الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجست

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی یادیں

رسالہ ‘‘انصارالدین’’یوکے مارچ اپریل 2013ء میں ہومیوڈاکٹر رانا سعید احمد صاحب (مدیر سہ ماہی رسالہ ‘‘ھوالشافی’’) نے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنی چند یادیں سپرد قلم کی ہیں۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 9 مئی 1978ء کا دن میری یادوں میں محفوظ ہے جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرینکفرٹ کی مسجد نور میں نماز مغرب و عشاء کے بعد اپنے احباب میں رونق افروز تھے۔ محترم نواب منصور احمد خانصاحب جرمنی کے مبلغ انچارج تھے۔ اُس زمانہ میں لوگ اتنے کم تھے کہ مسجد نُور بھی پوری نہ بھر سکی تھی۔ حضورؒ کرسی پر تشریف فرما تھے اور لوگ مختلف سوالات کررہے تھے۔ کوئی اپنی بیماری کا ذکر کرکے دوا پوچھتا تو کوئی اپنے ذاتی مسائل و پریشانیوں کا اظہار کرکے دعا کی درخواست کرتا۔ حضورؒ مسکراتے ہوئے سب کو اطمینان بخش جوابات عطا فرماتے رہے۔

دورانِ مجلس حضورؒ کی خدمت میں کافی پیش کی گئی جس میں condensed milk استعمال کیا گیا تھا۔ دودھ کا ڈبّہ بھی کافی کے ساتھ ہی میز پر موجود تھا۔ حضورؒ نے کافی کا گھونٹ لیا تو فوراً پوچھا کہ اس میں کونسا دودھ استعمال کیا گیا ہے؟ اس پر حضورؒ کی خدمت میں ایک کمپنی کا تیار کردہ ٹن پیک پیش کیا گیا۔ حضورؒ نے اسے ملاحظہ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس دودھ کو لمبا عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے اس میں ایک کیمیکل شامل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ کیمیکل شامل نہ کیا جائے تو دودھ بہت جلد خراب ہوجائے گا۔ لیکن یہی کیمیکل انسانی جسم پر بُرے اثرات مرتب کرتا ہے اور بیماری پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے یہ دودھ مضر صحت ہے اور اس سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ تازہ دودھ استعمال کرنا چاہیے۔

اُس دن سے حضورؒ کی یہ نصیحت میرے دل پر ایسے نقش ہوگئی کہ بعد میں بہت تکلیف اٹھانے کے باوجود بھی Longlife Milk کے استعمال پر دل آمادہ نہیں ہوا۔ اسی طرح بچوں کو بھی ہمیشہ بازار میں دستیاب تازہ دودھ ہی پینے کے لیے مہیا کیا۔ حالانکہ اُس وقت Longlife Milk خریدنا اور گھر میں محفوظ کرنا آسان تھا۔ لیکن اس میں موجود کیمیکل (جو ایک قسم کا زہر ہی ہے)کے بداثرات کے بارے میں لوگ زیادہ فکرمند نہیں ہوا کرتے تھے۔

بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی متعدد مرتبہ خاکسار کو کافی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ حضورؒ بھی چائے اور کافی میں ہمیشہ تازہ دودھ استعمال کرنا پسند فرماتے تھے۔

بعض لوگ کہتے ہیںکہ اتنی معمولی مقدار کے کیمیکل سے اتنے بڑے انسانی جسم پر کون سے ایسے مہلک اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ خود جرمن قوم اور دیگر ترقی یافتہ قوموں کے افراد بھی تو لمبے عرصے سےLonglife Milkکا استعمال کررہے ہیں۔ تو اُن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں خلافت جیسی نعمت عطا کی ہے۔ خلیفۂ وقت ہماری جسمانی اور روحانی نشوونما کے لیے حکمت سے بھرپور ہدایات دیتے ہیں اور ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرماتے ہیں۔ آج دنیا میں اکثر بیماریاں ایسے ہی زہروں کی وجہ سے پھیل رہی ہیں جو خوراک کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں پس خلیفۃالمسیح کی اس ہدایت پر عمل کرنے کے نتیجے میں یقیناً ہم خود کو کئی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

بے شک دودھ اپنی ذات میں تو بیماری کا باعث نہیں ہوتا لیکن Longlife Milk میں جو زہر شامل کیا جاتا ہے وہ آہستہ آہستہ انسانی جسم میں سرایت کرتا جاتا ہے اور کئی بیماریوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

اسی مجلس کی ایک اَور بات بھی مجھے یاد ہے۔ حضورؒ نے ایک نوجوان کی طرف دیکھ کر دریافت فرمایا کہ کیا تم فٹ بال کے کھلاڑی ہو؟ اُس نوجوان نے نفی میں سر ہلایا تو مسکراتے ہوئے فرمایا: پھر بال اتنے لمبے کیوں رکھے ہوئے ہیں! یہ نوجوان اپنے سر پر رومال بھی باندھے ہوئے تھا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ جو رومال ہم صفائی کے لیے استعمال کرتے ہیں، اُسے نماز کے وقت سر پر باندھنا مجھے پسند نہیں ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے حوالے سے یہ بھی عرض کردوں کہ حضورؒ بڑے ہی شفیق، دُوراندیش اور گہری نظر رکھنے والے انسان تھے۔ خاکسار 1981ء میں جب پاکستان گیا تو حضورؒ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت کافی وقت عنایت فرمایا۔ حضورؒ چونکہ خاکسار کے خاندان کو بھی جانتے تھے چنانچہ خاکسار نے حضور انورؒ سے مشورہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور! اب مَیں نے واپس جرمنی نہیں جانا بلکہ ربوہ میں ہی ڈیری فارم وغیرہ بنانے کا ارادہ ہے۔ اس پر حضورؒ نے کچھ توقف فرمایا اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ نہیں، تم واپس جرمنی جاؤ۔ مَیں نے عرض کیا کہ پھر حضور دعا کریں کہ وہاں پر ویزے کا کوئی بندوبست ہوجائے کیونکہ حالات تو سازگار نہیں ہیں۔ تب حضورؒ نے نہایت شفقت سے دعائیں دیں اور فرمایا کہ واپس جانے سے پہلے مجھے مل کر جانا۔ اس پر خاکسار کو بہت خوشی ہوئی کہ دوبارہ دیدار حاصل ہوگا۔ چنانچہ مئی 1981ء میں خاکسار حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کرنے پر عرض کیا کہ چند روز تک واپس جرمنی جانے کا ارادہ ہے۔ اس پر حضورؒ نے دعا دی اور خاکسار کے رخسار پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا: جاؤ، اللہ حافظ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر مَیں نے واقعۃً ہر قدم پر معجزات دیکھے۔ نہ صرف ربوہ سے جرمنی تک پہنچنے اور وہاں سیٹ ہونے تک بلکہ اُس کے بعد سے آج تک بھی وہ معجزات جاری ہیں۔ یہ حضورؒ کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ خاکسار آج بھی یورپ میں موجود ہے اور ساری مشکلات اللہ تعالیٰ نے آسان فرمادی ہیں۔ دنیا کی نعماء سے بھی نوازا ہے اور دین کی خدمت کی توفیق بھی عطا فرمائی ہے۔ مخلوق خدا کی خدمت کی سعادت بھی مل رہی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

………٭………٭………٭………

مکرم عبداللہ امانت صاحب (لالہ جی)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مزار مبارک پر دعا کے لیے آنے والوں میں سے اکثر نے کسی بینچ پر یا کیبن میں ڈیوٹی پر بیٹھے ایک سادہ مزاج، مسکین طبع، عمررسیدہ اور دعاگو شخص کو دیکھا ہوگا جنہیں سب لالہ جی کہتے تھے۔ یہ مکرم عبداللہ امانت صاحب تھے جو قریباً اڑھائی ماہ دل کے عارضے میں مبتلا رہنے کے بعد 19؍دسمبر 2011ء کی صبح 81سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت مرحوم کی نماز جنازہ مسجد فضل لندن میں پڑھائی اور بعدازاں بروک ووڈ احمدیہ قبرستان ووکنگ میں تدفین عمل میں آئی۔ رسالہ ‘‘انصارالدین’’ یوکے مئی جون 2012ء میں مرحوم کا ذکرخیر اُن کے برادر خورد مکرم مجید احمد صاحب سیالکوٹی مربی سلسلہ کے قلم سےشامل اشاعت ہے۔

لالہ جی کو مزار مبارک پر قریباً پونے نو سال تک خدمت کی توفیق ملی اور حضور انور ایدہ اللہ کے ذاتی وظیفے سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اس خدمت کا آغاز اُس وقت ہوا جب آپ حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا کرتے ہو؟ عرض کیا کہ اَن پڑھ ہوں اور فارغ ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ فارغ تو نہیں رہنا چاہیے، اسلام آباد میں حضورؒ کے مزار پر ڈیوٹی کے لیے چلے جاؤ۔ چنانچہ آپ اسلام آباد آکر ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوئے اور مزار مبارک پر اپنی ڈیوٹی شروع کردی۔ مزار مبارک پر اپنی ڈیوٹی کی ادائیگی کے علاوہ نماز باجماعت میں حاضری آپ کی روح کی غذا تھی۔

لالہ جی کو خلافت سے بہت عقیدت اور لگاؤ تھا کیونکہ آپ نے اپنی ذات میں خلفاء کی دعاؤں کی تاثیر اور قبولیت کے بےشمار نشانات مشاہدہ کیے تھے۔ تین چار بچوں کے فوت ہوجانے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی دوا اور دعا سے خداتعالیٰ نے فضل فرمایا تھا اور پھر آپ کی اولاد بچنا شروع ہوئی تھی۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی جو خدا کے فضل سے حیات ہیں اور صاحبِ اولاد ہیں۔

1985ء میں جب لالہ جی کے والد محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب کی وفات ہوئی تو غیراحمدی رشتہ دار وں نے عملاً زمین پر قبضہ کرکے کہا کہ تم تو مرزائی ہو۔ ان حالات میں آپ مقروض ہوگئے اور مجبوراً آپ کو پاکستان سے باہر آنا پڑا۔ لندن پہنچ کر جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے سارے حالات عرض کیے تو حضورؒ نے تسلّی دی اور خاص دعا بھی کی۔ چنانچہ معجزانہ طور پر آپ کو کہیں جائے بغیر، انٹرویو دیئے بغیر اور کسی وکیل کی مدد کے بغیر ہی گھر بیٹھے بیٹھے ہوم آفس کا خط مل گیا جس میں چار سال کے ویزے کی نوید تھی۔ پھر چند ہی مہینوں میں سارے قرضے بھی اتر گئے۔ بچے بھی باہر آگئے اور پھر آپ نے اپنے باقی بہن بھائیوں کی مدد کی توفیق بھی پائی۔

لالہ جی بہت محنتی تھے۔ پاکستان میں اپنی زمینوں پر خود زمیندارہ کرتے رہے۔ دس سال تک پاکستان ریلوے میں ملازمت بھی کی۔ ہر جگہ شرافت، دیانت اور امانت کا ثبوت دیا۔ کبھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔ اسی لیے آپ کی وفات پر بہت سے غیراحمدی بھی تعزیت کے لیے آپ کے گھر آئے۔

1953ء میں احمدیوں کے خلاف جب تحریک چلی تو فسادیوں نے آپ کے گھر پر بھی حملے کا ارادہ کیا۔ اُن خوفناک حالات میں آپ نے دیگر احمدیوں کے ساتھ مل کر نہایت بہادری سے ہر قسم کی مخالفت کا مقابلہ کیا۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ آپ پر حملے سے قبل ہی دشمنوں میں باہم ایسی پھوٹ پڑگئی کہ وہ آپس میں ہی دست و گریبان ہوگئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اُن کے شر سے معجزانہ طور پر محفوظ رکھا۔

لالہ جی کو بزرگوں سے بھی بہت عقیدت تھی۔ آپ کے والد محترم اپنے علاقے کے کئی صحابہ کو اپنے گھر پر مدعو کرتے اور ٹھہراتے تو اُن بزرگوں کی خدمت کی سعادت اکثر لالہ جی کو ہی ملتی۔ اسی طرح بعض بزرگوں کے گھروں میں دیہات کی سوغات گُڑ وغیرہ بھی دینے خود لالہ جی جایا کرتے اور ان بزرگوں کی صحبت سے فیض بھی حاصل کرتے۔

………٭………٭………٭………

مجلس انصاراللہ جرمنی کے سہ ماہی ‘‘الناصر’’ اپریل تا جون 2012ء میں ایک محفل مشاعرہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں شامل مکرم ڈاکٹر وسیم احمد طاہر صاحب کا نمونہ کلام ہدیۂ قارئین ہے:

تم روک لو گے راستہ یہ صرف بھول ہے

دیکھو خدا کے ساتھ لڑائی فضول ہے

ہر ہر قدم پہ قہرِ خدا کا نزول ہے

سچائی جانچنے کا بھی کوئی اُصول ہے

تقدیر یہ اٹل ہے نہیں اختیار میں

‘‘مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں’’

یہ رائیگاں سفر ہے سنو اب بھی مان لو

اب بھی ہے وقت ، سچ کی حقیقت کو جان لو

قصوں کی راہ چھوڑ کے ، زندہ نشان لو

جو کھو چکی ہے پھر سے وہی آن بان لو

دنیا کو چھوڑ دو درِ مولا کے پیار میں

‘‘مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں’’

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button