آنحضرت ﷺ کی مدنی زندگی- ایک طائرانہ نظر
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ مَدِیْنَتِنَا (مسلم)
ہجرت مدینہ اور اس کے اثرات
سید المرسلین حضرت اقدس محمدرسول اللہﷺ تاریخ عالم کے وہ عظیم شاہکار ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے تمام اوّلین وآخرین کے لیے بطور نمونہ پیدا کیا ہے۔اس لیے آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ اس قابل ہے کہ اُس سے رہ نمائی لی جائے اور آپؐ کی زندگی کے ہر واقعہ سے سبق سیکھاجائے۔ ہجرت مدینہ تاریخ اسلام کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جس سے آنحضورﷺ اور آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا اوراسلام کے غلبہ کی راہ ہموار ہوئی۔بعثت کے بعد آنحضرتﷺ نے اہل مکہ کوبت پرستی چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا تو وہ آپؐ کی دعوت پر برافروختہ ہوگئے۔ اُنہوں نے بالعموم آپؐ کی دعوت کو جھٹلایا اور آپؐ کو اورآپؐ پر ایمان لانے والے کمزوروضعیف مسلمانوں کو ستانا شروع کردیا۔جب کمزور مسلمانوں پر مکہ کی زمین انتہائی تنگ کر دی گئی تو آنحضرتﷺ نے دو بار اُنہیں ہجرت حبشہ کی اجازت دی۔ان حالات میں آنحضورﷺ اور آپ کے قبیلہ بنو ہاشم اور بنومطلب پر کفار مکہ کا دباؤ مزید بڑھ گیا اور انہوں نے ان کا اقتصادی وسماجی بائیکاٹ کردیا۔ چنانچہ رسول کریمﷺ، آپؐ کے صحابہؓ اور بنو مطلب کے اکثر لوگ تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہوکر رہ گئے۔ اس بائیکاٹ کے نتیجہ میں آنحضرتﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں پر ایسی سختیاں اور پریشانیاں وارد ہوئیں جن کے تصوّر سے بھی انسان لرز اُٹھتا ہے۔ انہی مشکلات اور سختیوں کی وجہ سے آنحضرتﷺ کی رفیقہ ٔحیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا اور آپؐ کے پیارے چچا حضرت ابو طالب بھی آپ کو داغ مفارقت دے گئے۔آنحضرتﷺ کو ان دو ہستیوں کی وفات کا انتہائی صدمہ ہوا جبکہ اس کے بعد قریش کی سختیاں مزید بڑھ گئیں۔چنانچہ آپؐ نے چاہا کہ مکہ مکرمہ سے باہر کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں اسلا م کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ آسانی سے ادا کیا جاسکے۔ اسی مقصد کے تحت آپ طائف تشریف لے گئے لیکن اُن بدبختوں نے بھی آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اوباش وشریر لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا جو آپ پر پتھر پھینکتے اور بیہودہ گالی گلوچ کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ کے کپڑے اور جسم لہو لہان ہوگیا۔ ان ظالموں کی شدید تکلیفوں اور صدموں کو برداشت کرتے ہوئے آپؐ مکہ واپس تشریف لے آئے۔ مکہ مکرمہ تشریف لانے پر قریش کی ایذارسانی میں مزید اضافہ ہوگیا اور مسلمانوں کو جبراً خدائے واحد کی عبادت سے روکا جانے لگا اور مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔مردوں کو بےعزت اور عورتوں کو بےحرمت کیا جانے لگااور ان کے مال واسباب کوبے دریغ لوٹا جانے لگا۔سرولیم میور نے قریش مکہ کے خطرناک ارادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
‘‘یہ نیا مذہب صفحۂ دنیا سے ملیا میٹ کردیا جاوے اور اس کے متبعین اس سے بزور روک دیئے جاویں۔ اور قریش کی طرف سے جب ایک دفعہ مخالفت شروع ہوئی تو پھر دن بدن اُن کی ایذاء رسانی بڑھتی اور آتش غضب تیز ہوتی گئی۔’’
(میور صفحہ 61۔ بحوالہ سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ136)
مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد
نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے قبل مدینہ میں مسلمانوں کی تعداداگرچہ مکہ کے مسلمانوں سے بڑھ چکی تھی لیکن اسلام ابھی تک بہت کمزوری کی حالت میں تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اپنی کتاب سیرت خاتم النبیینؐ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
‘‘یثرب میں البتہ جلد جلد اسلام پھیلا اور قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ہجرت نبوی سے پہلے مدینہ والوں میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد بشمولیت زن وفرزند کئی سو تک ضرور پہنچ چکی ہوگی۔ اس طرح گویا ہجرت تک کل مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ قریباً ایک ہزار بنتی ہے۔جن میں اگر عورتوں اور بچوںکو الگ رکھیں تو بالغ مرد شاید تین چار سو ہوں گے لیکن یہ بھی ہجرت کے بعد سب کے سب آنحضرتﷺ کے پاس مدینہ میں موجود نہیں تھے بلکہ کچھ متفرق طورپر اپنے اپنے قبائل میں تھے۔ کچھ حبشہ میں تھے اور کچھ ہجرت کی طاقت نہ رکھنے والے ابھی تک مکہ میں ہی قریش کے مظالم کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے۔ اس قلیل نفری کے ساتھ اسلام مذاہبِ عالم کی جولانگاہ میں بازی لے جانے کے دعوے بھرتا ہوا قدم زن ہورہا تھا۔’’
(سیرت خاتم النبیین صفحہ 253)
رسول اللہﷺ کی قباء اور مدینہ میں تشریف آوری
کفار مکہ کے بڑھتے ہوئے مظالم کے پیش نظر صحابہ نے انفرادی اور اجتماعی طورپر مدینہ کی طرف ہجرت شروع کردی۔اس کے کچھ عرصے بعد آنحضرتﷺ بھی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ رسول خداﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اذن اور منشا سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اس کے نہایت خوشگوار اثرات مترتب ہوئے اور اسلام کی ترویج واشاعت اور ترقی میںبہت سرعت آگئی۔
رسول اللہﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت ایک عجیب سماں تھا۔خدا تعالیٰ کے مقدس ومحبوب رسولﷺ اپنے عزیزواقارب کے مظالم سے تنگ آکر اپنے وطن سے نکل کر ایک ایسی بستی کی طرف تشریف لائے تھے جہاں خون کے رشتوں سے بڑھ کر چاہنے والے آپ کے عاشق جاںنثار، جان ودل فرش راہ کیے آپؐ کی راہ تک رہے تھے۔آج مدینہ کے اوس وخزرج کی قسمت کا ستارہ اپنے عروج پر تھا اور وہ اس نوشتۂ تقدیر کے پورا ہونے پر پھولے نہ سماتے تھے۔
آنحضورﷺ کی تشریف آوری کی خبر سن کر لوگ نہایت شوق کے ساتھ جلدی جلدی اُس سمت کی طرف لپک رہے تھے جس طرف سے آنحضورﷺ تشریف لارہے تھے۔ مدینہ والوں کی خوشی دیدنی تھی اور مہاجر صحابہ بھی اپنے محبوب کی آمد پر حمدوشکر کے گیت گارہے تھے۔ انصار مدینہ نے اپنے محبوبؐ کو دیکھا توان کے چہرے خوشی سے تمتما اُٹھے گویا دنیا جہان کی تمام نعمتیں اُن کی جھولی میں جمع ہوگئی ہوں۔یہ دن اُن کی زندگیوں میںان گنت خوشیوں کی نوید لے کر طلوع ہواتھا۔چنانچہ لکھا ہے کہ
‘‘براء بن عازب کی روایت ہے کہ جو خوشی انصار کو آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے وقت پہنچی ویسی خوشی کی حالت میں مَیں نے انہیں کبھی کسی اور موقعہ پر نہیں دیکھا۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرتﷺ تشریف لائے تو ہم نے یوں محسوس کیا کہ ہمارے لیے مدینہ روشن ہوگیا اور جب آپؐ فوت ہوئے تو اس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینہ کا شہر کبھی نظر نہیں آیا۔ ’’
(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 264)
آنحضورﷺ سیدھے شہر مدینہ میں داخل ہونے کی بجائے دائیں طرف مدینہ کی بالائی آبادی قباء کی طرف تشریف لے گئے جہاں انصار کے بعض خاندان آباد تھے۔یہ آبادی اصل شہر سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر ہے۔ قباء میں آنحضورﷺ حضرت کلثوم بن الہدم کے مکان پر فروکش ہوگئے۔ مدینہ میں آنحضورﷺ کی آمد کی خبر پہنچی تو مسلمان جوق در جوق آپ کی رہائش گاہ کی طرف آنے لگے۔
مسجد قباء کی تعمیر
آنحضورﷺ نے قباء میں تشریف لانے کے بعد جو پہلا کام کیا وہ ایک مسجد کی تعمیر تھی۔صحابہؓ نے مل کر مزدوروں اور معماروں کا کام کیا۔چنانچہ چند دنوں کی محنت سے یہ مسجد تیار ہوگئی۔ نبی کریمﷺ کو اس مسجد سے بہت محبت تھی ۔آپؐ مدینہ تشریف لے جانے کے بعد بھی ہر ہفتہ قباء تشریف لے جاتے اور اس مسجد میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ مسجد قبا ءاسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد نبی کریمﷺکے ہاتھوں رکھی گئی۔ اسلام کی پہلی مسجد قباء یا مسجد نبوی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کا قیام تقویٰ کے حصول کے لیے ہے۔
لَمَسْجِدٌاُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ ط فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْاط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ
(التوبۃ:108)
یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہو زیادہ حقدار ہے کہ تُو اس میں (نماز کےلیے ) قیام کرے اس میں ایسے مرد ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ وہ پاک ہوجائیں اور اللہ پاک بننے والوں سے محبت کرتا ہے۔
مدینہ کی طرف روانگی اورپہلی نماز جمعہ
قباء میں دس روز سے زائدعرصہ قیام کے بعد آنحضور ﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔اس موقع پر انصارومہاجرین کی ایک بڑی تعداد آپؐ کے ہم راہ تھی۔ رسول اللہﷺ ایک اونٹنی پر سوار تھے یہ قافلہ شہر کی طرف رواں دواں تھا کہ راستہ میں نمازِ جمعہ کا وقت آگیا۔ نبی کریمﷺ نے بنوسالم بن عوف کے محلہ میں ٹھہر کر خطبہ دیا اور نماز ادا کی۔گو کہ اس سے پہلے جمعہ کا آغاز ہوگیا تھا مگر یہ پہلا جمعہ تھا جو آنحضورﷺ نے ادا فرمایا۔پہلے خطبہ جمعہ میں آپؐ نے صحابہ کو خاص طورپر تقویٰ پر قائم ہونے کی تلقین فرمائی۔ اس کے بعد سے جمعہ کی نماز کا طریق باقاعدہ طورپر جاری ہوگیا۔جس جگہ نبی کریمﷺ نے پہلا جمعہ ادا کیا تھا اس جگہ ایک مسجد تعمیر ہوچکی ہے جو مسجدالجمعہ کے نام سے موسوم ہے۔
نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد حضورﷺ کا قافلہ دوبارہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔آپؐ مسلمانوں کے جس گھر کے قریب سے گزرتے وہ جوشِ محبت سے آگے بڑھ کر عرض کرتے ‘‘یارسول اللہؐ !یہ ہمارا گھر یہ ہمارا مال وجان حاضر ہے اور ہمارے پاس حفاظت کا سامان بھی ہے آپ ہمارے پاس تشریف فرماہوں۔’’(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ267)مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی خوشی بھی اس موقع پر دیدنی تھی۔وہ جوش محبت میں گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر خوشی کے گیت گارہی تھیں۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعٰی لِلّٰہِ دَاعِ
(زرقانی جلد 1صفحہ359 مطبوعہ مصر بمطبع الازہریۃ المصریۃ 1325ھ بحوالہ سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 267)
یعنی آج ہم پر کوہِ وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے۔ اس لیے اب ہم پر ہمیشہ کے لیے خدا کا شکر واجب ہوگیا ہے۔
آنحضورؐ کے مدینہ میں تشریف لانے پر ہر چہرہ باغ وبہار ہوگیا اور کفروشرک کی جگہ توحید کی روشنیاں جگمگانے لگیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ جس دن مدینہ تشریف لائے تھے۔ آپؐ کی آمد کی وجہ سے اس دن مدینہ کا گوشہ گوشہ روشن ہوگیا تھا۔
(ترمذی کتاب المناقب باب فی فضل النبیﷺ )
آنحضورﷺ کی اونٹنی بنونجار کے محلہ میں پہنچی تواُن کی خوشی دیدنی تھی۔سب کی زبان پر اب ایک ہی سوال تھاکہ حضورﷺ کس گھر میں تشریف فرماہوں گے۔ہر کسی کی یہ خواہش تھی کہ یہ فخر اور یہ عزت اُسی کے حصہ میں آئے بعض لوگ جوشِ محبت میں حضورﷺ کی اونٹنی کی باگوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے۔یہ حالت دیکھ کر رسول خداﷺ نے فرمایا : میری اونٹنی کو چھوڑ دو کہ یہ اس وقت مامور ہے۔ یعنی جہاں خدا کا منشاء ہو گایہ وہیں بیٹھ جائے گی۔یہ فرماکر آپؐ نے اونٹنی کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔چنانچہ اونٹنی آگے بڑھتی رہی اور تھوڑی دُور جاکر اس جگہ بیٹھ گئی جہاں بعد میں مسجد نبوی اور حضورﷺ کے حجرات تعمیر ہوئے۔یہاں بیٹھنے کے بعد اونٹنی دوبارہ اٹھ گئی مگر چند قدم چلنے کے بعد پھر لوٹ آئی اور اسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی دوبارہ بیٹھ گئی۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا : ھٰذَا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْمَنْزِلُ(بخاری،کتاب الہجرت)یعنی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی منشاء میں یہی ہماری قیام گاہ ہے۔ آنحضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ اپنے لوگوں میں سے یہاں قریب ترین گھر کس کا ہے ؟ اس پر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فوراً آگے بڑھے اور عرض کیا : ‘‘ یارسول اللہؐ ! میرا گھر ہے اور یہ میرا دروازہ ہے۔ تشریف لے چلئے۔’’ آپؐ نے فرمایا: ‘‘اچھا جائو اور ہمارے لیے کوئی ٹھہرنے کی جگہ تیار کرو۔’’ (مسلم جلد2صفحہ 197وابن ہشام بحوالہ سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ268) حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فوراً اپنے مکان کو ٹھیک کرکے آگئے۔ چنانچہ آنحضورﷺ ان کے ساتھ اندر تشریف لے گئے۔
مسجد نبوی کی تعمیر
جس جگہ آنحضورﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی وہ جگہ دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی جو حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں رہتے تھے۔ یہ ایک ناہموار جگہ تھی جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے اور باقی حصہ میں کچھ کھنڈرات تھے۔ آنحضورﷺ نے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے اس جگہ کو پسند فرمایا اور دس دینار میں یہ زمین خرید لی۔چنانچہ درختوںکو کاٹ کر اور جگہ کو ہموار کرکے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کردی گئی۔آنحضورﷺ نے خدا تعالیٰ سےدعا مانگتے ہوئے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا،صحابہ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا۔ رسول کریمﷺکبھی کبھی خود بھی تعمیر کے کام میں شرکت فرماتے۔ مسجد کی عمارت پتھروںکی سِلوں اور اینٹوں کی تھی جبکہ چھت کھجور کے تنوں اورشاخوںکو ڈال کر بنائی گئی۔مسجد کا فرش کچا تھا اور زیادہ بارش کے وقت چھت ٹپکنے لگ جاتی تھی بعد میں کنکریوںکا فرش بنادیا گیا۔پہلے پہل مسجد کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا لیکن تحویل قبلہ کے وقت رُخ تبدیل کردیا گیا۔
انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات
رسول کریمﷺ کی ہجرت سے قبل بہت سے مسلمان مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے اور اس ہجرت کی وجہ سے مہاجرین کہلاتے تھے۔دوسرے وہ لوگ تھے جو مدینہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے رسول کریمﷺ اور مکہ سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کو پناہ دی تھی اس لیے وہ انصار کہلائے۔ مہاجرین نے چونکہ بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کی تھی اس لیے انصار مدینہ نے ان کے ساتھ حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر سلوک کیا اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اس رشتۂ اخوت اور تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے لیے نبی کریمﷺ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان پر سب انصارومہاجرین کو جمع فرمایا اور ان سب کی باہم مناسبت کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے انصارومہاجرین کے دو دو جوڑے بناکر انہیںایک ایسے رشتۂ اخوت میں پرودیاجس کے سبب وہ سب یک جان دوقالب ہوگئے۔اس سے پہلے اس رشتہ ٔ اخوت و مودّت جیسی ادنیٰ سی مثال بھی روئے زمین پر نہیں پائی جاتی۔ اس طرح انصارومہاجرین کے نوّے جوڑے بنے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو سعد ؓابن الربیع انصاری کا بھائی بنایا گیا۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جوش محبت سے اپنے سارے مال ومتاع کانصف گن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سامنے رکھ دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں ایک کو مَیں طلاق دے دیتا ہوں تم عدت گزرنے کے بعد اس سے شادی کرلینالیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت سعد ؓکا شکریہ ادا کیا اور بازار کا رستہ پوچھ کر وہاں گئے اور چھوٹی موٹی تجارت شروع کردی۔اللہ تعالیٰ نے اُس تجارت میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی اور کچھ ہی عرصہ میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا شمار امیر کبیر لوگوں میں ہونے لگا۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں مواخاتِ مدینہ کے کئی رنگ میں مفیدوبابرکت ہونے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ
‘‘اوّل: جو پریشانی اور بے اطمینانی مہاجرین کے دلوں میں اس بے وطنی وبے سروسامانی کی حالت میں پیدا ہوسکتی تھی وہ اس سے بڑی حد تک محفوظ ہوگئے۔
دوم : رشتہ داروں اور عزیزوں سے علیحدگی کے نتیجہ میں جس تکلیف کے پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ وہ ان نئے روحانی رشتہ داروں کے مل جانے سے جو جسمانی رشتہ داروں کی نسبت بھی زیادہ محبت کرنے والے اور زیادہ وفادار تھے پیدا نہ ہوئی۔
سوم : انصار ومہاجرین کے درمیان جو محبت واتحاد مذہبی اور سیاسی اور تمدنی لحاظ سے ان ایام میں ضروری تھا وہ مضبوط ہوگیا۔
چہارم : بعض غریب اور بے کار مہاجرین کے لیے ایک سہارا اور ذریعہ معاش پید اہوگیا۔’’
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 277)
میثاق مدینہ
رسول کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ کو مدینہ کا حاکم اعلیٰ تسلیم کرلیا گیا۔چنانچہ آپؐ نے بلاتفریق مذہب وملت تمام باشندگان کے ایک جیسے حقوق قائم کرتے ہوئے ایک ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی جو اقوام عالم کے لیے بطور ایک رول ماڈل(Role Model) کے تھی۔ جس کے تمام باشندے اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حلیف اور دستِ راست قرار پائے۔آپؐ نے مدینہ کے یہود کی مذہبی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اُن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ومعروف ہے۔
میثاق مدینہ بلا شک وشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدا داد بصیرت کا عظیم شاہکار ہے۔ ایک ایسا شخص جسے اُس کے ہم وطنوں نے وطن چھوڑ دینے پر مجبور کردیا تھا، ہجرت کی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے یثرب (مدینہ) پہنچتا ہے اور اس شہر کے چند محلوں پر مشتمل ایک ایسی ریاست قائم کرتا ہے جس نے آگے چل کر قبائلی عصبیت وقومیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے عالمگیر برادری کی بنیادیں استوار کردیں۔آپؐ رنگ ونسل، خاندان،زبان،وطن اور مذہب سے بالاتر ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لائے جس میں مختلف غیر مسلموں اور مذہبی جماعتوں کو برابری کے حقوق وفرائض تفویض کیے گئے۔ریاست اور شہریوں کے حقوق وفرائض کی وضاحت کی گئی۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اصول وضوابط وضع کیے گئے اورانصاف ہر شہری کا بنیادی حق قرار پایا۔
میثاق مدینہ کے اہم نکات
میثاق مدینہ درج ذیل شرائط پرمشتمل تھا۔
٭…مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے۔
٭… ہر قوم کو مذہبی آزادی ہو گی۔
٭…تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص جرم یا ظلم کا مرتکب ہو۔
٭…ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلے کےلیے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم (یعنی ہر قوم کی اپنی شریعت) کے مطابق کیا جائے گا۔
٭…کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے لیے نہ نکلے گا۔
٭…اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے۔
٭…اسی طرح اگر مدینہ پر حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
٭…قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی۔
٭…ہر قوم اپنے اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی۔
٭…اس معاہدہ کی رو سے کوئی ظالم یا گنہگار یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہوگا کہ اسے سزا دی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ279)
پس اس معاہدے کی بدولت مدینہ میں شہری ریاست کا آغاز ہوا اور رسول کریمﷺ مسلمانوں اور غیرمسلموں کی طرف سے اس ریاست کے سربراہ تسلیم کرلیے گئے اور اس طرح آپ کو ایک بین الاقوامی معاشرہ تشکیل دینے کا موقع ملا۔اس معاہدے کے ذریعہ مذہبی آزادی کا اصول وضع ہوا نیز غیرمسلموں کے ساتھ اتحادو تعاون کے اصول بھی وضع ہوگئے۔ اسی طرح مسلمانوں کے باہمی حقوق وفرائض اور جملہ شہریوں کے آپس میں تعلقات، فرائض اور حقوق کا بھی تعین کیا گیا۔ آپؐ نے اس معاہدے کے ذریعہ ظلم، نا انصافی، عدم مساوات اور ان جیسی دیگر خرابیوں کا سدّباب کیا۔ میثاق مدینہ میں کمزوروں، مظلوموں اور ناداروں کی داد رسی کا پورا خیال رکھا گیا۔نیز اس معاہدے کے ذریعہ ریاست کے شہریوں کے اندر مذہب، قانون، اخلاق اور انسانی قدروں کے احترام کا بھرپور جذبہ پیدا کیا گیا۔مشہور مستشرق سر ولیم میور اس معاہدے کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں :
‘‘آپؐ نے ایک عظیم مدبّر اور سیاست دان کی طرح مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ اور آپس میں منتشر لوگوں کو متحد اور یکجا کرنے کا کام بڑی مہارت سے سرانجام دیا۔ آپؐ ایک ایسی ریاست اور ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو بین الاقوامی اصول پر مبنی تھا۔’’
(The Spirit of Islam، صفحہ 58۔از جناب سید امیر علی، کراچی 1969ء)
سرولیم میور (Sir William Muir) رسول کریمﷺ کے انداز حکومت کے متعلق لکھتے ہیں :
‘‘…آپ تک ہر کس وناکس کی پہنچ ہوتی جیسے دریا کی پہنچ کنارے تک ہوتی ہے۔ باہر سے آئے ہوئے وفود کو عزت واحترم سے خوش آمدید کہتے۔ ان وفود کی آمد اور دیگر حکومتی معاملات کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد(ﷺ ) کے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔’’
(The Life of Mahomet by William Muir, Vol.IV, London:Smith, Elder and Co.,65 Cornhill, 1861,pp.510 to 513)
ایک قوم ایک وطن
جناب عبدالمقال اپنی کتاب السیاسۃ الاسلامیہ فی عہدالنبوۃ میں لکھتے ہیں :
‘‘جب نبی اکرمﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے چاہا کہ عربوں اور یہود کے لیے ایک وطن بنائیں۔ دونوں فریقوں سے ایک امت تشکیل دیں جو ایک وطن میں اکٹھی رہتی ہو۔ ان کے درمیان مذہب کی وجہ سے کوئی اختلاف نہ ہو…’’
(السیاسۃ الاسلامیۃ فی عہدالنبوۃ، دارالثقافۃ العربیہ صفحہ 63)
حقیقت یہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے نتیجے میںمسلمانوں کو نبی کریمﷺ کی فیض رساں صحبت کے زیادہ مواقع میسر آنے لگے۔وہ آپؐ کی پاک صحبت میں رہ کر دین سیکھتے اور اس پر عمل پیرا ہوکر اپنے ایمان وایقان کو جلا بخشتے۔ گویا یہ ایک الگ دنیا تھی جہاں صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسولﷺ مرکز نگاہ تھے جبکہ خدا تعالیٰ کی حقیقی عبادت اور اُس کی رضااُن کامقصودِ زندگی بن چکا تھا۔
دشمن کی چیرہ دستیاں اور دفاعی جنگیں
سید الانبیاء، خیر البشر، سیدالوریٰ، محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اہلِ مکہ کے تیرہ سالہ مظالم اور جبرواستبداد کا لرزہ بر اندام کردینے والا پُر آشوب دَور برداشت کرتے ہوئے، اپنے ربّ کے حکم سے سرزمین مکّہ سے ہجرت فرمائی اور اپنے اِ س مولدومسکن کو چھوڑتے ہوئے درد بھرے الفاظ میں فرمایا:
‘‘ اے مکہ کی بستی تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔’’
(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 240)
بدبخت قریش مکّہ نے دارالنّدوہ میں(جو اس زمانے میں پارلیمنٹ کے مترادف تھا)مُحسنِ انسانیتﷺ کے قتل کی ناپاک سازش بھی تیار کی اور سفرِ ہجرتِ مدینہ کے دوران آپؐ کے مقدس وجود پر دسترس حاصل کرنے کے لیے سو اونٹوں کا لالچ دے کر لوگوں کو پیچھے دوڑایا مگر ربِّ جلیل وقدیر نے آپ کو بخیریت و عافیت مدینہ پہنچا دیا۔ لیکن جیسا کہ درج ذیل غزوات اور سرایا کے طویل سلسلہ سے ظاہر ہے کہ قریشِ مکہ کی دُشمنی اور بُغض و کینہ کی آگ، آنحضورﷺکی ہجرت کے باوجود ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ اُس کے شعلے آسمان کو چھونے لگے اور انہوں نے مدینہ منورہ میں بھی آپؐ اور آپؐ کے وفا شعار وجاں نثار متّبعین کو سکون و قرار کی زندگی نہ گزارنے دی گویا قسم کھا رکھی تھی۔ آنحضرتﷺ کے زیر قیادت تقریباً 28؍غزوات ہوئے۔ جن میں سے 9؍غزوات میں قتال کی نوبت پیش آئی جبکہ باقی غزوات میں بغیر قتال کے مقصد حاصل ہوگیا۔
غزوہ ابواء 2؍ہجری، غزوہ بواط 2؍ہجری، غزوہ ذی العشیرہ2؍ہجری، غزوہ بدراولیٰ (غزوہ سفوان) 2؍ہجری، غزوۂ بدر الکبریٰ 17؍رمضان 2؍ہجری، غزوہ بنی سلیم 2؍ہجری، غزوہ بنی قینقاع 2؍ہجری، غزوہ سویق 2؍ہجری،غزوہ ذی امر 3؍ہجری، غزوہ بحران 3؍ہجری، غزوہ احد3؍ہجری، غزوہ حمراءالاسد3؍ہجری، غزوہ بنی نضیر 4؍ہجری، غزوہ ذات الرقاع 4؍ہجری، غزوہ بدرالصغریٰ 4؍ہجری، غزوہ دومۃ الجندل5؍ہجری، غزوہ بنی المصطلق (المریسیع) 5؍ہجری، غزوہ خندق 5؍ہجری، غزوہ بنی قریظہ 5؍ہجری، غزوہ بنی لحیان 6؍ہجری، غزوہ ذی قرد6؍ہجری، غزوہ حدیبیہ 6؍ہجری، غزوہ خیبر7؍ہجری، غزوہ موتہ 8؍ہجری، فتح مکہ 8؍ہجری، غزوہ حنین 8؍ہجری، غزوہ طائف 8؍ہجری، غزوہ تبوک 9؍ہجری۔
(ویکیپیڈیا(اردو)،آزاد دائرۃ المعارف زیر لفظ غزوات نبوی)
صحیح بخاری باب مرض النبیﷺ میں حضرت زیدبن ارقم کی روایت میں غزوات کی تعداد 19؍درج ہے۔مصنفین سیرت کی اصطلاح میں آنحضرتﷺ کی حیات مبارک میں وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ آنحضورﷺ بھی تشریف لے گئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور وہ لشکر جن میں حضورﷺ شامل نہیں ہوئے سرِیّہ کہلاتے ہیں۔
کس قدر صدمے اُٹھائے ہیں ہمارے واسطے
قلبِ پاک رحمۃٌ لِّلعالمیں سے پوچھیے
(کلام محمود)
رسول کریمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آنحضورﷺ کا دل نوع انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے موجزن تھا۔ انسان تو انسان آپؐ سب مخلوقات کے لیے نہایت مہربان اور رحیم وکریم وجود تھے۔جنگوں کے دوران بھی دنیا نے آپ کی رأفت ومحبت اور شفقت علیٰ خلق اللہ کے ایسے عجیب نظارے دیکھے کہ دشمن بھی اُن کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔چنانچہ مشہور مؤرخ جناب ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon1737 to 1794) نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی پرامن تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
‘‘ہر انصاف پسند آدمی ا س حقیقت کا اقرار کرنے کےلیے مجبورہے کہ قرآن ایک بے نظیر قانون ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات فطرتِ انسانی کے مطابق ہیں اور وہ اپنے اثر کے لحاظ سے ایک حیرت انگیز پوزیشن رکھتا ہے۔ اس نے وحشی عربوں کی زبردست اصلاح کی۔ ہمدردی اور محبت کے جذبات سے ان کے دلوں کو معمور کردیا اور قتل وخونریزی کو ممنوع قرار دیا۔ یہ اس کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ ’’
(ہسٹری آف دی ورلڈ صفحہ 288 بحوالہ الفرقان ربوہ فروری1955ءصفحہ26)
دعوت الی اللہ کا مدنی دوراور تبلیغ اسلام
ہجرت کی برکت سے مکہ کی نسبت مدینہ میں نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کو زیادہ بہتر طور پر تبلیغ اسلام کا موقع میسر آیا جس سے دعوت الی اللہ کے کام میں بڑی سرعت اور تیزی آگئی۔ اگرچہ آپؐ کی تشریف آوری سے قبل مدینہ کے پہلے مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کے علاوہ داعیان الی اللہ کی ایک بڑی تعداد دعوت الی اللہ میں مصروف تھی لیکن اس کے باوجود نبی کریمﷺ نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لیے مدینہ کی کھلی مجالس میں جاکر تبلیغ اسلام کی۔نبی کریمﷺ کے قلب مبارک میںبنی نوع انسان کی ہمدردی کا جو بے پناہ جذبہ موجزن تھا اسی کے پیش نظر آپؐ ہر ادنیٰ واعلیٰ اور امیر وغریب کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے اور اپنے فرض منصبی کی ادا ئیگی سے کبھی غافل نہ ہوتے۔
شاہان مملکت کو خطوط
صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرتﷺ کو تلوار کے جہاد سے کسی قدر فرصت ملی تو آپﷺ نے مختلف حکومتوں کے فرمانروائوں کی طرف تبلیغی خطوط بھجوانے کی تجویز کی تاکہ اُن کے ذریعہ اُن کی رعایا تک اسلام کا پیغام پہنچایا جاسکے۔ آنحضورﷺ کے یہ تاریخی خطوط اس بات کا ثبوت ہیںکہ آپ کوخدا تعالیٰ کی ذات اقدس پر کامل ایمان تھااور آپ توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ایران وروم کی حکومتوں کو ایک عرب کا خط لکھ کراپنی اطاعت کی طرف بلانا یقیناً ایک ایسا کارنامہ تھا جو آپ کی غیر معمولی شجاعت کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ
‘‘آنحضرتﷺنے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ
قُلْ یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(الاعراف:159)
دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوتِ اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوتِ دین کے ہرگز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کےلیے مامور نہ تھے یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرتﷺ کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی او رمسیح موعود کے زمانہ میں اور اُس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی۔ ’’
(چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد 23صفحہ 77)
صحابہ ؓنے آنحضورﷺکو مشورہ دیا کہ دنیوی حکمرانوں کا یہ دستور ہے کہ وہ مہر شدہ خط کے بغیر کسی اَور خط کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس پر آپؐ نے چاندی کی ایک انگوٹھی تیار کروائی جس پر مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ کندہ کروائے۔(صحیح البخاری کتاب العلم )
آنحضرتﷺ کا ایک خط مقوقس والیٔ مصر کے نام تھا جو قیصر کے ماتحت مصر اور اسکندریہ کا والی یعنی موروثی حاکم تھا اور قیصر کی طرح مسیحی مذہب کا پَیرو تھا۔ اس کا ذاتی نام جُریح بن مینا تھا اور وہ اور اس کی رعایا قبطی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے مصر کے والی مقوقس کو جو خط تحریر کیا تھا اُس کی خاص اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ کئی سوسال تک پردۂ اخفا میں مستور رہنے کے بعد 1858ء میں بعض فرانسیسی سیاحوں کو مصر کی ایک خانقاہ میں ملا تھا۔ اس خط کا عکس بھی شائع ہوچکا ہے۔یہ خط آپؐ نے اپنے ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھجوایا۔اس خط کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے :
‘‘مَیں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بےمانگے رحم کرنے والاا ور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے۔ یہ خط محمدؐ خدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے قبطیوں کے رئیس مقوقس کے نام ہے۔ سلامتی ہو اُس شخص پر جو ہدایت کو قبول کرتا ہے اس کے بعد اے والیٔ مصر! مَیں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔ مسلمان ہوکر خدا کی سلامتی کو قبول کیجئے کہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجر دے گا، لیکن اگر آپ نے روگردانی کی تو (علاوہ خود آپ کے اپنے گناہ کے ) قبطیوں کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہوگا۔ اور اے اہلِ کتاب اِس کلمہ کی طر ف تو آجائو جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اور خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے ہی کسی کو اپنا آقا اور حاجت روا نہ گردانیں۔ پھر اگر ان لوگوں نے رُوگردانی کی تو اُن سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہرحال خدائے واحد کے فرمانبردار بندے ہیں۔’’
(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ818تا819)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
‘‘ اِ س خط کی دریافت جس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف حدیث اور تاریخِ اسلامی کی روایت کے عین مطابق ہے اس بات کا بھاری ثبوت مہیا کرتی ہے کہ معتبر جامعینِ حدیث اور محقّق مؤرخینِ اسلام نے روایات کے جمع کرنے میں کتنی بھاری احتیاط اور کتنی عظیم الشان امانت و دیانت سے کام لیا ہے۔ انہوں نے زبانی حافظہ کی بنا پر راویوں کے ایک لمبے سلسلہ کے ساتھ اس خط کی عبارت بیان کی اور بتایا کہ فلاں موقع پر آنحضرتﷺ نے اِن اِن الفاظ کی تحریر مقوقس کو لکھی تھی اور پھر تیرہ سو سال کے طویل زمانہ کے بعد اصل خط کے دریافت ہونے پر یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہوگئی کہ جو روایت ان مسلمان محدّثین اور مؤرخین نے بیان کی تھی وہ حرف بحرف درست تھی۔’’
(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 822)
فتح مکہ
اللہ تعالیٰ نے ہجرت مدینہ کی برکت سے مسلمانوں کو فتح مبین عطا کی اور ہجرت کے آٹھویں سال آنحضورﷺ دس ہزار قدوسیوں کے ہم راہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے بغیر کسی کشت وخون کے مکہ میں داخل ہوئے اور اپنے جانی دشمنوں کے اکیس سالہ قصوروںکومعاف کرتے ہوئے یہ اعلان عام فرمایا کہ
لا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَاَنْتَمُ الطُّلَقَآءُ
آنحضورﷺ کے اس حسن سلوک اور احسان نے نہ صرف مکہ والوں کے دلوں کو بدل دیا بلکہ سارے عرب میں امن کا دَوردورہ ہوگیا۔ لوگوں کے دل نفرت کی بجائے محبت سے بھرگئے اور وہ جوق در جوق اسلام کی صداقت کو قبول کرنے لگے۔ہجرت کی اسی برکت سے اللہ تعالیٰ نے بہت جلد اسلام کو سارے عرب میں پھیلادیا۔ سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ
‘‘جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کی فتح اور تبوک کے غزوہ سے فارغ ہوئے اور بنی ثقیف نے بھی اسلام قبول کرلیا تو پھر چاروں طرف سے قبائل عرب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر بیعت اور اسلام سے مشرف ہونے لگے۔’’
(سیرت ابن ہشام جلد دوم (مترجم)ناشر ادارہ ٔاسلامیات۔انارکلی لاہور صفحہ 360)
9؍ہجری کوجزیرہ عرب کے متعدد قبائل کے وفود بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ابن سعد نے اپنی کتاب ‘‘طبقات کبریٰ ’’ میں ستّر(70)سے زائد وفود کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ان قبائل میں سے چند درج ذیل ہیں :
وفد بنو حنیفہ، وفد نجران، وفد بنی عامر، وفد اہل یمن، وفد کِندہ، وفد بنی اسد، وفد بنی فزارہ، وفد بنی مُرَّہ، وفد بنی ثعلبہ، وفد بنی محارب، وفد بنی کلاب، وفد کنانہ، وفد باہلہ، وفد بنو سلیم، وفد بنو ہلال بن عامر
(اٹلس سیرت ِ نبویﷺ(مترجم) تالیف: ڈاکٹر شوقی ابوخلیل، ناشردارالسلام صفحہ 436)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقاﷺ کی قوت قدسیہ کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘دیکھو کہ اس مرد کی کیسی بلند شان ہے جس نے تھوڑے سے عرصہ میں ہزاروں انسانوں کی اصلاح کی اور فساد سے صلاحیت کی طرف ان کو منتقل کیا۔ یہاں تک کہ ان کا کفر پاش پاش ہو گیا اور صدق اور راستی کے تمام اجزاء بہیٔت اجتماعی ان کے وجود میں جمع ہو گئے اور ان کے دلوں میں پرہیز گاری کے نور چمک اٹھے اور ان کی پیشانی کے نقشوں میں محبت مولیٰ کے بھید ایک چمکیلی صورت میں نمودار ہو گئے اور ان کی ہمتیں دینی خدمات کےلیے بلند ہو گئیں اور وہ دعوت اسلام کےلیے ممالک شرقیہ اور غربیہ تک پہنچے اور ملت محمدیہ کی اشاعت کےلیے بلاد جنوبیہ اور شمالیہ کی طرف انہوں نے سفر کیا … اور انہوں نے اپنی کوششوں اور تگ و دو میں کوئی دقیقہ اسلام کےلیے اٹھا نہ رکھا۔ یہاں تک کہ دین کو فارس اور چین اور روم اور شام تک پہنچا دیا۔ اور جہاں جہاں کفر نے اپنا بازو پھیلا رکھا تھا اور شرک نے اپنی تلوار کھینچ رکھی تھی وہیں پہنچے۔ انہوں نے موت کے سامنے سے منہ نہ پھیرا اور ایک بالشت بھی پیچھے نہ ہٹے اگرچہ کاردوں سے ذبح کئے گئے۔’’
(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 41 تا 43)
یَا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا
فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَ بَعْثٍ ثانٖ
اے میرے ربّ! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ۔ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔
٭…٭…٭