑتا ہے، تو ان کے لیے سفر نہیں ہے۔ یہ مَیں اس لیے کھول کر بتا رہا ہوں کہ ایک طبقے میں خاص طور پر جن ملکوں میں موسم کی شدت ہوتی ہے بلاوجہ روزے نہ رکھنے کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔’’
(خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 382)
روزوں کے حوالہ سے حقیقی بیمار کون شمار ہوتاہے؟
لیکن بعض دفعہ بعض لوگ دوسری طرف بہت زیادہ جھک جاتے ہیں۔بعض اس سہولت سے کہ مریض کوسہولت ہے خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ مَیں بیمارہوں اس لیے روزہ نہیں رکھ سکتا۔اور پوچھو تو کیا بیماری ہے ؟ تم تو جوان آدمی ہو، صحت مند ہو، چلتے پھر رہے ہو، بازاروں میں پھررہے ہو، بیماری ہے تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواؤ تو جوا ب ہوتاہے کہ نہیں ایسی بیماری نہیں بس افطاری تک تھکاوٹ ہو جاتی ہے، کمزور ی ہوجاتی ہے۔ تویہ بھی وہی بات ہے کہ تقویٰ سے کام نہیں لیتے۔نفس کے بہانوں میں نہ آؤ۔فرمایا یہ ہے کہ نفس کے بہانوں میں نہ آؤ۔ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتاہے۔ خوف کا مقام ہے۔ یہی نہ ہو کہ ان بہانوں سے کہیں ان حکموں کو ٹال کر حقیقت میں کہیں بیمار ہی بن جاؤ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
‘‘بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو مگر اس بہانے سے فائدہ اٹھا کرجو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں اور پھروہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوںاور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کرسکتے تھے لیکن ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ گنہگار ہے جوبلا عذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ اس لیے ہر احمدی کو چاہیے کہ جتنے روزے اس نے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعدمیں پورا کرے’’۔(بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ 293)
یہ فتویٰ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا۔ تویہ افراط اورتفریط دونوں ہی غلط ہیں۔ ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔۔خطبات مسرور جلد 1 صفحہ427-426)
کن لوگوں کے لیے روزہ کا فدیہ ہے؟اور اس کی مقدار؟
اللہ تعالیٰ فرماتاہے جو طاقت رکھتے ہیں، مالی وسعت رکھتے ہیں اگرکسی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکے تو فدیہ دیا کریں۔اور فدیہ کیاہے ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔اس کے مطابق جس طرح تم خود کھاتے ہو کیونکہ دوسرے کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنے کا حکم ہے۔اس لیے اچھا کھانا کھلاؤ، یہ نہیں کہ مَیں روزے رکھتا تواعلیٰ کھانے کھاتا لیکن تم چونکہ کم حیثیت آدمی ہواس لیے تمہارے لیے فدیہ کے طورپر یہ بچا کھچا کھانا ہی موجود ہے۔نہیں۔ یہ نہیں ہے، تمہاری نیکی تو اس وقت ہی نیکی شمار ہوگی جب تم خداکی رضا کی خاطر یہ کر رہے ہوگے نہ کہ اس غریب پر احسان جتانے کے لیے۔توجب تم خداکی رضاکی خاطر یہ فدیہ دو گے تو ہو سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس بیماری کی حالت کو صحت میں بدل دے۔کیونکہ فرمایاکہ تمہارا روزے رکھنا بہرحال تمہارے لیے بہترہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:‘‘(وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ، فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ)۔ ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لیے مقرر کیا گیاہے تومعلوم ہواکہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خداہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہیے۔ خداتعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔ وہ اگرچاہے توایک مدقوق کوبھی روزہ کی طاقت عطا کرسکتاہے’’۔یعنی ایک بیمار مریض بہت زیادہ لاغر کمزور ہو، ٹی بی کا مریض ہی ہو بے شک۔‘‘تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خداکے فضل سے ہوتاہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ ا لٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور مَیں اس سے محروم رہا جاتاہوں۔اورکیامعلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یانہ۔اوراس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا’’۔لیکن بعض لوگوں کی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ باوجود خواہش کے روزہ نہیں رکھ سکتے اورمستقلاً فدیہ دینا پڑتاہے۔ایسے لوگوں کو جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا اپنی حیثیت کے مطابق فدیہ دیناچاہیے۔اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتاہے یہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس میں بیان فرمایا۔آپ نے آگے فرمایاکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتو دوسری امتوں کی طر ح اس اُمّت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے لیے رکھی ہیں۔‘‘میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اورکمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتاہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ توخداتعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا۔ اورایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پرہے۔مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کرے’’۔ یعنی بہادر ثابت کرے۔‘‘جو شخص روزہ سے محروم رہتاہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درددل سے تھی کہ کاش مَیں تندرست ہوتااورروزہ رکھتا اوراس کا دل اس بات کے لیے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لیے روزہ رکھیں گے’’۔فرمایا اس کا دل اس بات کے لیے گریاں ہے،بہت تڑپ رہاہے،بہت افسوس کررہاہے، تو فرشتے اس کے لیے روزہ رکھیں گے‘‘بشرطیکہ وہ بہانہ جو ُ نہ ہو تو خداتعالیٰ اسے ہرگزثواب سے محروم نہ رکھے گا’’۔
(البدر 12 دسمبر 1903ء، ملفوظات جلد چہارم صفحہ 258۔259)
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ427-428)
کون کون احباب صرف فدیہ ادا کرسکتے ہیں ؟
‘‘اللہ تعالیٰ نے خود ہی مریض اور مسافر کو سہولت دے دی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ جو روزے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کے لیے فدیہ ہے، پھر وہ ایک مسکین کو روزہ رکھوائے ۔لیکن جو بعد میں روزے پورے کر سکتے ہیں وہ بھی اگر فدیہ دیں تو ٹھیک ہے، ایک نفل ہے، تمہارے لیے بہتر ہے۔ لیکن جب وہ حالت دوبارہ قائم ہو جائے، صحت بحال ہو جائے یا جو وجہ تھی وہ دور ہو جائے توپھر رمضان کے بعد روزے رکھنا ضروری ہے باوجود اس کے کہ تم نے فدیہ دیا ہے، یہی چیز ثواب کا باعث بنے گی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ‘‘وہ لوگ ہیں جن کو کبھی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے ’’۔ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ بیمار جن کی عارضی بیماری ہے دور ہو گئی۔ ایک وہ بیمار جن کی بیماری مستقل ہے اور بعد میں ان کو روزہ رکھنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ تو فرمایا کہ‘‘جن کو کبھی امید نہیں کہ روزہ رکھنے کا موقع مل سکے، مثلاً ایک نہایت بوڑھا، ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اور سال بھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں باقی اَور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزہ کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے’’۔
(بدر جلد6نمبر43 مورخہ 24/اکتوبر 1907ء صفحہ3) (خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 382)
فدیہ کن کن لوگوں کے لیے واجب ہے؟
فرمایا کہ جو لوگ مریض ہوں یا سفر پر ہوں، کیونکہ بیماری بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے، مجبوری کے سفر بھی کرنے پڑ جاتے ہیں توپھر جو روزے چھوٹ جائیں ان کو بعد میں پورا کرو۔ تو یہ سہولت بھی اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی کہ فرمایا کیونکہ تم میری طرف آنے کے لیے، میرے سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک کوشش کر رہے ہو، ایک مجاہدہ کر رہے ہو، اس لیے مَیں نے تمہاری بعض فطری اور ہنگامی مجبوریوں کی وجہ سے تمہیں یہ چھوٹ دے دی ہے کہ سال کے دوران جو چھٹے ہو ئے روزے ہوں وہ کسی اور وقت پورے کر لو۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں یہ چھوٹ تمہیں تمہاری اس کوشش کی قدر کرتے ہوئے دے رہاہوں جو تم باقی دنوں میں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہوئے میرا قرب پانے کے لیے میری خاطر کر رہے ہو۔ فرمایا کیونکہ یہ سب تمہارا عمل میری خاطر ہو رہا ہے اس لیے اگر تم عارضی طورپر بیمار ہو یا بعض سفروں اور مجبوری کی وجہ سے کافی روزے چھوٹ رہے ہیں اور مالی لحاظ سے اچھے بھی ہو تو فدیہ بھی دے دو یہ زائد نیکی ہے۔ اور بعد میں سال کے دوران روزے بھی پورے کر لو۔ اور جو مستقل بیمار ہیں یا عورتیں ہیں مثلاً دودھ پلانے والی ہیں یا جن کے پیدائش ہونے والی ہے وہ کیونکہ روزے نہیں رکھ سکتیں اس لیے ایسے مریضوں کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق فدیہ دینا ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 5اکتوبر 2004 ء۔خطبات مسرور جلد2 صفحہ743۔742)
بغیر وجہ کے روزہ کی جگہ صرف فدیہ ادا کرنا درست نہیں
‘‘فطری مجبوریوں سے فائدہ تو اٹھاؤ لیکن تقویٰ بھی مدِّنظر ہو کہ ایسی حالت ہے جس میں روزہ ایک مشکل امر ہے تو اس لیے روزہ چھوڑا جا رہا ہے، نہ کہ بہانے بنا کر۔ پھر اس کا مداوا اس طرح کرو کہ ایک مسکین کو روزہ رکھواؤ۔ یہ نہیں کہ بہانے بناتے ہوئے کہہ دو کہ مَیں روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتا، پیسے میرے پاس کافی موجود ہیں ،کشائش ہے ،غریب کو روزہ رکھوا دیتا ہوں۔ ثواب بھی مل گیا اور روزے سے جان بھی چھوٹ گئی۔ نہ یہ تقویٰ ہے اور نہ اس سے خداتعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر نیک نیتی سے ادا نہ کی گئی نمازوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازیوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں تو جو فدیہ نیک نیتی سے نہ دیا گیا یا بدنیتی سے دیا گیا ہو گا، یہ بھی منہ پر مارا جانے والا ہو گا۔
(خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 383)
بلاوجہ صرف فدیہ دینا اور روزہ نہ رکھنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ :‘‘صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کے روزہ رکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ صرف فدیہ کا خیال اباحت کا دروازہ کھول دیتا ہے ’’۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ322۔ 24؍ اکتوبر 1907ء)
یعنی ایک ایسا اجازت کا رستہ کھل جائے گا اورہر کوئی اپنی مرضی سے تشریح کرنی شروع کر دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ‘صرف’ کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بعد میں روزے کی طاقت رکھتے ہوں اگر وہ فدیہ دے دیں تو یہ زائد نیکی ہے۔ بعد میں روزے بھی پورے کر لیے اور فدیہ بھی دے دیا۔ اور جو رکھ ہی نہیں سکتے اور رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لیے فدیہ ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 5اکتوبر 2004 ء۔خطبات مسرور جلد2 صفحہ743)
اگر کوئی سالہاسال روزے نہیں رکھے تو وہ اب کیا کرے؟
‘‘بعض لوگ سستی کی وجہ سے یا کسی عذر یا بہانہ کی وجہ سے روزے نہیں رکھتے۔ان کو خیال آجاتاہے کہ روزے رکھنے چاہئیں۔ بعض لوگوں کو ایک عمر گزرنے کے بعد خیال آتاہے کہ ایک عمر گزار دی۔ صحت تھی،طاقت تھی،مالی وسعت تھی، تمام سہولیات میسر تھیں اور روزے نہیں رکھے۔تو مجھے جو نیکیاں بجا لانی تھیں نہیں ادا کرسکا تو اب کیا کروں ؟تو ایسا ہی ایک شخص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضرہوا اورسوال کیا کہ مَیں نے آج سے پہلے کبھی روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ دوں ؟ فرمایا :خدا ہر شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔ وسعت کے موافق گزشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے رکھوں گا’’۔
(البدر جلد 1نمبر 12 بتاریخ 16/جنوری 1903ء)
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت ؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا اورجو اس رمضان کے دوران ان تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہناچاہیے تھا تو اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل،مسند ابی سعید جلد 3 صفحہ 457)
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1 صفحہ429-428)
سحری کے آداب
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ :۔
‘‘بعض لوگ سحری نہیں کھاتے، عادتاً نہیں کھاتے یا اپنی بڑائی جتانے کے لیے نہیں کھاتے اوراٹھ پہرے روزے رکھ رہے ہوتے ہیں ان کے لیے بھی حکم ہے۔ حدیث میں آتاہے۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول ا للہ ؐنے فرمایا کہ سحری کھایاکرو سحری کھانے میں برکت ہے۔’’
‘‘پھریہ کہ سحری کاوقت کب تک ہے ؟ ایک تو یہ کہ جب سحری کھا رہے ہوں تو جو بھی لقمہ یا چائے جو آپ اس وقت پی رہے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ہے اس کو مکمل کرنے کا ہی حکم ہے۔ روایت آتی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایاکہ جس وقت تم میں سے کوئی اذان سن لے اوربرتن اس کے ہاتھ میں ہوتووہ اس کو نہ رکھے یہاں تک کہ اپنی ضرورت پوری کرلے یعنی وہ جو کھا رہاہے وہ مکمل کرلے۔
پھر بعض دفعہ غلطی لگ جاتی ہے اور پتہ نہیں لگتاکہ روزے کاوقت ختم ہو گیاہے اوربعض دفعہ چند منٹ اوپر چلے جاتے ہیں تو اس صورت میں کیا یہ روزہ جائز ہے یانہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ مَیں مکان کے اندر بیٹھا ہواتھا اور میرا یقین تھاکہ ابھی روزہ رکھنے کا وقت ہے اورمَیں نے کچھ کھاکے روزہ رکھنے کی نیت کی لیکن بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہواکہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب مَیں کیاکروں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :ایسی حالت میں اس کا روزہ ہوگیا۔دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اورچند منٹوں کا فرق پڑ گیا۔
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ429)
‘‘اسی طرح سحری کھانے کا معاملہ ہے۔ سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحور … الخ حدیث 1923)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔ خود بھی اور جو اپنے جماعت کے احباب افراد تھے ان کو بھی کہا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لیے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا بلکہ بڑا اہتمام ہوا کرتا تھا۔
اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپ نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ (سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے)اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں (ہیں۔ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔) ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لیے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لیے اور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔’’
(سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 127 روایت نمبر 1163)
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24تا 30جون 2016ء۔صفحہ 6)
گزشتہ سال ایک دوست کو مَیں نے کہا تھا کہ آپ زیادہ دیر تک سحری کھاتے رہتے ہیں۔ اس بات پر انہوں نے شاید میری بات سن کے دوبارہ روزے رکھ لیے۔ لیکن اگر یہ وقت جو تھا اس وقت سے آگے نہیں لے کر گئے تھے پھر تو ٹھیک ہے۔ روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اور اب بھی ہر ایک جائزہ لے سکتا ہے۔ یہاں تو اذانیں نہیں ہوتیں۔ صبح صادق کو دیکھنا ضروری ہے۔ جب پو پھٹتی ہے یعنی جب دھاری نمودار ہوتی ہے تو اس وقت تک سحری کھائی جا سکتی ہے۔
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24تا 30جون 2016ء۔صفحہ 6)
افطاری کے آداب
‘‘افطاری میں جلدی کرنے کے بارہ میں حکم آتاہے۔ابی عطیہ نے بیان کیا کہ مَیں اور مسروق حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور پوچھا اے ام المومنین !حضورؐکے صحابہ میں سے دو صحابی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی نیکی اورخیر کے حصول میں کوتاہی کرنے والا نہیں لیکن ان میں سے ایک تو افطاری میں جلدی کرتے ہیں اورنماز بھی جلدی پڑھتے ہیں۔یعنی نمازکے پہلے وقت میں پڑھ لیتے ہیں اوردوسرے افطاری اورنمازوں میں تاخیر کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ ان میں سے کون جلدی کرتاہے تو بتایاگیاکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ۔ توحضرت عائشہ ؓنے فرمایاکہ آنحضرتؐ بھی اسی طرح کیاکرتے تھے۔ لیکن افطاری میں جلدی کرنے سے کیا مراد ہے ؟اس کا تعین کس طرح ہوگا اس بارہ میں یہ حدیث وضاحت کرتی ہے۔آنحضرتؐ سے روایت ہے کہ غروب آفتاب کے بعد حضور ؐ نے ایک شخص کو ا فطاری لانے کو کہا۔اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں۔ آپ ؐنے فرمایا :افطاری لاؤ۔ اس نے پھرعرض کی کہ حضورؐ ابھی تو روشنی ہے۔ حضور نے فرمایا افطاری لاؤ۔ وہ شخص افطاری لایا تو آپؐ نے روزہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتا دیکھو تو افطار کرلیاکرو۔(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ430-429)
اگر روزہ کے دوران بھول کر کھا پی لیا جائے؟
پھر بعض دفعہ روزے کے دوران انسان بھول جاتاہے کہ روزہ ہے اور کچھ کھا لیتا ہے۔ اس بارہ میں حدیث ہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایاکہ جو شخص روزہ کی حالت میں بھول کر کھا پی لے، وہ اپنے روزہ کو پورا کرے،اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایاہے،یہ روزہ ٹوٹتا نہیں ہے اس کو پورا کرے۔
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ430)
روزہ دار کاشیشہ دیکھنا ،داڑھی کو تیل لگانا ، خوشبو لگانا اور آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
کچھ سوال حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوئے کہ روزہ کی حالت میں یہ یہ جائز ہے یا ناجائز ہے، وہ مَیں آپ کو بتاتاہوں۔سوال یہ ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ یعنی شیشہ دیکھنا جائزہے یا نہیں جائز۔
تو فرمایا جائز ہے۔
پھر لوگ سوال بھی عجیب کرتے تھے۔ایک نے سوال کیا کہ روزہ دار کوداڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یانہیں۔
آ پؑ نے فرمایا جائز ہے۔
پھرسوال پیش ہوا کہ خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں۔
فرمایا جائز ہے۔
پھر ایک سوال ہواکہ آنکھوں میں سرمہ ڈالنا جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ برصغیر میں سرمہ ڈالنے کا بھی ہندوستان پاکستان میں، خاص طورپر دیہاتوں میں کافی رواج ہے۔
تو فرمایامکروہ ہے۔ اور ایسی ضرورت ہی کیاہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے،اگر آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے تو رات کے وقت سرمہ لگا سکتا ہے۔
(بدر جلد نمبر 6صفحہ 14 بتاریخ 24/فرور ی1907ء)
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1صفحہ430)
انتہائی سخت مزدوری اور گرمیوں کا رمضان
(حضرت مسیح موعود ؑکی خدمت میں۔ناقل )ایک سوال پیش ہوا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشتکاروں کو جب کہ کام کی کثرت مثلاً بیج وغیرہ ڈالنا یا ہل چلانا وغیرہ تو ایسے مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پرہے روزہ نہیں رکھا جاتا،گرمی بہت شدید ہوتی ہے تو ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟
تو آپ نے فرمایا کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں، ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے۔پھر جب میسر ہو یعنی جب سہولت پیداہو جائے تب روزہ رکھ لے۔
آپ فرماتے ہیں کہ:‘‘وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیااور اس کا منتظر میں تھا کہ آوے اورروزہ رکھوں۔اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزہ سے محروم نہیں ہے۔ اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جوُ ہیں اور و ہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جیسے اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خداکو فریب دیتے ہیں۔بہانہ جُو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں۔اور تکلفات شامل کرکے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے۔ تکلّفات کا باعث بہت وسیع ہے۔اگرانسان چاہے تو اس تکلّف کی رُو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے۔(کبھی کھڑے ہوکر نمازیں نہ پڑھے، مریض ہی بنا رہے اور بیٹھ کے نمازیں پڑھے) اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے۔مگر خدااس کی نیت اور ارادہ کو جانتاہے جو صدق اوراخلاص رکھتاہے۔ خداتعالیٰ جانتاہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتاہے کیونکہ دردِ دل ایک قابل قدر شئے ہے۔حیلہ جُو انسان تاویلوں پرتکیہ کرتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں۔ جب مَیں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے (کشف میں) ملا اور انہوں نے کہا کہ توُ نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقّت میں ڈالا ہواہے، اس سے باہر نکل۔ اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقّت میں ڈالتاہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کرکے اُسے کہتاہے کہ توُ کیوں مشقّت میں پڑا ہواہے۔یہ لوگ ہیں کہ تکلّف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں۔اس لیے خدا اُن کو دوسری مشقّتوں میں ڈال دیتاہے۔اور نکالتانہیں۔ اوردوسرے جو خود مشقتوں میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے۔انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر اپنے آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خداتعالیٰ اس کے نفس پہ شفقت کرے۔کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی شفقت جنت ہے’’۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے ان فیوض و برکات سے بے انتہا فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ رمضان ہمارے لیے بے انتہا برکتیں لے کر آئے۔
(الفضل انٹرنیشنل 19دسمبرتا25دسمبر2003ء۔خطبات مسرور جلد 1 صفحہ431-432)
(جاری ہے)