دجال اور دابۃ الارض
متشابہات کی بحث میں نہ پڑو۔ مگر یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ پیشگوئیوں کے وہ معنے ہوتے ہیں جو واقعات کی رُو سے صحیح ثابت ہو جائیں۔ اب تیرہ سو برس گذر گئے اور محدثین کا اس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ کوئی کشف اور الہام چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتا۔ سب گویا بالاتفاق یہی مانتے ہیں کہ مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی سے آگے نہیں۔ خود عیسائی قوموں میں مسیح موعود کی بعثت کا وقت یہی سمجھا اور مانا جاتا ہے اور ضروریاتِ مشہودہ محسوسہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں کہ آنے والے کے لیے یہی وقت ہے۔ وہ علامات اور نشانات جو مقرر کیے گئے تھے سب اپنے اپنے وقت پر پورے ہو گئے۔ یاجوج ماجوج بھی
مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ( الانبیآء :97)
کا نظارہ دکھارہے ہیں اور دجّال بھی اپنے دجل اور فریب سے ایک عالَم کو ہلاک کر رہا ہے۔ مگر فرضی دجال جو مسلمانوں کے تخیل میں ہے اس کا ابھی نام و نشان نہیں۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں تو لکھا ہوا ہے کہ ۔
وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ(اٰل عـمران:56)فَاَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (المائدۃ : 15)وَاَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (المائدۃ : 65)
یعنی قیامت تک عیسائیوں کا وجود پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود آکر عیسائیوں سے لڑائی کرے گا۔ میں کہتا ہوں کہ پھر وہ دجّال کہاں گیا جس کی بابت کہتے ہیں کہ حرمین کے سوا اس کا دخل ساری جگہ ہوگا۔ اس تناقض کا جواب ان کے پاس کیا ہے۔ دجال تو کھوٹ کرنے والا ہے۔ اس لیے اس کے معنے تاجر کے بھی ہیں۔ سونے کا نام بھی دجّال ہے اور شیطان کا بھی اصل یہی ہے کہ نصاریٰ کی قوم جو اسلام کی تخریب کے درپے ہے اور طرح طرح کے مشن قائم کر کے اسلام کو نابود کرنا چاہتی ہے اور حق وباطل میں التباس کرتی ہے اور اپنی کتابوں میں تحریف کرتی ہے۔ یہی وہ گروہ ہے جس پر دجّال کا اطلاق ہوا ہے۔ کیونکہ دجّال تو گروہ کا نام ہے۔ اور جو فتور اس نے پیدا کیا ہے۔ وہ عام طور پر محسوس ہو چکا ہے۔ جو بازار ارتداد کا یہاں گرم ہے، وہ مصر اور دوسرے ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ تو اب ایک دانشمند سوچے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو فرضی دجّال سے بچایا تو اس قریب تر آنے والی آفت کا کوئی سامان نہیں کیا؟ اور اس کا ذکر تک بھی نہ کیا؟ یہ غلط ہے۔ خدا نے ذکر کیا اور اس سے بچایا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی گروہ دجّال ہے۔ لغت میں گروہ ہی کے معنے ہیں۔ یہی تحریف وتبدیل کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا اگر ترجمہ کرتے ہیں وہ بھی ایسا۔ اسلام کو معدوم کرنا اپنا فرض اور مدّعا رکھتے ہیں۔ اور یہ گروہ نرے پادریانہ رنگ میں ہی اسلام پر حملہ آور نہیں بلکہ فلسفیانہ رنگ میں بھی حملہ کرتا ہے اور اپنی ذریت کو ایسی طرز پر تعلیم دینا چاہتا ہےکہ اعمال میں سُست ہو جاویں۔ ناول ہیں تو اس طریق پربھی اُن کو اسلام سے دور ہٹانا چاہتا ہے اور فسق وفجور کی زندگی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور تاریخ ہے تو اس رنگ میں بھی بداعتقادی اور بدظنی پھیلانے کا خواہشمند ہے۔ غرض ہر پہلو سے اسلام سے بیزار کرانا چاہتا ہے اور یہ بات بالکل بدیہی ہے۔ جو لوگ ان کی پالیسی سے آگاہ ہیں اوران کے مکائد اور اغراض کا علم رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی مخالفت کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔ شفا خانوں کے اجراء سے بھی یہی غرض ہے۔ غرض جو پیرایہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں اسلام کی مخالفت اصل مدّعا ہوتا ہے۔ اور ارتداد علّتِ غائی ہوتی ہے۔ یہ اس قدر طریق لیے پھرتے ہیں کہ فرضی دجّال کے وہم و خیال میں بھی نہ ہوں گے۔
پھر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے ابتدا میں بھی ان کا ہی ذکر کیا جیسے کہ
وَ لَا الضَّآلِّيْنَ
پر سورہ فاتحہ کو ختم کیا۔ اور پھر قرآن شریف کو بھی اسی پر تمام کیا کہ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ (الاخلاص:2)
سےلے کر
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (النّاس : 2)
تک غور کرو۔ اور وسط قرآن میں بھی ان کا ہی ذکر کیا۔ اور
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ (مریم:91)
کہا۔ بتائو اس دجّال کا بھی کہیں ذکر کیا۔ جس کا ایک خیالی نقشہ اپنے دلوں میں بنائے بیٹھے ہیں۔ پھر حدیث میں آیا ہے کہ دجّال کے لیے سورہ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھو۔ اس میں بھی ان کا ہی ذکر ہے اور احادیث میں ریل کا بھی ذکر ہے۔ غرض جہاں تک غور کیا جاوے۔ بڑی وضاحت کے ساتھ یہ امر ذہن میں آجاتا ہے کہ دجّال سے مراد یہی نصاریٰ کا گروہ ہے۔
دَآبَّةُ الْاَرْضِ
دابۃ الارض کے دو معنے ہیں۔ ایک تو وہ علماء جن کو آسمان سے حصہ نہیں ملا۔ وہ زمین کے کیڑے ہیں۔ دوسرے دابۃ الارض سے مراد طاعون ہے۔
دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ (سبا :15)
قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک انسان میں روحانیت پیدا نہ ہو یہ زمین کا کیڑا ہے اور طاعون کی نسبت بھی سب نبیوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح کے وقت پھیلے گی۔
تُكَلِّمُھُمْ(النمل:83)
تکلیم کاٹنے کو بھی کہتے ہیں۔ اور خود قرآن شریف نے ہی فیصلہ کر دیا ہے۔ اس سے آگے لکھ دیا ہے کہ وہ اس لیے لوگوں کو کاٹےگی کہ ہمارے مامور پر ایمان نہیں لائے۔
یہ غور کرنے کے مقام ہیں۔ اب زمانہ قریب آگیا ہے اور لوگ سمجھ لیں گے۔ طاعون بڑا بھاری کتبِ مقدّسہ اور احادیث میں مسیح موعود کا نشان ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ہوئی تھی۔ خدا تعالیٰ نے مجھے جو کچھ طاعون کی نسبت فرمایا ہے۔ اُسے میں نے مفصّل لکھ دیا ہے۔ یہ میرا نشان ہے۔ جس قدر اس کا تعلق پنجاب سے ہے دوسرے حصہ ملک سے نہیں ہے۔ یہ اس لیے کہ اصل جڑ اس کی پنجاب میں مخفی ہے۔ سہارن پور وغیرہ میں جو لوگ اس سلسلہ کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پنجاب کی طرف سے تکفیر کا فتویٰ تیار ہوا ہے اور پنجاب والوں نے پیش دستی کی ہے اور تہمتیں لگا کر بدنام کیا ہے۔ مگر اب جو یہ بَلا آئی ہے۔ سوچ کر دیکھو تو دشمن اسی طریق سے مانے گا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تو یہ خیال کرتے ہو کہ وہ زمین میں دفن ہوئے اور حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ عقیدہ کہ وہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور پھر یہ کہ مسیح مُردے زندہ کرتے تھے اور وہ خالق تھے اورانہوں نے پرندے بنائے یہاں تک کہ لاکھوں کروڑوں پر ندے اب بھی موجود ہیں۔ میں نے ایک اہلِ حدیث سے پوچھا کہ اگر دوجانور پیش کیے جاویں تو کیا آپ فرق کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ یہ مسیح کا ہے اور وہ خداکا ہے۔ اس نے یہی کہا کہ اب رَل مِل گئے ہیں اس لیے تمیز نہیں ہوسکتی۔ پھر جب حضرت عیسیٰ کو خالق مانتے ہیں۔ مُـحْیٖ مانتے ہیں۔ عالم الغیب مانتے ہیں۔ اور بقول اُن کے قرآن میں اُن کی موت کا بھی کہیں ذکر نہیں تو پھر خدا بنانے میں کیا شک رہا۔ تعجب کی بات ہے کہ وہی
مُتَوَفِّيْكَ
کا لفظ حضرت مسیح کی نسبت آئے تو اس کے معنے ہوں جسم سمیت آسمان پر اُٹھانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آئے تو کہہ دیا جائے کہ اس کے معنے ہیں مرنا۔ اب غور کر کے بتائو کہ عیسائیوں کو کتنا بڑا موقع اور ہتھیار حملہ کرنے کا آپ د یدیا ہے۔ اگر عیسائی سوال کریں تو پھر ان کے پاس کیا جواب ہے۔ آپ نہ پڑھ سکیں گے کہ
اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ(آل عمران: 56)
یا
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ(المائدۃ:118)
کیونکہ اس کے معنے انہوں نے آسمان پر زندہ اٹھانے کے کیے ہیں۔ پھر کس آیت سے ان کی وفات ثابت کریں گے اور خدائی کو باطل کریں گے۔
یقیناً سمجھو کہ ان ہتھیاروں سے ان پر فتح نہیں پاسکتے۔ ان پر فتح اور کسرِ صلیب کے لیے وہی ہتھیار اور حربہ ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے۔ بیشک مسلمانوں کو اس کی پروا نہیں کہ اسلام پر کیا آفت آرہی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کو پروا ہے جس کا باغ ہے اس کو پروا ہے۔ اس کا باغ کاٹا جاتا ہے اور جلایا جاتا ہے۔برباد کیا جاتا ہے۔ اس کی غیرت نے اس کی حفاظت کے لیے تقاضا کیا ہے اور اب ایک سلسلہ خود اس نے قائم کیا ہے اور کوئی نہیں ہے جو اس کو روک سکے۔
(ملفوظات جلد3صفحہ451۔455۔ایڈیشن1984ء)
٭…٭…٭