مسائل رمضان المبارک از ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (قسط نمبر 3۔ آخری)
بچوں کو کس عمر میں روزے رکھوانے چاہئیں
‘‘عمر کا سوال کہ کس عمر میں روزہ رکھنا چاہیے؟ کئی بچے بھی پوچھتے ہیں۔ بڑے بھی پوچھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہیے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بےوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت ان کو روزوں کی ضرور مشق کرانی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہیے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ (بارہ تیرہ سال میں جب روزے کی اجازت دلوائی تھی تو صرف ایک روزہ رکھوایا تھا۔) اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھناچاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ (بچپن میں ماں باپ کا کام ہے روکیں، زیادہ نہ رکھنے دیں۔ پھر جب جوانی کی عمر آ رہی ہے تو پھر جرأت دلائیں اور ان سے روزے رکھوائیں) اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خَلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لیے لاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ (اکثر یوں ہی ہوتا ہے۔ میرے پاس بھی ایسے آتے ہیں۔) اور فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے بچے روزے کے لیے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلے میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ہی ان الفاظ کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزے کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا نہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ طعن کرنے والے بھی اپنی جان پر ظلم کریں گے۔ ’’
(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 385)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی تھیں کہتی ہیں قبل بلوغت کم عمری میں آپ علیہ السلام روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جانؓ نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوت افطار دی۔ یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔ اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں مَیں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔ غالباً حضرت امّاں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔ آپ نے ایک پان اٹھا کر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھا لو۔ تم کمزور ہو۔ ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ ۔ میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ۔ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ) نے بھی روزہ رکھا ہوا ہے۔ وہ بھی اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں ان کا بھی تڑوا دیں۔ فرمایا بلاؤ اس کو بھی۔ مَیں بلا لائی۔ وہ آئیں تو ان کو بھی دوسرا پان اٹھا کر دیا اور فرمایا لو یہ کھا لو۔ تمہارا روزہ نہیں ہے۔ فرماتی ہیں کہ غالباً میری عمر دس سال کی ہو گی۔
(ماخوذ از تحریراتِ مبارکہ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 214 باب روزہ اور رمضان)(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24 تا 30جون 2016ء۔صفحہ 9)
اعتکاف کا طریق اور اس بابت بعض اہم مسائل
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ اعتکاف رمضان کی ایک نفلی عبادت ہے۔ اس لیے جگہ کی مناسبت سے، اس کی گنجائش کے مطابق جو مرکزی مساجد ہیں ان میں یا جو بھی اپنے شہر کی مسجد ہو اس میں بھی حالات کے مطابق اعتکاف بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا زور ہو تا ہے کہ ہم نے ضرور اعتکاف بیٹھنا ہے اور فلاں مسجد میں ہی ضرور بیٹھنا ہے۔مثلاً ربوہ میں مسجد مبارک میں یا مسجد اقصیٰ میں بیٹھنا ہے یا یہاں مسجد فضل میں بیٹھنا ہے یا مسجد بیت الفتوح میں بیٹھنا ہے۔ اور پھر اس کے لیے زور بھی دیا جاتا ہے، خط پہ خط لکھے جاتے ہیں اور سفارش کرنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں۔ تو یہ طریق غلط ہے۔ دعا کی قبولیت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ جو اعتکاف بیٹھیں گے ان کو لیلۃ القدر حاصل ہو گی اور باقیوںکو نہیں ہو گی۔ کسی خاص جگہ سے تو مخصوص نہیں ہے ہاں بعض جگہوں کی ایک اہمیت ہے اور ان کے قرب کی وجہ سے بعض دفعہ جذبات میں خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سوچ بہرحال غلط ہے کہ ہم نے فلاں جگہ ضرور بیٹھنا ہے۔بعض دفعہ لوگوں کو صرف یہ خیال ہوتا ہے کہ پچھلے سال فلاں بیٹھا تھا اس لیے اس سال ہمیں باری دی جائے۔ یا اس سال ہم نے ضرور بیٹھنا ہے۔ یہ دیکھا دیکھی والی بات ہو جاتی ہے۔ نیکیوں میں بڑھنے والی بات نہیں رہتی۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ779-780)
دوران اعتکاف بلند آواز سے تلاوت کرنا مناسب نہیں جبکہ قریب دیگر معتکفین بھی ہوں
آپؐ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہیے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لیے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ ‘‘آپؐ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپؐ کے لیے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپؐ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لیے قراء ت بالجہر نہ کرو۔’’
(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 67۔مطبوعہ بیروت )
یعنی مسجد میں اَور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لیے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے راز و نیا زکر رہا ہوتاہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تاکہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں۔ ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہیے۔ سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لیے درسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہیے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے۔ کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرتؐ نے فرمائیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ781)
دوران اعتکاف معتکفین کودعا کی پرچیاں دینا؟
‘‘معتکف کے لیے بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے پردہ کے لیے ایک چادر ہی ٹانگی ہوتی ہے نا۔ پردہ کے پیچھے سے ایک ہاتھ اندر داخل ہوتا ہے جس میں مٹھائی اور ساتھ پرچی ہوتی ہے کہ میرے لیے دعا کرو یا نمازی سجدے میں پڑا ہوا ہے اوپر سے پردہ خالی ہوتا ہے تو اوپر سے کاغذ آکر اس کے اوپر گر جاتا ہے (ساتھ نام ہوتا ہے)کہ میرے لیے دعا کرو۔ یا ایک پراسرار آواز پردے کے پیچھے سے آتی ہے آہستہ سے کہ مَیں فلاں ہوں میرے لیے دعا کرو۔ یہ سب غلط طریقے ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ782-781)
مساجد میں معتکفین کے لیے افطاریوں کی بابت ہدایات
‘‘پھر شام کو افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ افطاریاں بڑی بڑی آتی ہیں ٹرے لگ کے، بھر کے، جو معتکف تو کھا نہیں سکتا لیکن مسجد میں ایک شور بھی پڑ جاتا ہے اور گند بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ اور پھر جو لو گ افطاریاں بھیج رہے ہوتے ہیں۔ بعض بڑے فخر سے بتاتے بھی ہیں کہ آج مَیں نے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا، کیسی تھی؟ کیا تھا؟ یا دوسروں کو بتا رہے ہیں کہ یہ کچھ تھا۔ میری افطاری بڑی پسند کی گئی۔ پھر اگلے دن دوسرا شخص اس سے بڑھ کر افطاری کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو یہ سب فخر و مباہات کے زمرے میں چیزیں آتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ خدمت کی جائے یہ دکھاوے کی چیزیں بن جاتی ہیں۔ اس لیے یا تو اعتکاف بیٹھنے والا، اپنے گھر سے سحری اور افطاری منگوائے یا جماعتی نظام کے تحت مہیا ہو۔ ناموں کے ساتھ ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ افطاریاں آنی غلط طریق کار ہے۔ یہ کہیں بھی جماعت کی مساجد میں نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس سے آگے اور بدعتیں بھی پھیلتی چلی جائیں گی۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ782)
اعتکاف کے دوران دنیوی امور کی بابت گفت و شنید؟
‘‘پھر بعض لوگ اعتکاف بیٹھ کر بھی کچھ وقت کے لیے دنیاداری کے کام کر لیتے ہیں۔ مثلاً بیٹے کو کہہ دیا، یا اپنے کام کرنے والے کارندے کو کہہ دیا کہ کام کی رپورٹ فلاں وقت مجھ کو دے جایا کرو۔ کاروباری مشورے لینے ہوں تو فلاں وقت آ جایا کرو کاروباری مشورے دیا کروں گا۔ یہ طریق بھی غلط ہے۔ سوائے اشد مجبوری کے یہ کام نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارے میں سوال ہوا کہ آدمی جب اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار سے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟آپؑ نے فرمایا کہ سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لیے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتاہے۔ فرمایا کہ سخت ضرورت کے تحت۔ یہ نہیں ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ روزانہ کوئی وقت مقرر کر لیا، فلاں وقت آ جایا کرو اور بیٹھ کر کاروباری باتیں ہو جایا کریں گی۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسی صورت پیش آ گئی ہے کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا کسی ضروری معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا اَور کوئی ضروری کاغذ ہے، ایسے کام تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر وقت،روزانہ نہیں۔
(بدر21/فروری 1907ء صفحہ5)(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ782-783)
کیا معتکف بیمار کی عیادت کے لیے جاسکتا ہے؟
‘‘یہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بیمار کی عیادت کے لیے جا سکتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں نکلنا چاہیے۔ یہ بھی عین آنحضرت ؐ کی تعلیم کے مطابق ہے۔حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ‘‘رسول اللہ ؐ بیمار پرسی کے لیے جاتے اور آپؐ اعتکاف میں ہوتے۔ پس آپؐ قیام کیے بغیر اس کا حال پوچھتے۔’’(ابو دا ؤد ۔کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض )پھر اسی طرح ابن عیسیٰ کی ایک ایسی ہی روایت ہے۔ توتیمار داری جائز ہے لیکن کھڑے کھڑے گئے اور آ گئے۔ یہ نہیں کہ وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنا شروع کر دیا یا باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ اور یہ بھی اس صورت میں ہے (وہاں مدینے میں بڑے قریب قریب گھر بھی تھے) کہ قریب گھر ہوں اور کسی خاص بیمار کو آپ نے پوچھنا ہو، اگر ہر بیمار کے لیے اور ہر قریبی کے لیے، بہت سارے تعلق والے ہوتے ہیں آپ جانے لگ جائیں تو پھر مشکل ہو جائے گا اور یہاں فاصلے بھی دور ہیں، مثلاً جائیں تو آنے جانے میں ہمیں دو گھنٹے لگ جائیں۔ اور اگر ٹریفک میں پھنس جائیں تو اور زیادہ دیر لگ جائے گی۔ یہ قریب کے گھروں میں پیدل جہاں تک جا سکیں اس کی اجازت ہے،ویسے بھی جانے کے لیے جو جماعتی نظام ہے وہاں سے اجازت لینی ضروری ہے۔ یہ مَیں باتیں اس لیے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ اس قسم کے سوال بھیجتے ہیں۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ784-783)
معتکف کس قسم کی حوائج ضروریہ کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے؟
‘‘ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ‘‘رسول اللہ ؐاعتکاف میں تھے۔ میں ان کی ملاقات کو رات کے وقت گئی۔ اور میں نے آپ ؐسے باتیں کیں جب میں اٹھی اور لَوٹی تو آپؐ بھی میرے ساتھ اٹھے۔حضرت صفیہ ؓ کا گھر ان دنوں اسامہ بن زید ؓکے مکانوںمیں تھا۔ راستے میں انصاری ملے۔ انہوں نے جب آپؐ کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے۔ آپؐ نے (ان انصاریوں کو ) فرمایا کہ اپنی چال سے چلو۔ یہ صفیہ بنت حُییّ ہے۔ ان دونوں نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! ہمارا ہرگز ایسا گمان آپؐ کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، شیطان خون کی طرح آدمی کی ہر رگ میں حرکت کرتا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہیں شیطان تمہارے دل میں بری بات نہ ڈال دے۔’’(ابو داؤد کتاب الصیام باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)تو ایک تو آپؐ نے اس میں شیطانی وسوسے کو دور کرنے کی کوشش فرمائی۔ بتا دیا کہ یہ حضرت صفیہ ہیں،ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر کچھ دور تک چلے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ اگر مسجد میں حوائج ضروریہ کا انتظام نہیں ہے، غسل خانوں وغیرہ کی سہولت نہیں ہے تو اگر گھر قریب ہے تو وہاں بھی جایا جا سکتا ہے۔ آج کل تو ہر مسجد کے ساتھ انتظام موجود ہے اس لیے کوئی ایسی دقّت نہیں ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ784)
معتکف کا مسجد کے صحن میں ٹہلنا
‘‘کچھ وقت کے لیے مسجدکے صحن میں یا باہر ٹہلنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے تھے، خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب ان دنوںمیں اعتکاف بیٹھے تھے تو آپؑ نے ان کو فرمایاکہ:‘‘اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ( مسجد کی)چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے۔’’وہاں تو ہیٹنگ (Heating)کا سسٹم نہیں ہوتا تھا۔ سردیوںمیں لوگ دھوپ میں بیٹھتے ہیں، پتہ ہے ہر ایک کو ‘‘اور ضروری بات کر سکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہیے۔اور یوں تو ہر ایک کام( مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔’’(ملفوظات جلد دوم صفحہ 588,587۔الحکم 2جنوری 1903)تو مومن بن کے رہیں تو کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ784-785)
دوران اعتکاف اپنی حالت سنوار کے رکھنا اورمناسب خوبصورتی اختیار کرنا مناسب ہے
حضرت عائشہ ؓسے مروی کہ رسول اللہ ؐ جب اعتکاف فرماتے تو آپ سر میرے قریب کر دیتے تو میں آپ کو کنگھی کر دیتی اور آپؐ گھر صرف حوائج ضروریہ کے لیے آتے۔’’(ابو داؤد کتاب الصیام۔باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ )تو بعض لوگ اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ اعتکاف میں اگر عورت کا، بیوی کا ہاتھ بھی لگ جائے تو پتہ نہیں کتنا بڑا گناہ ہو جائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ حالت ایسی بنا لی جائے، ایسا بگڑا ہوا حلیہ ہو کہ چہرے پر جب تک سنجیدگی طار ی نہ ہو، حالت بھی بُری نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دوسروں کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ آدمی عبادت کر رہا ہے۔ تو یہ غلط طریق کار ہے۔تو یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اعتکاف میں اپنی حالت بھی سنوار کے رکھنی چاہیے اور تیار ہو کے رہنا چاہیے۔ اور دوسرے یہ کہ بیوی یا کسی محرم رشتے دارسے اگر آپ سر پر تیل لگوا لیتے ہیں یا کنگھی کروا لیتے ہیں اس وقت جب وہ مسجد میں آیا ہو تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ءخطبات مسرور جلد2 صفحہ785)
رمضان اور تلاوت قرآن
‘‘رمضان میں اس کی تلاوت کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ سارا سال تمہاری اس طرف توجہ رہے۔ آنحضرت ؐ کے آخری رمضان میں جبرئیل علیہ السلام نے آپؐ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کروایا۔(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی ؐ حدیث 4997-4998)پس اس سنت کی پیروی میں ایک مومن کو بھی چاہیے کہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر دو مرتبہ تلاوت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک مرتبہ تو خود پڑھ کر کریں ۔پھر درسوں کا انتظام ہے ،تراویح کا انتظام ہے، اس میں(قرآن) سنیں ۔بعض کام پہ جانے والے ہیں کیسٹ اور CDsملتی ہیں ان کو اپنی کاروں میں لگا سکتے ہیں، سفر کے دوران سنتے رہیں۔ اس طرح جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جا سکے، اس مہینے میں پڑھنا چاہیے اور سننا چاہیے۔
(خطبات مسرور جلد ہفتم صفحہ 413)
TV پر بھی اگر تلاوت قرآن لگی ہو تب بھی اس وقت گفتگو کرنا منع ہے
‘‘پھر تلاوت کے بارہ میں کہ کس طرح سننی چاہیے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ، وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(الاعراف:205)اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ قرآن کریم کا یہ احترام ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے اور اپنی اولاد میں بھی اس کی اہمیت واضح کرنی چاہیے۔ بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں۔ تلاوت کے وقت اپنی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض گھروں میں ٹی وی لگا ہوتا ہے اور تلاوت آ رہی ہوتی ہے اور گھروالے باتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ یا تو خاموشی سے تلاوت سنیں یا اگر باتیں اتنی ضروری ہیں کہ کرنی چاہئیں، اس کے کیے بغیر گزارا نہیں ہے تو پھر آواز بند کردیں۔
(خطبات مسرور جلد ہفتم صفحہ420)
ایسے علاقوں میں سحری اور افطاری کے اوقات کی بابت ہدایت جن میں دن بائیس یا تئیس گھنٹے کے ہوتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
‘‘بعض ممالک جہاں آجکل بائیس تئیس گھنٹے کا دن ہے اور صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کی رات ہے وہ بھی رات نہیں بلکہ روشنی ہی رہتی ہے یا جھٹ پٹے کا وقت رہتا ہے اس لیے وہاں کی جماعتوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وقت کے اندازے کے مطابق اپنی سحری اور افطاری کے وقت مقرر کرلیں جو آج کل اکثر جگہ قریبی ملکوں کے اوقات پر محمول کر کے یا ان کے اوقات کا اندازہ رکھتے ہوئے تقریباً اٹھارہ انیس گھنٹے کاروزہ ہوگا ۔ان ملکوں میں اگر اس طرح نہ کیا جائے تو سحری اور افطاری کا کوئی وقت ہی نہیں ہوگا۔نہ تہجد پڑھی جاسکے گی نہ ہی عشاء اور فجر کی نمازوں کے اوقات معین ہوسکیں گے ۔بہر حال ان علاقوں میں جو جماعتیں ہیں وہ اس کے مطابق عمل کرتی ہیں ۔’’
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 جون 2016ء،الفضل انٹر نیشنل 24تا 30جون 2016ء۔صفحہ 5)
لیلۃ القدر کی تلاش اور بالعموم لیلۃ القدر کی رات کا تعین
‘‘سب سے پہلے یہ، لیلۃ القدر کی بات چل رہی ہے۔اس کے متعلق معلوم ہوکہ کب آتی ہے یہ رات، اورکس طرح پتا چلے کہ یہ رات میسر آگئی ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :کیاکوئی ایسی علامت ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلۃ القدر تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں یہ آتاہے کہ کچھ بجلی چمکتی ہے، ہوا ہوتی ہے اور ترشّح ہوتاہے، ایک نور آسمان کی طرف جاتا یاآتا نظر آتاہے۔مگر اوّل الذکر علامات ضروری نہیں۔ گو اکثر ایسا تجربہ کیا گیاہے کہ ایسا ہوتاہے اور آخری علامت نُور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے۔یہ ایک کشفی نظارہ ہے، ظاہر علامت نہیں جسے ہرایک شخص دیکھ سکے۔ خودمَیں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو کچھ مَیں نے دیکھاہے دوسروں نے نہیں دیکھا۔ اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے سارے رمضان میں دعائیں کرتا رہے اور ا خلاص سے روزے رکھے، پھر اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس پر لیلۃ القدر کا اظہار کر دیتاہے’’۔(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ 329) حدیث میں آتاہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐنے فرمایاکہ جس نے ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں باجماعت ادا کیں تو اس نے لیلۃ القدر کا بہت بڑا حصہ پا لیا۔ گویا صرف آخری دنوں میں تلاش نہ کریں بلکہ سارے رمضان میں پوری عبادات بجا لائیں۔’’
(خطبہ جمعہ فرمود14نومبر 2003ء۔ خطبات مسرور جلد 1صفحہ 467-468)
‘‘عام حالات میں بھی آنحضرت ؐکی عبادت کی مثالیں ایسی ہیں کہ کوئی عام آدمی اتنی کر ہی نہیں سکتا لیکن حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رمضان میں تو اس کی حالت ہی اَور ہوتی تھی۔پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبیؐ آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ِہمت کَس لیتے، اپنی راتوں کو زندہ کرتے اورگھروالوں کو بیدارفرماتے۔ تویہ بھی ایک سبق ہے کہ جب آدمی خود اٹھے تو اپنے بیوی بچوں کو بھی نمازوں کے لیے،نوافل کے لیے اٹھائے۔
پھر حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا : قیام لیل مت چھوڑنا اس لیے کہ رسول اللہ ؐنہیں چھوڑتے تھے اورجب آپؐ بیمار ہوتے یا جسم میں سستی محسوس کرتے تھے توبیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔(ابوداؤد )دیکھیں آنحضرت ؐکا عمل کیا تھا۔یہ عمل ہم ا ختیار کریں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو سمیٹنے کی امید کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آخری دس راتوں میں لیلۃالقدر تلاش کرنے کے بارہ میں ایک اور حدیث پیش کرتاہوں۔ بخاری اور مسلم نے ابوسعید خدریؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ؐنے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا۔اس کے خاتمہ پر حضرت جبرئیل آئے اور رسول کریم ؐکو خبر دی کہ جس چیز (لیلۃ القدر)کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔اس پر آپؐ نے اور ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبرئیل نے ظاہر ہو کر آنحضرت ؐسے کہا کہ جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔ اس پر رسول کریم ؐ نے بیسویں رمضان کی صبح کو تقریر فرمائی اور فرمایاکہ مجھے لیلۃ القدر کی خبردی گئی تھی مگر مَیں اُسے بھول گیا ہوں اس لیے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اس کی تلاش کرو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لیلۃ القدر آئی ہے اور مَیں مٹی اور پانی میں سجدہ کررہاہوں۔اس وقت مسجد نبویؐ کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی اور جس دن آ پ نے یہ تقریر فرمائی بادل کانشان تک نہ تھا۔پھر یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ اچانک بادل کاایک ٹکڑا آسمان پر ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی۔پھر جب نبی کریم ؐنے ہمیں نماز پڑھائی تو مَیں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں،ایسا خواب کی تصدیق کے لیے ہوا۔صحیح بخاری اور مسلم نے اس کو درج کیا ہے۔حضر ت مصلح موعودؓ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ :ابوسعید کی ایک اورروایت میں یہ واقعہ 21/رمضان کو ہوا تھا۔پھر آپ لکھتے ہیں کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تووہ خداکے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے۔’’(روزنامہ ا لفضل لاہور 8/جولائی 1950ء)
(خطبہ جمعہ فرمود14نومبر 2003ء۔ خطبات مسرور جلد اول صفحہ 469-70)
جمعۃ الوداع
‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور آنحضرت ﷺنے مختلف مواقع پر جمعہ کے دن کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے لیکن جمعۃ الوداع کی کسی اہمیت کا تصور نہیں ملتا۔ بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اس آخری جمعہ میں جو رمضان کا آخری جمعہ ہے، یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس جمعہ سے اس طرح گزریں اور نکلیں کہ رمضان کے بعد آنے والے جمعہ کی تیاری اور استقبال کر رہے ہوں اور پھر ہرآنے والا جو جمعہ ہے وہ ہرنئے آنے والے جمعہ کی تیاری کرواتے ہوئے ہمیں روحانیت میں ترقی کے نئے راستے دکھانے والا بنتا چلا جائے اور یوں ہمارے اندر روحا نی روشنی کے چراغ سے چراغ جلتے چلے جائیں اور یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور ہرآنے والا رمضان ہمیں روحانیت کے نئے راستے دکھاتے چلے جانے والا رمضان ہو، نئی منازل کی طرف راہنمائی کرنے والا رمضان ہو جس کا اثر ہم ہر لمحہ اپنی زندگیوں پر بھی دیکھیں اور اپنے بیوی بچوں پر بھی دیکھیں اور اپنے ماحول پر بھی دیکھیں۔’’
(خطبات مسرور جلد سوئم صفحہ 529)
‘‘آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے جس کو جمعۃالوداع کہنے کی ایک اصطلاح چل پڑی ہے۔ غیروں میں تو خیر دین میں اتنا بگاڑ پیدا کرلیا ہے کہ وہ تو اس کوجو بھی چاہے نام دیں، اور جو بھی چاہیں عمل کریں،جس طرح جی چاہے عمل کریں اور اس کی تشریح بیان کریں، یہ ان کا معاملہ ہے۔بلکہ وہ تو اس خیال کے بھی ہیں کہ جمعۃ الوداع کے دن چار رکعت نماز پڑھ لو تو قضائے عمری ادا ہو گئی۔یعنی جتنی چھُٹی ہوئی نمازیں ہیں وہ ادا ہوگئیں، تین چار رکعتوں کے بدلے میں۔ اور اب نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔جونمازیں نہیں پڑھی گئی تھیں پوری ہوگئیں۔پھر یہ سوچ کہ۔ جمعۃ الوداع آئے گا تو چاررکعت نماز پڑھ لیں گے، پھر چھٹی ہوگی ایک سال کی۔ تو یہ کون تردّد کرے کہ پانچ وقت کی نمازیں جا کے مسجد میں پڑھی جائیں۔ ان کی ایسی حرکتوں پر تو اتنی حیرت نہیں ہوتی کہ انہوں نے تو یہ کرنا ہی ہے۔ کیونکہ مسیح محمدی ؐ کا انکارکرنے والوں سے ا س سے زیادہ توقع کی بھی نہیں جا سکتی لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہوتی ہے کہ جنہوں نے اس زمانہ کے امام کو مانا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کردیا اور پھر وہ اپنے دین کی حفاظت نہ کریں۔عام حالات میں اتنی پابندی سے جمعہ پر نہیں آتے جس اہتمام سے بعض لوگ، اور یہ بعض لوگ بھی کافی تعداد ہو جاتی ہے، جس پابندی سے رمضان کے اس آخری جمعہ پر آیا جاتاہے۔حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کے لیے بھی مسجد میں آؤ۔ تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دنیاوی دھندوں میں اتنے محو ہو جائیں کہ نمازیں تو ایک طرف، جمعہ کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے نہ کرسکیں۔اور اس بات کا ا ندازہ کہ ہم میں سے بعض احمدی بھی لاشعوری طورپر جمعۃ الوداع کی اہمیت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔مسجدوں کی حاضری سے لگایا جا سکتاہے۔ اگر آج کے دن ہم میں سے وہ جو عموماًجمعہ کا ناغہ کر جاتے ہیں، اتنی اہمیت نہیں دیتے جمعہ کو،اس لیے جمعہ پر آئے ہیں کہ رمضان نے ان میں تبدیلی پیدا کردی ہے،اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری اور اس کی عبادت کا ان میں شوق پیدا ہو گیاہے اور انہوں نے عہد کر لیاہے کہ آئندہ ہم اپنے جمعوں کی حفاظت کریں گے اور باقاعدگی سے جمعہ کے لیے حاضر ہواکریں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔’’
(خطبہ جمعہ فرمود21نومبر 2003ء۔ خطبات مسرور جلد 1صفحہ482-483)
‘‘جمعہ کی فرضیت کے بارہ میں احادیث پیش کرتاہوں جن میں جمعہ کی فرضیت کے بارے میں تو آیاہوا ہے کہ جمعہ کتنا ضروری ہے لیکن یہ تو نہیں لکھا گیاکہ جمعۃ الوداع کتنا ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:‘‘دنوں میں بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتاہے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اوراسی دن و ہ جنت میں داخل کیے گئے اوراسی دن ھبوط آدم ہوا۔ اور اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان بندہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کردیتاہے۔(جامع ترمذی کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی ترجی فی یوم الجمعۃ) تو دیکھیں جمعہ کی کس قدر برکات ہیں۔ایک تو اس کو بہترین دن قرار دیا گیاہے۔ اب کون نہیں چاہتاکہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک جو بہترین دن ہے اس سے فائدہ نہ اٹھائے، اس کی برکات نہ سمیٹے۔یہاں سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتاکہ صرف جمعۃ الوداع بہترین دن ہے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمود21نومبر 2003ء۔ خطبات مسرور جلد 1صفحہ485-486)
عید الفطر کی تکبیرات کس وقت شروع کرنی چاہئیں اور کب تک کہنی ہیں؟
عید الفطر کے دن تکبیرات پڑھنا مسنون ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ سالم اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت کرتے ہیں کہ ان رسول اللّٰہ ؐ کان یکبر یوم الفطر من حین یخرج من بیتہ حتی یاتی المصلی۔رسول اللہ ؐعید الفطر کے روز اپنے گھر سے نکلنے سے لے کرعید گاہ پہنچنے تک تکبیرات پڑھا کرتے تھے
(سنن الدارقطنی کتاب العیدین حدیث نمبر: 6 )
امام الزہری بیان کرتے ہیں کہ ان رسول اللّٰہﷺ کان یخرج یوم الفطر فیکبر حتی یاتی المصلی و حتی یقضی الصلاۃ فاذا قضی الصلاۃ قطع التکبیر ۔رسول اللہ ؐ عید الفطر کے روز نماز کی جگہ پہنچنے تک اور نماز کی ادائیگی تک تکبیرات کہتے۔ پھر جب آپؐ نماز سے فارغ ہو جاتے تو تکبیرات کہنا ختم کر دیتے (مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب صلاۃ العیدین باب فی التکبیر اذا خرج الی العید)
آنحضرت ؐ کے اس نمونہ کی تقلید میں صحابہ کرام ؓ بھی عید الفطر کے روز تکبیرات پڑھا کرتے تھے ۔ چنانچہ آنحضرتؐ کے صحابی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بارہ میں آتا ہے کہ وہ عید الفطر کے روز عید گاہ پہنچنے تک اور امام کے جائے نماز پر آجانے تک اونچی آواز سے تکبیرات کہا کرتے تھے ۔
(سنن الدارقطنی کتاب العیدین حدیث نمبر: 8 )
٭…٭…٭