جماعت احمدیہ کی کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف فوری کارروائی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
آنحضورﷺ کا اسوۂ حسنہ دنیا کے سامنے پیش کرو
(حصہ دوم)
پھر دیکھیں خلافت رابعہ کا دور تھا جب رُشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبات بھی دئیے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی۔ پھر جس طرح کہ مَیں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سال کے شروع میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں۔ اس وقت بھی مَیں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں۔ تویہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوئوں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لئے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پرامن طور پر یہ ردّ عمل ظاہر کرو اپنے رابطے بڑھائو اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ جیسا کہ خود فرماتا ہے
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء:108)
کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجامگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔ اورآپؐ سے بڑی ہستی، رحمت بانٹنے والی ہستی، نہ پہلے کبھی پیدا ہوئی اور نہ بعد میں ہو سکتی ہے۔ ہاں آپ کا اُسوہ ہے جو ہمیشہ قائم ہے اور اس پر چلنے کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس کے لئے بھی سب سے بڑی ذمہ داری احمدی کی ہے، ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ تو بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃللعالمین تھے اور یہ لوگ آپ کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں جس سے انتہائی بھیانک تصور ابھرتا ہے۔ پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار محبت اور رحمت کے اسوہ کو دنیا کو بتانا چاہئے اور ظاہر ہے اس کو بتانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے رویے بھی بدلنے پڑیں گے۔ دہشت گردی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ سے بچنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ جب تک کہ آپ پر مدینہ میں آ کر جنگ ٹھونسی نہیں گئی۔ پھر بہرحال اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دفاع میں جنگ کرنی پڑی۔ لیکن وہاں بھی کیا حکم تھا کہ
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(البقرۃ:191)
کہ اے مسلمانو! لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو یقینا ًاللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اپنے پر نازل ہونے والی شریعت پر عمل کرنے والے تھے۔ ان کے بارے میں ایسے نازیبا خیالات کا اظہار کرنا انتہائی ظلم ہے۔ بہرحال جس طرح یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے اور ہمارے مبلغ کی بھی رپورٹ ہے کہ ان میں سے ایک نے معافی مانگی تھی اظہار کیا تھا۔
جماعت احمدیہ کی کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف فوری کارروائی
دوسرے مسلمانوں کو تو یہ جوش ہے کہ ہڑتالیں کر رہے ہیں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا ردّعمل یہی ہے کہ توڑ پھوڑ ہو اور ہڑتالیں ہوں اور جماعت احمدیہ کا اس واقعہ کے بعد جو فوری ردّ عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ ہوا۔ احمدی کا ردّ عمل یہ تھا کہ انہوں نے فوری طور ان پر اخباروں سے رابطہ پیدا کیا۔ اور پھر یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ 2006ء کی فروری میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ یہ واقعہ توگزشتہ سال کا ہے۔ ستمبر میں یہ حرکت ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے کیاکیا تھا۔ یہ جیسا کہ مَیں نے کہا ستمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں۔ تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوا تھاان کو یہ بھجوایا اور تصاویر کی اشاعت پر احتجاج کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ یہ ہمارا احتجاج اس طرح ہے ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے۔ اور تصویر کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔ اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزاد ی تو ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی دلآزاری کی جائے۔ بہرحال اس کا مثبت ردّعمل ہوا۔ ایک مضمون بھی اخبار کو بھیجا گیا تھاجو اخبار نے شائع کر دیا۔ ڈینش عوام کی طرف سے بڑا اچھا ردّعمل ہوا کیونکہ مشن میں بذریعہ فون اور خطوط بھی انہوں نے ہمارے مضمون کو کافی پسند کیا، پیغام آئے۔ پھر ایک میٹنگ میں جرنلسٹ یونین کے صدر کی طرف سے شمولیت کی دعوت ملی۔ وہاں گئے وہاں وضاحت کی کہ ٹھیک ہے تمہارا قانون آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی رہنمائوں اور قابل تکریم ہستیوں کو ہتک کی نظر سے دیکھو اور ان کی ہتک کی جائے۔ اور یہاں جومسلمان اور عیسائی اس معاشرے میں اکٹھے رہ رہے ہیں ان کے جذبات کا بہرحال خیال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔
پھر ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حسین تعلیم ہے اور کیسا اسوہ ہے اور کتنے اعلیٰ اخلاق کے آپؐ مالک تھے اور کتنے لوگوں کے ہمدرد تھے، کس طرح ہمدرد تھے خدا کی مخلوق سے اور ہمدردی اور شفقت کے مظہر تھے۔ چندواقعات جب ان کو بتائے کہ بتائو کہ جو ایسی تعلیم والا شخص اور ایسے عمل والا شخص ہے اس کے بارے میں اس طرح کی تصویر بنانی جائز ہے؟ تو جب یہ باتیں ہمارے مشنری کی ہوئیں تو انہوں نے بڑا پسند کیا بڑا سراہا۔ اور ایک کار ٹونسٹ نے برملا یہ اظہار کیا کہ اگر اس طرح کی میٹنگ پہلے ہوجاتی تو وہ ہرگز کارٹون نہ بناتے، اب انہیں پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ اور ساروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ٹھیک ہے ڈائیلاگ (Dialogue) کا سلسلہ چلتا رہنا چاہئے۔
پھر صدر یونین کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کی گئی جس کا مسوّدہ بھی سب کے سامنے سنایا گیا اور ٹی وی پر انٹرویو ہوا جو بڑا اچھا رہا۔ پھر منسٹر سے بھی میٹنگ کی۔ تو بہرحال جماعت کوشش کرتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی اس طرح ہوا ہے۔ تو بہرحال جہاں بنیاد تھی وہاں جماعت نے کافی کام کیا ہے۔ اور کارٹون کی وجہ جو بنی ہے وہ یہ ہے کہ ڈنمارک میں ایک ڈینش رائٹر نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور قرآن‘‘ جو مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ اس کتاب والے نے کچھ تصویریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا کر بھیجنے کو کہا تھا تو بعضوں نے بنائیں۔ وہ تصویریں تھیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کیا کہ مسلمانوں کا ردّ عمل ہو گا۔ تو بہرحال یہ کتاب ہے جو وجہ بن رہی ہے اس اخبار میں بھی کارٹون ہی وجہ بنی تھی تو اس بارے میں بھی ان کو مستقل کوشش کرتے رہنا چاہئے اور دنیا میں ہر جگہ اگر اس کو پڑھ کرجہاں جہاں بھی اعتراض کی باتیں ہوں وہ پیش کرنی چاہئیں اور جواب دینے چاہئیں۔ لیکن وہاں ڈنمارک میں یہ بھی تصور ہے کہتے ہیں بعض مسلمانوں کے ذریعہ غلط کارٹون جو ہم نے شائع ہی نہیں کئے وہ دکھا کے مسلمان دنیا کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن ہماری اس فوری توجہ سے ان میں احساس بہرحال پیدا ہوا ہے۔ یہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا ان لوگوں کو تو آج پتہ لگ رہا ہے۔ جبکہ یہ تین مہینے پہلے کی بات ہے۔
تو جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصورہے اس کو دلائل کے ساتھ رد کرنا ہمارا فرض ہے۔ پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں۔ اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔
(باقی آئندہ)